جب کسی وزیراعظم کا پریس سیکریٹری اپنی مرضی سے اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلوں کو بلا کر یہ کہے کہ وہ نہ تو وزیراعظم کے استعفیٰ کی توثیق کر رہا ہے اور نہ ہی اس کی تردید تو قیاس یہی لگایا جائے گا کہ کہیں نہ کہیں کوئی غلط بات ضرور ہوئی ہے، بعینہ یہی مشق کچھ دن پہلے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری سنجے بارو نے انجام دی۔ پورا ملک افواہوں سے گونج اٹھا اور شیئر بازار بُری طرح متاثر ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ من موہن سنگھ نے اپنا پورا زور امریکا کے ساتھ نیو کلیائی معاہدے پر صرف کر دیا ہے یہاں تک کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کی برافروختگی کی قیمت پر بھی۔ بائیں بازو کا یہ کہنا درست ہی ہے کہ وہ اکیلے ہی نیوکلیائی معاہدے کو آگے بڑھانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
جس بات پر مجھے حیرت ہو رہی ہے وہ ہے وزیراعظم کے گزشتہ مئوقف و خیال میں اچانک تبدیلی۔ اُن کی حکومت ایک مسئلے پر مرکوز حکومت نہیں ہے۔ معاہدے پر دستخط کرنے میں ناکامی پر دنیا کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے تک کانگریس، اُس کے حلیفوں اور بائیں بازو پر مشتمل کوآرڈی نیشن کمیٹی میں رواداری کا جذبۂ ایثار واضح تھا کہ سب یہی کہتے تھے کہ اتفاق رائے پر پہنچنے کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لینے کی دھمکی دینے والی بائیں محاذ نے اگر کوئی اقدام کیا تو بس یہ کہ اس نے حفاظتی اُمور سے متعلق معاہدے پر آئی اے ای اے سے بات چیت کی اجازت حکومت کو دے دی۔ اب اسے اپنی سبکی محسوس ہو رہی ہے۔ اب انہوں نے یہ کہا ہے کہ جی ۸ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے وزیراعظم کی جاپان کے لیے روانگی معاہدے کو آگے بڑھانے کا حکومت کا فیصلہ تصور کیا جائے گا تو وزیراعظم نے یہ سخت موقف کیوں اختیار کیا ہے؟۔
شک اس بات کا ہے کہ صدر بش کا اور نتیجتاً امریکا کا دبائو کام کر گیا ہے۔ سب اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ من موہن ایسے شخص نہیں ہیں کہ یہ یقین کیے بغیر کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں صحیح ہے۔ وہ ایمانداری کے ساتھ یہ نقطۂ نظر رکھتے ہوں گے کہ نیو کلیائی معاہدہ وہ بہترین واقعہ ہے جو اس ملک میں ہونے جا رہا ہے۔ ہندوستانی مہذب معاشرہ کم و بیش یکساں انداز میں سوچتا ہے۔ ممکن ہے وزیراعظم یہ سمجھتے ہوں کہ اگر ضرورت پیش آئی تو اقتدار سے دست کش ہونے کا اُن کے لیے یہ تاریخ ساز لمحہ ہے۔ وہ پوری شان اور وقار کے ساتھ اقتدار سے دستبردار ہوں گے اور یہ تاثر دیں گے کہ انہوں نے ملک کے مفاد پر اپنے منصب کو قربان کر دیا۔ بی جے پی کی طرف سے کمزور وزیراعظم ہونے کے مسلسل طعنوں نے بھی نیو کلیائی معاہدے کو آگے بڑھانے پر اُکسایا ہو گا تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ حقیقتاً وہ کمزور نہیں ہیں۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ اُن کا مؤقف درست ہے۔ اول یہ کہ اگر معاہدے کا مطلب بائیں محاذ سے اپنی راہیں الگ کرنا ہے اور قبل از وقت انتخابات کا سامنا کرنا ہے تو اُن کی پارٹی اُن کے ساتھ ہے نہیں۔ اگر بائیں محاذ کے ۵۹ ممبران اپنی حمایت واپس لے لیتے ہیں تو کانگریس اور اُس کی حلیف پارٹیاں اکثریت نہیں بنا پائیں گی۔ دوسری بات یہ کہ اپنے ایک بیان میں نیو کلیائی ماہرین نے جن میں بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پی کے لینگار بھی شامل ہیں کہہ دیا ہے کہ نیو کلیائی معاہدہ ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہیں ذاتی غرض ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ کس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ تیسرے یہ کہ عام تاثر یہ ہے کہ امریکا ہمیں بُری طرح دبا رہا ہے تاکہ ہم اُس کے محتاج بن جائیں اور خود کو امریکا کے دامن سے باندھ کر اپنی نا وابستگی کی پالیسی کو نقصان پہنچائیں۔
