
امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ ۱۹۲۷ء سے دنیا کو متاثر کرنے ولے فرد کو ہر سال کی شخصیت (Man of the Year) قرار دیتا چلا آرہا ہے۔ سب سے پہلے یہ اعزاز لون ایگل کو حاصل ہوا جنہوں نے اس سال سنگل انجن والے جہاز اسپرٹ آف سینیٹ لوئی‘ پر سوار ہوکر بحراوقیانوس کے اوپر پرواز کی تھی۔
۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کے عشروں میں امریکی صدر ایف ڈی روز ویلٹ کو تین مرتبہ ’’سال کی شخصیت‘‘ قرار دیا گیا۔ اسٹالن‘ ٹرمین اور چرچل دو دو بار یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ ۱۹۴۹ء میں جب چرچل کو دوسری دفعہ ’’سال کی شخصیت‘‘ قرار دیا گیا تو لوگوں کی نظر میں یہ انتخاب بوگس تھا کیونکہ وہ چار برس تک اقتدار سے باہر رہے تھے اور اس برس مائوزے تنگ بیسویں صدی کے سب سے زیادہ خونریز انقلاب کے ذریعے جدید چین کی بنیاد رکھ رہے تھے۔
ہٹلر کو ۱۹۳۸ء میں سال کی شخصیت قرار دیا گیا‘ جنرل مارشل نے دو مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی ایک بار جب کہ ایل بی جانسن اور نکسن دو دو مرتبہ اس اعزاز کے حقدار قرار پائے۔ ۱۹۷۲ء میں امریکی صدر نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو مشترکہ طور پر سال کی شخصیتیں قرار دیا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب اسلامی برپا ہو اور ٹائم نے آیت اللہ روح اللہ خمینی کی خشمگیں نگاہوں والی تصویر اپنے ٹائٹل پر شائع کرکے انہیں اس سال کی شخصیت قرار دیا۔
ٹائم میگزین بڑی عمدگی سے یہ روایت نبھاتا رہا ہے۔ وہ اس شخصیت کو ’’مین آف دی ایئر ‘‘ یا ’’ پرسن آف دی ایئر‘‘ قرار دیتا ہے جو اپنے اچھے یا برے اعمال کی وجہ سے پورا سال دنیا کی خبروں پر چھائی رہی ہو۔ اس سال ٹائم کسی شخصیت کا انتخاب نہیں کرسکا۔ اس برس اس نے تمام امریکی شہریوں کو اس اعزاز کا حقدار ٹھہرایا ہے اس لیے کہ وہ اس ڈیجیٹل ڈیمو کریسی میں رہتے ہوئے دنیا بھر کو متاثر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس بار کسی شخصیت کا انتخاب کیوں نہ کیا گیا ؟ اس برس کی شخصیت ایرانی صدر محمود احمدی نژاد بن سکتے تھے لیکن شاید انہیں یہ اعزاز اس لیے نہیں دیا گیا گیا کہ انہوں نے اس ماہ ہولوکاسٹ کانفرنس منعقد کی (Holocaust …۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء کے درمیان جرمن نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام) جس میں ڈیوڈ ڈیوک سمیت دنیا بھر سے ان افراد نے شرکت کی جو ہولوکاسٹ کے دوران پہنچنے والے نقصان کے بارے میں یہودیوں کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کو نہیں مانتے۔ ٹائم نے اسی وجہ سے پہلی مرتبہ اپنی روایت توڑتے ہوئے کسی ایک فرد کو سال کی شخصیت قرارنہیں دیا۔
شاید اس جریدے کو یہ خوف بھی لاحق رہا ہو کہ اس کے ٹائٹل پر احمدی نژاد کی تصویر امریکیوں میں احساس تنفر پیدا کرے گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ چیز جریدے کی فروخت کو تباہ کرنے کا موجب بن جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۰۱ء میں بھی ٹائم نے اسی وجہ سے اسامہ بن لادن کو سال کی شخصیت قرار دینے کے بجائے اس کے لیے روڈی گولیانی کا نام منتخب کیا حالانکہ تاریخ کبھی بھی انہیں اس المناک سال کی اہم ترین شخصیت قرار نہیں دے گی۔ ٹائم کے ایڈیٹر رچرڈ اسٹینگل نے اعتراف کیا ہے کہ روایتی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے جب احمدی نژاد کے نام پر غور کیا گیا تو ’’میری طبیعت ان کا انتخاب کرنے پر مائل نہ ہوسکی۔‘‘ ان کی یہ منطق قابل فہم ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ احمدی نژاد کو منتخب کرنے سے انکار ٹھوس حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کے مترادف ہے۔ اگر ان کی تصویر ٹائم کے ٹائٹل پر شائع کردی جاتی تو یہ امریکیوں کی ایک اچھی خدمت ہوتی کیونکہ اسے دیکھ کر ان میں تکلیف دہ شعور بیدار ہوتا۔ اس سے صدر جارج بش سمیت پورے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو احساس ہوتا کہ اس سال وہ جنگ جس میں پچیس ہزار افراد ہلاک و زخمی ہوئے اس سے سب سے زیادہ فائدہ ایران نے اٹھایا ہے۔
