’انسان‘ اسلام کی نظر میں

انسان جسم و روح پر مشتمل ایک مرکب ہے۔ مرنے کے بعد اس کا جسم گل سڑ جاتا ہے لیکن اس کی روح خدا کے حکم سے غیرفانی اور ابدی رہتی ہے۔

۲۔ ہر انسان فطری طور پر پاک اور موحد پیدا ہوتا ہے اور کوئی شخص ماں کے پیٹ سے گناہگار اور بدخواہ پیدا نہیں ہوتا۔

۳۔ انسان صاحبِ اختیار اور اپنی تشخیص کے مطابق انتخاب کرنے والی مخلوق ہے اور اپنی زندگی کے دوراہے پر انتخاب و عمل کی آزادی کا مالک ہوتا ہے۔

۴۔ انسان ایک تربیت پذیر مخلوق ہے اور خدا کی طرف پلٹنے کے لیے اس کے اوپر بالیدگی، ترقی، بلندی کے راستے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔

۵۔ انسان نور، عقل اور اختیار کی نعمت کے تحت خداوند تعالیٰ، انبیاے کرام اور دیگر انسانوں کے سامنے جوابدہ ہے۔

۶۔ کوئی بھی انسان کسی دوسرے پر بالادستی و برتری کا حق نہیں رکھتا مگر یہ کہ معنوی کمال کا مالک ہو اور اس کمال کا اعلیٰ ترین مقام تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔

۷۔ انسان کے اندر اخلاق کا اصول فطری بنیاد کا حامل ہے، دائمی اور ابدی ہے اور زمانے کے گزرنے سے اس میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔

۸۔ باوجود اس کے کہ انسان کے اعمال کی جزا و سزا دوسری دنیا میں دی جائے گی۔ اس دنیا میں بھی جس کا نظم ونسق ’’مدبرات‘‘ الٰہی کے تحت چلتا ہے، انسان کے اعمال کے بارے میں بے پروائی نہیں برتی جاتی بلکہ مشیتِ الٰہی کے تحت اس کا عکس العمل رونما ہوتا ہے۔

۹۔ قوموں کی ترقی اور تنزلی کی علت بیرونی عوامل کے علاوہ ان کے عقائد و اخلاق اورکردار پر بھی منحصر ہے اور یہ اصول قضا و قدرِ الٰہی کے منافی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک جزو ہے۔

۱۰۔ بشریت کی تاریخ کا مستقبل روشن ہے اور انجام دنیا کی حکمرانی کی باگ ڈور صالح افراد کے ہاتھوں میں آئے گی۔

۱۱۔ انسان خصوصی عظمت کا مالک ہے، چونکہ ابتدائے خلقت میں مسجود ملائکہ قرار پایا ہے۔ اس لیے اس پر لازم اور واجب ہے کہ ہر اس کام سے اجتناب کرے جو اس کی عظمت کے منافی ہو۔

۱۲۔ انسان کی عقلی زندگی اور فکری تربیت کو اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس بنا پر انسان کو بیہودہ کام اور اندھی تقلید سے پر ہیز کرنا چاہیے۔

۱۳۔ اقتصادی، سیاسی اور دوسرے میدانوں میں بشر کو اسی حد تک انفرادی آزادی حاصل ہے جو اس کی معنوی ترقی اور عام سماجی مصلحتوں کے منافی نہ ہو۔

۱۴۔ ’ایمان‘ یقین اور قلبی اعتقاد ہے، زور زبردستی سے انسان کے دل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسلامی جہاد کا مقصد انسان کو جبراً دین قبول کرانا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد پیغامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچانے کے سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو ہٹانا اور سماجی ماحول کو فساد وتباہی پیدا کرنے والے اسباب و عوامل سے پاک کرنا ہے۔

(مئولف: جعفر سبحانی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*