
تاریخ اقوامِ عالم کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف اقوام کو سطوت، شوکت اور حکومت سے سرفراز کیا گیا، مگر جب بھی کوئی قوم کفرانِ نعمت کرتے ہوئے فساد فی الارض کا باعث بنی تو اسے صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا، یہی اللہ کی سنت ہے۔
’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانے میں دَور دورہ رہا ہے؟ ان کو ہم نے زمین میں اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں۔ (مگر جب انہوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخر ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دَور کی قوموں کو اٹھایا‘‘۔ (الانعام: ۵ تا ۶)
معلوم انسانی تاریخ میں جس قوم کو مسلسل عروج و زوال کا سامنا رہا ہے وہ بنی اسرائیل ہے۔ یہ عروج و زوال مادّی بھی تھا اور روحانی بھی۔ ابتدا میں بنی اسرائیل اللہ کا پسندیدہ گروہ تھا یہی وجہ تھی کہ اس میں حضرت یعقوبؑ سے لیکر حضرت عیسیٰؑ تک سینکڑوں انبیاء مبعوث کیے گئے اور اسے دیگر اقوام پر فضیلت بخشی گئی۔
’’اے بنی اسرائیل، یاد کرو میری اس نعمت کو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی‘‘۔ (البقرۃ: ۴۷)
اللہ کی نعمتوں پر شکرانِ نعمت کرنے کے بجائے بنی اسرائیل سرکشی پر اتر آئے، آیات اللہ کی تکذیب اور انبیاء کا قتل انہوں نے اپنا شعار بنا لیا۔ نتیجتاً اللہ نے ذلّت اور مسکنت ان پر مسلط کر دی۔
’’ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے‘‘۔ (البقرۃ: ۶۱)
اس ضمن میں ایک قابلِ عبرت پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ کی گرفت نے انہیں یکدم ہلاکت میں مبتلا نہیں کر دیا بلکہ انہیں وقتاً فوقتاً عذاب الٰہی کا ’’مزا‘‘ چکھانے کے لیے تاقیامت باقی رکھنے کا مژدہ بھی سنایا۔
’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے‘‘۔ (اعراف: ۱۶۷)
فی زمانہ بنی اسرائیل کا عروج اور عالم اسلام کے بھرپور احتجاج کے باوجود عالم عرب کے قلب میں اسرائیلی ریاست کا قیام اللہ تعالیٰ کی سنت کے برخلاف نہیں بلکہ عین اس کے مطابق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس حقیقت سے پہلے ہی آگاہ کر چکا ہے کہ اگر انہیں کچھ عرصہ دنیا میں امن میسر آیا بھی تو یہ اللہ تعالیٰ کے کرم کے سبب ہو گا یا پھر انسانوں میں سے بعض کے رحم یا اسلام دشمنوں کے تعاون کا نتیجہ۔
’’یہ جہاں بھی گئے ان پر ذلّت کی مار ہی پڑی کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے‘‘۔ (آل عمران: ۱۱۲)
یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن نصیب ہوا بھی ہے تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن و چین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی، اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طور پر انہیں اپنی حمایت میں لے لیا۔ اسی طرح بسا اوقات انہیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا لیکن وہ بھی اپنے زور بازو سے نہیں بلکہ محض ’’بپائے مردی ہمسایہ‘‘ یہی حیثیت اس یہودی ریاست کی ہے جو اسرائیل کے نام سے محض امریکا، برطانیہ اور روس کی حمایت سے قائم ہوئی۔
ارضِ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ مسئلہ فلسطین محض زمین کا جھگڑا نہیں بلکہ مسلمان اس سرزمینِ انبیاء سے روحانی وابستگی رکھتے ہیں کیونکہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ حضورؐ نے اس جانب رُخ کر کے نماز ادا کی۔ جبکہ حرم کعبہ کے بعد اس سرزمین ہی کو اللہ تعالیٰ نے برکتوں والی سرزمین کہا ہے۔
