
روٹی، کپڑا اور مکان۔ تینوں انسان کی انتہائی بنیادی ضرورتیں ہیں یعنی ایسی اشیا جن کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ ہم زندگی بھر اچھا کھانے، اچھا پہننے اور اچھی جگہ رہائش پذیر ہونے ہی کی تگ و دَو میں تو مصروف رہتے ہیں۔ آج کی دنیا بہت سے مسائل سے دوچار ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا کا بحران دن بہ دن سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ خوراک اور رہائش کا مسئلہ سب سے نمایاں ہے۔ دنیا بھر میں عام آدمی خوراک کے حوالے سے خاص طور پر پریشان رہتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے خوراک کا مسئلہ بہت حد تک حل کرلیا ہے مگر یہ بھی مفت کا معاملہ نہیں۔ ٹیکسوں کی مد میں بہت کچھ دینا پڑتا ہے تب کہیں اچھی خوراک ممکن ہو پاتی ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں خوراک کا معاملہ زندگی اور موت کے مسئلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پس ماندہ ترین ممالک کی حکومتیں عوام کو صاف، معیاری اور مقوّی خوراک فراہم کرنے میں بہت حد تک ناکام ہیں۔ خوراک تو بہت دور کا معاملہ رہا، پینے کے لیے صافی پانی کی وافر مقدار میں اور آسانی سے فراہمی ممکن نہیں بنائی جاسکی ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ آپ بازار جاتے ہیں، وہاں سے کھانے پینے کی اشیا کے تین تھیلے بھر کر گھر واپس آتے ہیں۔ ابھی آپ گھر میں داخل بھی نہیں ہوتے ہیں کہ اشیائے خور و نوش کا ایک تھیلا چوکھٹ سے باہر ہی پھینک دیتے ہیں۔ اور یہ بھرا ہوا تھیلا بعد میں کچرا کنڈی کی نذر ہو جاتا ہے۔ آپ سوچیں گے یہ صریح ضیاع ہے۔ مجموعی طور پر آج ہم یہی تو کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر کم و بیش ۳۰ تا ۴۰ فیصد اشیائے خور و نوش کھائی نہیں جاتی ہیں، پھینک دی جاتی ہیں۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ کم و بیش ۸۰ کروڑ افراد یا تو مکمل بھوکے رہ جاتے ہیں یا اُنہیں جسم کی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں مل پاتی اور جو مل پاتی ہے وہ بھی معیاری نہیں ہوتی۔ خوراک کا اتنے بڑے پیمانے پر ضیاع ہم میں سے بہت سوں کو شدید غصے اور بدحواسی سے دوچار کرتا ہے۔
اگر آبادی یونہی بڑھتی رہی اور معاشی ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو ۲۰۵۰ء تک دنیا کو سالانہ مزید ۵ کروڑ ۳۰ لاکھ میٹرک ٹن خوراک پیدا کرنا پڑے گی۔ اس اضافی خوراک کی پیداوار یقینی بنانے کے لیے اگلے ۳۰ برس میں جنگلات اور چرا گاہوں سے مزید ۴۴ کروڑ ۲۰ لاکھ ہیکٹر رقبہ کاشت کاری کے لیے وقف کرنا پڑے گا۔ یہ رقبہ بھارت کے رقبے سے بھی بڑا ہے۔ اس اضافی خوراک کی پیداوار یقینی بنانے کے عمل میں اگلے ۳۰ برس کے دوران مزید ۸۰؍ارب ٹن کاربن ڈایوکسائڈ خارج ہوگی۔ کاربن ڈایوکسائڈ کی یہ مقدار ۲۰۱۹ء میں امریکی معیشت کی پیدا کردہ کاربن ڈایوکسائڈ سے کم و بیش ۱۵؍گنا ہے۔ دنیا بھر میں خوراک کا ضیاع اس وقت بھی ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا کم و بیش ۸ فیصد ہے۔
اس صورتِ حال کا تدارک کس طور ممکن ہے؟ کیا اب کوئی ایسا طریقہ نہیں بچا کہ خوراک کا ضیاع روکا جاسکے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں میں غذا اور غذائیت کی کمی پوری کی جاسکے؟ اس حوالے سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تحقیق اور رابطوں کی بین الاقوامی تنظیم ’’پراجیکٹ ڈرا ڈاؤن‘‘ ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر موجودہ ٹیکنالوجی اور مروّج مشق کے ذریعے ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کی سطح تسلّی بخش حد تک نیچے لائی جاسکتی ہے اور ایک ایسے معاشرے اور معیشت کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے جو توانائی اور خوراک کے قابلِ تجدید ذرائع کو فروغ دیں۔
