بھارت میں شادی کے بدلتے تیور

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو ٹیکنالوجی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ مہارت آتی جارہی ہے اور دوسری طرف مالی حیثیت بھی بہتر ہوتی جارہی ہے۔ ممبئی اور دوسرے بڑے شہروں میں اب معاملات یوں بدلے ہیں کہ ذات پات کا فرق بھی مٹتا جارہا ہے اور آپس میں شادیاں عام ہوچلی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملات ذات پات کا فرق مٹنے تک محدود نہیں رہے۔ اب مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں بھی شادی عام ہوتی جارہی ہے۔ فلموں اور ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جاتا رہا ہے وہ اب کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے یعنی یہ کہ ماں باپ نے شادی طے کردی یا ذات کے فرق پر ہنگامہ کھڑا کردیا۔ بھارت کے عوام میں اب آزادی کی لہر دوڑ چکی ہے۔ بیشتر افراد اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں وہ ذات پات اور مذہب سمیت ہر چیز کے فرق کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں شادی ایک اہم ادارہ تصور کی جاتی ہے۔ بھارت میں شادی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بیشتر افراد کی زندگی میں شادی سب سے اہم ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کو بھرپور طور پر منائیں۔ یہی سبب ہے کہ شادی کے موقع پر گھر میں کئی دن ہلا گلا رہتا ہے۔ قیمتی تحائف دیے جاتے ہیں، طرح طرح کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی باشندے آج بھی شادی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اخبارات میں ضرورتِ رشتہ کے کالم بھرے ہوتے ہیں۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود اب بھارت میں شادی کے طور طریقوں کے حوالے سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جوش و خروش اپنی جگہ مگر بعض معاملات ایسے ہیں کہ دیکھ کر ذہن الجھ جاتا ہے۔

بھارت میں عام طور پر لڑکیوں کی شادیاں بیس سے پچیس سال تک کی عمر میں کردی جاتی ہیں۔ شادی کے بغیر اولاد کا تصور اب بھی ناپید سا ہے۔ شادی کے بغیر ساتھ رہنے اور بچے پیدا کرنے کو بھی معاشرے میں مجموعی طور پر حقارت ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ شادیاں صدیوں پرانے رسوم و رواج کے تحت ہی انجام پارہی ہیں۔ بڑے پیمانے پر جہیز دیا جاتا ہے۔ شادی کی تقریب کے لیے کھانے سمیت بہت سے امور کا اہتمام خاصی فیاضی سے کیا جاتا ہے۔ ہندوؤں میں ۹۵ فیصد تک شادیاں ذات، برادری کے اندر ہی طے کی جاتی ہیں۔ مگر بہرحال، شادی کے اطوار تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔

شادی ڈاٹ کام کے چیف ایگزیکٹیو گورو رکشت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ کل تک بیشتر گھرانوں میں کسی لڑکی یا لڑکے کا رشتہ اس کے والدین یا بڑے بھائی بہن تلاش کرتے تھے۔ اب بیشتر لڑکے اور لڑکیاں اپنے لیے جیون ساتھی کا انتخاب خود کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے اس سے خود ملنے اور تمام معاملات واضح کردینے میں کوئی قباحت نہیں۔ شادی کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیاں اپنے ممکن جیون ساتھی کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ اگر دوسروں کے ذریعے سب کچھ معلوم نہ ہوسکے تو وہ ممکنہ جیون ساتھی سے براہ راست بات کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شادی سے پہلے ہر طرح کا اطمینان کرلیں تاکہ بعد میں کوئی بڑی شکایت نہ ہو اور اس بات پر افسوس بھی نہ ہو کہ کچھ معلوم ہی نہیں کیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ والدین اور بڑے بھائی بہنوں کی رائے کی کوئی وقعت نہیں رہی مگر حقیقت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی رائے کو پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔ گھر والوں کی بات وہ ضرور سنتے ہیں مگر اپنی رائے کو نظر انداز ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔

شادی ڈاٹ کام پر رشتے کی تلاش کا کام ۷۳ فیصد لڑکے یا لڑکیاں خود کرتے ہیں۔ روزانہ ۱۲ تا ۱۵ ہزار نئے اندراج ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر اسمارٹ فون کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ اسمارٹ فونز کے ذریعے انٹرنیٹ اب بھارت کی نئی نسل پر بھی جادو کرچکا ہے۔ جیون ساتھی کی تلاش میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے وہ ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی ابہام ہو تو وہ ایس ایم ایس اور فون کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔

اگر شہری علاقوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کے حوالے سے جدید طریقوں کو اپنا رہے ہوں تو کوئی خاص بات نہیں، مگر معاملہ یہ ہے کہ اب اپنی شادی کے بارے میں خود فکرمند ہونے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ تعلیم کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی تعلیم کا گراف بلند ہوا ہے اور انٹرنیٹ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ تعلیم کا گراف بلند ہونے کے ساتھ ساتھ شادی سے متعلق تصورات بھی تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ صورت حال اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کہ ڈھلتی ہوئی عمر کی نسل بھی پریشان ہے۔ نئی نسل کے اطوار دیکھ کر ان کی تشویش بڑھتی جاتی ہے۔ شادی کے معاملے میں لڑکے اور لڑکی کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے مگر جب وہ دونوں اپنے اپنے بزرگوں کو اہمیت دینے ہی کے لیے تیار نہ ہوں تو تشویش کا بڑھنا فطری امر ہے۔

شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کو مقدم رکھنا محض خوشحال گھرانوں تک محدود نہیں۔ غریب بستیوں میں رہنے والے بھی چاہتے ہیں کہ شادی ان کی مرضی سے ہو۔ ممبئی میں دھاراوی بہت بڑی کچی بستی ہے۔ اس کے بیشتر نوجوان دیہات میں شادی کرتے ہیں یعنی لڑکی ان کے ساتھ رہنے شہر آتی ہے اور دھیرے دھیرے شہر کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ ایک مسلم نوجوان کا کہنا ہے کہ ممبئی کی لڑکیاں جانتی ہیں کہ ٹیکنالوجی سے کیسے نمٹنا ہے اور گاؤں سے آنے والی لڑکیاں جانتی ہیں کہ ساس سے کیسے نمٹنا ہے عام طور پر وہ شہر کے ماحول کو ذرا دیر سے سمجھ پاتی ہیں اور ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لیتی ہیں۔

ممبئی اور دوسرے بہت سے بڑے شہروں میں ذات پات اب بھی بہت اہم سمجھی جاتی ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اعلیٰ تعلیم اور بہتر روزگار کی بدولت یہ بندھن بھی ٹوٹتے جارہے ہیں۔ اب کوئی بھی لڑکی کسی کو جیون ساتھی بناتے وقت محض ذات پات نہیں دیکھتی بلکہ اس بات پر بھی غور کرتی ہے کہ لڑکا پڑھا لکھا کتنا ہے اور کتنا کمائے گا۔ اگر کمائی زیادہ ہو اور لڑکا تعلیم یافتہ ہو تو لڑکی کو ذات پات سے کچھ خاص غرض نہیں رہتی اور رفتہ رفتہ اس کے والدین بھی یہ فرق نظر انداز کردیتے ہیں۔ بہت سے لڑکے اور لڑکیاں تعلیم پانے کے بعد ذات پات کے فرق پر زیادہ یقین رکھتے دکھائی نہیں دیتے۔

