
لبنانی پہاڑیوں کے مغرب میں واقع سرسبز وشاداب وادی بقہ دور سے ہی دلکش نظر آتی ہے،یہاں کی کھجور اور شراب مشہور ہیں۔شام اور لبنان کے سرحدی علاقے میں موجود یہ وادی رومیوں کے زمانے سے زرعی اجناس کے لیے مشہور ہے۔ جب میں نے ۲۰۱۶ء کی گرمیوں میں میٹھے انگوروں کے باغات دیکھنے کے لیے اس وادی کا دورہ کیا تو میں دس لاکھ شیل اور بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کودیکھ کر حیران رہ گئی۔شام کی تباہ کن خانہ جنگی نے لاکھوں انسانی جانوں کو نگل لیاہے اور ماضی میں روشن رہنے والے شہروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اس جنگ سے کئی جہادی گروپوں نے جنم لیا، ہر گروپ نے اپنے سے پہلے گروپ کے مقابلے میں زیادہ تشدد کیا۔ اس افراتفری میں وادی بقہ جنگ، تشدد اور پریشانی کا شکار لوگوں کے لیے پناہ کی پرکشش جگہ بن گئی۔ ان پناہ گزینوں کے درمیان تین بچوں کاباپ ناظہی بھی موجود ہے۔ وہ اپنے دو نوعمر لڑکوں کوبحیرہ روم کے راستے جرمنی بھیج چکا ہے، اس کے علاوہ بیوی اور بیٹی کو لبنان منتقل کردیا ہے۔ اس خاندان نے اپنے سارے پیسے خطرناک راستوں کو محفوظ بنانے میں خرچ کردیے۔شام چھوڑتے وقت اس خاندان کے پاس صرف کچھ کپڑے موجود تھے۔ یہ خاندان داعش کے دارالحکومت رقہ سے بمشکل بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ داعش سفاک اور اذیت پسند تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے، یہ تنظیم بچوں کو جبری بھرتی کرنے اور ان کو انتہا پسند بنانے کے لیے مشہور ہے۔ ناظہی کا غمزدہ لہجے میں کہنا تھا کہ ’’اور کوئی حل نہیں تھا، اگر میرے بیٹے نہ جاتے تو داعش ان کا ذہن تبدیل کردیتی، داعش بچوں کوکھلونے اورکھیل کے ذریعے اپنی طرف راغب کرتی ہے پھر ان کو انتہا پسند بنانے کے لیے کلاسوں کا آغاز کردیا جاتا ہے‘‘۔ ناظہی کی بیوی نے ان باتوں کی تائید کی۔ انتہائی خطرناک سفر کے باوجود انہوں نے اپنے بیٹوں کو سمندر پار بھیج دیا، کیونکہ وہ اپنے نوعمر بیٹوں کو ظالم انتہا پسند بنانا نہیں چاہتے تھے۔ ناظہی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’داعش سے بہتر تو موت ہے‘‘۔ وادی بقہ میں موجود یہ خاندان اور دیگر لاکھوں پناہ گزین بہت غربت اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں بہت سارے مسلسل فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
شام میں کچھ کاروباری لوگوں نے اس افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قانونی اور غیر قانونی کاروبار کو فروغ دیا اور اسلام پسندوں کی مدد سے لاکھوں ڈالرکی بزنس امپائر کھڑی کرلی ہے، انہوں نے تیل، منشیات اور قدیم قیمتی نوادرات کی اسمگلنگ سے بھاری رقم کمائی ہے۔ اپنی کمائی میں اضافے کے لیے انہوں نے عراق اور شام کی سرحد پر موجود داعش سے خفیہ اتحاد بھی قائم کرلیا ہے۔تباہی اور غربت کے پس منظر میں اشرافیہ نے دولت کے انبارجمع کرنے کے ساتھ بد ترین اخلاقی زوال کی داستان رقم کی ہے۔خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منافع کمانا صرف شام تک محدود نہیں، حقیقت میں دنیا بھر میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں آپ کو خانہ جنگی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ نظرآئیں گے۔ میں نے اس خانہ جنگی کی معیشت کوسمجھنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی پہاڑی سرحدی علاقوں کے ساتھ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کاسفر بھی کیاہے۔اپنے فیلڈ ورک کے ذریعے میں نے مقامی کاروباری طبقے اور اسلامی عسکریت پسندوں کے درمیان عجیب اتحاد کاپتہ لگایا، بظاہر تاجروں اور جہادیوں کااتحاد عجیب محسوس ہوتا ہے مگراس کا منطقی اور اسٹریٹجک سبب بھی موجود ہے۔ تاجروں کا کوئی نظریاتی مقصد نہیں ہوتا بلکہ ان تعلقات کی وجہ سے جہادی ان کے ٹیکس میں کمی کردیتے ہیں، جنگ زدہ علاقے کا کاروباری ماحول بہت سخت ہوتا ہے، ان علاقوں میں متعدد جنگجو کمانڈر زمین پر قبضے کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں، وہ سیکورٹی دینے کے بدلے میں پیسے وصول کرتے ہیں۔ جنگجوؤں کے زیر قبضہ علاقوں میں اشرافیہ ہمیشہ محفوظ رہتی ہے۔ آپ کو اپنے تحفظ کے لیے جنگجوؤں اور چیک پوسٹ پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں کو پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ آپ کو سفر محفوظ بنانے کے لیے مقامی شراکت داروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو پیسہ دے کر ہر ایک کے علاقے کو محفوظ بناتے ہیں، لاجسٹک اور سواری کا انتظام کرتے ہیں۔ کسی علاقے میں اگر جنگجو گروہوں کی تعداد زیادہ ہو تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سب سے زیادہ مشکل مرحلہ سامان کو متعلقہ فرد کے سپرد کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ خانہ جنگی کی حقیقی قیمت ہے۔ اس بازار میں ہرچیز کی قیمت مقرر ہے، چاہے وہ شکرکی بوری ہو یا بندوقوں سے بھرا ہوا صندوق۔ جب کہیں امن ختم ہو جاتا ہے تو قانونی اور غیر قانونی کاروبار میں فرق بھی مٹ جاتا ہے اور نتیجہ پیچیدہ تجارتی سرگرمیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ امن وامان کی خراب صورتحال سے صرف اسمگلرز اور جرائم پیشہ ہی فائدہ نہیں اٹھاتے، بلکہ کاروباری اشرافیہ بھی پوری طرح مستفید ہوتی ہے اور بہت ہی معمولی معاملات میں ملوث ہوجاتی ہے۔
اس کی ایک مثال صومالیہ میں کوکا کولا کا کاروبار ہے، جس کو اکیسویں صدی کے آغاز میں وار لارڈز اور ملیشیا کو بھاری ٹیکس دینے کی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ سوفٹ ڈرنکس بنیادی اشیا ضرورت میں شامل نہیں ہے، اس لیے بھاری ٹیکس نے کوک کی مانگ کوکم کردیا، صومالیہ میں کوکا کولا کمپنی کے سپلائرز نے دبئی آفس میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں موغا دیشو سے باہر کوک فروخت نہیں کرسکتا، میری اوسط پیداوار ۵۰۰ کریٹ روزانہ اور ۱۵۰۰۰ کریٹ ماہانہ ہے۔ میری پیداوار کی اصل گنجائش دو لاکھ ۸۵ ہزار کریٹ ماہانہ ہے، لیکن میں امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اس کو فروخت نہیں کرسکتا‘‘۔ نسلی اور قبائلی تنازعہ، ٹیکس میں اضافہ اور منافع میں کمی کرتا ہے، نسلی اور قبائلی گروہوں کے برعکس اسلام پسندوں کو تنازعہ کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ نسلی اور قبائلی گروہ صرف اپنے نسل اور قبائل کے لوگوں سے پیسے وصول کرتے ہیں ،جب کہ اسلام پسند تجارتی اشرافیہ کو مختلف نسلی اور قبائلی گروہوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اسلام پسند اور نسلی گروہ سیکورٹی دینے کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں مختلف نیٹ ورکس بھی چلاتے ہیں۔ یہ تاجروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور بدلے میں پیسے وصول کرتے ہیں، اسلام پسند کاروباری طبقے کے سامنے آسان ،کم لاگت اور ایک ہی گروپ کو پیسے دے کر تحفظ حاصل کرنے کا ماڈل پیش کرتے ہیں۔ یہ کم لاگت اوربہت سار ے گروہوں کو پیسے دینے کا بہتر متبادل ہے،جس سے دیگر نسلی اور قبائلی گروہوں سے نجات مل جاتی ہے۔ سیکورٹی کی فراہمی کے لیے اسلام پسند نسلی اور قبائلی گروہوں کے مقابلے میں پیسہ بھی کم طلب کرتے ہیں، کم قیمت کی وجہ سے ان کے صارفین کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔
موغادیشو میں ایک بڑے کاروباری ادارے کے سربراہ کا مجھ سے گفتگو میں کہناتھا کہ’’ہر سو ڈالر جو ہم وار لارڈز کو دیتے ہیں اس کے بدلے ہم ۳۵ ڈالر اسلامک کورٹس کو دے کر ان کا خاتمہ کرسکتے ہیں‘‘۔ جنگ میں اسلام پسند بہتر ڈیل پیش کرتے ہیں اور اس ڈیل کی وجہ سے ان کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ بیروت کے مضافات میں موجود اسمگلرز مارکیٹ کپڑوں کے اسٹال، چاکلیٹ اورسستے چینی الیکٹرانکس آئٹم سے بھر ی پڑی ہے۔ یہ بازاربھول بھلیوں کی طرح لگتا ہے، ہائی وے اوور بائی پاس سے نیچے سیکڑوں دکاندار گھریلو استعمال کی اشیا اور چھوٹے کھلونے انتہائی سستے داموں فروخت کرنے کے لیے اسٹال لگائے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے ہزاروں خریدار تنگ راستوں سے گزر کرخریداری کے لیے آتے ہیں۔ مختلف اسٹالوں کے درمیان دلکش یادگار اشیا کی دکان ہے، جس میں خطے کے حوالے سے قدیم نوادرات کی نقل فروخت کی جاتی ہے۔ رومن دور کے مٹی کے برتن کی قیمت ۲۰ ڈالر ہے۔ سنہری رنگ کی تلوار بھی فروخت کے لیے موجود ہے، جس پر صلیبی دور کے مشکل حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ بازار میں اصلی نوادرات کے نام پر جعلسازی بھی ہوتی ہے۔ عراق اور شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد قیمتی نوادرات کی اسمگلنگ اربوں ڈالر کی تجارت بن چکی ہے۔ مسلح گروہوں نے عجائب گھروں اور تاریخی مقامات سے قیمتی نوادرات کو چرالیا، پھر انہوں نے دنیا بھر میں ان قیمتی نوادرات کو فروخت کرنے کے لیے اسمگلنگ نیٹ ورک تشکیل دیا، یہ انتہائی منافع بخش غیر قانونی کاروبا ر ہے۔ اس لیے بعض عسکریت پسند ان انمول نوادرات کو تباہ کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں جبکہ وہ اس کو خفیہ طور پر بیچنے کے لیے محفوظ کرلیتے ہیں۔ قدیم نوادرات کی بڑے پیمانے پر تباہی کا تاثر دے کر خریداروں کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ بچی ہوئی چند نوادرات انتہائی نایاب ہیں۔ اس طرح عسکریت پسند چور بازار میں ان نوادرات کی بہت زیادہ قیمت وصول کرلیتے ہیں۔ جولائی ۲۰۱۶ء میں بیروت کی اس مارکیٹ میں گھومنے کے دوران میں نے سیاحوں کو نوادرات کی نقل انتہائی کم قیمت پر خریدتے ہوئے دیکھا۔ اس کے علاوہ قیمتی چوری شدہ اشیا، مشرقی رومن سلطنت کی کچھ نوادرات کی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے فروخت جاری تھی، ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ ’’میرے پاس صرف عثمانی دور کی نوادرات ہیں، اگر آپ کو مشرقی رومن سلطنت کے دور کی اشیا چاہیے تو آگے جاکر سیدھے ہاتھ میں مڑ جائیں ‘‘ ابو اطہر کی دکان پہلی نظر میں ہی یادگار اشیا سے بھری ہوئی نظر آئی، جعلی چمکدار تلواروں کے ڈھیر لگے تھے، رنگ برنگی لالٹینوں کے ساتھ مٹی کے برتنوں کی مختلف اقسام بھی دستیاب تھیں، لمبے قد اور گھنی ڈارھی والے ابواطہر کے پاس سستی جیولری اور چھوٹے کھلونے بھی موجود تھے۔ ابواطہر نے مجھے ایک پلاسٹک بیگ میں موجود مشرقی رومن سلطنت دور کی نوادرات دکھائیں جو کاؤنٹر کی نیچے چھپا رکھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ اشیا کافی مہنگی ہیں، انسانی ہتھیلی کے برابر مجسمے کی قیمت ۵۰۰ ڈالر تھی۔ ابواطہر کا کہنا تھا کہ اس سے بڑے مجسمے ہم نے دوسری جگہ پر رکھے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کتنا خرچ کرنا چاہتے ہیں، ابواطہر قدیم انسانی لکھائی والے پتھروں کے مالک کو بھی جانتا تھا، اس اسمگلر بازار میں خطے کے طاقتور زیر زمین نیٹ ورک کے ذریعے سامان سپلائی کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں جب داعش کو عروج حاصل ہوا تو اس تنظیم نے انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے فنڈز اور طاقت حاصل کی اور مخالفین کو نکال باہر کیا۔ خاص کر عراق کی تیل اسمگلنگ کی منافع بخش صنعت سے تنظیم کو بھاری فنڈز حاصل ہوئے۔ ۲۰۱۱ء سے ہی داعش نے غیر قانونی کاروبار پر قبضے کے لیے تعلقات کو فروغ دینا شروع کردیا تھا۔ شام اور عراق میں اسمگلنگ نیٹ ورک کے ساتھ کام کرنے والے ریناد منصور کا کہنا ہے کہ ’’داعش نے سالوں محنت کرکے اسمگلنگ نیٹ ورک بنایا، انہوں نے آہستہ آہستہ اہم اسٹیک ہولڈرز اور اشرافیہ سے بہتر تجارتی تعلقات قائم کرلیے‘‘۔ جب داعش نے ۲۰۱۴ء میں حملہ شروع کیا تو زیر زمین کاروباری طبقے کی مدد سے انہوں نے شام سے عراق تک بڑے علاقے پر انتہائی تیزی سے قبضہ کرلیا۔ اس نازک مرحلے میں داعش نے اس خلا کو پُر کردیا جس کو دوسرے پُر کرنے میں ناکام تھے۔ عراق میں وزیراعظم نوری المالکی کی قیادت میں شیعہ حکومت نے بدعنوانی کے ذریعے سنی کاروباری طبقے کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اس حوالے سے ریناد منصور کا کہنا تھا کہ ’’مالکی نے کاروبار کو بہت مشکل بنادیا تھا، علاقے میں اس کے لوگ (فوج) غیر قانونی ٹیکس وصول کررہے تھے، وہ لوگوں کو رشوت دینے کے لیے مجبور کررہے تھے‘‘۔ شام میں بھی اسد سے تنازعے کے دوران داعش نے مالی فائدہ حاصل کیا۔ جب دیگر گروہ اسمگلرز کو بھاری رقم ادا کررہے تھے تو داعش نے شام کے کاروباری طبقے کو زبردست اور کم قیمت متبادل پیش کیا۔ کارنیگی مشرق وسطیٰ سینٹر کے ایک سینئررکن یزید سیگج کا کہنا ہے کہ ’’شامیوں کے اندر اس لوٹ مار کے نظام کے خاتمے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے، عوام کو پتا ہے کہ اپوزیشن کے عسکریت پسندوں اور حکومتی فوجیوں میں بھتہ خوری کے معاملے میں کوئی فرق نہیں۔ کسان، تاجر اورعام آدمی کو تحفظ کے لیے سڑک کنارے ہر ناکے پر پیسے دینا ضروری ہے، لیکن داعش کامعاملہ مختلف ہے۔ جب آپ داعش کو ایک دفعہ ٹیکس دیتے ہیں چاہے وہ مقامی دفتر میں دیا جائے یا چیک پوائنٹ پر، پھر ٹیکس نہیں دینا پڑتا، آپ داعش کو مزید ٹیکس دیے بغیر اس کے زیرانتظام علاقے میں ہر جگہ سفر کر سکتے ہیں۔ اسد اور اپوزیشن جماعتوں کے علاقے میں آپ جتنی بار بھی چیک پوائنٹ پر آئیں گے تو آپ کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ لوگ کم شرح ٹیکس اور کاروباری طبقے سے ان کے تعلقات کی وجہ سے شکر گزار ہیں۔ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران عسکریت پسندوں نے زیر زمین معیشت کے لیے مقامی اشرافیہ کی حمایت حاصل کرلی تھی۔ جنگی پیش قدمی کے نازک مرحلے کے دوران داعش نے مقامی اشرافیہ کو زبردست مالی فائدے پہنچائے۔ عسکریت پسندوں اور غیر قانونی معیشت کے درمیان قریبی تعلقات ایک عالمی رجحان ہے۔ ۹۰ کی دہائی میں افغانستان میں طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں پر قبضے کے لیے تاجروں کی مضبوط حمایت حاصل کرلی تھی، اس کھیل میں پاکستانی حکومت کی شمولیت سے قبل ان طاقتور تاجروں نے طالبان کو زبردست مالی مدد فراہم کی۔ تنظیم کے ابتدائی دنوں میں مدد کرنے والے یہ افغان تاجر وسطی ایشیا تک تجارتی راستہ کھولنے کے خواہاں تھے۔ سابق آئی ایس آئی چیف حمید گل کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’طالبان کے وجود سے قبل وار لارڈز نے چمن اور تورغندی کے درمیان (پاکستان سے ترکمانستان کی سرحد تک) ۷۲چیک پوسٹیں قائم کرلی تھیں اور ہر چیک پوسٹ پر تاجروں کو پیسہ دینا پڑتا تھا، کبھی کبھی جان بھی جاتی تھی، عوام اس نظام سے بیزار تھے اس لیے طالبان کے منظر عام پرآتے ہی عوام کی جانب سے ان کی زبردست مالی مدد کی گئی‘‘۔
اس صدی کی پہلی دہائی میں افغانستان جیسی کہانی ہی صومالیہ میں دہرائی گئی، وار لارڈز کی ظالمانہ حکمرانی کے بعد مقامی تاجروں نے اسلامک کورٹس یونین کے نام سے قائم نئی اسلامی سیاسی تحریک کی مالی مدد کرنا شروع کردی، اس گروہ کو ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۶ء کے درمیان ایک سیاسی تنظیم کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں بھتہ خوری میں اضافہ ہوگیا، جس کے بعد حیران کن طور پر موغادیشو کے ۷۰ فیصد تاجروں نے طاقتور وار لارڈز کو چھوڑدیا اور اپنے پیسے کا رُخ اسلامی کورٹس یونین کی طرف موڑ دیا، تاجروں کی جانب سے آئی سی یو کی حمایت کی وجہ بھتہ خوری تھی۔ موغادیشو میں موجود معیشت کے ایک پروفیسر جنہیں بھتے کے ریٹ اور وار لارڈز سے معاملات کرنے کاتجربہ تھا کا کہنا ہے کہ ’’آئی سی یو نے کبھی بھتہ طلب نہیں کیا، انہوں نے ہمیشہ اپنی خدمات کا معاوضہ یا زکوٰۃ طلب کی ہے‘‘۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بہتر لوگ ہیں، آئی سی یو نے صومالیہ میں کاروبار کرنے کی قیمت کو کم کردیا، جس کے بعد چھ ماہ میں اسلام پسندوں نے صومالیہ کے ۹۰ فیصد دیہی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ شمالی مالی کے صحرا میں اسلامی باغی ۲۰۱۲ء سے حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، یہاں عسکریت پسندوں اور تاجروں کے درمیان تعلقات کافی پیچیدہ ہیں، طاقت میں آنے سے کئی سال پہلے عسکریت پسندوں نے سگریٹ اور منشیات اسمگلنگ کرنے والی مافیا سے تعلقات کو بہتر بنایا، لاکھوں ڈالر مالیت کے اسمگلنگ کے یہ نیٹ ورکس باہمی مفادات کی بنیاد پر چلائے جاتے تھے۔ ایک محقق بامیکو کا کہنا ہے کہ ’’القاعدہ سے منسلک گروپ کے جنگجوؤں نے اسمگلنگ میں ملوث بڑے خاندانوں میں شادیاں کرلیں، اس طرح وہ غیر قانونی کاروبار میں ملوث نسلی اور قبائلی معاشروں میں ضم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد عسکریت پسندوں نے غیر قانونی کاروبار پر غلبہ حاصل کرلیا، اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے الجزائر اور مالی کے سرحدی علاقوںمیں مقامی اور عالمی گینگ سے روابط قائم کرلیے، اس طرح ان کی رسائی شمالی افریقا کے پار تک ہوگئی۔ اس گروپ کا لیڈر مختار سگریٹ اسمگلنگ میں بہت زیادہ ملوث تھا، اس نے یہ کام ۲۰۰۵ء کے درمیان مارلبورو سے حاصل کیا تھا، اس کے بعد عسکریت پسندوں نے مغربی افریقا میں منشیات اسمگلنگ کو بڑھانے کی طرف توجہ دینی شروع کردی، یہاں سے یورپ کو منشیات سپلائی کی جاتی ہے، مالی میں عسکریت پسند مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل آمدنی پر عیش کررہے ہیں، ۲۰۱۴ء میں مالی بدترین تشدد کا گڑھ بن چکا تھا۔ کاروباری اشرافیہ اور اسمگلروں سے تعلقات عسکریت پسندوں کے لیے صرف کسی علاقے پر قبضے کرنے کے لیے مددگار نہیں ہوتے بلکہ یہ تعلقات اس وقت بھی کا م آتے ہیں جب عسکریت پسند اپنے بچاؤ کی آخری لڑائی لڑ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر داعش اپنے زیر قبضہ علاقے اور بھتے کی رقم سے مسلسل محروم ہوتی جارہی ہے، اس تنظیم کے جرائم کی دنیا پر اثرات ختم ہوتے جارہے ہیں، ان حالات میں کاروباری طبقہ فنڈز فراہم کرکے تنظیم کی زندہ رہنے میں مدد کررہا ہے، منصور اور عراقی ماہر ہاشمی کا کہنا ہے کہ ’’زیر قبضہ علاقوں پر مضبوط کنٹرول کھونے کے بعد داعش اسمگلنگ نیٹ ورکس کوتحفظ دینے کے قابل نہیں رہے گی، اس کے بعد گروپ نے نئی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ موصل جیسے شہروں سے لوٹ مار سے حاصل کالے دھن کو داعش نے سفید دھن میں تبدیل کردیا ہے۔ اس طرح تنظیم ان پیسوں کو دشمن کی مداخلت کے بغیر جب چاہے استعمال میں لا سکتی ہے۔ داعش کی نئی حکمت عملی اپنے مالی وسائل کوچھپانااور حفاظت کرنا ہے،ان کی جنگی حکمت عملی طویل عرصے تک چھپ کر رہنا اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنا بن گئی ہے۔ افریقا کے ریگستان سے کوہ ہندوکش تک جب بھی جہادیوں کو شکست کا سامنا ہوا انہوں نے اپنی بقا کے لیے زیر زمین معیشت کے سائے میں پناہ لی۔ افغانستان میں حکومت سے محروم ہونے کے بعد طالبان نے اسمگلنگ نیٹ ورکس سے تعلقات بہتر بنالیے، ۲۰۱۲ء میں صومالیہ کے ساحلی شہر سے الشباب کے قبضے کاخاتمہ ہوگیا۔ یہ شہر تنظیم کو کروڑوں ڈالر ٹیکس آمدنی فراہم کرتا تھا، شہر سے قبضے کے خاتمے کے بعد الشباب نے جرائم پیشہ کاروباری دنیا سے تعلقات کو مضبوط کرلیا اور دہشت گردی کے بزدلانہ حملے شروع کردیے، ۲۰۱۳ء میں مالی کے شمالی علاقے سے دہشت گرد گروہ اوراس کے اتحادیوں کے قبضے کا خاتمہ کردیا گیا، جس کے بعد دہشت گرد گروہوں نے اسمگلنگ کے اہم راستوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی جدوجہد شرو ع کردی،یہ سارے واقعات ثبوت ہیں اس بات کا کہ جب بھی عسکریت پسند مشکل میں ہوتے ہیں تو زیر زمین معیشت انہیں پناہ فراہم کرتی ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ تاجر اشرافیہ شکست خوردہ عسکریت پسندوں کی خوشی خوشی مدد کرتی رہے گی، کیوں کہ عسکریت پسندوں پر پیسہ لگانا آخری نتیجے کے طور پر تباہ کن ہوتا ہے۔ جب ایک بار عسکریت پسند اپنے سیاسی مخالفین کو شکست دے دیتے ہیں تو ٹیکس کی رقم بڑھاتے ہیں اور کاروباری ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، اس کے ثبوت طالبان کے افغانستان، اسلامک کورٹس کے صومالیہ اور داعش کے عراق اور شام میں واضح طور پر موجود ہیں۔ کاروباری اشرافیہ جانتی ہے کہ جہادی بھاری فنڈ ملنے کے باوجود انہیں کبھی بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ عسکریت پسند زیرزمین معیشت میں واپس آکر دوبارہ طاقت حاصل کرسکتے ہیں مگر کاروباری اشرافیہ اور ان کے درمیان تعلقات باہمی خوشی پر قائم نہیں ہوتے، تاہم تلخیوں اور مایوسیوں کے باوجود یہ تعلقات منافع بخش ہوتے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی بغاوت اور خانہ جنگی کا نتیجہ بدامنی کی صورت میں نکلتا ہے اور اس سے غیر قانونی کاروبار کو فروغ حاصل ہوتاہے، اس سے جرائم پیشہ افراد سے معاملات کرنے کی خواہش رکھنے والے تاجروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ کاروباری اشرافیہ حقیقت پسند ہوتی ہے، وہ اس کا م میں مذہبی جذبے سے نہیں بلکہ مالی فائدہ اٹھانے کے لیے شریک ہوتی ہے۔ اگر عسکریت پسند افراتفری پھیلا کر بھاری مالی فوائد اٹھانے کے مواقع پیدا کرتے رہیں گے تو کاروباری اشرافیہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔ باہر کی دنیا میں بیٹھ کر لگتا ہے کہ یہ جنگیں نظریاتی اور نسلی بنیادوں پر لڑی جارہی ہیں مگر میدان جنگ کے اندر ہر ایک پیسہ کے بارے میں بات کررہا ہوتا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Making Jihad Pay”. (“Foreign Affairs”. October 5, 2017)
Leave a Reply