
بین الاقوامی سرحدیں کبھی بھی منصفانہ نہیں ہوتیں۔ لیکن ناانصافی کی وہ سطح جس کے وہ لوگ شکار ہوتے ہیں جنہیں یہ سرحدیں یا تو اکٹھا کرتی ہیں یا جدا عظیم فرق کی موجب ہوتی ہے اور یہ فرق اکثر آزادی اور ظلم‘ تحمل اور زیادتی‘ قانون کی حکمرانی اور دہشت گردی یا امن اور جنگ کے درمیان بھی فرق خیال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے من مانہ اور مسخ شدہ سرحدیں افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کی ہیں۔ یہ سرحدیں اپنے مفادات کو ترجیح دینے والے یورپیوں نے کھینچی ہیں‘ جنہیں خود اپنی سرحدوں کے تعین میں بے شمار دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی سرحدیں لاکھوں مقامی باشندوں کی موت کو للکارنے کا اب بھی سبب بنی ہوئی ہیں۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ کی غیرمنصفانہ سرحدیں چرچل کے الفاظ میں مقامی طور پر ہضم ہو جانے والی مشکلات سے کہیں زیادہ مشکلات کو جنم دینے کا سبب ہیں۔ ناکارہ سرحدوں کے علاوہ بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے شمار مسائل ہیں۔ یہ مسائل ثقافتی جمود و شرمناک عدم مساوات سے لے کر بھیانک قسم کی مذہبی انتہا پسند تک وسیع ہیں۔ خطے کی وسیع الاطراف ناکامی کو سمجھنے میں عظیم ترین مانع اسلام نہیں ہے بلکہ وہ خوفناک اور مقدس بین الاقوامی سرحدیں ہیں‘ جن کی پرستش خود ہمارے اپنے سفارت کاروں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یقیناً سرحدوں کا کوئی بھی حل‘ خواہ وہ کتنا ہی جبر پر مبنی ہو‘ مشرقِ وسطیٰ کی ہر ایک اقلیت کو خوش نہیں کر سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں لسانی اور مذہبی گروہ باہم شیر و شکر ہوتے ہیں اور آپس میں شادیاں بھی کی ہوتی ہیں۔ بعض دوسری صورت میں خون یا عقیدے پر مبنی تجدیدِ اتحاد اپنے آپ کو اس طرح سے مسرت انگیز ثابت نہیں کر پاتے ہیں‘ جس طرح اس کے موجودہ حمایتی توقع کرتے ہیں۔ اس مضمون سے ملحقہ نقشوں میں جن سرحدوں کو دکھایا گیا ہے‘ وہ اُن غلطیوں کی تلافی کرتے ہیں جن کی شکار سب سے زیادہ اہم اور فریب زدہ آبادیاں ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً کرد‘ بلوچ اور عرب شیعہ‘ لیکن یہ سرحدیں پھر بھی مشرقِ وسطیٰ کی عیسائی‘ بہائی‘ اسمٰعیلی‘ نقش بندی اور دیگر اقلیتوں کو جو تعداد میں قدرے کم ہیں‘ مناسب انداز میں خاطر میں لانے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن ایک بارہا کھٹکنے والی غلطی جس کا زمینی انعام کے ذریعہ کبھی تدارک نہیں ہو سکتا ہے‘ وہ امریکیوں کے خلاف نسل کشی کا عمل ہے‘ جس کا ارتکاب دم توڑتی ہوئی سلطنتِ عثمانیہ نے کیا تھا۔
لیکن یہ تمام ناانصافیاں جن کے تصور کو یہ سرحدیں دوبارہ زندہ کرتی ہیں‘ توجہ سے یہاں محروم ہیں۔ اس طرح کی کسی عظیم سرحدی نظرثانی کے بغیر ہم کبھی بھی ایک قدرے پُرامن مشرقِ وسطیٰ کا مشاہدہ نہیں کر سکیں گے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو سرحدوں کی تبدیلی کے موضوع سے نفرت کرتے ہیں‘ ان کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ ایسی مشق میں مصروف ہوں‘ جن کا مقصد Bosporous اور Indus کے مابین واقع قومی سرحدوں میں ایک قدرے منصفانہ اگرچہ پھر بھی نامکمل ترمیم کے بارے میں سوچنا ہو‘ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ریاست کو چلانے کا جو بین الاقوامی طریقہ ہے‘ اس نے سرحدوں کے غلط تعین کے مسئلے کے حل کے لیے کبھی بھی کوئی موثر آلہ ایجاد نہیں کیا جو جنگ کے بغیر ہو۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ کی ’’نامیاتی‘‘ سرحدوں کی ذہنی گرفت اُن دشواریوں کی وسعت کو سمجھنے میں مدد دے گی‘ جن سے ہم دوچار ہیں اور آئندہ بھی دوچار ہوتے رہیں گے۔ ہمارا سامنا انسان کی اپنی پیدا کردہ مسخ شدگیوں سے ہے جو نفرت کے پنپنے اور تشدد کے جنم لینے کے سلسلے کو روکنے سے قاصر ہیں‘ تاآنکہ انہیں درست نہ کر لیا جائے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ناقابلِ تصور کو تصور کرنے سے انکاری ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ سرحدوں کو ہرگز تبدیل نہیں ہونا چاہیے‘ تو اُن کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں اس یاد دہانی کی قیمت ادا کرنی ہو گی کہ صدیوں سے سرحدوں میں تبدیلی کا سلسلہ جاری ہے اور یہ کبھی بھی نہیں رکا ہے۔ سرحدیں کبھی بھی جامد نہیں رہی ہیں اور بیشتر سرحدیں کونگو‘ کوسوو سے قفقاز تک بدلتی رہی ہیں‘ حتیٰ کہ اب بھی بدل رہی ہیں (جیسا کہ سفراء اور خصوصی نمائندے اس چیز کے مطالعے سے آنکھیں چراتے ہیں جو اچھی طرح روشن ہے)۔ ہاں! تاریخ کا ایک چھوٹا سا ناگوار راز جو ۵ ہزار برس سے چلا آرہا ہے‘ یہ ہے کہ نسلی خاتمہ (Ethnic cleansing) اس میں موثر ہے۔ سرحد کے مسئلے سے آغاز کرنا امریکی قاریوں کے نزدیک بہت حساس مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل کو اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن میں زندگی گزارنے کی کوئی بھی امید اس امر سے وابستہ ہے کہ اسے ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں پر واپس جانا ہو گا‘ ایک لازمی مفاہمت کے ساتھ تاکہ تحفظ کی جائز خواہش کے حوالے سے اس کی تشویش دور ہو۔ لیکن یروشلم کے اطراف کی زمینوں کا مسئلہ ہماری اپنی زندگیوں سے ماوراء بھی لاینحل ہی دکھائی دیتا ہے۔ یروشلم وہ شہر ہے جو ہزارہا سال سے خون میں لت پت چلا آرہا ہے اور جہاں تمام پارٹیوں نے اپنے خدا کو ریئل اسٹیٹ کے کاروباری میں تبدیل کر دیا ہے۔ ٹھیٹ معنی میں زمینی جنگیں ایسی مضبوطی کی حامل رہی ہیں کہ محض تیل کی دولت کی لالچ یا لسانی محاذ آرائیاں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ اس بہت زیادہ مطالعہ شدہ مسئلۂ واحد کو ایک طرف رکھیں اور ان کی جانب توجہ منعطف کریں جنہیں دانستہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ ایک بہت ہی نمایاں ترین ظلم جو بدمعاشی کی حد تک غیرمنصفانہ ہے‘ وہ بلقان کی پہاڑیوں اور ہمالیہ کے درمیان وارد ہوا اور وہ ہے ایک آزاد کرد ریاست کی عدم موجودگی کا مسئلہ۔ ۲۷ سے ۳۶ ملین کے درمیان کردوں کی تعداد ہے جو مشرقِ وسطیٰ اور اس کے قرب و جوار میں رہتے ہیں (بالکل متعین تعداد اس لیے نامعلوم ہے کہ کسی بھی ریاست نے دیانتداری کے ساتھ ان کی رائے شماری کرانے کی اجازت نہیں دی)۔ ان کی مجموعی تعداد عراق کی آبادی سے زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ اس سے کم تر تعداد کی صورت میں کرد دنیا کے سب سے بڑے نسلی گروہ قرار پاتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ہر اس حکومت نے کردوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہے‘ جس کا ان پہاڑوں اور پہاڑیوں پر قبضہ رہا ہے‘ جن میں کہ ان کردوں کا زینوفون کے وقت سے بسیرا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے سقوطِ بغداد کے بعد اس ظلم کی تلافی کا ایک پُرافتخار موقع کھو دیا۔ Frankenstein کے جن کی مانند‘ غیرہم آہنگ اجزا کو مربوط کرنے کے بجائے عراق کو فوراً تین چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دینا چاہیے تھا۔ ہم بزدلی اور بصیرت کے فقدان کی وجہ سے ناکام ہو گئے اور ہم نے زور زبردستی سے کردوں کو عراقی حکومت کی حمایت پر مجبور کیا‘ جس کو انہوں نے بے دلی سے قبول کیا‘ اس احسان کے بدلے جو ہم نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن اگر ایک آزاد استصوابِ رائے کا موقع دیا جاتا تو غلطی کا کوئی امکان نہ تھا۔ تقریباً صد فی صد عراقی ووٹ آزادی کے حق میں پڑتے۔ یہی کچھ طویل عرصے سے مصائب کے شکار ترکی کے کرد بھی کرتے‘ جنہوں نے برس ہا برس سے پُرتشدد فوجی مظالم برداشت کیے ہیں اور جنہیں سالہا سال سے ’’پہاڑی ترک‘‘ جیسی کم تر حیثیت سے دوچار رکھا گیا ہے تاکہ ان کی شناخت کو ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ گذشتہ دہائی میں ترکی کے ہاتھوں کردوں کی زبوں حالی میں کسی حد تک کمی آئی ہے لیکن حال ہی میں کردوں پر سختیوں کا سلسلہ پھر سے تیز کر دیا گیا ہے اور ترکی کے مشرقی دریا کو ایک مقبوضہ سرزمین کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ جہاں تک شام اور ایران کے کردوں کا معاملہ ہے تو وہ بھی ایک آزاد کردستان کے قیام کی جانب دوڑیں گے‘ اگر وہ ایسا کر سکے۔ دنیا کی قانونی جمہوریتوں کی جانب سے کردوں کی آزادی کے معاملے کو بطور حقوقِ انسانی لینے سے انکار‘ ایک ایسی چوک ہے جو جان بوجھ کر کیے جانے والے چھوٹے موٹے بھونڈے گناہ سے بھی بدتر ہے جو معمولاً ہمارے میڈیا کے جوش و خروش کا موجب بنتے ہیں۔
جملۂ معترضہ کے طور پر کہہ لینے دیجیے کہ ایک آزاد کردستان‘ جس کی وسعت دریائے بکر اور فرات پر محیط ہو‘ بلغاریہ اور جاپان کے درمیان مغرب کی بہترین ہم نوا ریاست ثابت ہو گا۔ خطے میں ایک منصفانہ اتحاد عراق کے تین سنّی اکثریتی صوبوں کو ایک کَٹی پِٹی ریاست کی حالت میں چھوڑے گا جو اسے بالآخر شام کے ساتھ اتحاد پر آمادہ کر سکتا ہے جو بحیرۂ روم سے ملحقہ عظیم تر لبنان سے محروم ہو چکا ہے۔ پرانے عراق کا شیعہ جنوب ایک شیعہ عرب ریاست کی بنیاد تشکیل دے گا جو خلیج فارس کے بیشتر علاقوں پر محیط ہو گی۔ اردن اپنی موجودہ سرزمین کو باقی رکھتے ہوئے جنوب کی جانب سعودی عرب کی کچھ زمینیں اپنے میں شامل کرے گا۔ سعودی عربیہ ایک غیرفطری ریاست ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو پاکستان کی مانند ایک عظیم شکست و ریخت سے دوچار کرے گا۔ مسلم دنیا میں ایک وسیع تر جمود کی اصل وجہ سعودی شاہی خاندان کا وہ رویہ ہے جو اس کا مکہ و مدینہ کو اپنی جاگیر سمجھنے سے عبارت ہے۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات ایک ایسی ریاست کے کنٹرول میں ہیں جو دنیا کی متعصب ترین اور ظالم ترین حکومتوں میں سے ایک ہے۔ اس حکومت کا تیل کے ایک بڑے محفوظ ذخیرے پر کنٹرول ہے۔ سعودی اپنے وہابی عقیدے کو جو عدم برداشت کا مظہر ہے‘ اپنی سرحدوں سے بہت دور دراز جگہوں تک پھیلانے میں کامیاب رہے ہیں۔ سعودی عرب کا دولت مند ہونا اور نتیجتاً بااثر ہونا‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے مجموعی طور سے مسلم دنیا میں رونما ہونے والا بدترین واقعہ ہے۔ اور (اگر فتح تاتار کے بعد سے نہیں تو) ظہورِ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد سے عربوں کو پیش آنے والا یہ بدترین واقعہ ہے۔
چونکہ غیرمسلم حضرات اسلام کے مقدس شہروں کے کنٹرول کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے ہیں‘ یہ سوچنا چاہیے کہ مسلم دنیا کے لیے یہ کتنا مفید رہے گا اگر مکہ و مدینہ کو دنیا کے اہم مسلم مکاتب اور تحاریک کے نمائندہ کونسل کے حوالے کرتے ہوئے اسے ایک آزاد مقدس ریاست کی شکل دی جائے یعنی ایک طرح کے مسلمانوں کے ویٹیکن سٹی کے طور پر جہاں مستقبل کے عظیم عقائدی نہج کے حوالے سے بحث ہو گی نہ کہ صرف حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ حقیقی انصاف جسے ہم پسند نہیں کریں گے‘ سعودی عرب کے ساحلی آئل فیلڈز کو بھی شیعہ عربوں کے حوالے کر دے گا جو اس خطے میں آباد ہیں جبکہ جنوب مشرقی کا چوتھائی یمن کو چلا جائے گا اور پھر سعودی عرب ریاض کے گرد و پیش کی غیراہم زمینوں پر مبنی ایک آزاد وطن رہ جائے گا۔ اس طرح سعودی عرب میں اسلام اور دنیا کے تئیں فساد کو فروغ دینے کی اہلیت بہت کم رہ جائے گی۔ ایران اپنی خطرناک سرحدوں کے ساتھ اپنی سرزمین کا بڑا حصہ متحدہ آذربائیجان‘ آزاد کردستان‘ عرب شیعہ ریاست اور آزاد بلوچستان کے حق میں چھوڑنے پر مجبور ہو گا لیکن آج کے افغانستان میں ہرات کے گرد و پیش کے صوبوں کو وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جو کہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں تاریخی و لسانی اعتبار سے فارسی کے لیے جاذبیت و کشش ہے۔ ایران عملاً ایک بار پھر لسانی فارسی ریاست ہو جائے گا‘ اس مشکل سوال کے ساتھ کہ آیا اسے بندر عباس بندرگاہ اپنے پاس رکھنا چاہیے یا اسے عرب شیعہ ریاست کے حوالے کر دینا چاہیے۔ افغانستان اپنے مغربی علاقے جو ایران کو دے گا‘ اس کی تلافی وہ پاکستان کے شمال مغربی صوبۂ سرحد کو اپنے میں ملا کر کرے گا‘ جہاں اس کے اپنے پٹھان بھائی ہیں۔ (اس مشق کا مقصد اپنی مرضی کے مطابق نقشہ تیار کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ مقامی آبادی کس نقشے کو ترجیح دے گی)۔ پاکستان جو کہ ایک دوسری غیرفطری ریاست ہے‘ اپنی بلوچ سرزمین کو بھی آزاد بلوچستان کے حوالے کر دے گا۔ بقیہ فطری پاکستان دریائے سندھ کے مشرق میں کلی طور سے واقع رہ جائے گا‘ بجز کراچی سے قریب مغرب کی جانب کے علاقے کے۔ متحدہ عرب امارات کی شہری ریاستوں کا انجام ملا جلا ہو گا‘ ممکن ہے یہ جوں کی توں رہ جائیں‘ ممکن ہے کچھ عرب شیعہ ریاست میں شامل کر لی جائیں جو بیشتر خلیجِ فارس کے اطراف کے علاقوں پر مشتمل ہو گی۔ (یہ شیعہ ریاست ایران کی حلیف ریاست کے بجائے اس کی مدمقابل ریاست کے طور پر ابھرے گی)۔ جبکہ سخت مذہبی اخلاقیات کی حامل تمام ثقافتیں منافقانہ روش رکھتی ہیں لہٰذا دبئی کی ضرورت ہے کہ وہ امیر کبیر عیش پرستوں کے لیے عشرت کدہ کی اپنی حیثیت کو باقی رکھے۔ کویت اپنی موجودہ سرحدوں میں اسی طرح برقرار رہے گا‘ جس طرح کہ عمان۔ ہر ایک معاملے میں سرحدوں کا یہ نیا فرضی نقشہ لسانی کشش اور مذہبی تعصب کا آئینہ دار ہے۔ بعض معاملے میں تو یقیناً دونوں ہی کا مظہر ہے۔ اگر ہم کوئی جادو کی چھڑی گھما کر زیرِ بحث سرحدوں کو تبدیل کر سکتے تو حتماً ہم اسے ترجیحی بنیادوں پر کرتے۔ پھر بھی یہاں نمایاں کیا گیا موجودہ نقشہ کے مقابلے میں جو ترمیم شدہ نقشہ ہے‘ اس سے بعض عظیم غلطیوں کا تو کچھ احساس ہو ہی جاتا ہے‘ سرحدیں جنہیں فرانسیسی اور انگریزی حاکموں نے بیسویں صدی میں کھینچی ہیں‘ ایک ایسے خطے میں کھینچی ہیں‘ جو ۱۹ویں صدی کی ذلت اور شکست سے نکلنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا تھا۔ عوام کے ارادے کے مطابق سرحدوں کی اصلاح ممکن ہے ایک ناممکن کام ہو لیکن اس وقت صورتحال کے پیشِ نظر اور ناگزیر خونریزی کی موجودگی کے پیشِ نظر نئی اور فطری سرحدیں مشخص ہو کر سامنے آئیں گی۔ بابل (عراق) کا سقوط ایک بار سے زیادہ عمل میں آچکا ہے۔ دریں اثنا ہمارے مرد اور ہماری عورتیں جو وردی میں ہیں وہ سلامتی و تحفظ کی خاطر دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گی‘ جمہوریت کے قیام کے لیے اور تیل فراہمی تک رسائی کے لیے اور وہ بھی ایک ایسے خطے میں جس کا مقدر خود اپنے آپ سے جنگ کرنا ہے۔ موجودہ انسانی تقسیم اور انقرہ و کراچی کے مابین جبری اتحاد جس میں خطے کے خود ساختہ مصائب کو بھی شامل کر لیا گیا‘ مذہبی انتہا پسندی کو پنپنے کے لیے ایک مکمل زمینہ تشکیل دیتے ہیں۔ الزام تراشی اور دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کی ثقافت تو کوئی بھی تشکیل دے سکتا ہے۔ جہاں مرد اور عورتیں اپنی سرحدوں پر پشیمانی کے ساتھ نظر ڈالیں تو ایسی صورت میں پُرجوش طریقے سے دشمنوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردوں کی فراواں پیداوار سے لے کر توانائی کی کم تر فراہمی تک مشرقِ وسطیٰ کی تازہ مسخ شدگیاں ایک بدترین صورتحال کی جانب اشارہ کرتی ہیں‘ نہ کہ بہتر صورتحال کی جانب۔ ایک ایسے خطے میں جہاں صرف قوم پرستی کے بدترین پہلو ہمیشہ کارفرما رہے ہیں اور جہاں مذہب کے سب سے گھٹیا پہلو مایوس زدہ عقیدے پر غلبہ حاصل کرنے کی تاک میں ہوں‘ وہاں امریکا اس کے اتحادی اور سب سے بڑھ کر ہماری آرمڈ فورسز لامتناہی بحران کا ہی سامنے کرتے رہیں گے۔ اگرچہ عراق امید کی ایک برعکس صورتحال پیش کر سکتا ہے اس صورتحال میں کہ ہم یہاں سے قبل از وقت فرار نہ ہوں لیکن اس عظیم خطے کا بقیہ حصہ تقریباً ہر محاذ پر روز افزوں بگڑتی ہوئی صورتحال کا مظہر ہے۔ اگر عظیم تر مشرقِ وسطیٰ کی سرحدیں اس طرح ترمیم نہیں ہوتی ہیں کہ خون اور عقیدے کے مابین ایک فطری تعلق کو منعکس کر سکیں تو ہم اسے عقیدے کی ایک شق کے طور پر لے سکتے ہیں کہ اس خطے میں ہونے والی خونریزی میں ہمارا اپنا ایک حصہ بھی شامل رہے گا۔
ملکوں کی مجوزہ تقسیمِ نو میں کون پاتا ہے‘ کون گنواتا ہے:
نئے علاقے پانے والے یا بالکل نئے ممالک:
افغانستان‘ عرب شیعہ ریاست‘ آرمینیا‘ آذربائیجان‘ آزاد بلوچستان‘ آزاد کردستان‘ ایران اسلامی مقدس ریاست‘ اردن‘ لبنان‘ یمن۔
علاقے گنوانے والے ممالک:
افغانستان‘ ایران‘ عراق‘ اسرائیل‘ کویت‘ پاکستان‘ قطر‘ سعودی عرب‘ شام‘ ترکی‘ متحدہ عرب امارات‘ مغربی کنارہ۔
(“Armed Forces Journal” Pentagon, Washington)
Leave a Reply