اکتوبر مہینے کی ویسے بھی جموں و کشمیر کی تاریخ میں خاصی اہمیت ہے اسی بناء پر غالباً سرینگر مظفر آباد راستے پر تجارت کی ابتداء کے لیے بھی اسی ماہ کو چُنا گیا، اکتوبر مہینے میں ہند کشمیر الحاق کی بنیاد پڑی جسے گزشتہ بیس برسوں کے دوران کشمیر میں ہڑتال کر کے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سال اکتوبر مہینے کے لیے ویسے ہی ریاستی انتظامیہ کو تیاریوں کا ایک گہرا سمندر پار کرنا تھا۔ کیونکہ اسے علیحدگی کی حامی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ۶/ اکتوبرکو لال چوک چلو پروگرام سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں کرنی تھیں۔ خود علیحدگی پسند جماعتیں اوران کے لیڈر بھی اس سلسلے میں کم سرگرم نہ تھے کہ لوگوں کی تیاریوں میں بھی اچانک اُبال آیا۔ وادی میں آبادی کا بڑا حصہ اس خدشہ میں مبتلا ہے کہ عیدالفطر کے بعد یعنی ۶ اکتوبر کے موقع پروادی میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ ہو گی۔ لوگوں کے خدشات بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ پچھلے ماہ حکام کی طرف کرفیو کے نام پر نافذ کرائے گئے مارشل لاء سے بھی بدتر پابندیوں نے جس طرح لوگوں کا کچومر نکال دیا اس سے وادی کے لوگ اب چھانچھ بھی پھونک پھونک کر پینے لگے ہیں۔ گھروں میں اشیاء ضروریہ اسٹاک کرنے کی بات ہو یا شادی بیاہ اور اجتماعی پروگراموں کی ترتیب کا معاملہ ۶ اکتوبر کا خیال رکھنے سے کوئی نہیں چوکتا، بہار سے رنگ سازی کا کام کرنے کشمیر آئے محمد سرور کو بھی خدشہ ہے کہ عید کے بعد کشمیر میں حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ رمضان کے دوران ہی گھر کی طرف چل پڑا۔ یہ ایک سرور کی بات نہیں ہے بلکہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں غیرریاستی کاریگر، مزدور اور دیگر لوگ کشمیر سے واپس جا چکے ہیں۔ خدشات کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کے لال بازار علاقے میں ایک گھرانے میں عین عید کے روز شادی انجام دی جا رہی ہے۔ گھر والوں کو بھی حالات بدتر ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا اس امید کے ساتھ کہ کم از کم عید کے دن امن قائم ہے انہوں نے اسی دن کو شادی کے لیے چُن لیا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ عید کے دن شادی کی تقریب تاریخ کی پہلی ایسی شادی ہو گی جو خود عید کے روز انجام دی جائے گی۔ ۶ اکتوبر کے حوالے سے شہر میں مزید سینکڑوں شادیاں متاثر ہو گئیں۔
حالات خراب رُخ اختیار کریں یا نہ کریں علیحدگی پسند جماعتیں لال چوک چلو پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر حکام اپنی تیاریوں سے چُوک نہیں سکتے ہیں۔ تیاریوں کے اسی طوفان میں ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے نیویارک میں اعلان کیا کہ سرینگر مظفر آباد راستے سے تجارت کی شروعات ۲۱ اکتوبر ۲۰۰۸ء سے ہوں گی۔ کیونکہ دونوں حکومتوں نے اس سلسلے میں فیصلہ ۲۲ ستمبر کو نئی دہلی میں لیا تھا جہاں مجوزہ تجارت کے سبھی پہلوئوں پر غور و خوض کر کے معاملات طے کر لیے گئے تھے اور حتمی تاریخ کا اعلان دونوں ممالک کے سربراہان پر چھوڑا گیا تھا جن کا چند دن بعد اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے دوران نیویارک میں ملاقات کا پروگرام تھا۔ گو کہ ریاستی گورنر نے س سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ کنٹرول لائن کے آر پار تجارت ۱۴ اکتوبر سے شروع کی جائے گی البتہ حتمی تاریخ نیویارک سے ہو کر آئی۔ کنٹرول لائن کو تجارتی مقاصد کے لیے کھول دینا وادی میں لوگوں کی ایک اہم مانگ تھی گو کہ مفتی محمد سعید کی قیادت والی پی ڈی پی بھی روزِ اول سے شاہراہ کو آمدورفت کے لیے کھولنے کی حامی تھی تاہم سیاسی بازار میں اس نعرے کی غیرمعمولی قیمت کو بھانپ کر دیگر ہند نواز جماعتیں بھی اس نعرے میں شامل ہو گئیں جن میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس بھی شامل ہے۔ رہی سہی کسر جموں والوں کی اقتصادی ناکہ بندی نے پوری کی جب جموں والوں نے امرناتھ ایجی ٹیشن کے نام پر اہل وادی کا دانہ پانی بند کر دیا تو کشمیر کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور مظفر آباد کی طرف جانے والے راستے کو تجارتی مقاصد کے لیے کھولنے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آئے۔ سرکاری فورسز نے کافی انسانی خون بہایا اور بالآخر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں نے اس سلسلے میں فیصلہ لینے میں جلدی کی اور تجارت شروع کرنے کی تاریخ بھی متعین کر دی۔
ہندوستان اور پاکستان کے اس اعلان پر وادی کشمیر میں مجموعی طور پر حوصلہ افزا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ہند نواز اور ہند مخالف سبھی سیاسی قوتوں نے اسے ایک اچھے قدم سے تعبیر کرتے ہوئے البتہ اس ضرورت کو اجاگر کیا کہ آر پار تجارت بامقصد اور پابندیوں سے مبرّا ہو۔ ہم نے کوشش کی کہ اس سلسلے میں مختلف نظریات رکھنے والے سیاستدانوں کے علاوہ تجارت سے منسلک اداروں و انجمنوں کے نمائندگان سے بھی بات کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ مجموعی طور پر اس غیرمعمولی قدم کے بارے میں کشمیر میں کیا رائے پائی جاتی ہے۔ حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق نے اس کو اچھے قدم سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کشمیر کے لوگوں کی اقتصادی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے۔ جمعتہ الوداع کے موقع پر سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں یوم قدس یوم کشمیر کے سلسلے میں لاکھوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میر واعظ نے کہاکہ سیاسی آزادی کے لیے اقتصادی آزادی شرفِ اولین ہے اور سرینگر مظفر آباد راستے کو تجارت کے لیے کھولنا اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ البتہ میر واعظ نے مطالبہ کیا کہ جس طرح کشمیر دیگر صوبوں (بھارت کے) کے ساتھ تجارت کرتا ہے اسی طرح پاکستانی کشمیر کے ساتھ بھی تجارت آزاد اور کسی بھی بندش سے آزاد ہونا چاہیے۔ ورنہ راستہ کھولنا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ انہوں نے سرینگر مظفر آباد راستے کو متبادل راستے کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ یہ کشمیریوں کے لیے مستقل راستہ ہو۔ انہوں نے اجتماع سے کہاکہ جموں کے بلوائیوں کی طرف سے وادی کی حالیہ ناکہ بندی سے ہر کشمیری کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے خود کفالت حاصل کرنے اور سبھی فطری راستے کھولنے کے لیے عظیم قربانیاں دیں۔ میر واعظ نے من موہن زرداری اعلان کو ان ہی قربانیوں کا ثمرہ بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ کشمیر کے لوگوں کی اصل منزل حق خود ارادیت ہے جس کے حصول کے لیے وہ برسرِ پیکار ہیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان دونوں کو خبردار کیا کہ وہ اپنے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کتنی ہی تگ و دو کریں لیکن اصل ترقی امن کے بغیر ناممکن ہے اور برصغیر میں تنازعہ کشمیر حل کیے بغیر امن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ تجارت شروع کرنے کے اعلان کو کشمیری عوام کی فتح قرار دیتے ہوئے سابق مرکزی وزیر داخلہ اور پی ڈی پی سرپرست مفتی محمد سعید نے کہا کہ لوگوں کی قربانیاں اور زبردست عوامی احتجاج رنگ لایا اور بھارت و پاکستان کی حکومتیں سرینگر مظفر آباد اور پونچھ راولا کوٹ راستوں کے ذریعے کنٹرول لائن کے آر پار تجارت شروع کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ مفتی نے بتایا کہ ۲۱ اکتوبر کا دن کشمیر کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی دن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی آواز اس قدر منظم اور مضبوط تھی کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں کو اس کے آگے سرنگوں ہونا پڑا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سرینگر مظفر آباد اور پونچھ راولا کوٹ راستوں کے احیاء نو سے دیگر فطری راستوں کو کھلا چھوڑنے کی راہ ہموار ہو گی۔ جن میں کارگل، اسکردو، سچیت گڑھ، سیالکوٹ اور لیہہ مانسر و تبت راستے شامل ہیں۔ انہوں نے مرکز پر زور دیا کہ وہ کنٹرول لائن کے آر پار آمدورفت و تجارت کو محض رسمی یا دکھاوے کی کارروائی نہ بننے دے بلکہ اسے لوگوں کی توقعات کے عین مطابق با عمل اور بامعنی بنانا ہو گا۔ سعید نے کہا کہ لوگوں کے آپس میں ملنے اور آپسی کاروبار کے فروغ سے بھارت پاکستان تعلقات مزید مضبوط ہو جائیں گے اور اسے مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کا راستہ بھی آسان ہو گا کیونکہ ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ کشمیریوں کی آواز کو برصغیر کی حکومتوں نے پذیرائی عطا کی ہے۔
اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے حریت کانفرنس (گ) کے صدر نشین سید علی گیلانی نے کہا کہ کشمیر کے لوگ ساٹھ سال سے جو لڑائی لڑ رہے ہیں وہ حق خود ارادیت کے حصول کی لڑائی ہے کوئی راستہ کھولنے یا بند کرنے کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مہینے کا مظفر آباد چلو مارچ جموں کی سنگھرش سمیتی کی طرف سے وادی کی اقتصادی ناکہ بندی کا ایک ردعمل تھا۔ جس کی وجہ سے مظفرآباد راستے کو تجارت کے لیے کھولنا ہماری مانگوں میں شامل ہو گیا۔ البتہ گیلانی نے صاف کہا کہ تجارت تب با مقصد ثابت ہو گی جب یہ پابندیوں اور بندشوں سے آزاد ہو۔ انہوں نے علامتی تجارت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تجارت ایسی ہوں جس سے کشمیر کے لوگوں کو فائدہ ہو۔ جہلم ویلی روڈ (سرینگر مظفر آباد شاہراہ کا دوسرا نام) ہمارا فطری راستہ ہے اور ہمیں اس روایتی راستے سے آنے جانے کا حق ہے۔ گیلانی نے بتایا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ راستے کھولنے سے لوگوں کی حق خود ارادیت کے حصول کی آواز کو کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک (ہند و پاک) کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنا کر جوں کی توں پوزیشن برقرار رکھنا چاہتے ہیں جس کی ہم کبھی بھی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے صدر اورر سابق مرکزی وزیر مملکت برائے کامرس عمر عبداللہ نے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے البتہ خدشہ جتلایا کہ کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کا حشر بھی آر پار بس سروس کا سا نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تجارت کو محض چند اشیاء کے تبادلے تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ سرینگر مظفر آباد راستہ کھولنا علیحدگی پسندوں کی ایک مانگ تھی۔ لیکن اس اعلان سے وہ ہر گز مطمئن نہیں ہوں گے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی بار حل کر لیاجائے تاکہ برصغیر میں مستقل امن قائم کیا جا سکے انہوں نے کہاکہ اقتصادی ناکہ بندی کے لیے کشمیر کے لوگوں کو جموں کی سنگھرش سمیتی کا مشکور رہنا چاہیے۔ ’’سنگھرش سمیتی نے معاشی ناکہ بندی کر کے کشمیر کے لوگوں کو اس حد تک احتجاج پر اکسایا کہ بھارت پاک حکومتوں کو تجارت شروع کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ کیونکہ کشمیر کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ ہمیشہ کے لیے جموں پر منحصر نہیں رہ سکتے ہیں‘‘۔ نوجوان عمر نے بتایا انہوں نے کہا کہ تجارت کی شروعات سے کنٹرول لائن بے معنی رہ جائے گی اور ماضی کی طرح کشمیر کے تاجروں کو اپنی مصنوعات راولپنڈی اور دیگر شہروں میں فروخت کرنے کا موقع میسر ہو گا۔ ریاستی کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر عبدالغنی وکیل کو ہند و پاک کے اس اعلان میں دونوں ممالک کی وہ سنجیدگی نظر آ رہی ہے جو وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے علیحدگی کے حامی لیڈروں پر زور دیا کہ اس اعلان کے بعد اپنی ایجی ٹیشن ختم کر کے نئی دہلی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک ہو جائیں۔ کیونکہ سرینگر مظفر آباد راستہ تجارت کے لیے کھولنا ان (علیحدگی پسندوں) کا ایک بڑا مطالبہ تھا جسے تسلیم کر لیا گیا ہے ایسے میں بقول وکیل محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کانگریس کی سیاسی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی کا اس سلسلے میں تاہم قدرے مختلف نظریہ ہے۔ پارٹی اس فیصلے کو ہندوستان کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے ایک خطرہ قرار دینے لگی ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر اشوک کھجوریہ نے کہا کہ وہ کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ بقول اس کے ہندوستان کی یکجہتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے ریاستی لیڈر یوسف تاریگامی نے اس فیصلے کو بڑی شروعات سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو صحیح تناظر میں اپنانے اور وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے البتہ خبردار کیا کہ آر پار تجارت علامتی نہ ہو بلکہ اسے اس طرح وسیع کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست کے سبھی باشندے اس سے مستفید ہوں۔
وادی کی تاجر برادری قبل از وقت یہ اعلان کر چکی ہے کہ مظفر آباد کے ذریعے تجارت کے حوالے سے کارڈی نیشن کمیٹی جو بھی فیصلے لے گی تاجرانِ وادی اس پر کاربند رہیں گے۔ ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ کارڈی نیشن کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں ہند پاک کے ۲۱ اکتوبر سے تجارت شروع کرنے کے اعلان پر غور و خوض کیا جائے گا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے مختلف نظریات اور خیالات رکھنے والے سیاست دانوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ سرینگر مظفر آباد روڈ پر تجارت جو بھی ہو وہ آزاد اور پابندیوں سے مبرا ہو۔ حریت کانفرنس اس سے قبل یہاں تک کہہ چکی تھی کہ اگر اس راستے پر ہونے والی تجارت پر سفر ہی کی طرح بندشیں اور قدغنیں لگائی گئیں تو وہ اس تجارت کو تسلیم ہی نہیں کریں گے۔ یہی بات کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے بھی کہی۔ ڈاکٹر موصوف چاہتے ہیںکہ کاروبار پوری طرح آزاد اور پابندیوں سے پرے ہونا چاہیے تب ہی وہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں جن کو سامنے رکھ کر راستہ کھولنے کا مطالبہ کیا گیا اور جس کے لیے کشمیر میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے قربانیاں دیں۔ انہوں نے سرینگر مظفر آباد روڈ کو مستقل شاہراہ بنائے جانے کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سرینگر جموں شاہراہ سردیوں کے ایام میں اکثر و بیشتر بند رہتی ہے جس سے وادی کے لوگ گونا گوں مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اس پر طرہ یہ کہ فرقہ پرست قوتوں نے اقتصادی ناکہ بندی کو کشمیری عوام کے خلاف ایک تازہ ترین ہتھیار کے طور دریافت اور استعمال کیا۔ اس بناء پر مظفر آباد روڈ کی ضرورت اور اہمیت کافی زیادہ بڑھ گئی۔ ڈاکٹر مبین نے کہا انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تجارت کے تعلق سے مختلف امور طے کرنے کے لیے جموں و کشمیر اور پاکستانی کشمیر کے چیمبرز کو ملنے دیا جائے تاکہ معاملات پوری طرح اور صاف صاف طے ہوں۔ انہوں نے مرکزی او ر ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ دونوں طرف کے چیمبرز کا رابطہ ممکن بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن کے صدر نشین محمد صادق کا کہنا ہے کہ یہ راستہ کھولنا کشمیری تاجروں کی دیرینہ مانگ تھی۔ اب جب کہ راستہ کاروبار کے لیے کھول دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے فیڈریشن چاہتی ہے کہ شاہراہ کے ذریعہ فری ٹریڈ ہونی چاہیے اور کم از کم روز مرہ زندگی کی ضروری اشیاء کی درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ باقاعدہ تجارت سے قبل آر پار کے تاجروں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے، مارکیٹ سروے کرنے، درآمد اور برآمد کی جانے والی چیزوں کی مانگ اور قیمت کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کابھرپور موقع دیا جانا چاہیے۔ مسٹر محمد صادق کے مطابق ایسی بنیادی ضروریات کا خیال رکھے بغیر جو تجارت شروع کی جائے گی اس کے بہت زیادہ فوائد نہیں ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تجارت کی باضابطہ شروعات سے قبل تاجروں کی ملاقاتوں کا بھرپور دفاع کیا۔ تجارت شروع کرنے کے حوالے سے دکھائی گئی تیزی کو وادی کے فروٹ گروسرز ایک اچھی کوشش مانتے ہیں مگر وہ راستے کو لگاتار کھلا رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ فروٹ گروسرز کے ایک نمائندے حاجی بشیر احمد نے بتایا کہ کشمیر کے میوہ کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں سرحد کے اس پار لے جانے کی اجازت دی جانی چاہیے اور اس سے قبل وادی کے میوہ تاجروں کو اس پار مارکیٹ کا جائزہ لینے کی غرض سے پاکستانی کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ فیڈریشن آف چیمبر آف انڈسٹریز کشمیر کے صدر سید شکیل قلندر کا خیال ہے کہ تجارت کی باقاعدہ شروعات سے قبل دونوں طرف کے تاجروں کو آر پار آنے جانے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کم از کم دونوں طرف سے خرید و فروخت کرنے والوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام سرکار سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے تاجر برادری کو ہی آگے کرنا ہو گا۔ سید قلندر نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ اس شاہراہ پر تجارت کی نوعیت کیسی رہے گی ان کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ سرکار کس حد تک کاروبار کو آزادانہ رکھتی ہے اور ریاست کے تاجروں کو کتنی آزادی کے ساتھ آنے جانے کی سہولیات بہم پہنچاتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۵ اکتوبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply