
امریکی صدر نے مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اور دوسری طرف براک اوباما اور ان سے قبل بل کلنٹن نے امریکی صدور کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کی کیونکہ ان کے تنازعات برقرار ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کوئی بھی باضابطہ اور پائیدار نوعیت کا امن معاہدہ فی الحال کسی بھی ذہن کے افق پر دور دور تک نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں خطوں میں قیام امن سے متعلق کوششوں کے حوالے سے امریکا نے زیادہ توجہ کے ساتھ کام نہیں کیا۔ سفارت کاری کے میدان میں وہ ٹاپ ڈاؤن اپروچ کے ساتھ کام کرتا رہا ہے مگر اب تک جنوبی ایشیا کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں وہ بات دکھائی نہیں دی جس کے لیے لوگ ترس رہے ہیں۔
کبھی کبھی تزویراتی معاملات میں دانش اور حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو محدود کرنے کے بجائے وسعت دی جائے۔ اگر کوئی اتحاد کسی بھی مسئلے کو بلندی پر جاکر کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو معاملات کو ٹریک ٹو پر بھی چلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور باٹم اپ اپروچ بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کے معاملے میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ بعض اوقات فریقین محسوس کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں کہ کسی بھی نئے اور حقیقی خطرے کے مقابلے میں ان کی اپنی پوزیشن خاصی غیر اہم ہے۔
دنیا بھر میں ایسے بہت سے تنازعات ہیں جو طویل مدت کے حامل ہوچکے ہیں۔ پچیس سال یا اس سے زائد چلنے والے کسی بھی تنازع کو Intractable Issue قرار دیا جاتا ہے۔ پیٹر کولمین، والمین واکن اور دوسرے بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں اور مفکرین نے طویل مدت سے چلے آرہے تنازعات کو خانہ جنگی سے تعبیر کیا ہے۔ امریکا کی مشہور زمانہ رینڈ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان معاملات طے پاجائیں اور سب کچھ نارمل ہوجائے تو کم و بیش ۱۸۳؍ ارب ڈالر کا فائدہ پورے خطے کو پہنچ سکتا ہے۔ اسی طور اگر پاکستان اور بھارت اپنے تمام تنازعات حل کرنے پر راضی ہوجائیں تو پورے خطے کو جو فائدہ پہنچے گا، وہ بھی بِلامبالغہ سیکڑوں ارب ڈالر ہی کا ہوگا۔ مشرقی وسطیٰ کا تنازع اگر طے پاجائے یعنی اسرائیل اور فلسطین اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کرلیں تو ایک کروڑ تیس لاکھ افراد کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات طے پاجانے کی صورت میں عالمی آبادی کے پانچویں حصے کو اس کا براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔
فلسطین اور کشمیر، دونوں ہی تنازعات پچاس سال سے بھی زائد مدت سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہیں۔ اقوام متحدہ کو اپنے قیام کے بعد جن دو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی تو ہیں۔ اور اب بھی ان کے حل ہونے کے آثار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری اب ان دونوں ہی مسائل یا تنازعات سے یکسر بیزار ہوچکی ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تحت ۲۰۰۳ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’شوٹنگ فار اے سینچری‘‘ میں فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اس لیے پیچیدہ ہے کہ اس میں فریقین کی اصل پوزیشن تبدیل نہیں ہوتی۔ دیکھا گیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے میں فریقین کسی بھی ایک بات پر قائم نہیں رہتے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ معاملہ نمٹائے جانے کے بہت نزدیک ہے اور کبھی سب کچھ اچانک تبدیل ہوجاتا ہے اور فریقین ایک بار پھر ایک دوسرے پر بندوق تان لیتے ہیں۔ اسرائیل میں جب انتہا پسند لکود پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے، تب معاملات اچانک بگڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف حماس کی پالیسی میں تبدیلی آتی ہے تو اسرائیل کے وجود کو برداشت نہ کرنے کی روش پھر زیادہ مقبولیت حاصل کرلیتی ہے۔
