
سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلادیش، میرے لیے ایک حساس اور جذباتی معاملہ ہے۔ میرے بچپن کے بہت خوبصورت مہ و سال، وہاں گزرے ہیں۔ ڈھاکا مجھے اپنے وجود کا حصہ لگتا ہے۔ ڈھاکا میرا رُومانس تھا اور ہے۔
مشرقی پاکستان کے آخری دنوں میں، کراچی آجانے کے بعد، دوبارہ وہاں نہ جاسکا۔ مگر دل کا ایک حصہ وہیں اٹکا رہا۔ اُس وقت کے ’’سیکنڈ کیپیٹل‘‘ اور ’’ایوب نگر‘‘ (حالیہ شیرِ بنگلا نگر) کہلانے والے علاقے میں واقع، فیڈرل گورنمنٹ اسکول میں زیرِ تعلیم تھا۔ اپنا وہ اسکول اور محمد پور و میرپور کے علاقے، بیت المکرم مسجد، نیومارکیٹ اور صدر گھاٹ وغیرہ کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تم نے بنگلا دیش دیکھا ہے تو جواب دیتا ہوں کہ نہیں، بلکہ مشرقی پاکستان دیکھا ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد وہاں کبھی نہیں گیا۔
سابق مشرقی پاکستان، اور اب بنگلادیش کے پَے در پَے سانحات پر میری زبان گُنگ ہوجاتی ہے۔ کسی کو پُرسہ دینے کو جی چاہتا ہے اور نہ کسی سے گفتگو کرنے کو۔ ہر سانحہ کے بعد چند روز خاموش رہتا ہوں۔ بس لوگوں کا اضطراب اور بے قراریاں دیکھتا، پڑھتا اور خود بھی بے چین رہتا ہوں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ غم کی اِن گھڑیوں میں کیا بات کروں۔ میں لوگوں کو پُرسہ دوں، یا وہ مجھے۔ WhatsApp پر احباب کے تحریری تاثرات بھی پڑھتا رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کس سے کیا کہوں۔
البتہ چند باتیں میرے دل و دماغ میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے، آج آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
پہلی یہ کہ دوسروں کی تائید و حمایت، کسی کے ساتھ آنے، یا ساتھ دینے اور دُنیوی صِلہ و ستائش کی امیدوں سے بے نیاز و بے پروا ہوئے بغیر، حق و صداقت کی راہ پر قدم رکھنا۔۔۔ اور جمائے رکھنا ممکن ہی نہیں، اور شاید مناسب بھی نہیں۔
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق!
نہ جانے کیوں مجھے مسلم بن عقیل کے وہ دو چھوٹے، یتیم اور معصوم فرزند بار بار یاد آتے ہیں جن پر کوفہ کے سبھی در بند تھے، اور جب ایک دروازہ کُھلا تو وہ مقتل تک لے گیا۔
دوسری عرض یہ ہے کہ میرے والدِ مرحوم کے ایک شاعر اور صحافی دوست تھے، شاہد کامرانی مرحوم۔ ریڈیو پاکستان ڈھاکا اور پھر پی ٹی وی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کے بارے میں کہا تھا:
اے درد کے آہُو! کبھی اِس پار نہ آنا
اِس خطّۂ سرسبز کے سینے میں ہے دَلدل!
لیکن مجھے تو نظر، یہ آرہا ہے کہ بنگلادیش بڑی تیزی سے ’’بھارت وَرش‘‘ کی دَلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ اگر وہ سِکِّم کی طرح ایک بھارتی ریاست نہ بھی بنا، تب بھی بھوٹان سے زیادہ اس کا کوئی مقام نہ ہوگا۔
لاکھوں انسانوں کا ’’خوں بہا‘‘۔۔ بھارتی دَلدل کی قید!
یہ ہے مشرقی بنگال کے مسلمانوں کا مقدر!!
انا للہ وانا الیہ راجعون!!!
تیسری گزارش یہ ہے کہ پچھلے دنوں کسی نے ’’پاکستان میڈیا اینڈ لائرز‘‘ کے ایک پرانے مظاہرہ کی کِلپ بھیجی ہے، جس میں شیخ حسینہ سے ایوارڈ لینے والے چند مشہور ’’پاکستانی‘‘ چہرے ’’جینو سائیڈ پر معافی‘‘ (Sorry for Genocide) کا بینر لیے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس طرح کی ’’وسیع القلبی‘‘، ’’فراخ دلی‘‘ اور ’’دوستانہ اقدام‘‘ کے پیچھے، باہر کے پیسوں سے تشکیل پایا ہوا مائنڈ سیٹ اور ادنیٰ مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔
میں پورے شرحِ صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ پاکستان نے، ۱۹۷۱ء میں، مشرقی پاکستان میں، کوئی ’’قتلِ عام‘‘ یا Genocide نہیں کیا۔ ’’جینو سائیڈ‘‘ کی بات کرنے والے یا تو ’’نادان‘‘ ہیں، یا ’’عیاری‘‘ اور ’’نمک حلالی‘‘ کر رہے ہیں۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء میں، پاکستان کو اپنی بقا و سلامتی کی چَومُکھی جنگ کا سامنا تھا۔ اس وقت اس کی افواج نے، اقوامِ متحدہ کی تسلیم شدہ سرحدوں کو پامال کرتی بھارتی افواج اور اُن کے ہراول دستہ (مسلح قاتلوں اور غنڈوں پر مشتمل) نام نہاد ’’مکتی باہینی‘‘ کا، بے سروسامانی کی حالت میں مقابلہ کیا۔
پہلے مرحلہ پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، غیربنگالیوں اور محبِ وطن بنگالیوں کا کھلا قتلِ عام ہوا۔
دوسرے مرحلہ پر، موسمِ برسات شروع ہوتے ہی، بھارتی حکمتِ عملی کے تحت، گوریلا جنگ شروع ہو گئی۔
تیسرے مرحلہ میں، ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء کو، بھارتی سَیناؤں نے مشرقی پاکستان کی مسلّمہ بین الاقوامی سرحد کو باقاعدہ پامال کر کے، ڈھاکا کی طرف مارچ شروع کر دیا۔
چوتھا مرحلہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کو شروع ہوا جب سقوطِ ڈھاکا ہو گیا۔ انسانوں کا خون، منہ کو لگی ’’مکتی باہینی‘‘ نے غیربنگالیوں اور محبِ وطن بنگالیوں کا، ایک بار پھر قتلِ عام شروع کیا، جو مہینوں جاری رہا۔ (میرے اپنے عزیز و اقارب اور جاننے والوں میں سے متعدد افراد شہداء میں شامل ہیں)۔
لگ بھگ پانچ لاکھ انسان (بچے، بوڑے، جوان، مَرد، عورتیں) ذبح کر دیے گئے۔ اس خون کا نہ کوئی وارث ہے، نہ مدعی۔ کوئی اسے یاد بھی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں کا ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ بھی اس خون کے تذکرہ سے یکسر خالی ہے۔ (ہاں، اب ہمارے ہاں بھی، ہندوستانی پروپیگنڈے کے مطابق، نصابی کتابوں میں یہ لکھا جانے لگا ہے کہ پاکستان نے اور جماعت اسلامی نے مل کر بنگالیوں کا قتلِ عام کیا)۔
چوتھی گزارش ہے کہ یہ ہرگز مت بھولیے کہ سابق مشرقی بنگال (سابق مشرقی پاکستان) اپنی آزاد مرضی سے، پاکستان کا حصہ بنا تھا۔ اُسے مغربی پاکستان نے زبردستی حاصل، یا لشکر کَشی کر کے فتح نہیں کیا تھا۔ وہاں عوامی ریفرنڈم ہوا تھا، جس میں بنگال کے مسلمانوں نے بھاری اکثریت سے متحدہ پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس لیے خوب یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میں، ۱۹۷۱ء کی لڑائی ’’آزادی‘‘ کے لیے ہرگز نہیں تھی، بلکہ ’’علیحدگی‘‘ کے لیے تھی۔ یہ علیحدگی درست تھی یا نہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ مگر تاریخ کو درست زاویے اور رُخ سے دیکھنا، دکھانا، پڑھنا، پڑھانا بھی ضروری ہے، اور بیانِ واقعات کے لیے درست الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال تو، اِس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