ہم نے خوراک سے متعلق بحران اور مسائل ختم کرنے کے سلسلے میں جن ۷۶ طریق ہائے کار کا تعین کیا اُن میں جو پانچ بہترین ہیں، اُن میں سے ایک ہے ’خوراک کا ضیاع‘ روکنا۔ خوراک جس طور پیدا اور خرچ کی جاتی ہے اُس کے حوالے سے تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ سے ۲۰۵۰ء تک دنیا کو زیادہ صحت بخش، غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرنے، زمین کا ضیاع روکنے اور زمین کو زیادہ زرخیز بنانے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ ضیاع روک کر خوراک کی زیادہ فراہمی یقینی بنانے اور خوراک پیدا کرنے کے طریقے بہتر بنانے کے نتیجے میں جنگلات کی زمین کو زرعی مقاصد کے لیے وقف کرنے سے بچا جاسکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ توانائی، پانی، کھاد، محنت اور دیگر وسائل کا غیر ضروری استعمال بھی روکا جاسکے گا۔
کھیت سے کھانے کی میز تک کم و بیش ہر گام خوراک کا ضیاع روکنے کے مواقع موجود ہیں، جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم فصلیں اگاتے ہیں، مویشی پالتے ہیں اور ان سب سے خوراک حاصل کرتے ہیں جو اناج، تیل اور دیگر حالتوں میں ہوتی ہے۔ یہ ساری خوراک پیکنگ کے بعد ترسیل کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ خوراک کی ترسیل کے عمل سے بھی کئی صنعتیں جُڑی ہوئی ہیں۔ کسی ایک عمل کے رکنے سے کئی عمل رک جاتے ہیں۔ دکانوں اور مالز میں پہنچنے کے بعد پیکیجڈ خوراک ریفریجریٹرز میں رکھی جاتی ہے جو اس خوراک کی فروخت تک اِسے سڑنے سے بچانے کے لیے ماحول کو شدید نقصان سے دوچار کرنے والی گیس ہائڈرو فلورو کاربنز پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ صارفین کی آنکھیں اُن کی بھوک سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں، بالخصوص مالدار معاشروں میں۔ لوگ ضرورت سے زیادہ کھانے کے شوقین ہی نہیں عادی بھی ہیں۔ بلند انفرادی آمدن والے ممالک میں لوگ خوراک خرید کر گھر لاتے ہیں تو بڑے پیمانے پر توانائی صرف کرنے والے چولہے یا اوون آن کرتے ہیں اور ترقی پذیر معاشروں میں لوگ خام شکل کے چولہوں پر مویشیوں کے فضلے سے بنایا ہوا ایندھن جلاتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر انتہائی بدبودار اور ماحول کو نقصان پہنچانے والا دھواں خارج ہوتا ہے۔ یہ دھواں سیاہ کاربن کے سوا کچھ نہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر کچرا پیدا کرنے والی ان سرگرمیوں کے بعد حتمی صارف کی میز تک پہنچنے والی خوراک کا متعدبہ حصہ کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ وہاں سے یہ ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں کے ذریعے لینڈ فِل بھیجا جاتا ہے۔ لینڈ فِل میں یہ ضایع شدہ خوراک سڑتی، گلتی ہے اور اِس سے میتھین گیس خارج ہوتی ہے۔ یہ بھی ماحول کو نقصان سے دوچار کرنے والی گیس ہے۔ جو ٹماٹر کھیت ہی میں سڑ جاتا ہے اُس کے مقابلے میں وہ خوراک زیادہ نقصان دہ گیسیں خارج کرتی ہے جو کچرے میں پھینک دی جاتی ہے۔ ہم اس حوالے سے بہت کچھ کرتے ہیں۔
پراجیکٹ ڈرا ڈاؤن میں ہم نے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والا عالمی مواد (حقائق اور اعداد و شمار) خوراک کی پیداوار اور صرف سسٹم سے متعلق ایک جامع اور مفصّل ماڈل میں داخل کیا۔ اس ماڈل میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں خوراک خاص طور پر گوشت کا فی کس بڑھتا ہوا استعمال بھی پیش نظر رکھتے ہوئے سوچا گیا۔ اس حوالے سے کئی عشروں کے رجحانات کا جائزہ لیا گیا۔ ہم نے حساب کتاب کی بنیاد پر اندازہ لگایا کہ معیاری اور صحت بخش خوراک اور خوراک کی پیداوار کے قابلِ تجدید ذرائع اپنانے سے خوراک کا ضیاع روکنے میں معقول حد تک مدد ملتی ہے، مضر گیسیں بھی کم خارج ہوتی ہیں اور ماحول کو قابلِ رشک حد تک خوش گوار رکھا جاسکتا ہے۔
اگر دنیا کی نصف آبادی یومیہ ۲۳۰۰ کلو کیلریز کی پودوں سے حاصل ہونے والی معیاری خوراک اپنائے تو دنیا بھر میں خوراک کا ضیاع موجودہ ۴۰ فیصد کی سطح سے ۲۰ فیصد کی سطح تک لایا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خوراک کی اتنی بچت ہوگی کہ جن خطوں میں خوراک کی شدید قلت کے باعث لوگ خرابیٔ صحت کا شکار ہیں اُن تمام خطوں کی بھرپور مدد بھی کی جاسکے گی۔ اور اگر ہم زیادہ جوش و جذبے کا مظاہرہ کریں، پودوں سے حاصل شدہ خوراک کا استعمال بڑھانے پر زیادہ مائل ہوں تو دنیا بھر میں خوراک کا ضیاع ۱۰؍فیصد کی سطح تک لایا جاسکتا ہے۔
اگر ہم خوراک کا بڑے پیمانے پر روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو کھانے پینے کی عادات بدلنے میں بھی خاصی مدد ملے گی۔ ترقی یافتہ دنیا میں خوراک کا استعمال پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ عام آدمی کو صحت کا معیار برقرار رکھنے کے لیے یومیہ ۲۳۰۰ کلو کیلریز کی خوراک درکار ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں چونکہ ماحول معیاری ہے اور صحتِ عامہ کا معیار بھی بہت بلند ہے لیے اس لیے ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے لوگوں کے برعکس (جو یومیہ تین ہزار کلو کیلریز تک کی خوراک لیتے ہیں) ترقی یافتہ ممالک کے لوگ یومیہ ۲۳۰۰ کلو کیلریز تک کی خوراک لیتے ہیں۔ یوں خوراک کا کم و بیش ۲۵ فیصد ضیاع روکنے میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں صحتِ عامہ کا معیار چونکہ پست ہوتا ہے اس لیے عام آدمی کو اپنی صحت برقرار رکھنے اور بیماریوں سے لڑنے کی سکت پیدا کرتے رہنے کے لیے زیادہ کیلریز اور زیادہ لحمیات والی خوراک کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے سسٹم میں خوراک کا ضیاع ایک عمومی حالت کی حیثیت اختیار کرتا جاتا ہے۔ اگر دنیا بھر میں ہر شخص یہ طے کرے کہ وہ اپنی خوراک میں سبزیوں کا استعمال بڑھائے گا یا پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک کو یومیہ صرف کا لازمی حصہ بنائے گا تو اگلے تیس برس کے دوران کم و بیش ۱۶؍کروڑ ۶۰ لاکھ میٹرک ٹن خوراک ضایع ہونے سے بچائی جاسکے گی۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں خوراک کی فصلوں کا گراف بلند ہوگا اور مویشی پالنے کی ضرورت گھٹے گی۔
خوراک کی پیداوار اور صرف کے طریقوں کی معیاری ایڈجسٹمنٹ (درستی) کے نتیجے میں ماحول کو بہتر بنانے میں بھی قابلِ ذکر حد تک مدد ملے گی۔ اناج، سبزیاں، مچھلی، گوشت اور ڈیری کے آئٹم ماحول کے لیے مختلف اثرات کے حامل ہیں۔ عمومی سطح پر ایک کلو گرام ٹماٹر اگانے کی صورت میں کم و بیش ۳۵۰ گرام کاربن ڈایوکسائڈ خارج ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک کلو گرام گوشت (بیف) تیار کرنے پر کم و بیش ۳۶ کلو گرام کاربن ڈایوکسائڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ خوراک کی رسد کے پورے نظام کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ فصلوں کی شکل میں خوراک تیار کرنے کی شکل میں گرین ہاؤس یعنی ماحول کو شدید نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج مویشیوں سے حاصل ہونے والی خوراک کی تیاری کے دوران خارج ہونے والی مضر گیسوں کے مقابلے میں ۱۰ سے ۵۰ گنا کم ہوتا ہے۔ مزید برآمد صنعتی زراعت نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔ مونو کراپنگ عام ہے۔ زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کشید کرنے کے لیے مصنوعی کھاد کا استعمال عام ہے اور جراثیم کش دوائیں بھی بڑے پیمانے پر چھڑکنا پڑتی ہیں۔ یہ سب کچھ ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے اور صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی مسائل نہ صرف یہ کہ بڑھ رہے ہیں بلکہ پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ مصنوعی کھاد سے زمین کی زرخیزی شدید متاثر ہوتی ہے اور اس کھاد سے مضر گیسیں بھی بڑے پیمانے پر خارج ہوتی ہیں۔ بنیادی خوراک کھیت ہی میں کیڑوں مکوڑوں اور بیماریوں کے ہاتھوں ضایع ہوتی ہے اور گودام میں بھی سڑتی ہے۔ گوشت کے حصول کے لیے پالے جانے والے مویشی گھاس اور دانہ کھاتے ہیں اور ماحول کو مزید نقصان پہنچانے والی گیس خارج کرتے ہیں۔