ان بیانات سے امریکا کے دبائو کا ثبوت عیاں ہے جو واشنگٹن سے آئے ہیں۔ ایک امریکی قانون ساز گیری واکرمین نے اسی ہفتے کہا ہے کہ مجھے یہ سمجھنے میں بہت مشکل ہوئی کہ ہندوستان ایران اور پاکستان سے گیس پائپ لائن کے معاہدے پر مسلسل بات چیت کر رہا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب ہندوستان کو امریکی سفیر ڈیوڈ سی ملفورڈ نے آئی اے ای اے بورڈ کی میٹنگ میں ایران کی حمایت نہ کرنے سے خبردار کیا اور ہم نے انہی کی ہدایت کے مطابق ووٹ دیا۔ میں واقعی نیوکلیائی معاہدے سے حکومت کی شدید رغبت کو نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ اُس نے عملاً باقی سب کام روک دیئے ہیں۔ یہی وقت تھا کہ افراطِ زر اور قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جاتیں جن سے عام شہریوں کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔ اس کے بجائے کانگریس نے بی جے پی کو پروپیگنڈا کا ایک شوشہ دے دیا ہے جسے وہ انتخابات کے موقع پر چاہے جب بھی ہوں استعمال کرے گی۔
سیکولر طاقتوں کے منقسم ہو جانے سے ملک کو درپیش خطرات سے بایاں محاذ بے خبر تو نہیں ہے۔ اُس نے نیو کلیائی ڈیل میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر لی۔ لیکن بی جے پی کی مدد سے کسی سیکولر حکومت کا ہٹایا جانا ترقی پسند طاقتوں کے لیے مہلک ہو گا۔ بائیں محاذ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگرچہ نیو کلیائی معاہدے کو روکنا ضروری ہے لیکن ہندوتوا نواز ہجوم کے ہاتھوں میں ملک کو نہ جانے دینا بھی یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سی پی ایم کے نمائندے نے کانگریس کی حمایت کر سکنے والی سماج وادی پارٹی نے یہ انتباہ دے کر مسلم کارڈ کھیلا ہے کہ اگر اس نے معاہدے پر دستخط کیے تو سماج وادی پارٹی کے مسلمان اُس سے دور ہو جائیں گے جسے امریکا نواز موقف تصور کیا جائے گا۔
وزیراعظم کے تازہ ترین بیان سے بائیں محاذ کی تسکین ہو جانی چاہیے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ جب نئی دہلی آئی اے ای اے اور نیو کلیائی آلات کے فراہم کاروں سے گفتگو کا دور مکمل کر لے گا تو وہ اسے پارلیمنٹ کے سامنے لائیں گے اور ایوان کی رائے پر عمل کریں گے۔ صرف اسی نکتے کو جاننے کی ضرورت ہے کہ اس معاہدے میں کوئی خفیہ دفعہ ہے یا نہیں۔ ایک بات جس کی طرف سے نئی دہلی کو چوکنّا رہنا چاہیے یہ ہے کہ امریکا کا سایہ ہماری خود مختاری پر نہ پڑنے پائے۔ اگر آئندہ کبھی ہمیں اپنی نیو کلیائی صلاحیت کی بہتری کے لیے مزید نیو کلیائی تجربے کرنے پڑیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ امریکیوں کو اس حالیہ معاہدے کے تحت بین الاقوامی پولیس کارکنان کی طرح اپنے ماہرین کو ہمارے پلانٹوں میں لا بٹھانے کا حق حاصل ہو گا۔ یہ صحیح ہے کہ نیو کلیائی معاہدہ ٹیکنالوجی میں کئی سہولتوں کی راہ کھولے گا جن کی شدید ضرورت ترقی پذیر ہندوستان کو ہے۔ لیکن ہم اپنی آزادی کا سودا نہیں کر سکتے۔ برطانیہ سے نجات پانے میں ہمیں ۱۵۰ سال لگے۔ ہمیں خود کو ایسی صورتحال میں ڈالنا نہیں چاہیے کہ کاغذ پر تو آزاد رہیں اور عملاً عراق کی طرح واشنگٹن کے تابع ہوں۔ جس انداز سے امریکا دبائو ڈال رہا ہے اور مختلف وزارتوں کے افسران کے کاموں میں مداخلت کر رہا ہے اس سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے سکون میں خلل ڈالنے کے لیے مضطرب ہے۔ہو سکتا ہے کہ نیو کلیائی معاہدے سے ایسے دھندوں کے لیے دروازے کھل جائیں جو نئی دہلی کی طرف سے ناگزیر طور پر دی جانے والی رعایتوں سے اربوں کا وارا نیارا کرنے کے لیے قائم ہیں۔
کاش کہ وزیراعظم ایک ذہین ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے ایسی پالیسیاں وضع کرنے میں اپنی بھرپور صلاحیت صرف کرتے جن سے پست سطح کے ۷۰ فیصد اُن افراد کی حالت میں بہتری آتی جو ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک ڈالر یومیہ پر گزر بسر کرتے ہیں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘۔ممبئی )
Leave a Reply