’’اور ہم اسے اور لوطؑ کو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں‘‘۔ (الانبیاء: ۷۱)
علاوہ ازیں اسراء و معراج کے موقع پر رسول اللہ اول مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تشریف لائے بعد ازاں یہیں سے آسمانوں کی جانب سفر کا آغاز کیا۔
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے‘‘۔ (بنی اسرائیل:۱)
احادیث مبارکہ میں بھی بیت المقدس کے فیوض و برکات کا ذکر ہے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ (مفہوم) دنیا میں صرف تین مسجدیں ہیں جن کے سوا کسی مسجد کے لیے رختِ سفر نہ باندھا جائے۔ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) اور میری مسجد (مسجد نبویؐ) (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
بیت المقدس کی فضیلت ابن ماجہ کی ایک روایت میں اس طرح مرقوم ہے۔
’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ آدمی کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کے برابر ہے اور محلہ کی مسجد میں پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جس مسجد میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے اس میں پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں پچاس ہزار نمازوں کے برابر، میری مسجد (مسجد نبویؐ) میں بھی پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور مسجد الحرام (کعبہ) میں ایک لاکھ نمازیں ادا کرنے کے برابر ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
اسی کے ساتھ ساتھ جلیل القدر انبیاء حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت دائودؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو بھی اسی سرزمین سے نسبت رہی ہے۔ اسی لیے بجاطور پر اسے ’’انبیاء کی سرزمین‘‘ کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اصحابِؓ رسولؐ کی ایک قابل ذکر تعداد بھی اسی برکتوں والی زمین میں آسودہ خاک ہے۔
مذکورہ روحانی، فکری اور جذباتی وابستگی کے علی الرغم مسلم حکمرانوں کی بے ہمتی اور بے حمیتی نے یہ روزِ سیاہ بھی دکھایا جب اسرائیل نے اپنے قیام کے ۱۹ سال بعد ہی جون ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا (جو تاحال برقرار ہے)۔ یہودی مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے خواہاں ہیں اور ان کی یہ خواہش دو ہزار سال پر محیط ہے۔ یہودیوں نے اپنی اس خواہش کی آگ میں جلتے ہوئے مسجد اقصیٰ ہی کو پھونک ڈالنے کی جسارت کی۔ بعد ازاں ہیکل کے کھنڈرات کی تلاش کے نام پر القدس کی بنیادوں کے ساتھ سرنگیں کھودی گئیں اور اب اگلے مرحلے میں مسجد اقصیٰ کو یکدم منہدم کرنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں۔ اپنے اس شیطانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودیوں نے ہر دو طرح کے میڈیا کو خوب خوب استعمال کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ گزشتہ طویل عرصہ سے اخبارات و رسائل اور مختلف ٹی وی چینلز پر جب بھی القدس سے متعلق کوئی خبر یا رپورٹ شائع یا نشر کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی سنہرے گنبد والی ایک خوبصورت عمارت بطور مسجد اقصیٰ پیش کی جاتی ہے۔ یہودیوں نے اپنی دھوکا دہی صرف پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا تک ہی محدود نہیں بلکہ امریکا میں بعض مقامات پر اس سنہرے گنبد والی عمارت کی تصاویر کہیں مفت اور کہیں انتہائی ارزاں قیمت پر فروخت کیں۔ جنہیں مسلمان بخوشی اپنے ڈرائنگ روم اور دفاتر کی زینت بناتے رہے۔ یہودیوں کی اس ہمہ گیر مہم کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد بشمول مسلمان سنہرے گنبد والی عمارت کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھتی ہے۔ غیر مسلم ممالک کا تو ذکر ہی کیا عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین پر شائع ہونے والی کتب و رسائل کے سرورق پر بھی یہی سنہرے گنبد والی عمارت نظر آتی ہے۔
