مریخ کا دو طرفہ سفر ۹۰ دن میں مکمل کیا جاسکے گا!

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ناسا کے فنڈ سے کام کرنے والے محققین‘ خلائی جہاز کو چلانے کا نیا طریقہ وضع کر رہے ہیں‘ جس سے مریخ تک پہنچنے اور واپس آنے کے لیے ۱۵ کروڑ ۴۰ لاکھ کلو میٹر کے سفر کا دورانیہ ڈھائی سال سے کم کر کے ۹۰ دن کیا جاسکے گا۔ یہ بات یونیورسٹی کے ایک پریس ریلیز میں بتائی گئی ہے۔

یونیورسٹی کے زمین اور خلا سے متعلق علوم کے پروفیسر رابرٹ ونگلی نے‘ جو اس منصوبے کے سربراہ ہیں‘ کہا ہے کہ مقناطیسی پلازمہ شعاع کی مدد سے‘ جسے میگ بیم (mag-beam) کہا جاتا ہے‘ خلائی جہاز چلانے سے نظامِ شمسی کے دور دراز حصوں تک جلد رسائی معمول کی بات بن جائے گی۔

میگ بیم نظریے کے تحت‘ خلا میں قائم کیا جانے والا ایک اسٹیشن انتہائی گرم گیس (پلازمہ) کی مقناطیسی شعاع پیدا کرے گا جو نظامِ شمسی میں خلائی جہاز کو ۷ء۱۱ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلائے گی۔ اس طرح یہ سفر ۸۴۳‘۴۱ کلو میٹر فی گھنٹہ یا ۱۰ لاکھ کلو میٹر سے زیادہ یومیہ طے کیا جاسکے گا۔

خلائی جہاز کو انتہائی تیز رفتاری سے چلانے کے اس تصور کو قابلِ عمل بنانے کے لیے سفر کے آخر میں پلیٹ فارم پر ایک اور پلازمہ یونٹ قائم کیا جائے گا تاکہ خلائی جہاز کو روکا جاسکے۔ ونگلی کے مجوزہ یونٹ‘ ان خلائی مشنوں کے ذریعے‘ جن کی منصوبہ بندی ناسا پہلے ہی کر چکا ہے‘ نظامِ شمسی کے گرد قائم کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’میگ بیم کا آزمائشی مشن‘ مسلسل مالی امداد سے پانچ سال میں شروع کیا جاسکے گا‘‘۔ میگ بیم ان ۱۲ تجاویز میں شامل ہے جن کے لیے جدید تصورات سے متعلق ناسا کے ادارے کی جانب سے اکتوبر میں امداد کی فراہمی شروع ہوئی ہے۔

ان میں سے ہر تجویز کے قابلِ عمل ہونے کا چھ ماہ میں جائزہ لینے اور تجویز پر عمل درآمد کے سلسلے میں درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ۷۵‘۷۵ ہزار ڈالر کی رقم فراہم کی جارہی ہے۔ جو منصوبے کامیابی سے آگے بڑھیں گے ان کے لیے دو سال کی مدت میں ۰۰۰‘۴۰۰ ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی جائے گی۔

خلائی جہاز چلانے کے جدید تصورات کے بارے میں معلومات نیچے دی گئی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں:

http://www.ess.washington.edu/Space/propulsion.html

پریس ریلیز کا متن درج ذیل ہے:

خلائی جہاز چلانے کے جدید تصورات سے مریخ تک جانے اور آنے کا سفر ۹۰ دن میں طے کیا جاسکے گا۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں خلائی جہاز چلانے کے نئے طریقے وضع کیے جارہے ہیں جن سے خلابازوں کے لیے مریخ تک جانے اور وہاں سے واپس آنے کے وقت میں ڈرامائی کمی کی جاسکے گی اور خلا میں انسان کی مستقل موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔

یونیورسٹی کے زمین اور خلا سے متعلق علوم کے پروفیسر رابرٹ ونگلی نے‘ جو اس منصوبے کے سربراہ بھی ہیں‘ کہا ہے کہ مقناطیسی پلازمہ شعاع کی مدد سے‘ جسے میگ بیم (mag-beam) کہا جاتا ہے‘ خلائی جہاز چلانے سے نظامِ شمسی کے دور دراز حصوں تک جلد رسائی معمول کی بات بن جائے گی۔

فی الوقت‘ روایتی ٹیکنالوجی کے استعمال اور سورج کے گرد زمین اور مریخ کے مداروں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے بعد خلابازوں کو مریخ تک پہنچنے‘ وہاں سائنسی تجربات کرنے اور واپس آنے میں تقریباً ڈھائی سال لگیں گے۔

ونگلی نے کہا ’’ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مریخ تک جانے اور آنے کا سفر ۹۰ دن میں طے ہو۔ ہمارا فلسفہ ہے کہ اگر اس سفر پر ڈھائی سال لگے تو مشن کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے‘‘۔

میگ بیم‘ ان ۱۲ تجاویز میں شامل ہے جن کے لیے ناسا کے جدید تصورات سے متعلق ادارے کی جانب امداد کی فراہمی اسی مہینے سے شروع ہو گئی ہے۔ ان میں سے ہر تجویز کے قابلِ عمل ہونے کا چھ ماہ میں جائزہ لینے اور تجویز پر عملدرآمد کے سلسلے میں درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ۷۵‘۷۵ ہزار ڈالر کی رقم فراہم کی جارہی ہے‘ جو منصوبے کامیابی سے آگے بڑھیں گے ان کے لیے دو سال کی مدت میں ۰۰۰‘۴۰۰ ڈالر سے زیادہ کی رقم فراہم کی جائے گی۔