مشہور ماہر عمرانیات دپنکر گپتا کہتے ہیں کہ ذات پات کی بنیاد پر فرق کرنے کی ذہنیت دم توڑتی جارہی ہے کیونکہ اس وقت ایک تہائی بھارتی باشندے شہروں اور قصبوں میں رہتے ہیں۔ اور دیہات میں رہنے والوں کا معاشی مفاد بھی شہروں سے جڑا ہوا ہے۔ ذات پات کے نظام کو شمالی بھارت اور دیگر حصوں کے دیہات میں سرپنچ اور مکھیا وغیرہ سختی سے نافذ رکھا کرتے تھے۔ اب ان کا زور بھی ٹوٹتا جارہا ہے۔ لڑکے کی خاطر لڑکیوں کو رحمِ مادر ہی میں مروا ڈالنے کا رجحان ایسا پروان چڑھا کہ اب ہر طرف لڑکے دکھائی دیتے ہیں اور لڑکیاں کم پڑتی جارہی ہیں۔ ایسے میں کروڑوں نوجوانوں کو جیون ساتھی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ بحران دیکھ کر گاؤں کے مکھیا اور سرپنچ وغیرہ بھی ذات پات کے معاملات کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کرنے لگے ہیں۔

معاشرتی سطح پر بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ کچھ کا کچھ ہوتا جارہا ہے۔ ٹی وی پر رنگا رنگ ڈرامے، میوزیکل شو اور کامیڈی شو دیکھ کر لوگوں کی سوچ بہت بدل گئی ہے۔ غریب گھرانوں کو بھی ٹیلی ویژن کی بدولت بہت کچھ دیکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ان کی سوچ پر بھی بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔

بہت بڑی تبدیلی کی راہ میں ایک حقیقت دیوار بنی کھڑی ہے۔ معروف دانشور سونل ڈیسائی کہتی ہیں کہ بیشتر والدین اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بیٹوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بہو ایسی ہو جو کھانا پکانا بھی جانتی ہو اور معمر افراد کا خیال رکھنے کا رجحان بھی رکھتی ہو۔ بیٹے کے لیے بیوی کے انتخاب کا معاملہ ماں باپ اپنے ہاتھ میں اس لیے رکھنا چاہتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہے کہ انہیں بیٹے کے ساتھ ساتھ بہو کے ساتھ بھی زندگی بسر کرنی ہے۔ اگر لڑکی ان کی پسند کی ہوگی تو زیادہ آسانی رہے گی، وہ خیال بھی رکھے گی اور اچھا کھلائے گی بھی۔

۲۰۱۲ء میں نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ اور امریکا کی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے مشترکہ سروے سے معلوم ہوا کہ ۶۰ سال سے زائد عمر کی ۷۷ فیصد سے زائد خواتین اب بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ چند برس پہلے یہ تناسب ۸۴ فیصد تک تھا۔ مگر خیر، اب بھی بھارتی معاشرہ بہت حد تک قدامت پسند ہے اور والدین شادی شدہ اولاد کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس میں ان کے لیے معاشی تحفظ بھی ہے اور سماجی تحفظ بھی۔ ممبئی اور دیگر بڑے شہروں میں املاک کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں چھوٹے مکانات اور فلیٹ بھی بہت مہنگے پڑتے ہیں۔ یہ حقیقت بہت کچھ تبدیل کر رہی ہے۔ والدین کے لیے بھی شادی شدہ اولاد کے ساتھ رہنا اب انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔

مغربی دنیا میں شادی بہت مختلف ہے مگر خیر بھارتی معاشرے میں بھی اب بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ڈیٹنگ کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ روایات برقرار ہیں مگر ان میں کمزوری پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ بھارتی معاشرہ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا اور موجودہ ڈگر پر گامزن رہے گا۔

“Marriage in India: Love conquer caste”.
(“The Economist”. Sept. 5, 2015)

1 Comment

  1. I really admire Indian youth and their drama writers, they’re very creative but one thing is alarming that they’re leading their nation to false traditions like girls dating boys and sometimes one than one at a time or married people are involved with others spouses……….it can never be a good thing……Indian media must keep west in mind ……today many of them don’t even know wether they are legal children of their parents or not. I wish Indians refuse to accept themselves what the media is trying to make routine thing in their life and is not really ROUTINE.

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*