۱۹۷۱ء میں پاکستان کے اپنی بقا و سلامتی کے لیے، کیے گئے اقدامات اور لڑائی پر، ’’قتلِ عام‘‘ یا “Genocide” کی اصطلاح کا انطباق کوئی ایماندار اور غیرجانبدار شخص ہرگز نہیں کر سکتا۔ نہی ’’علیحدگی‘‘ کی اُس لڑائی کو، ’’آزادی‘‘ کی تحریک بتا سکتا ہے۔ البتہ ’’را‘‘ کے پیسوں کا جادو یہ کام کراسکتا ہے۔ یا ’’را‘‘ کی قوت سے ’’کالی ماتا‘‘ کا روپ دھارے شیخ حسینہ کے ’’انعام یافتگان‘‘ اپنی بے حمیتی کا، اِس طرح مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
ہائے رے پاکستان کی قسمت، کہ آج امریکی، ایرانی، سعودی ہی نہیں، بھارتی ’’سرمایہ کاری‘‘ کے گُل بُوٹے بھی، چمن میں ہر طرف ’’سرفراز‘‘ ہیں۔
پنجم، ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو کاٹ کر الگ کرنے کی ساری مہم کو کسی عوامی ریفرنڈم یا سوالنامہ کی صورت میں وہاں کے عوام کی تائید کے مرحلے سے نہیں گزارا گیا تھا۔ وہاں ویسے ہی عام انتخابات ہوئے تھے، جیسے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان الیکشن کرا کے یہ کہتا ہے کہ الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا ہے۔ کچھ ایسی ہی دلیل ۵ دسمبر ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں عوامی لیگ کی جیت کو قرار دیا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستانی عوام پاکستان سے الگ ہونے کی تائید کرتے تھے۔
اس پس منظر میں معقول بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھارتی عزائم اورسازشوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا، انہوں نے دنیا کے ہر قانون اور اخلاق کے ہر ضابطے کے مطابق ایک قانونی اور درست فیصلہ کیا تھا۔ اُن کو ہرگز مجرم یا موجودہ بنگلادیش کا دشمن نہیں کہا جاسکتا۔ اُن لوگوں کا آج بھی یہ موقف ہے کہ ہم نے ۱۹۷۱ء میں قانونی طور پر اور اقوامِ متحدہ میں تسلیم شدہ ملک، پاکستان کو اپنا وطن سمجھا تھا۔ جب اس پر حملہ ہوا تو ہم نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے کام کیا۔ اب جب بنگلادیش ایک الگ اور اقوامِ متحدہ سے تسلیم شدہ ملک ہے، تو ہم اس کے تحفظ کے لیے بھی تن من دھن لگائیں گے اور جو بیرونی قوتیں بنگلادیش کی آزادی اور سلامتی کے در پے ہیں، اُن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جو ممکن ہو گا، کریں گے۔
بنگلادیش میں اب تک عدالتی قتل کے نتیجے میں اپنے ربّ سے جاملنے والے محبّانِ دین و ملت کی تعداد سات سے زائد ہو چکی ہے۔ چند شہداء کے نام ترتیب وار درج ذیل ہیں:
(۱) شہید عبدالقادر مُلّا
(۲) شہید محمد قمرالزماں
(۳) شہید علی اَحسن محمد مجاہد
(۴) شہید صلاح الدین قادر چوہدری
(۵) شہید مولانا مطیع الرحمن نظامی
اِن پانچوں نے پھانسی گھاٹ کے راستے سے جنت کا سفر طے کیا، ان شاء اللہ!