اگر احمدی نژاد کو سال کی شخصیت قرار دیدیاجاتا تو یہ اس بات کا اعتراف ہوتا کہ ایران مشرق وسطیٰ کی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے اور امریکا نہ صرف عراق بلکہ افغانستان میں بھی شکست کی جانب بڑھ رہا ہے ۔طالبان واپس آچکے ہیں اور کچھ نیٹو ممالک ان کے ساتھ جنگ میں اپنے فوجیوں کو مروانے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک وہ یورپی فوجیوں کو وہاں سے نکالنے میں واضح طور پر ناکام ہوگئے تھے۔
ادھر صومالیہ میں اسلام پسندوں کو کنٹرول حاصل ہے۔ لبنان میں امریکا مخالف حزب اللہ کو بالادستی حاصل ہے۔ بیروت حکومت کسی بھی وقت ختم یا حزب اللہ کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
بش کے وزیر دفاع تک اعتراف کررہے ہیں کہ ہم عراق میں فتح حاصل نہیں کررہے اور بش کی صدارت کا دورانیہ اختتام تک شکست کو موخر کرنے کے لیے بیس سے چالیس ہزار مزید فوجی وہاں بھیجنے ہوں گے۔ ادھر غزہ اور مغربی کنارے میں الفتح اور حماس خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔ صدر بش کے مطالبے پر مشرق وسطیٰ میں جو انتخابات ہوئے ان کے بھی ڈرامائی نتائج سامنے آئے۔ مصر مین اخوان‘ لبنان میں حزب اللہ ‘ فلسطین میں حماس اور عراق میں مقتدیٰ الصدر کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔
صرف ڈیرھ برس قبل احمدی نژاد تہران کے میئر تھے جنہیں دنیا میں کوئی نہیں جانتاتھا لیکن اب وہ امریکا اور صیہونیت دشمنی کی ایک علامت اور امریکی ناکامیوں کی مجسم تصویر بن چکے ہیں۔
احمدی نژاد وہ ہیں جنہوں نے یورینیم کی افزدوگی روکنے سے متعلق بش کا مطالبہ مسترد کردیا ‘پابندیاں عائد کرنے کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تقسیم کردیا‘ ہولوکاسٹ کا مذاق اڑایا‘ صیہونی ریاست کو دنیا کے نقشے سے ناپید کرنے اور امریکا کو مشرق وسطیٰ سے نکال باہر کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے خطے کے مطلق العنان حکمرانوں کو بھی خوف میں مبتلا کردیا اور عرب و مسلمان عوام کو اپنے بے باک طرز احساس پر متحد کردیا۔
ستمبر میں جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تو امریکی صحافی ہر وقت ان کے اردگرد جمع رہتے‘ یہ ان کی سفارتی فتح تھی۔ انہوں نے یہ کامیابی فوجی طاقت کے زور پر حاصل نہیں کیں۔ اگر امریکا حملہ کردے تو ایران ایک ہفتے سے زائد اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ وہ اسرائیلی حملے کی صورت میں اپنی ایٹمی تنصیبات کا دفاع کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا‘ لیکن احمدی نژاد کی خطابت اور حسن تدبیر کی بدولت ان کا ملک محفوظ ہے۔ احمدی نژاد ان تمام لوگوں کی آوازبن چکے ہیں جو امریکا اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔
احمدی نژاد کے پاس فوجی نہیں لیکن لفظوں کی طاقت ہے وہ ۲۰۰۶ء کے سب سے بڑے فاتح ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل سب سے بڑے شکست خوردہ (losers) ہیں ایک ارب سے زائد مسلمان احمدی نژاد کو امریکا پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ یہ ایک سوچنے کی بات ہے!
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیشن‘‘۔ شمارہ: ۲۰ دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply