امر واقعہ یہ ہے کہ مارکیٹ اکانومی کا استحکام اور نج کاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف اور غریب پروری کا اہتمام ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔
نیو آرلینس (New Orleans) کے حالیہ طوفان (Katrina) نے سرمایہ دارانہ معیشت کے اس المناک پہلو کو کس طرح واشگاف کیا ہے۔ اس کے ذکر سے پرنٹ میڈیا اور TV بھرے پڑے ہیں۔ ان کا تفصیلی اعادہ ان سطروں میں کرنا غیرضروری ہے۔ البتہ چند سبق آموز پہلوئوں کی طرف اشارہ عبرت آموز ہو گا۔ پہلی اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے امریکا میں نج کاری اور لبرلائزیشن (Liberalisation) کو غیرمعمولی حکومتی تائید حاصل ہوئی ہے‘ جن کے عواقب کے طور پر غریب امریکی جمہور قدرتی حوادث کے مقابلہ میں برابر غیرمحفوظ ہوتے جارہے ہیں۔ نیو آرلینس کے متاثرین کی ۷۵ سے لے کر ۸۰ فیصد تک تعداد غریب امریکیوں کی تھی‘ ان کی داستانِ ہلاکت درحقیقت سسٹم کی غفلت‘ ایڈمنسٹریشن کی نااہلی‘ مارکیٹ اکانومی کے تابع ماحولیات کی تباہی و بربادی کی کہانی رہی ہے۔ اس ہریکین کے حادثہ نے لرزہ خیز افلاس‘ گندگی اور تعفن پر سے پردے اٹھائے ہیں۔ جو تیسری دنیا کے غریب ترین ممالک کے لیے بھی باعثِ شرم ہو سکتے ہیں۔ کیٹرینا (Katrina) کے طوفان نے ایسے بند اور حصاروں میں جو نیوآرلینس (New Orleans) کے شہر کے لیے حفاظت کا کام کرتے تھے‘ سیکڑوں میٹر کے شگاف ڈال دیے۔ اب بھی بچ جانے والوں کے لیے نہایت ہی قلیل تعداد میں غذا اور پانی سپلائی کیا جارہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر گئے اور ہزاروں ہی کی تعداد میں لوگوں کے جسم اتنی تیزی سے سڑ رہے ہیں کہ ان کا تعین بھی مشکل ہے۔ اس میں سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کی آگاہی ایک یا دو سال پہلے دی جاچکی تھی۔ لیکن امریکی حکومت نے یہ بہانہ بنا کر اپنا دامن جھاڑ لیا کہ اس کے پاس بجٹ میں پیسے نہیں ہیں۔ مزید برآں کہ ۲۰۰۴ء میں فیڈرل حکومت نے بند اور حصار کی مرمت اور استحکام کے لیے رقم فراہم کرنی بند کر دی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ماحولیات کا تحفظ بجٹ میں کٹوتی کے لیے سب سے آسان ٹارگیٹ (Target) بن جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ نیوآرلینس کے ارد گرد تری کے ان علاقوں سے جو سیلاب سے تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ پانی نکال لیا گیا اور ان پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں۔ صدر بش نے دو دن کے بعد اپنی چھٹی منسوخ کر کے نیوآرلینس (New Orleans) پر پرواز کی‘ لیکن جب انہوں نے زمینی سروے کیا تو سب سے زیادہ دور متاثرہ علاقے سے ر ہی رہے۔ ہر مرحلے اور ہر درجے کے افسران نے بہت سست رفتاری سے اس تباہ کاری کا جائزہ لیا۔ حالانکہ سینیٹر ایڈورڈ کینڈی جیسے شخص نے جب ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش میں طوفانی سیلاب آیا تھا تو گھنٹوں تک کیچڑ میں سے گزرتے ہوئے ان رفیوجی کیمپس کو دیکھا تھا‘ جو انڈیا بنگلہ دیش کی ہندوستانی سرحد پر واقع تھے۔ وہ لوئزیانا ٹی وی(Louisiana T.V.) پر یہ تلقین کرتے نظر آئے کہ آپ لوگ پیٹرول زیادہ استعمال نہ کریں۔ پناہ گزینوں کی حالتِ زار کی خرابی سرکاری امداد کی کمی اور غیرمعمولی تاخیر کے سبب بدتر ہوئی ہے۔ ہزاروں پناہ گزیں ابتدائی دنوں میں اسپورٹ اسٹیڈیم اور کنونشن سنٹر میں گھاس پھونس کی طرح ٹھونس دیے گئے۔ امریکا جیسے ملک میں لوٹ مار‘ خودکشی کے واقعات کے علاوہ عصمت دری‘ زنابالجبر کے حادثات اتنے ہوئے کہ مقامی گورنر نے دیکھتے ہی گولی مار دینے (Shoot at Sight) کے احکام جاری کر دیے۔
اس شقاوت پر مبنی تمام حکومتی ردِعمل کی بنیاد وہ سیاسی نظام ہے جس کے نزدیک سرمایہ داروں کی فلاح و بہبود زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ ٹیکساس (Texas) اسٹیٹ کے سیاستداں جس میں ایک لاکھ پناہ گزینوں نے پناہ لی تھی‘ یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھے گئے کہ وہ پناہ گزینوں کو نہیں سنبھال سکتے‘ جب تک کہ واشنگٹن سے ان کو مالی مدد نہ ملے۔ ٹیکساس (Texas) وہ اسٹیٹ ہے جو تیل کی دولت میں غرق ہے۔ نج کاری کی پالیسی کے تحت اس ریاست میں پبلک سروسز تقریباً معدوم ہیں۔ اس اسٹیٹ کا سائز یورپ کے تو تہائی کے برابر ہے۔ مگر اس کی مکمل آبادی صرف بائیس ملین ہے۔ سرمایہ دارانہ شقاوت قلبی کا ایک مظاہرہ یہ بھی ہے کہ ٹیکساس گورنمنٹ نے اب تک لوئزیانا کو کسی امداد کی پیشکش نہیں کی ہے۔ جب کہ وینوزیلا کے صدر نے ایک ملین ڈالر کی مدد ریڈ کراس کو دی ہے اور کیوبا کے صدر نے جو کمیونسٹ ہیں‘ ایک بلین ڈالر عطیہ دیا‘ تھوڑا تھوڑا کر کے اس طوفان کی تباہ کاریاں ظاہر ہو رہی ہیں۔ لوئزیانا خود ناقابلِ حساب تباہ کاری کا شکار ہوا ہے۔ پڑوسی اسٹیٹ میوسیپی کی جس میں امریکا کے غریب ترین باشندے رہتے ہیں‘ سیاحت (Tourism) کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس تباہ کاری کے شکار بیشتر امریکا کے غریب رہے ہیں‘ جن کی صدیوں سے امریکا کی سیاست میں کوئی آواز نہیں رہی ہے۔ لوئزیانا اسٹیٹ میں سیلاب کا پانی ایک عظیم الشان کھلے ہوئے گندے نالے کی شکل اختیار کر گیا ہے‘ جس میں امراض‘ گھڑیال‘ سانپ‘ شارکس اب بھی گھوم رہے ہیں۔ (بحوالہ ڈاکٹر سیوا راما کرشنن‘ لیکچر ان پالیٹکس ٹون ٹون کالج‘ سائوتھینسٹل یو کے‘ The Hindu-7/9/2005)۔ غیرمعمولی تاخیر کے بعد صدر بش نے امریکی کانگریس سے کئی بلین ڈالر کی گرانٹ کی درخواست کی جس کی مثال مریض کی ہلاکت کے بعد طبی امداد سے دی جاسکتی ہے۔
اسی طرح اس نئے نظریاتی اور سیاسی رجحان کا خمیارہ حال میں حریکین کے افلاس زدہ انسان کو بھگتنا پڑا۔ شکاگو کے میئر کی رپورٹ کے بموجب Ussbataan جس میں چھ عدد آپریشن کے کمرے تھے۔ سیکڑوں ہاسپٹل کے بیڈ تھے اور جس کے اندر ایک ہزار لیٹر پانی سپلائی کرنے کی استعداد موجود تھی‘ اس آفت زدہ خطہ میں بے نیاز رہے۔ ’’نیوزویک‘‘ کی رپورٹ کے بموجب اس کے شکار بیشتر فیڈرل گورنمنٹ کے آفیسر تھے۔ اس لیے کہ Right رجحان رکھنے والی جماعتیں امریکا میں پچیس سال میں سرکاری زمرے اور حکومتی اقدام کی افادیت کا استحفاف کرتی رہی ہیں‘ جس کی مثال ایئرپورٹ سکیورٹی کے انتظامات کو نجی زمروں میں دینے کی ان کوششوں سے دی جاسکتی ہے‘ جو ۱۱/۹ کے بعد بھی جاری رہیں۔ سب سے زیادہ بری حالت فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (FEMA) کی ہوئی ہے۔ FEMA وہ ایجنسی ہے جس کے ذمہ قدرتی آفات سے تحفظ کا انتظام تھا۔ FEMA کو کچھ برسوں قبل داخلی سکیورٹی کے ڈپارٹمنٹ کے تحت کر دیا گیا‘ جس کا کام ہے دہشت گردی سے حفاظت کرنا۔ FEMA کی استعداد کو کم کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرتربیت یافتہ اور ناتجربہ کار لوگ اس کے ذمہ دار ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ایجنسی اس ہلاکت خیز طوفان کے دوران نااہل اور ناکارہ ثابت ہوئی۔ یہ اور اسی طرح کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جو اس نظریاتی رجحان کی غماز ہیں‘ جس کے تحت نجی سرمایہ کاری کو غیرمعمولی اہمیت دی جارہی ہے اور حکومت کی پبلک خدمات کو غیرموثر اور مضر قرار دیا جارہا ہے۔ (نیویارک ٹائمز‘ بیورو سروس)۔
یہی وہ رجحان ہے جس کو پوری قوت کے ساتھ تیسری دنیا کے سارے ممالک میں اقتصادی قوت کے بل بوتے پر کبھی ترغیب و تحریص سے کبھی اصلاح کے نام پر رواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مارکیٹ اکانومی پر مبنی نظامِ معیشت کی قساوت قلبی‘ منافع کی حرص‘ جانوروں تک وسیع ہو گئی ہے۔ اس کی دو اہم عبرتناک مثالیںدی جاسکتی ہیں۔ ایک مثال Kenticky Fried Chicken Farms سے دی جاسکتی ہے جس میں مرغ پالے جاتے ہیں اور اس طرح پالے جاتے ہیں کہ ان کے پر نوچ دیے جاتے ہیں۔ ان کی چونچوں کو توڑ ڈالا جاتا ہے۔ وہ دیواروں اور فرش پر پٹخے جاتے ہیں‘ ان کی آنکھوں اور منہ میں تمباکو تھوک دیا جاتا ہے۔ ان کے چہروں پر پینٹ کیا جاتا ہے اور ان کو موٹا اور تندرست بنانے کے لیے ایسی کوششیں کی جاتی ہیں کہ وہ اپنے آرگن کے بیکار ہو جانے کی وجہ سے مر بھی جاتے ہیں انہیں جس فارم میں رکھا جاتا ہے وہاں ان کے کھڑے ہونے کی جگہ بھی کافی نہیں ہوتی۔ ان کے اعضا میں شکست اور بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر فرائیڈ چکن سپلائی کیے جائیں۔ یہ سب زیادتیاں امریکا میں ہی نہیں ہوتی ہیں‘ انگلینڈ کے چکن فارموں میں بھی ہوتی ہیں‘ جرمنی اور کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی ہوتی ہیں اور اب انڈیا میں پونہ کے فارم میں بھی ہورہی ہیں۔
(Konsumer, Feb. 2005 Vol.35 No.9 Organ of Consumer Association of Penang)
اس کی عبرتناک مثال چند برس قبل انگلینڈ میں Mad Cow کے حادثہ سے دی جاسکتی ہے۔ گائے کو فربہ بنانے کے لیے جو چارہ (Feed) استعمال کیا جاتا تھا‘ اس سے یہ بیماری پھیلتی تھی۔ چنانچہ لاکھوں کی تعداد میں گایوں کو ختم کر دیا گیا۔
مارکیٹ کی منافع خوری کا رجحان سرمایہ کاری کی ایک عبرتناک مثال یہ ہے کہ دوائیں پیدا کرنے والی عظیم کمپنیاں (Pharmaceuticals) اغنیا اور امرا کے امراض پر اپنے سرمایہ کاری کا بیشتر حصہ صرف کرتی ہیں۔ مثلاً موٹاپا‘ قلب کی بیماریاں۔ انگلینڈ کی ہیلتھ پروٹکس ایجنسی کے صدر ڈیوڈ روڈلس (David Rhodls) کے بیان کے بموجب دوائوں کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ نفع کمانے کے لیے نفع‘ کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کے لیے مارکیٹ میں ایسی دوائوں کا سیلاب آیا ہوا جو امرا کی لاحق بیماریوں میں کام آسکتی ہیں۔ مثلاً ہائی بلڈ پریشر‘ موٹاپا‘ امراضِ قلب وغیرہ۔ جہاں تک غریبوں کے امراض مثلاً‘ کینسر‘ دق‘ ملیریا‘ پانی کے ذریعہ لائی گئی بیماریاں جو غریب ممالک میں پائی جاتی ہیں‘ ان پر ریسرچ بھی کم ہو رہی ہے اور دوائیں بھی کم ہیں۔ مثال کے طور پر افریقہ اور ایشیا کے افلاس زدہ ممالک (Hindu 13/09/2005)۔
یہ چند عبرتناک مثالیں سرمایہ دارانہ معیشت کی منافع خور ذہنیت کی ہیں۔ مگر یہ مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی ذہنیت اور اس کے تحت متعدد اقدام ہیں جو معاشی اصلاح (Economic Reform) کے نام پر پوری دنیا میں امریکا اور اس کے حلیف سرمایہ دار ممالک فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یہ وہ تہذیب اور ثقافت ہے جس پر ناز کیا جاتا ہے۔ اس تہذیب کو عالم کاری کے بہانے جاری کرنے کے منصوبے زیرِ عمل لائے جاتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ منصوبہ بندی جمہوری تقاصوں کی عین ضد ہے۔ یہ عوام کے جمہوری حقوق اور حکومتوں کی اساسی ذمہ داریوں سے دست کش ہونے کی تہذیب ہے‘ جس میں صرف سامانِ عیش و راحت ہی نہیں بلکہ غریبوں اور افلاس زدہ انسانوں کو روزی‘ روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ علاج اور تعلیم کے تمام انتظامات کو نجی زمرے کے حوالے کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
اس نج کاری اور عالم کاری کا شکار مسلم ممالک اور مسلم تہذیب اس کی حامل دنیا بھی ہو رہی ہے‘ جس کو پسماندگی اور ضعفِ معیشت کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ عالم کاری کی ظاہری چمک دمک (Glamour) کا سحر اتنا مستحکم و قوی ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے وزیراعظم منموہن سنگھ بھی اس سے متاثر ہیں۔ انہوں نے UNO کی حالیہ تقریر میں اس کے گن گائے۔ اس طرح کے تحسین اور تعریف میں بدقسمتی سے سرمایہ کاری کا صرف ایک رخ سامنے رکھا جاتا ہے اور یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ غیرملکی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کتنے کمزور ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے مساوات اور عدل و انصاف کا کس طرح تیا پانچہ ہو جاتا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply