سوشلزم کے مثبت پہلو:
٭ بے قید معیشت سے پیدا ہونے والی متعدد بے اعتدالیوں کو رفع کیا گیا۔
٭ انفرادی ملکیت سے نکال کرذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لینے سے منافع چند سرمایہ داروں کے بدلے حکومت کے خزانے میں آنے لگا۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ اس منافع کو حکومت اپنی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اجتماعی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کرے۔
٭ ذرائع پیداوار پر کنٹرول کی وجہ سے حکومت کے لیے یہ بھی ممکن ہوا کہ وہ بیروزگاری کے مسئلے کو حل کردے اور تمام قابل کار آدمیوں سے ان کی اہلیت کے مطابق کام لے سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو کسی نئے محاذ پر افراد کی ضرورت ہو تو انہیں تعلیم و تربیت کے ایک مرحلے سے گزار کر ’’اجتماعی معیشت کے جن پیشوں اور جن خدمات کے لیے جتنے آدمی درکار ہیں اتنے ہی وہ تیار۔۔۔‘‘کیے جاسکتے ہیں۔
٭ حکومت کے ہاتھ میں اس کثیر سرمائے کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگئی کہ ایک معتدبہ رقم سوشل انشورنس پر صرف کرے۔ اس مد میں ’’۔۔جو لوگ کام کرنے کے قابل نہ ہوں، یا عارضی یا مستقل طور پر ناقابل کار ہوجائیں، یا بیماری، زچگی اور دوسرے مختلف حالات کی وجہ سے جن کو مدد کی ضرورت پیش آئے ان کو ایک مشترک فنڈ سے مدد۔۔‘‘ دینا شامل ہے۔
منفی پہلو:
٭ زمین اور کارخانوں کا انفرادی ملکیت سے اجتماعی ملکیت میں انتقال ایک خونیں عمل تھا۔ ’’اندازہ کیا گیا کہ۔۔۔ تقریباً ۹۱ لاکھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ۲۰لاکھ آدمیوں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں، اور چالیس پچاس لاکھ آدمیوں کو ملک چھوڑکر دنیا بھر میں تتر بتر ہوجانا پڑا۔‘‘ پھر اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے پورے دورِ اقتدار میں اس غیر فطری انقلاب کو برقرار رکھنے کے لیے روس کی کمیونسٹ حکومت عوام کو ’تطہیر‘ کے عمل سے گزارتی رہی، ’رجعت پسند‘ اور ’انقلاب مخالف‘ لوگوں کو چُن چُن کر موت اور جلاوطنی کی سزائیں دیتی رہی۔ عام لوگوں کا کیا کہنا لاکھوں کی تعداد میں کمیونسٹ پارٹی کے ممبران ہی صاف کردیے گئے۔ رجعت پسندوں کو سونگھتے پھرنے کے لیے جاسوسی کا ایک وسیع و عریض نظام قائم کیا گیا۔ ’’روس کی پولیس اور سی آئی ڈی کا ’محتاط‘ نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چُوک سے چند سو یا چند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مارڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں اور ان کے ہاتھوں سے جوابی انقلاب برپا ہوجائے‘‘۔
٭ فرد کو اس کی ملکیت سے محروم کردینے کا عمل مسلمہ اخلاقی اصولوں کے خلاف تھا، لہٰذا مذہب اور اخلاق کو سختی سے رد کیا گیا۔ مولانا مودودیؒ لینن کے الفاظ نقل کرتے ہیں، جس میں وہ عالم بالا کے کسی تصور پر مبنی ہر تصور اخلاق کا انکار کرتا ہے؛ اس بات کا انکار کرتا ہے کہ اخلاق کچھ ازلی و ابدی اصول ہیں اور کہتا ہے، ’’ہر وہ چیز اخلاقاً بالکل جائز ہے، جو پرانے نفع اندوز اجتماعی نظام کو مٹانے اور محنت پیشہ طبقوں کو متحد کرنے کے لیے ضروری ہو‘‘۔