ماحول کو نقصان سے بچانے کے لیے کیڑوں مکوڑوں کو کنٹرول کرنے کے طریقے اپنانے، مختلف فصلیں ساتھ اگانے اور فصلوں کی باری کے حوالے سے ذہانت کے استعمال کے نتیجے میں کیڑوں اور جھاڑ جھنکاڑ کا تناسب گھٹانے اور خوراک کا ضیاع کم کرنے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملتی ہے۔ فی زمانہ مویشی پالنے کا عمل بھی نئے طریقوں سے آشنا ہوچکا ہے۔ کم وسائل خرچ کے زیادہ مویشی پالے جاسکتے ہیں اور ماحول کو بھی نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کے حوالے سے بہت سے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ بار بار اور زیادہ فصلیں اگانے کی تکنیک سے پیداوار میں ۵ سے ۳۵ فیصد تک اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مصنوعی کھاد کے بجائے مویشیوں کے فضلے پر مشتمل کھاد استعمال کرنے سے مضر گیسوں کا اخراج کم کرنے اور زمین کو نقصان سے بچانے میں اچھی خاصی مدد ملتی ہے۔ اِسی طور کھیت سے نہ نکالی جانے والی خوراک کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے کھیت ہی پر استعمال کرنے کے لیے بایو توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کھیتوں میں اس مشق کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کے طول و عرض میں ریستوراں اس مشق کو پروان چڑھانے میں مدد کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ تنظیم ’’زیرو فوڈ پرنٹ‘‘ کام کر رہی ہے جو معروف شیف انتھونی مائنٹ نے قائم کی ہے۔ یہ تنظیم گاہکوں سے چند سینٹ کا عطیہ وصول کرتی ہے تاکہ قابلِ تجدید ذرائع والے کھیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملے۔
کم آمدن والے ممالک میں خوراک کا ایک بڑا حصہ بازار تک پہنچنے سے پہلے ضایع ہو جاتا ہے۔ کسانوں کے لیے بہتر تعلیم اور موزوں پیشہ ورانہ تربیت یقینی بنانے کی صورت میں فصلوں کا معیار بلند کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ یوں خوراک کے ضیاع کا گراف بھی نیچے لایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی ریاست جھاڑ کھنڈ میں کسانوں کے لیے شمسی توانائی سے کام کرنے والے ریفریجریٹرز متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ وہ اپنی پیدوار کو سڑنے گلنے سے بچاسکیں۔ اس منصوبے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور گلوبل انوائرنمنٹ فیسلٹی نے فنڈنگ کی ہے۔ افریقا میں دی کنسورشیم آف انٹر نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر نے مقامی کسانوں کو بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ فصلیں اگانے کے حوالے سے مدد دینے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ اب وہاں کسان ایسی فصلیں اگا رہے ہیں جو پانی کی شدید کمی یا خشک سالی کا بھی سامنا کرسکیں۔ ساتھ ہی ساتھ زمین کا کٹاؤ روکنے کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔
زیادہ اور اوسط آمدن والے ممالک میں خوراک کا زیادہ ضیاع بازار اور گھر میں واقع ہوتا ہے۔ لوگ بیشتر معاملات میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ تقریباً ہر گھر میں ریفریجریٹر پایا جاتا ہے جس کے ذریعے خوراک کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہاں، صارفین کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ کیا اور کیوں خرید رہے ہیں۔ جو کچھ کھانے کے لیے خریدا جارہا ہے وہ کھانا بھی چاہیے۔ سوچے سمجھے بغیر خرید کر ضایع کرنا حماقت ہے۔ جلد خراب ہونے والی اشیا کو بڑی مقدار یا تعداد میں خریدنے سے گریز کیا جائے۔ اگر ضرورت کے مطابق خریداری کی جائے تو خوراک کا ضیاع روکنے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملتی ہے۔ اگر زیادہ پکایا جائے تو بچا ہوا کھانا معقول طریقے سے محفوظ رکھنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ اگر خوراک ضرورت سے زیادہ پکالی جائے تو پڑوسیوں میں بانٹنے سے تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں اور ضیاع کا امکان بھی برائے نام رہ جاتا ہے۔
خوراک کا ضیاع روکنے کے حوالے سے معاشرتی اور ثقافتی سطح پر بھی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ بہت سی سبزیاں اور پھل ایسے ہیں جو کسی خاص علاقے کے مکینوں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے یا جنہیں پکانے کے دوران غیر معمولی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ فرانس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کو ایسے پھلوں اور سبزیوں کے استعمال کی طرف مائل کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے جو بہت آسانی سے بڑی مقدار میں پیدا کیے جاتے ہیں۔ بعض اشیائے خور و نوش کو غیر جامع قرار دے کر تلف کرنے کی روایت ہے۔ اس روایت کی بیخ کنی کے لیے روس، ڈنمارک اور دوسرے بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے سپر اسٹورز میں ایسے شیلف الگ ہوتے ہیں جن میں غیر جامع قرار دی گئی اشیائے خور و نوش رکھی جاتی ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ لوگ اِنہیں ضایع نہ کریں بلکہ کسی نہ کسی طرح اِنہیں اپنی خوراک کا حصہ بنائیں تاکہ نوبت اُن کے ضیاع تک نہ پہنچے۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ بالعموم ایک دن پرانی ڈبل روٹی نہیں کھاتے جو کچرا کنڈی کی نذر کی جاتی رہی ہے۔ اب یہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے کہ ایک دن کی باسی ڈبل روٹی کو کچرا کنڈی میں پھینکنے کے بجائے کھانے کی تحریک دی جائے۔ ضرورت مند افراد ایسی ڈبل روٹی مفت لے سکتے ہیں۔
خوراک کا ضیاع روکنے میں تھوک اور پرچون فروش مل کر کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بالکل تازہ چیزیں کھانا اچھی بات ہے مگر ایک یا دو دن پرانی اشیائے خور و نوش کو پھینک دینا غیر منطقی ہے۔ کوئی بھی چیز ایک یا دو دن میں سڑ، گل نہیں جاتی۔ خوراک کا ایسا ضیاع روکنے کی ضرورت ہے، بالخصوص پس ماندہ معاشروں میں۔ ریستوراں میں بچا ہوا کھانا گھر لے جانے کی تحریک بھی دی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے حکومتوں اور بڑی کمپنیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ امریکا میں سرکاری کیفے ٹیریا کم و بیش بیس لاکھ افراد کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں۔ سبزیوں اور پودوں سے حاصل ہونے والی دیگر اشیائے خور و نوش کو ترجیح دے کر خوراک کا ضیاع روکنے میں معقول حد تک مدد لی جاسکتی ہے۔
ہم چاہے جتنی کوشش کرلیں، خوراک ایک خاص حد تک تو ضایع ہوگی ہی۔ ہاں، ہماری احتیاط پسندی خوراک کا غیر معمولی یا بڑے پیمانے پر ضیاع روکنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کی عادات بدلنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ جو چیز کھائی جاسکتی ہے وہ کچرے میں نہیں پھینکی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے قوانین بھی نافذ کیے جاسکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کی تربیت کی جائے۔ اشیائے خور و نوش کا تیسرا تھیلا ضایع ہونے سے بچانا ہم سب کی ترجیح ہونا چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Massively reducing food waste could feed the world”. (“Scientific American”. Oct. 2021)
Leave a Reply