یہ بات باعث فکر ہے کہ آخر وہ کیا وجوہ ہیں جس کے سبب یہودیوں کو ایک دوسری عمارت بطور ’’بیت المقدس‘‘ پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں صہیونی دماغ کی فتنہ سازی کا اعتراف کرنا پڑے گا جس نے اپنے جانی دشمن ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز کے اس مقولے کو حقیقت کا روپ دے دیا کہ ’’جھوٹ اتنے تواتر سے بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے‘‘۔
یہودیوں کی اس ساری جعلسازی کے پس پشت کئی ایک مقاصد کام کر رہے ہیں جن میں سے اہم ترین مقصد تو یہ ہے کہ اگر کسی وقت مسجد اقصیٰ کو منہدم کر دیا جائے تو عالمی ردعمل کو بالعموم اور مسلمانوں کے ردعمل کو بالخصوص ہر دو طرح کے میڈیا پر سنہرے گنبد والی عمارت صحیح حالت میں دکھا کر فرو کیا جا سکے اور جب تک دنیا کو حقیقت حال معلوم ہو گی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہو گا۔
اب ہم زیر بحث موضوع کے دوسرے حصے کا جائزہ لیں گے کہ ’’سنہرے گنبد والی عمارت‘‘ درحقیقت ہے کیا اور تاریخ اس ضمن میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے۔
سنہری گنبد والی عمارت ’’قبۃ الصخرہ‘‘
سنہری گنبد والی خوبصورت عمارت قبتہ الصخرہ کہلاتی ہے۔ قبہ یعنی گنبد اور صخرہ بمعنیٰ چٹان (ROCK) یعنی وہ عمارت جو چٹان پر تعمیر کی گئی، ’’صخرہ‘‘ پر عمارت کی تعمیر کی تاریخ سے قبل خود ’’صخرہ‘‘ کا تاریخی پس منظر بیان کیا جانا ضروری ہے تاکہ زیر بحث موضوع کی تفہیم میں مدد مل سکے۔
صخرہ کا حدود اربعہ
بیت المقدس کے وسیع رقبے کے ایک حصے میں واقع یہ چٹان ۵۶ فٹ لمبی اور ۴۲ فٹ چوڑی ہے، علم طبقات الارض کے اعتبار سے یہ چٹان یروشلم (بیت المقدس) کی سطح مرتفع کی زیادہ سخت قسم کی سرمئی رنگ کی چٹانوں کا حصہ ہے۔ چٹان کے ایک طرف باہر نکلے ہوئے حصے کو ’’اللسان الصخرہ‘‘ (یعنی صخرہ کی زبان) کہتے ہیں۔
صخرہ کی تقدیس یہودیوں کی نظر میں
صخرہ کو یہودیوں کے نزدیک قریب قریب وہی مرتبہ حاصل ہے جو مسلمانوں کے درمیان حجر اسود کو۔ الصخرہ پر انبیاء بنی اسرائیل عبادات اور تورات و زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے اور ان کے عقیدے کے مطابق یہیں سے فرشتے آسمانوں کی جانب صعود (چڑھا) کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہودی عقائد کے مطابق صخرہ کے آس پاس ہی کہیں تورات مدفون ہے۔ (متیٰ: اصحاح ۲۴، عدد ۲۔ لوقا: اصحاح ۱۹، عدد ۴۴)
صخرہ کی اہمیت عیسائیوں کے درمیان
صخرہ کی اہمیت یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی مسلمہ ہے اور وہ بھی اسے اپنے پیش رو یہودیوں کی طرح قابلِ تکریم گردانتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کا فیصلہ عیسائیوں کے حق میں ہوا تو انہوں نے صخرہ پر قربان گاہ قائم کر دی متعدد صلیبی صخرہ کے ٹکڑے کاٹ کر بطور تبرک قسطنطنیہ اور صقلیہ لے گئے۔ ابن اثیر کے مطابق صلیبی قبضے کے دوران عیسائی پادریوں نے دور دراز مقامات سے آنے والے زائرین کو صخرہ کے ٹکڑے سونے کے ہم وزن فروخت کرنا شروع کر دیے تھے چنانچہ صخرہ کے معدوم یا محدود ہو جانے کے ڈر سے عیسائی حکمرانوں نے اس پر سنگ مرمر چڑھا دیا جسے ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے فتح بیت المقدس کے ساتھ ہی اکھڑوا دیا اور صخرہ کی پہلی حالت بحال کر دی۔
صخرہ کی قدر مسلمانوں کے نزدیک
یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کے نزدیک بھی صخرہ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ویسے تو انبیاء سابقین کی صخرہ سے نسبت ہی اس کی تقدیس کے لیے کافی ہے مگر اس کی اہمیت مسلمانوں کے لیے اس لیے بڑھ گئی کہ حضورؐ نے معراج کا آغاز اسی چٹان سے کیا تھا۔ روایت ہے کہ ’’یہاں سیڑھی نمودار ہوئی‘‘ یہ بھی روایت ہے کہ ’’گھونسلہ نما نشست سے بلند ہوئے‘‘ (خودکار زینہ / Escalator) راکٹ اور لفٹ کی ایجاد سے اس تصور کو واضح کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں عہدِ فاروقی میں جب ۱۶ھ بمطابق ۶۳۷ میں بیت المقدس فتح ہوا اور امیر المومنین حضرت عمرؓ یہاں تشریف لائے اور ایک روز استف صفر نیوس کے ہمراہ تاریخی آثار و مقامات کی سیر کے دوران آپؓ کا گزر ’’صخرہ‘‘ پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کچرے کا ڈھیر دیکھا جو رومی وہاں لاکر ڈالا کرتے تھے، آپ نے اپنے ساتھیوں سے صاف فرمایا:
’’جو میں کرتا ہوں تم بھی وہی کرو‘‘۔
یہ کہہ کر جھکے اور کوڑا اٹھا اٹھا کر دور پھینکنے لگے، ساتھیوں نے آپؓ کے حکم پر لبیک کہا اور آپؓ کے ساتھ شریک ہو گئے آن کی آن میں وہاں گندگی کا نام و نشان نہ رہا۔ اس روز سے صخرہ مسلمانوں کی حفاظت میں آ گیا۔
صخرہ بیت اللہ کا بدل نہیں
ابن کثیر کے مطابق بیت المقدس کی زیارت کے دوران نماز کا وقت ہو جانے پر سیدنا عمر فاروقؓ نے حضرت کعب بن احبارؓ سے مشورہ کے طور پر پوچھا، نماز کس جگہ ادا کی جائے؟ حضرت کعب (جو یہودی سے مسلمان ہوئے تھے) گویا ہوئے ’’اگر آپ میری بات کو قبول کریں تو صخرہ کے پیچھے نماز ادا کریں، سارا بیت المقدس آپ کے روبرو ہو گا‘‘۔
حضرت عمرؓ نے کعب بن احبارؓ کی بات سن کر فرمایا ’’اے کعب! تم میں ابھی تک یہودیت کا اثر باقی ہے۔ نہیں! میں کبھی بھی یہاں نماز نہیں پڑھوں گا، میں اس جگہ نماز پڑھوں گا جہاں حضرت محمد عربیﷺ نے نماز پڑھائی ہے‘‘۔
اور طبری کی روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے کعب بن احبار سے دریافت کیا۔ ’’یہ بتائو ہم مسجد کہاں تعمیر کریں؟‘‘ کعب گویا ہوئے۔
’’صخرہ کی جانب‘‘
حضرت عمر فاروقؓ نے جواباً فرمایا!
’’اللہ کی قسم! تم میں ابھی تک یہودیت کا اثر باقی ہے جب ہی تو میں نے دیکھا تھا کہ تم نے صخرہ کے قریب آکر جوتا اتار دیا تھا۔ ہم اس کا قبلہ اس کے صدر کو بنائیں گے جس طرح محبوب خدا احمد مجتبیٰﷺ نے ہماری مساجد کا قبلہ ان کے صدر کو بنایا ہے۔ ہمیں صخرہ کے بارے میں حکم نہیں دیا گیا، کعبہ کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔
مذکورہ روایات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے صخرہ کو اتنی ہی تقدیس کے قابل جانا جتنا کہ اس کا حق تھا نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔
صخرہ سے متعلق ایک غلط روایت
’’صخرہ‘‘ کی غیر معمولی اہمیت کے باعث مسلمانوں میں اس سے متعلق ایک غلط روایت راہ پا گئی ہے اور وہ یہ کہ ’’روزِ حشر حضرت اسرافیلؑ صخرہ پر کھڑے ہو کر صور پھونکیں گے‘‘۔
جبکہ تمام ذخیرہ احادیث اس قسم کی روایت سے یکسر خالی ہے۔
صخرہ پر عمارت کی تعمیر
بیت المقدس اور مکہ مکرمہ میں کئی قدریں مشترک ہیں، انہیں سرزمینِ برکت ہونے کا شرف حاصل ہے، اسراء معراج کا تعلق بھی انہیں دو شہروں سے ہے اور مکہ کی فتح اگر ایک قطرہ خوں بہائے بغیر عمل میں آئے تو بیت المقدس بھی ایک معاہدے کے تحت بغیر لڑے اسلامی عملداری میں شامل ہوا۔
۱۶ھ میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور حضرت عمر فاروقؓ یہاں تشریف لائے تو سرزمین انبیاء ہونے کے سبب شہر میں مختلف یادگاروں پر جابجا عبادت گاہیں تعمیر تھیں جن میں کلیسا محشر بیت اللحم کا کلیسا مہد اور کلیسا قسطنطین قابل ذکر ہیں۔ جبکہ وہ مقامات جہاں مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی (یعنی ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات) اور صخرہ کسی بھی قسم کی عمارت سے یکسر محروم تھے۔ اس جگہ پر مسجد اقصیٰ کی تعمیر عمل میں آئی تو اسی کے ساتھ صخرہ پر بھی مسجد تعمیر کی گئی اس مسجد کو مسجد صخرہ اور مسجد عمرؓ بھی کہتے ہیں۔ (یہ مسلمان فاتحین کا خاصا تھا کہ وہ جب کوئی نیا شہر فتح کرتے تو وہاں مسجد ضرور تعمیر کی جاتی)۔
ابتدا میں یہ مساجد، مسجد نبویؐ کی طرز پر نہایت سادہ تعمیر کی گئی تھیں۔
صخرہ پر قبہ (گنبد) کی تعمیر کا شرف سب سے پہلے پانچویں اموی خلیفہ عبدالمک بن مروان (۶۵ھ/ ۶۸۵ء تا ۸۶ھ/ ۷۰۵ء) کو حاصل ہوا، مسجد کی تعمیر میں مسلم بازنطینی اور یونانی صناعوں نے حصہ لیا اور اس پر ایسا شاندار گنبد تعمیر کیا گیا جو فن تعمیر میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل تھا۔ صخرہ پر تعمیر ہونے والی یہ عمارت اپنی زیبائی اور دلکشی میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ سے بھی بازی لے گئی۔ بعد ازاں عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید بن عبدالملک (۸۶ھ/ ۷۰۵ء تا ۹۶ھ/ ۷۱۵) نے مسجد میں بعض خوبصورت نقوش کا اضافہ کروایا۔ عباسی دور خلافت میں خلیفہ ہارون رشید (۱۷۰ھ/۷۸۶ء تا ۱۹۳ھ/ ۸۰۹ء) نے مسجد صخرہ میں جزوی تعمیر و مرمت کروائی۔ فاطمی دورِ خلافت میں جبکہ الحاکم بامر اللہ (۳۸۶ھ/۹۱۶ء تا ۴۱۱ھ/ ۱۰۲۰ء) مسند آراء خلافت تھا مسجد صخرہ کی عمارت کو زلزلے کے باعث شدید نقصان پہنچا۔ تقریباً چھ سال بعد الحاکم کے بیٹے الظاہر (۴۱۱ھ/ ۱۰۲۰ء تا ۴۲۷ھ/ ۱۰۳۵ء) نے عمارت کو ازسرنو تعمیر کروایا۔
پہلی صلیبی جنگ (۱۰۹۹ء) میں جب صلیبی غارت گر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو جہاں انہوں نے ستر ہزار مسلمانوں کو تہ تیغ کیا وہیں مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی ان کے جوشِ غضب کا نشانہ بنیں۔
صلیبیوں نے مسجد صخرہ کی نصف عمارت کو کلیسا میں اور بقیہ نصف کو جنگجو دستے ’’فرسان الہیکل‘‘ کی قیام گاہ میں تبدیل کر دیا۔ ۱۱۸۷ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی حطین کے میدان میں صلیبیوں کی متحدہ افواج کو شکست دینے کے بعد جب بیت المقدس میں بحیثیت فاتح داخل ہوا تو اس نے تقریباً ۸۸ برس بعد ایک بار پھر مسجد صخرہ کی پہلی حیثیت بحال کر دی، فتح کے فوراً بعد پہلا جمعہ اسی مسجد صخرہ میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی معیت میں پڑھا گیا۔ امامت کا شرف دمشق کے قاضی محی الدین ذکی کو حاصل ہوا۔
مملوک حکمران ملک الظاہر چقمق (۸۴۲ھ/ ۱۴۳۸ء تا ۸۴۷ھ/ ۱۴۵۳ء) کے دَور میں عمارت کی چھت اتفاقی طور آگ لگ جانے سے جزوی طور پر جل گئی جسے سلطان ظاہر نے مرمت کروایا۔
مسجد صخرہ اپنی غیر معمولی دلکشی کے باعث ہر دور میں مسلمانوں کے لیے باعث کشش رہی ہے۔ اس کی تعمیر و مرمت میں جہاں اموی، عباسی اور فاطمی خلفاء پیش پیش رہے وہیں عثمانی خلفاء نے بھی اس کی آرائش و زیبائش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
چنانچہ سلیمان اول معرف بہ سلیمان قانونی (۹۲۶ھ/۱۵۲۰ء تا ۹۷۴ھ/ ۱۵۶۶ء) کے عہدِ خلافت میں پوری عمارت کی تجدید کی گئی۔ بعد میں آنے والے عثمانی خلفاء بھی اس کی تعمیر میں غیر معمولی دلچسپی لیتے رہے، خاص طور پر عبدالمجید کے عہد میں بڑے پیمانے پر تعمیر و مرمت کا کام ہوا۔ سلطان عبدالعزیز بن محمود نے مسجد صخرہ کی چوبی چھت کا بڑا حصہ نیا بنوایا۔ سلطان عبدالحمید ثانی (۱۸۷۶ھ/ ۱۲۹۳ء تا ۱۳۲۷ھ/ ۱۹۰۹ء) پیش روئوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسجد صخرہ کی تزئین و آرائش میں بھرپور حصہ لیا۔ اس نے پوری مسجد میں ایرانی قالین بچھوایا اور عظیم الشان قندیل روشن کی۔ (جسے ۱۹۵۱ء میں مسجد اقصیٰ میں منتقل کر دیا گیا)
مسجد صخرہ پر یہودیوں کے حملے
نومبر ۱۹۴۷ء میں تقسیم فلسطین کے اعلان پر عربوں اور یہودیوں کی گولہ باری سے مسجد صخرہ شدید مجروح ہوئی۔ بعد ازاں ۱۶ جولائی ۱۹۴۸ء میں یہودیوں نے ایک بار پھر بیت المقدس کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور رات ۸ بجکر ۲۰ منٹ پر شروع ہونے والی گولہ باری اگلے روز صبح چار بجے تک جاری رہی اس گولہ باری کے نتیجے میں ایک گولہ مسجد صخرہ کے گنبد پر گرا جو شدید نقصان کا باعث بنا۔ ایسے ہی گیارہ حملے یہودیوں نے اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر ۱۹۴۸ء میں کیے ان حملوں کے نتیجے میں متعدد نمازی شہید و زخمی ہوئے اور شمال مغربی سمت میں قبتہ الصخرہ کی جالی دار کھڑکیاں متاثر ہوئیں۔ تاریخی نقوش سے مزین شیشے کی قدیم تختیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں اور طہارت خانے اور باب الموازین کی سیڑھیوں میں شگاف پڑ گئے۔
حملوں کے بعد مسجد الصخرہ کی تعمیر
یہودیوں کے بے درپے حملوں کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ اور مسجد الصخرہ کے شدید مجروح ہونے پر ان کی تعمیر و مرمت و اصلاح کے لیے ۲۲ فروری ۱۹۵۴ء میں حکومت اردن کی مجلس وزراء نے ایک وفد تشکیل دیا جس کا مقصد عالم اسلام کا دورہ کر کے تعمیراتی فنڈ کے لیے عطیات جمعہ کرنا تھا۔ وفد کو عطیات کی مد میں مجموعی طور پر ۲۳۹۶۰۰ اردنی دینار حاصل ہوئے مرمتی کام کی لاگت کا تخمینہ ۵ لاکھ اردنی دینار تھا۔ مطلوبہ رقم کے حصول میں ناکامی پر طے کیا گیا کہ حاصل شدہ رقم سے فی الحال مسجد صخرہ کی تعمیر و مرمت کروائی جائے، چنانچہ ۲۵ اپریل ۱۹۵۶ء کو مرمت کا آغاز ہوا اور عمارت کے اہم حصے درست کر دیے گئے (۱۹۶۷ء سے پورا حرم یہودیوں کے قبضے میں ہے)
باب الموازین سے متعلق ایک غلط روایت
مسجد الصخرہ کے چبوترے کے پاس محراب دار ستون قائم ہیں جنہیں موازین (واحد میزان۔ بمعنی ترازو) کہتے ہیں اس سے متعلق عوام میں یہ غلط روایت راہ پا گئی ہے کہ ’’روزِ حشر باب الموازین کے پاس میزان عدل نصب کی جائے گی‘‘ یہ روایت بھی صخرہ پر کھڑے ہو کر حضرت اسرافیلؑ کے صور پھونکنے والی روایت کی طرح بے اصل اور من گھڑت ہے۔
کرنے کا کام
صخرہ اور قبتہ الصخرہ کی تاریخ کے اجمالی جائزے کے بعد قارئین یقینا مسجد اقصیٰ اور مسجد الصخرہ کا فرق جان گئے ہوں گے۔ ایسے میں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ بلاشبہ قبتہ الصخرہ کی تصاویر پر مشتمل پوسٹر اپنے ڈرائنگ روم اور دفاتر کی زینت بنائیں مگر ساتھ ساتھ اپنے اعزاء اور احباب کو یہودی سازش سے بھی آگاہ کرتے رہیں کہ یہ مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ مسجد الصخرہ ہے۔
تحقیق و تسوید: عبدالخالق بٹ
(بحوالہ: ماہنامہ ’’بیت المقدس‘‘۔ نومبر ۲۰۰۲ء)
Leave a Reply