ملائیشیا کے علاقے صباح پر حملہ

فلپائن کے جنوب میں سرگرم مسلم عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر غیر معمولی ہلچل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۱۱؍ فروری کو خود ساختہ رائل آرمی آف دی سلطنت آف سُلو کے سپاہیوں نے ملائیشیا کی ریاست صباح پر حملہ کیا۔ اس حملے کا بھی وہی انجام ہوا جو عام طور پر ایسے حملوں کا ہوا کرتا ہے۔ حملے میں بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد نے حصہ لیا۔ یہ لوگ جنوبی فلپائن سے کشتیوں میں آئے تھے۔ یہ حملہ آور اور سلطان دونوں فلپائن کے شہری ہیں۔ ایک بھی گولی چلائے بغیر انہوں نے ایک گاؤں پر قبضہ کرلیا جس کے مکین گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ صباح پر سلطان آف سُلو کے حق ملکیت کو قائم کرنے آئے ہیں۔

ملائیشیا کی سیکیورٹی ابتداء میں یہ سمجھیں کہ جنوبی فلپائن کے اسلامی شدت پسند حملہ آور ہوئے ہیں۔ انہوں نے تیزی سے صباح کے متاثرہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ بات چیت ہوئی۔ ملائیشیا کے حکام نے حملہ آوروں کو بتایا کہ وہ ملائیشیا میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے ہیں اور انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔ حملہ آور واپسی سے انکار کرتے رہے۔ فلپائن کی حکومت اس صورت حال سے بے حد پریشان دکھائی دی۔ اس نے فوری طور پر بیان دیا کہ اس ’’لشکر کشی‘‘ میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ ساتھ ہی اس نے اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کیا۔

یہ سب کچھ سمجھنے کے لیے ہمیں ۱۶۵۸ عیسوی میں جانا پڑے گا۔ تب برونائی کی سلطنت نے صباح کا علاقہ، جو موجودہ ملائیشیا میں بورنیو کا حصہ ہے، سلطان آف سُلو کو دیا جو اس وقت موجودہ فلپائن کے ایک حصے پر حکومت کرتا تھا۔ ۱۸۷۸ء میں سلطان آف سُلو نے صباح کو مستقل طور پر برٹش نارتھ بورنیو کمپنی کو لیز پر دے دیا۔ ۱۹۴۶ء میں کمپنی نے صباح کا کنٹرول ختم کرکے اِسے برطانیہ کے اختیار میں دے دیا۔ گیارہ سال بعد سلطان نے لیز کو غیر موثر قرار دیا۔ مگر جب ۱۹۶۳ء میں آزادی ملی تو صباح نے ملائیشیا کا حصہ بننا قبول کیا۔ بعد میں سلطان نے صباح پر اپنا دعویٰ فلپائن کے حوالے کردیا۔ ملائیشیا اب بھی سلطان کو علامتی کرایا ادا کرتا ہے۔

سلطان آف سُلو کے دور کو فلپائن کے مسلمان آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ہسپانوی حملہ آوروں کے بعد امریکا نے لشکر کشی کی اور اس کے بعد عیسائی اکثریت کی ریاست فلپائن کے قیام نے اس خطے میں مسلم دور حکومت کو دھندلا دیا۔ موجودہ سلطان، جلال الکرام سوم، اب محض علامتی شخصیت ہے۔ اب گزرے ہوئے دور کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ مسلم عہدِ حکمرانی کے سُنہرے لمحات اِس آرزو کے ساتھ زندہ ہیں کہ وہ دور پھر آئے گا! ۱۹۶۸ء میں فلپائن کی حکومت نے صباح کا کنٹرول عسکری قوت سے حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں جنوبی فلپائن میں منڈاناؤ کے مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع کی۔ چار عشروں تک یہ علیحدگی پسند تحریک چلی جس میں ہزاروں جانیں گئیں۔ گزشتہ اکتوبر میں ملائیشیا کی وساطت سے فلپائن کی حکومت اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان امن معاہدہ ہوا جس کے تحت امن کے عوض مسلم علاقوں کو وسیع خود مختاری دی گئی۔

فلپائن کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ صباح میں لشکر کشی دراصل مورو مسلم لبریشن فرنٹ سے طے پانے والے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ سلطان آف سُلو کو اس بات کا شکوہ ہے کہ امن عمل میں اسے پوچھا ہی نہیں گیا۔ صباح میں حالیہ مہم جوئی کا شبہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ پر ہے جس نے ۱۹۹۸ء میں فلپائن کی حکومت سے امن معاہدہ کیا تھا مگر اس کے ارکان کو غیر مسلح نہیں کیا گیا تھا۔ اس گروپ کے ایک ترجمان نے صباح پر سلطان کے دعوے کو تو درست قرار دیا ہے تاہم حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کے سربراہ نور مسوری (Nur Misuari) نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ اور حکومت کے معاہدے نے مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کو غیر اہم بنادیا ہے۔

جو کچھ صباح میں ہوا اس سے فلپائن کی حکومت پریشان ہے۔ صباح کا اس کا دعویٰ ہے مگر وہ اس حوالے سے عملاً کچھ بھی کرنے سے گریزاں ہے۔ فلپائن اور ملائیشیا کی حکومتیں اس معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کوشش ہو رہی ہے کہ معاملہ دبا رہے اور کوئی اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ فلپائن میں اب بھی کئی مسلم گروپ سرگرم ہیں۔ منیلا کو خوف ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے ایک بار پھر علیحدگی پسند تحاریک شروع ہو جائیں گی۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ، مورو نیشنل لبریشن فرنٹ، ابو سیاف گروپ اور اب دی رائل آرمی آف دی سلطان آف سُلو۔۔۔ یہ سب فلپائن کی حکومت کے لیے دردِ سر بن سکتے ہیں۔ ایسے ماحول سے عسکریت پسندوں کو نکالنا انتہائی دشوار ہے جہاں چند افراد بھی کسی ملک پر حملہ کرنے کا جگرا رکھتے ہوں!

(“Malaysia Invaded: The Sultan’s Sabah Swing” “The Economist”. Feb. 23rd, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*