(۶) شہید پروفیسر غلام اعظم
(۷) شہید مولانا اے کے ایم یوسف
اور کچھ دوسرے بزرگوں کو جیل سے براہِ راست جنت کی حوریں ساتھ لے گئیں۔ رحمہم اللہ تعالیٰ!
دوسرے کتنے ہی حضرات ہیں، جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ یا تو اُن پر عمل ہونا باقی ہے، یا وہ لاپتا ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی سیکڑوں شہداء ایسے ہیں، جو شیخ حسینہ کی حکومت میں ماورائے ’’عدالت‘‘ قتل کیے جاچکے ہیں۔ ’’عدالت‘‘ کا تو حال یہ ہے کہ جناب مطیع الرحمن نظامی کی پٹیشن پر سماعت کے دوران بنگلادیش کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سریندرا کمار سنہا نے یہ کہا کہ استغاثہ اتنا کمزور ہے کہ اس پر موت کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جب سپریم کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھی، تو نظامی شہید کے وکیل نے پوچھا کہ پہلے تو آپ نے یہ کہا تھا، مگر سزا کچھ اور دی ہے۔ جواباً چیف جسٹس نے کہا کہ ’’پاکستان کا ساتھ دینا ایسا جرم ہے، جس پر بار بار سزائے موت ملنی چاہیے۔‘‘
شہید صلاح الدین قادر چوہدری کے سِوا، اِن سب کے دیدار کا شرف مجھے حاصل ہے۔ کچھ سے پاکستان میں ملنے اور تبادلۂ خیال کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ فللّٰہ الحمد!
یادوں کے ستارے، میرے ذہن و قلب کے آسمانوں پر مسلسل جھلملا رہے ہیں۔ کچھ کا بیان ہو جائے، تو یہ برمحل ہوگا۔
حضرت مولانا اے کے ایم یوسف کا ذکر ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔ مولانا آخری وقت تک بنگلادیش جماعت اسلامی کے نائب امیر رہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں رکنِ صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر رہ چکے تھے۔ متعدد بار پاکستان آئے۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب کے دورِ امارت کے آخری اجتماعِ عام میں بھی شریک ہوئے تھے۔
کئی بار اُن کی صحبت میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ بڑی سادا طبیعت کے مالک تھے۔ ہم سے درست اردو میں بات کرتے تھے۔
بنگلا دیش جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما، حضرت مولانا ابوالکلام محمد یوسف (اے کے ایم یوسف) شہید کا روایت کردہ ایک واقعہ ہم نے ۲۰۰۷ یا ۲۰۰۸ میں، کراچی میں سُنا تھا:
ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمیشن نے بنگلادیش جماعت اسلامی سے رابطہ کیا کہ وہ ہائی لیول کی ایک ملاقات چاہتے ہیں۔
جماعت نے اپنے اُس وقت کے سیکرٹری جنرل (اور بعدازاں مرکزی امیر) جناب مطیع الرحمن نظامی کو اِس ملاقات کے لیے مامور کیا۔
چنانچہ ایک ریستوراں میں یہ ملاقات ہوئی اور بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
بھارت کے اعلا سِفارت کار نے کہا کہ بنگلا دیش کی تمام جماعتیں ہم سے رابطے میں رہتی ہیں۔ ہم اُن کی مالی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں رہا۔ حالانکہ یہ بنگلا دیش کی ایک بڑی، بہت اہم اور نہایت منظم سیاسی جماعت ہے۔ ہمارے درمیان رابطے کا فُقدان ہماری کوتاہی تھی۔
لیکن اب ہماری حکومت نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہے۔ چنانچہ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ بنگلا دیش جماعت اسلامی سے رابطہ کروں، اور یہ پیغام پہنچاؤں کہ ہم آپ سے لاتعلقی کے بجائے، اب دوستی کے خواہاں ہیں۔ میل جول اور مشاورت کا سلسلہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
مطیع الرحمن نظامی صاحب نے اِس پیغام کا خیرمقدم کیا، اور مثبت جواب دیا۔
بات چیت آگے بڑھی تو ہندوستانی سفارتکار نے کہا کہ بنگلا دیش کے عام انتخابات قریب آرہے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہم اپنے دوستوں کی انتخابی مہم کے اخراجات میں بھی حصہ بٹاتے ہیں۔ ہماری حکومت کی یہ خواہش ہے کہ اِس بار ہم اپنی نئی دوست بننے والی پارٹی، بنگلادیش جماعت اسلامی کی انتخابی ضروریات پوری کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ لہٰذا آپ بِلا تکلف ہمیں بتائیے کہ آپ کی پارٹی کو کتنی رقم درکار ہوگی، تاکہ وہ ہم فراہم کردیں۔
اِس پیش کش پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے سِفارتکار کا باوقار انداز میں شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ آپ کو تو علم ہوگا کہ جماعت میں کوئی ایک فرد فیصلہ نہیں کرتا۔
ہمیں چند روز کی مہلت دیجیے تاکہ ہم اپنے ہاں مشاورت کرلیں۔ پھر آپ کو پارٹی کے جواب سے مطلع کردیں گے۔
چند روز بعد مطیع الرحمن نظامی صاحب نے بھارتی سفارت کار سے ملاقات کی، اور اُسے بتایا کہ ہماری پارٹی، بنگلا دیش کے سب سے بڑے ہمسایہ اور نہایت اہم ملک، بھارت کی جانب سے دوستی کے پیغام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اِس پر خوشی محسوس کرتے ہوئے اِس کا خیر مقدم کرتی ہے۔ ان شاء اللہ آپ ہمیں مخلص دوست پائیں گے۔
جہاں تک ہماری مالی ضروریات پوری کرنے کی پیش کش کا تعلق ہے، تو ہم اِس پر بھی آپ کے ممنون ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بے لوث دوستی کا تقاضہ ہے کہ ہم آپ سے کسی قسم کا عطیہ یا امداد نہ لیں۔ دراصل ہماری دوستی کو، ہر قسم کی غرض، لالچ، مفاد اور مالی منفعت سے مبرّا، بے نیاز اور بلند ہونا چاہیے۔ ہمارے درمیان صرف ایسی ہی دوستی، دیرپا، پکّی، پائیدار اور خوشگوار ہوگی۔
یہ غیر متوقع جواب سُن کر اُس بھارتی سِفارت کار کا چہرہ لٹک گیا۔ جو جال انہوں نے پھینکا تھا، جماعت کی بابصیرت قیادت نے دُوراَندیشی اور سِفارتی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے، بڑی خوبصورتی اور وقار کے ساتھ، خود کو اُس سے بچالیا، اور کسی تلخی و تُرشی اور شِکوہ شکایت کا موقع بھی پیدا ہونے نہیں دیا۔
یہاں وہ قصہ تمام ہوا جو مولانا یوسف نے ہمیں سُنایا تھا۔
امیرِ بنگلادیش جماعت اسلامی، جناب مطیع الرحمن نظامی نے اِس خطے کی استبدادی طاقت، بھارت کے پھُسلاوے کا ایسا عمدہ، مومنانہ اور حکیمانہ جواب دیا۔
لیکن اِس طرح وہاں کی تحریکِ اسلامی کو خرید لینے کے بھارتی عزائم کو ناکام بنا کر، اُسے ناراض بھی کردیا۔ کیا عجب کہ مولانا مطیع الرحمن کی شہادت میں اِس واقعہ کا بھی کوئی دخل ہو۔
بنگلادیشی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ سے ایک دن قبل ڈھاکا میں متعین بھارتی ہائی کمشنر نے بنگلادیش سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس سریندرا کمار سنہا سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی۔ سپریم کورٹ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا؟ تو جواباً ترجمان نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
