
پاک بھارت تنازع ہو یا فلسطین اسرائیل قضیہ، دونوں میں امریکی کردار ایک خاص حد تک ہے۔ امریکا دونوں جوڑوں کے قضیوں میں بظاہر اس لیے دلچسپی لے رہا ہے کہ معاملات بے قابو نہ ہوں اور نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک نہ جا پہنچے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان اور اسرائیل نے جوہری تجربات کیے تو امریکا نے انہیں کسی نہ کسی طور قبول کیا اور بھارت سے بھی معاملات درست کیے جبکہ وہ بھی اعلانیہ جوہری قوت ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ معاملات اگر کسی جامع تصفیے کی طرف نہ بھی جاسکیں تو اتنا ضرور ہو کہ معاملات بگڑتے بگڑتے کسی بڑی لڑائی یا جنگ کی طرف نہ چلے جائیں۔ امریکا نے کشمیر اور فسلطین دونوں تنازع کے حل کے لیے باٹم اپ اور باٹم ڈاؤن دونوں ہی طریقے اختیار کر دیکھے ہیں۔ باٹم ڈاؤن طریقہ یہ ہے کہ فریقین کی مرکزی حکومتیں اپنے اپنے اہداف یا ترجیحات طے کریں، کسی نہ کسی طور ایک دوسرے کو قبول کریں اور پھر معاملات عوام تک پہنچیں۔ یعنی پہلے قیادتیں مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی طرف گامزن ہوں۔ باٹم اپ طریقہ یہ ہے کہ پہلے فریقین یعنی قضیے کے فریق ممالک کے باشندوں کے درمیان رابطے قائم ہوں، ثقافتی روابط کو بھی اہمیت دی جائے اور تجارت کو بھی۔ تجارت کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاملات درست ہونے لگتے ہیں۔ یہ کام راتوں رات نہیں ہوتا۔ اعتماد کی فضا قائم یا بحال ہونے میں دیر لگتی ہے۔ امریکا نے دونوں طریقے آزماکر دیکھے ہیں مگر اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ معاملہ کشمیر کا ہو یا فلسطین کا، فریقین فی الحال کسی جامع تصفیے کے موڈ میں نہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب ان دیرینہ تنازعات کے حل کی ایک ہی صورت ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ فریقین کو کسی مشترکہ خطرے کا سامنا ہو اور وہ دیرینہ اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ اگر فریقین کو یقین ہو جائے کہ تنازع کا کوئی پائیدار اور منصفانہ حل تلاش نہ کرنے پر دوسروں کے ساتھ ساتھ خود انہیں بھی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے کیس کی طرح فلسطین اور اسرائیل کے کیس میں بھی اسلامی شدت پسندی نمایاں ہے۔ اسلامی شدت پسندی نے معاملات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب اسرائیل اور سعودی عرب میں فاصلے کم ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے معاملے میں چین نے اپنا کردار کھل کر ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
پاکستان، اسرائیل، فلسطین، یورپ اور امریکی براعظم میں کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ مشرقِ وسطیٰ میں سنی انتہا پسند اقتدار میں آئیں۔ دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے معاملے میں جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ افغانستان میں عوام نہیں چاہتے کہ افغان سرزمین سے تعلق رکھنے والے طالبان کی جگہ داعش کے جنگجو لے لیں۔ سنی انتہا پسندوں کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں ایران نہایت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اپنی سرزمین، یورپ اور خود ایران کو سُنّی انتہا پسندی سے لاحق خطرات کے پیش نظر ایران کے ساتھ مل کر کام کرسکے گا یا نہیں۔ امریکا ایسا پہلے بھی کرچکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے نازی جرمنی کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے سابق سوویت یونین کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
اب وقت آگیا ہے کہ امریکا دیرینہ تنازعات کے حل کی کوئی صورت نکالے۔ پہلے مرحلے میں تو فریقین کو یہ بتانا پڑے گا کہ ان کے لیے نچلی سطح سے رابطے شروع کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ یہ بات بھی فریقین کے ذہن نشین کرانا ہوگی کہ اب ان کے پاس زیادہ وقت نہیں۔ انہیں فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر ملک میں غیر معمولی ترقی پسند یعنی لبرل عناصر اور رجعت پسندوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے۔ اگر رجعت پسند کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو لبرل عناصر چونک اٹھتے ہیں۔ اور اگر لبرل کچھ کرنا چاہیں تو مذہبی انتہا پسند انہیں قبول نہیں کرتے۔ پاکستان ہو یا بھارت، فلسطین یا ہو اسرائیل، ہر ایک کے معاملے میں زیادہ برداشت نہیں کرنا چاہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں ایسے حالات موجود ہیں جن پر زیادہ غور کرنے سے انہیں دور کرنے کی تحریک ملنی ہی چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Managing intractable conflicts in the Middle East and South Asia”.
(“brookings.edu”. July 23, 2015)
Leave a Reply