معاملات کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لیے اعتماد بنیادی عنصر ہے۔ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے خوب کہا تھا کہ ’بھروسا ضرور کیجیے، مگر پہلے تصدیق کرلیجیے‘۔ یہ بنیادی طور پر روسی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بڑے تنازع یا ایشو کو حل کرنے کی طرف قدم بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ عوامی سطح پر اور معیشت کے حوالے سے ایک دوسرے پر بھروسا کرنا ناگزیر ہے اور یوں منڈیوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ مل کر معاملات کو درست کرنے کی طرف قدم بڑھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں سفارتی کوششیں اُسی وقت رنگ لاسکتی ہیں، جب فریقین ایک دوسرے پر کسی نہ کسی حد تک بھروسا کرنے کو تیار ہوں۔ جب ایک بار بھروسا قائم ہوجائے تو بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کو قابلِ اعتبار سمجھنے کی راہ بھی ہموار ہوتی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی اہمیت رکھنے والے یا طویل مدت سے حل طلب چلے آرہے مسائل کے حل کی طرف جانے کے لیے اعتماد بنیادی شرط ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی سطح کے رابطوں اور بازاروں کے درمیان اشتراکِ عمل کے حوالے سے اقدامات ناکام ہوتے رہے ہیں مگر خیر، پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترنا بھی کبھی کامیابی کی ضمانت نہیں رہا۔
دنیا میں کئی ادارے ایسے ہیں جو کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے حوالے سے کوشش کرتے رہے ہیں۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں یا پھر پاکستانیوں اور بھارتیوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے بہت سی فاؤنڈیشنز نے غیر معمولی فنڈنگ کی ہے۔ یہ امید آج تک دم نہیں توڑ سکی کہ کبھی نہ کبھی فریقین کو اپنی حماقتوں اور کوتاہیوں کا احساس ہوگا اور وہ امریکا کی ثالثی کے تحت مذاکرات کے لیے تیار ہو ہی جائیں گے۔ فلسطین اور کشمیر کا تنازع حل کرنے سے متعلق کوششیں دم توڑتی رہی ہیں مگر اس کے باوجود امید کا دامن کسی نے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ سب کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو درست کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں سکون کا سانس لے سکیں۔
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، جامعہ کراچی کے سوا کہیں بھی پروگرام کی سطح پر پاک بھارت تنازعات پر کام نہیں کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اشو کشمیر ہے۔ یہ بات بل کلنٹن اور اوباما دونوں نے تسلیم کی مگر سچ یہ ہے کہ یہ محض زمین کا تنازع ہے۔ اور پھر اس میں چین بھی کسی نہ کسی طور جڑا ہوا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے شناخت کا مسئلہ بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو ہدف سمجھتا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے انصاف نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ معاملات کو درست کرنے کی طرف جانے کے لیے تیار ہی نہیں۔ سیاسی ہڑبونگ میں سب کچھ اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اب کچھ پتا نہیں چلتا کہ کس نے کیا کیا تھا اور یہ کہ کس کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
فلسطین اور کشمیر کے اشوز نے معاملات کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ اب ثقافتی اور معاشرتی روابط بھی یکسر ناکام ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایسے زمانے گزرے ہیں کہ جب ان خطوں میں لوگوں کی نقل مکانی بڑے پیمانے پر ہوا کرتی تھی۔ مغلوں کے دور میں جنوبی ایشیا ایسا خطہ تھا جس میں لوگ بڑے پیمانے پر اِدھر سے اُدھر ہوجایا کرتے تھے۔ جن علاقوں میں آج پاکستان ہے، وہاں بھی پورے موجودہ بھارت سے لوگ آیا کرتے تھے اور صنعت و حرفت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ یہی حال فلسطین کا بھی تھا۔ وہاں بھی پورے خطے کے لوگ آتے تھے اور معاشی امور کے ساتھ ساتھ سماجی اور ثقافتی امور کو بھی تقویت بہم پہنچاتے تھے۔ فلسطین مذہبی اعتبار سے بھی مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے انتہائی اہم تھا۔
فلسطین اور کشمیر پر امن عمل جاری ہے۔ مذاکرات کسی نہ کسی شکل میں ہوتے رہے ہیں۔ تجارت بڑھاکر، جنگ کا خطرہ کم کرکے معاملات کو درستی کی راہ پر لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ چاروں فریقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی حال میں مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ معاملات جوں کے توں رہیں اور کوئی بھی پائیدار حل سامنے نہ آئے، کوئی تصفیہ نہ ہو۔ انہیں اچھی طرح اندازہ کہ کسی پائیدار حل کے سامنے آنے سے یا کوئی تصفیہ طے پاجانے سے ان کے مفادات کو ضرب لگے گی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب کشمیر اور فلسطین کے اشوز کے فریقین کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے بارے میں خدشات پالتے رہتے ہیں اور ہر بات پر شک کرتے ہیں۔
بھارت میں گاندھی جی کے سوا کسی نے بھی پاکستان پر بھروسا نہیں کیا۔ سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی مسز اندرا گاندھی نے بھی پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور وہ پاکستان کے اسلامی بم کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے والوں میں بھی نمایاں تھیں۔ دوسری طرف بھارت پر بھروسا نہ کرنے والوں کی بھی پاکستان میں کوئی کمی نہیں۔ اُدھر فلسطین اور اسرائیل میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو بدگمانیوں کو ہوا دینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
چاروں ممالک یا علاقوں کے خفیہ ادارے ہر وقت شکوک و شبہات کو ہوا دیتے ہیں اور اسی پر ان کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا انحصار ہے۔ چاروں ممالک تقسیم کے عذاب سے گزرے ہیں۔ ایسے میں یہ بات زیادہ عجیب نہیں کہ ایک دوسرے پر شک کیا جائے اور معاملات کو یقین کی منزل تک لے جانے سے روکا جائے۔ بہت سے لوگ ان دونوں قضیوں کو جوں کا توں رہنے دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے ہی میں ان کا بھلا ہے یعنی ان کی روزی روٹی چلتی رہے گی۔ اگر یہ دیرینہ مسائل حل ہوگئے تو ان کا تو پورا دھندا ہی چوپٹ ہوجائے گا۔
امریکا اور دیگر یورپی قوتوں کے لیے کشمیر اور فلسطین دونوں کے حوالے سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی آدرش اور نظریات بھی کام نہیں کرتے۔ دونوں قضیوں میں جمہوریت اب تک اپنا کردار عمدگی سے ادا نہیں کر پائی۔ اسی طور نظریات بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا یا یورپ کا سیکولراِزم اب تک پاکستان، بھارت، اسرائیل اور فلسطین چاروں میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ لوگوں نے اسے اپنایا ہی نہیں۔
امریکا کا کردار ملا جلا رہا ہے۔ وہ اب تک ان قضیوں کو حل کرنے سے اس بات کے لیے کوشاں رہا ہے کہ کوئی بڑا تصادم نہ ہو یعنی جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر تباہی کا سلسلہ شروع نہ ہو۔ ایک بنیادی مقصد ایٹمی جنگ کو روکنا بھی ہے۔ امریکا نے لائن آف کنٹرول کو پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ سرحد کا درجہ دلانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں کی۔ یہی حال فلسطین کے اشو کا بھی ہے۔ امریکا اب تک اپنی کوئی بھی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ بل کلنٹن نے کشمیر کو دنیا کا خطرناک ترین خطہ قرار دیا تھا مگر براک اوباما نے جب بھی ایسی کوئی بات کہنی چاہی ہے، مشیروں نے کچھ اور ہی سُجھایا ہے۔ ایسے میں بہتری کی زیادہ امید نہیں رکھی جاسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اب تک مسائل حل کرنے کی جتنی بھی کوششیں کرتا رہا ہے، ان کا کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا جسے بہتر اور قابلِ رشک قرار دیا جاسکے۔
معاملات کو معمول پر لانے کی کوئی بھی کوشش اُسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے، جب فریقین ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس حوالے سے اقدامات بھی کریں۔ چاروں معاشروں کو ایک دوسرے کے لیے اوپن اپ کی پالیسی اپنانا ہوگی، ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کو اگر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن یقینی بنانا ہے تو ایک دوسرے کو کھلے دل سے قبول کرنے کی راہ پر گامزن ہونا ہی پڑے گا۔ اسی طور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے بھی ایک دوسرے کو اپنائے بغیر آگے بڑھنے کا آپشن اب تک تو دکھائی نہیں دیتا۔ چاروں معاشرے ایک دوسرے سے خائف ہیں۔ جہاں شدید خوف پایا جاتا ہو، وہاں کسی بھی بہتری کی توقع بھلا کیسے رکھی جاسکتی ہے؟
معاملات کو معمول پر لانے کی تمام مساعی اب تک شدید خوف کے سائے میں جاری رہی ہیں۔ جب ایک دوسرے پر بھروسا ہی نہیں ہوگا تو خیر کی کوئی صورت بھلا کیسے نکل پائے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ خوف نسلوں کو منتقل ہوتا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر معاملے میں صرف شک ہی پایا جاتا ہے، اعتماد یا اعتبار کہیں ہے ہی نہیں۔
کبھی کبھی بیرونی فریق بھی تصفیہ کراسکتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک نے کرایا تھا۔ ثالثی کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ مگر فی الحال بھارت کسی بھی ثالث کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اپنی برتر علاقائی حیثیت بھی اس کے لیے انا کا مسئلہ بن گئی ہے۔ وہ کسی ثالث کو قبول کرکے کمزور ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتا۔ کشمیر کے حوالے سے فریقین کو اب نئے اصول اپنانا پڑیں گے تاکہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں موقف تبدیل ہو اور تھوڑی بہت لچک دکھائی دے۔ لچک دکھائی دے گی تو معاملات کے درست کرنے کی راہ بھی حقیقی معنوں میں ہموار ہوگی۔ جب تک فریقین اپنی اپنی بات پر پوری طرح اڑے رہیں گے، تب تک کوئی بھی قابلِ قبول اور پائیدار تصفیہ ممکن نہیں بنایا جاسکے گا۔
یہی معاملہ مشرقِ وسطیٰ کا بھی ہے۔ وہاں بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر یوں اڑے ہوئے ہیں کہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ جب تک لچک پیدا نہیں ہوگی، کوئی تصفیہ بھی ممکن نہ بنایا جاسکے گا۔ فلسطین کا مسئلہ بھی دن بہ دن الجھتا ہی جارہا ہے۔ ثالثی کی کوششیں بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ ہر بار یہی ہوا ہے کہ فریقین زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ پیچھے ہٹے ہیں اور اپنے اپنے مؤقف کو مزید غیرلچکدار بنالیا ہے۔
فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اب علاقائی تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا تاکہ کسی تصفیے تک پہنچا جاسکے۔ اب یہ دونوں معاملات عالمی تناظر سے کہیں زیادہ علاقائی پس منظر کا تقاضا کرتے ہیں۔ فریقین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر انہوں نے جلد کوئی قابلِ قبول اور پائیدار حل تلاش نہ کیا تو ان کا مسئلہ پورے خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوکر دم لے گا۔ پاکستان اور بھارت کے لیے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں سوچنا اور بہتر انداز سے لچک پیدا کرکے معاملات درست کرنا لازم ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں فلسطین کے قضیے کا کوئی ایسا حل تلاش کریں تو ترقی اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
انتہا پسندی اور بنیاد پرستی خطرے کی صورت میں موجود ہیں۔ مگر یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔ سیاسی قیادت کے لیے لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ لچکدار رویہ اپنائے تاکہ معاملات درستی کی طرف گامزن ہوں۔ بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کو زیادہ اہمیت نہ دینا ہی بہتر آپشن ہے۔ اگر اس معاملے میں تاخیر یا کوتاہی سے کام لیا گیا تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ اس وقت کوئی بھی ملک یا خطہ خود کو حالات کے شکنجے میں جکڑا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ بات تمام قضیوں کے تمام فریقوں کو سمجھنی ہوگی۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Managing intractable conflicts in the Middle East and South Asia”. (“brookings.edu”. July 23, 2015)
Leave a Reply