میگ بیم تصور کے تحت‘ خلا میں قائم کیا جانے والا ایک اسٹیشن‘ مقناطیسی آئنز (Ions) کی ایک دھار پیدا کرے گا جو جہاز کے مقناطیسی آلے سے عمل کرتے ہوئے اسے انتہائی تیز رفتاری سے نظامِ شمسی میں اڑائے گی۔ پلازمہ شعاع کے سائز میں اضافے سے خلائی جہاز کی رفتار بڑھے گی۔ ونگلی کے مطابق ۳۲ میٹر قطر کی ایک کنٹرول نوزل سے پیدا ہونے والی پلازمہ شعاع خلائی جہاز کو ۷ء۱۱ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلا سکے گی۔ اسی طرح جہاز ۰۰‘۲۶ میل فی گھنٹہ یا ۰۰۰‘۶۲۵ میل سے زائد یومیہ سفر طے کر سکے گا۔

مریخ‘ زمین سے اوسطاً ۴ کروڑ ۸۰ لاکھ میل کی دوری پر واقع ہے۔ اس فاصلے میں خاصا فرق ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ دونوں سیارے سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں کہاں ہیں۔ ۰۰۰‘۶۲۵ میل یومیہ کی رفتار سے سفر کرنے والا خلائی جہاز‘ مریخ تک مذکورہ بالا فاصلہ ۷۶ سے زیادہ دن میں طے کرے گا۔ تاہم ونگلی‘ اس سے زیادہ رفتار کے طریقوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ جانے اور آنے کا سفر تین ماہ میں مکمل کیا جاسکے۔ اس تصور کو قابلِ عمل بنانے کے لیے سفر کے آخر میں پلیٹ فارم پر ایک اور پلازمہ یونٹ قائم کیا جائے گا تاکہ خلائی جہاز کو روکا جاسکے۔

انہوں نے کہا ’’خلائی جہاز کو چلانے کے لیے اس پر بڑے پروپلشن یونٹوں کے بجائے کم وزن کے یونٹ ہونے چاہییں‘‘۔

ونگلی کے مجوزہ یونٹ‘ ان خلائی مشنوں کے ذریعے‘ جن کی منصوبہ بندی ناسا پہلے ہی کر چکا ہے‘ نظامِ شمسی کے گرد قائم کیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان سے ایک یونٹ عطارد کے تحقیقی مشن کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور مشن مکمل ہونے کے بعد یہ یونٹ خلا میں ہی چھوڑا جائے گا۔ نظامِ شمسی سے دوری پر قائم کیے جانے والے یونٹ پلازمہ شعاع پیدا کرنے کے لیے ایٹمی توانائی استعمال کریں گے جبکہ سورج کے قریب قائم کیے جانے والے یونٹ‘ شمسی پینلز (Panels) سے پیدا ہونے والی بجلی استعمال کریں گے۔

میگ بیم کا تصور‘ اس سے پہلے کی جانے والی ایک کوشش سے پیدا ہوا جس میں ونگلی نے منی میگنیٹو سفیرک پلازمہ پروپلشن (mini-magnetospheric plasma propulsion) نظام پر کام کیا۔ اس نظام میں خلائی جہاز کے گرد پلازمہ کا بلبلہ پیدا کیا جائے گا اور اسے شمسی ذرات کی قوت سے چلایا جائے گا۔ میگ بیم تصور میں اس قوت پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا‘ اس کی جگہ پلازمہ شعاع استعمال کی جائے گی جس کی قوت اور سمت کو کنٹرول کیا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ میگ بیم کا آزمائشی مشن‘ مسلسل مالی امداد سے پانچ سال میں شروع کیا جاسکے گا۔ یہ منصوبہ‘ سی ایٹل کے گرینڈ ہی ایٹ (Hyatt) ہوٹل میں منگل اور بدھ کو ناسا کے جدید تصورات سے متعلق ادارے کے چھٹے سالانہ اجلاس کے موضوعات میں شامل ہو گا۔ اجلاس میں عام لوگ آزادانہ طور پر شرکت کر سکتے ہیں اور یہ داخلہ مفت ہو گا۔ ونگلی نے یہ بات تسلیم کی کہ نظامِ شمسی کے گرد اسٹیشن قائم کرنے کے لیے ابتدا میں اس منصوبے پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے لیکن اسٹیشن قائم ہونے کے بعد ان کے توانائی کے ذرائع سے غیر معینہ مدت تک پلازمہ پیدا کیا جاسکے گا۔ اس نظام سے خلائی جہاز پر آنے والی لاگت لامحالہ کم ہو گی کیونکہ ہر جہاز کو اپنے پروپلشن نظام ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ خلائی جہاز‘ پلازمہ اسٹیشن کے زور دار دھکے سے انتہائی سرعت کے ساتھ فضا میں بلند ہوں گے اور انتہائی تیز رفتاری سے پرواز کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچیں گے‘ جہاں ایک اور پلازمہ اسٹیشن کی رفتار کم کر کے انہیں روک دے گا۔

ونگلی نے کہا ’’اس سے انسان کو خلا میں مستقل طور پر موجود رہنے کی سہولت میسر آئے گی اور یہی ہماری کوشش ہے‘‘۔

خلائی جہاز کو چلانے کے جدید تصورات کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں:

http://www.ess.washington.edu/Space/propulsion.html

(بحوالہ: ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبہ تعلقاتِ عامہ۔ اسلام آباد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*