ایک بار پروفیسر غلام اعظم صاحب (رحمہ اللہ) نے بتایا کہ جب میں لاہور آتا تھا تو کوشش کرتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وقت مولانا مودودی (رحمہ اللہ) کے ساتھ گزاروں۔ لیکن پھر بالآخر ڈھاکا واپسی کا دن آہی جاتا تھا۔
کہنے لگے کہ ایک بار میں نے وقتِ رخصت کہا کہ مولانا! میرا دل چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے پاس رہوں، بلکہ آپ کے پاس ہی رہوں۔ لیکن وقت تیزی سے گزر جاتا ہے۔
یہ سُن کر مولانا محترم نے فرمایا کہ جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔ مگر میں آپ کو روک نہیں سکتا۔ ہم سب اپنی اپنی ڈیوٹی دینے پر مامور ہیں۔ آپ اپنے محاذ پر جائیے اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے حصہ کا کام کیجیے۔
اِس کے صِلے میں ان شاء اللہ جنت میں ہم مستقل ساتھ ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ بس اُس دن کی تیاری کریں، اور اللہ سے اُس کی رحمت کی امید رکھیں۔
اللہ ہمارے اِن دونوں بزرگوں کو اور اُن کے تمام رفقاء کو جنۃالفردوس میں ہم جلیس کرے، اور ہمیں بھی اُن کی معیت نصیب فرمائے۔
راہِ خدا کے غازی اور شہید، حضرت پروفیسر غلام اعظم علیہ رحمہ کوئی آٹھ نو برس پہلے، آخری بار پاکستان آئے تھے۔ کراچی میں اُن کی مہمان داری (پروٹوکول) کا فریضہ میرے سپرد ہوا۔
لہٰذا کئی روز ان کی صحبت میں رہنے، خدمت کرنے اور فیض اُٹھانے کی سعادت ملی۔ اللہ قبول فرمائے۔
ایک بات پروفیسر علیہ رحمہ کہا کرتے تھے کہ ہم مسلمان سیکڑوں سال سے کئی حلال جانور، ہر روز لاکھوں کی تعداد میں، اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں۔ لیکن اُن میں سے کسی کی نسل کے معدوم ہوجانے کا کوئی خطرہ آج تک پیدا نہیں ہوا۔
جبکہ شیر، چیتے، ہاتھی، زیبرا، زرّافہ جیسے جانوروں کو اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا جاتا۔ مگر اُن کی نسلوں کے معدوم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوتا رہتا ہے، اور بعض نسلیں معدوم ہو بھی چکیں۔
اِس سے اِشارہ ملتا ہے کہ جو مخلوق، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نام پر قربان ہوتی ہے، اُسے معدومیت کا کوئی خطرہ نہیں رہتا۔
مشرقی پاکستان سے بنگلا دیش بننے کے عمل میں، اور اُس کے بعد بھی، ہمارے ہزاروں رفقا، اللہ کی راہ میں، اور اُس کے نام پر بیدردی سے ذبح کردیے گئے۔ لگتا تھا کہ اب اِس سرزمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے والے قلتِ تعداد کا شکار ہوجائیں گے۔ مگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ہمیں لوگ ملتے چلے گئے، اور ملتے ہی جارہے ہیں۔
بنگلادیش میں اللہ کے نام پر زندگیاں نچھاور کرنے کا نتیجہ، اسلامی تحریک کے برگ و بار لانے، اور تعداد و اثرات میں مسلسل اضافہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ آج جماعت کے وابستگان اور ہمدردوں کی تعداد، بفضل للہ تعالیٰ کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔
(واضح رہے کہ بنگلا دیش کے عام انتخابات میں جماعت نے آخری بار ۲۰۰۹ء میں حصہ لیا تھا۔ اُس میں اُس کے ووٹوں کی تعداد بیالیس لاکھ تھی۔ پاکستان جماعت سے چار گُنا زیادہ۔)
پروفیسر غلام اعظم علیہ الرحمہ سے ایک بار میں نے پوچھا، کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ لوگ اپنے کام کا آغاز ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے نہ کرتے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، ہمارے ہاں یہ رائے بھی تھی۔ اِسی لیے ہم نے سب سے پہلے ’’اسلامک ڈیموکریٹک لیگ‘‘ (IDL) بنائی، اور اس کے تحت الیکشن بھی لڑا۔ (مولانا عبدالرحیم مرحوم اُس کے صدر تھے)۔ لیکن بعد میں، جب حالات مزید بہتر ہو گئے تو ’’جماعت اسلامی‘‘ کا نام بحال کر دیا۔ دراصل جماعت، محض ایک نام نہیں ہے۔ یہ ایک پیغام، ایک نظریہ، ایک فکر، ایک جدوجہد، ایک تحریک، ایک تاریخ اور ایک خاندان بھی ہے۔ جماعت کا نام بحال کرنے سے ہمیں بڑا فائدہ ہوا۔ ہمارے کارکنوں اور حامیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
پروفیسر صاحب کی یہ بات ٹھیک تھی۔ جماعت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ’’بنگلادیش جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے خائف عوامی لیگ اور شیخ حسینہ اس نام پر ہی پابندی لگانے پر کام کر رہی ہیں۔ محض یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ چند سال قبل، بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ (کانگریس) نے بھارت کے انتہائی سینئر مدیرانِ جرائد کے ایک بند کمرے کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’’ہمیں بنگلادیش کے حوالے سے تشویش ہے۔ بنگلادیش کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ، جماعت اسلامی کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی بھارت کو پسند نہیں کرتی‘‘۔ بند کمرے کا یہ جملہ، مہمان مدیران میں سے ایک نے اپنے اخبار میں چھاپ دیا تھا۔اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’بنگلادیش جماعت اسلامی‘‘ صرف عوامی لیگ اور شیخ حسینہ ہی کے لیے دردِ سر نہیں، بلکہ بھارتی استعمار کے لیے بھی پریشانی اور فکرمندی کا سبب ہے۔ چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ افراد کی پھانسیوں کے بعد، جماعت کے گلے میں بھی پابندی کا پھندا جلد ہی لگا دیا جائے۔
ہم روحِ سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
ایک اور سوال کے جواب میں، پروفیسر صاحب علیہ رحمہ کہنے لگے کہ ہمارے ملک کی مثال ’’منہ میں زبان‘‘ کے جیسی ہے، جو بتّیس دانتوں میں گِھری ہوتی ہے۔ بنگلا دیش تین اطراف سے بھارتی گھیرے میں ہے، اور چوتھی سمت خلیجِ بنگال ہے، جو بھارتی بحریہ کی نگرانی میں ہے۔
بنگلا دیش کو بحیثیت ملک، اور وہاں کی جماعت اسلامی کو بحیثیت تحریک، وہ آزاد فضا اور کُھلے مواقع میسر نہیں، جو آپ کے ملک اور آپ کی جماعت کو دستیاب ہیں۔
اِس لیے ہم اپنی تقریروں، بیانوں اور اعلانات میں آپ کی طرح آزاد رَوی، یا غیر محتاط رویہ اپنا نہیں سکتے۔ ہماری چہار جانب بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے دعائیں کیا کیجیے۔
خدا رحمت کُنَد ایں عاشقانِ پاک طینت را!!
آخری بات یہ عرض ہے کہ جس شان اور اطمینان کے ساتھ یہ شہداء، برسوں جیلوں میں رہے اور اپنے قدموں پر چل کر پھانسی کے پھندے تک گئے، وہ انسانی عقل کے لیے حیران کُن ہے۔ ایسا نفسِ مطمئنہ، توفیقِ الٰہی سے ہی ممکن ہے۔ لیکن اس توفیق کے لیے یقیناً شہداء کا اِخلاص اور ان کا تربیتی نظام ذریعہ بنا ہے۔
جس دَھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں!
امیر جماعت اسلامی، مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید نے آخری روز اپنے اہلِ خانہ سے گفتگو میں جو بہت سی باتیں کیں، اُن میں سے چار کا تذکرہ یہاں مفید ہو گا۔
فرمایا کہ میرے لیے زندگی کی نہیں، استقامت کی دعا کیجیے۔ اﷲ مجھے آخری لمحے تک اپنی راہ پر مستقیم رکھے، ہر قسم کی کمزوری اور گھبراہٹ سے بچائے رکھے۔ دوسری بات یہ کہی کہ میری عمر تقریباً چھہتّر سال ہو رہی ہے۔ زندگی بھر شہادت کی تمنا رہی، مگر نہیں ملی۔ اب اِس عمر میں شہادت قدم چومنے آرہی ہے، تو یہ مجھ پر میرے رب کا احسان ہے۔ (یہاں یہ یاد رکھیے کہ کسی کی گولی سے اچانک شہادت ملنے اور دن بدن، لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم ’’موت‘‘ کو اپنی طرف بڑھتا دیکھنے والی شہادت میں بڑا فرق ہے)۔
تیسری بات، نظامی شہید نے کہی کہ ’’میرے لیے رب کا رحم ہی کافی ہے۔ اس کے سوا کسی کا رحم مجھے نہیں چاہیے‘‘۔ یہ وہ جملہ ہے جو نسلوں تک یاد رکھا جائے گا اور راہِ حق پر چلنے والوں کے ایمان و ایقان اور عزم و حوصلہ کو جِلا دیتا رہے گا۔ شہید نے چوتھی بات یہ فرمائی کہ میری توجہ بس اب اِس جانب ہے کہ جب میری روح، میرے جسم سے نکلے تو اُس وقت میرا رب مجھ سے راضی اور خوش ہو!
جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
شہید کے صاحبزادے کا کہنا ہے کہ ہم نے آخری ملاقات میں جیسا چہرہ دیکھا تھا، تھوڑی دیر بعد جب ہمیں اُن کی میت دی گئی، تو چہرہ اُتنا ہی پُرسکون تھا۔ بس یہ فرق تھا کہ ناک سے اور جسم کے بعض حصوں سے تازہ خون بہہ رہا تھا۔
شہید نے آخری دنوں میں، تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے نام ایک خط لکھا ہے، جو عنقریب شائع ہو گا۔ ہمیں ملا تو ان شاء اﷲ اس کا ترجمہ یہاں شائع کریں گے۔
خدایا! اپنے بنگلادیشی بندوں پر رحم فرما۔ اُن کی اجتماعی خطاؤں سے درگزر فرما۔ اُن کی آزادی و خودمختاری اور عزت و وقار کو بحال اور محفوظ فرما۔
اپنے دین پر قربان ہوجانے والوں کو ابدی سکون و راحت عطا فرما، اور جو اَب بھی تیری راہ پر جمے ہوئے ہیں، اُنہیں اپنے دستِ رحمت و عافیت سے تھام لے۔ یااَرحم الرٰحمین!!
بہت معلوماتی مضمون ہے ، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے موقف ، مشرقی پاکستان کی تاریخ اور کئی اسے حقائق جو اب تک ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے – اس تحریر کی بدولت سامنے آئے – راہ حق میں ڈٹ جانے والوں کی قربانی اور احوال زندان آنکھوں کے سامنے گھوم گیا – الله سب کی قربانیوں کو قبول فرمایے – آمین
کاش اللہ ھم سے بھی کوئ ایسا کام لے لے کہ ھم بھی اس کی بارگاہ میں سرخرو ہو جائیں ہمیں بھی درجۂ شہادت نصیب ھو
(آمین)
In East Pakistan currently Bangladeshi India and its agents are responsible for genocide.jam at Islami is not responsible. They were patriotic at that time and they are patriotic today too.
بہت ہی معلوماتی اوراعلیٰ پوسٹ ہے
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