٭ سرکاری ملکیت کی اسکیم روس میں جیسے ہی نافذ ہوئی رشوت، خیانت، غبن۔۔۔ الغرض کرپشن کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ’’روس کے ’آہنی پردے‘ سے چھن چھن کر جو خبریں وقتاً فوقتاً باہر آجاتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں عمالِ حکومت اور مختلف معاشی اداروں کے ارباب انتظام نے ’بدکرداری‘ (Corruption) ایک اچھا خاصا سخت مسئلہ پیدا کردیا ہے‘‘۔
٭ انسان کی فطرت میں خودغرضی اور ذاتی نفع کی طلب ہوتی ہے، جس کو منضبط کرنا اور حدود میں رکھنا انسانی سماج کا کام ہوتا ہے۔ روس کے اشتراکی انقلاب کے بعد انسانوں کے اس جذبے کے جائز اظہار پر مکمل پابندی لگ گئی۔ اشتراکیوں کا دعویٰ تھا کہ ماحول بدلتے ہی انسان کی فطرت بھی بدل جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ ’’۔۔۔جب انہوں نے افراد کی نفع طلبی کے لیے زراعت، صنعت، تجارت اور دوسرے فائدہ مند کاروبار کے فطری راستے بند کردیے اور مصنوعی پروپیگنڈا کے ذریعہ سے اس نفع طلبی کے صاف اور سیدھے اور معقول مظاہر کو خواہ مخواہ معیوب ٹھہرادیا، تو یہ جذبہ اندر دب گیا، اور انسان کے تمام دوسرے دبے ہوئے جذبات کی طرح اس نے بھی منحرف (pervert) ہوکر اپنے ظہور کے لیے ایسی غلط راہیں نکال لیں۔۔۔‘‘ جس نے سماج کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی کردیں۔ ’’اشتراکی معاشرے میں رشوت، چوری، غبن اور اسی طرح کی دوسری برائیوں کے بڑھنے میں اس چیز کا بڑا دخل۔۔۔‘‘رہا۔
٭ اجتماعی ملکیت کے پورے فلسفے کی بنیاد یہ ہے کہ قوم کے افراد کے درمیان منافع کی تقسیم مساویانہ بنیادوں پر ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ’’حکومت کے تمام شعبوں اور معاشی کاروبار کے تمام اداروں میں ادنی ملازمین اور اعلیٰ عہدہ داروں کے درمیان معاوضوں میں اتنا ہی فرق۔۔۔‘‘ پایا گیا جتنا کہ کسی بورژوا سماج میں پایا جاتا تھا۔ کُل منافع جو حکومت کے پاس جمع ہوتا ہے، اس کا ’’مبالغہ کے ساتھ بمشکل ایک یا دو فیصدی‘‘ حصہ ہی سوشل انشورنس کے کاموں پر صرف ہو پاتا تھا۔
٭ روس پر اشتراکی انقلاب کے نتیجے میں روزگار، اس کے نتیجے میں خوراک، اور کسی حد تک سوشل انشورنس کا انتظام تو ہوگیا لیکن روسی باشندوں پر تاریخ انسانی کی بدترین آمریت مسلط ہوگئی۔ ’’اور یہ آمریت بھی کچھ ہلکی پھلکی سی نہیں۔ اجتماعی ملکیت کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام زمیندار ختم کردیے گئے اور ایک وحدہ لا شریک زمیندار سارے ملک کی زمین کا مالک ہوگیا۔ سارے کارخانہ دار اور تجار اور مستاجر بھی ختم ہوگئے اور ان سب کی جگہ [ایک]ایسے سرمایہ دار نے لے لی جو ذرائع پیداوار کی ہر قسم اور ہر صورت پر قابض ہوگیا اور پھر اسی کے ہاتھ میں سارے ملک کی سیاسی طاقت بھی مرکوز ہوگئی‘‘۔
اشتراکیت پر گفتگو مولانا مودودیؒ اس سوال پر ختم کرتے ہیں:
بلاشبہ ایک فاقہ کش آدمی بسا اوقات بھوک کی شدت سے اتنا مغلوب ہوجاتا ہے کہ وہ جیل کی زندگی کو اپنی مصیبت بھری آزادی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ صرف اس لیے کہ وہاں کم از کم دو وقت کی روٹی، تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ تو نصیب ہوگی۔ مگر کیا اب پوری نوع انسانی کے لیے فی الواقع یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ اسے روٹی اور آزادی دونوں ایک ساتھ نہیں مل سکتیں؟ کیا روٹی ملنے کی اب یہی ایک صورت باقی رہ گئی ہے کہ ساری روئے زمین ایک جیل خانہ ہو اور چند کامریڈ اس کے جیلر اور وارڈر ہوں؟
فاشزم اور نازی ازم:
آج ہم فاشزم اور نازی ازم کے نام پر چاہے کتنی ہی ناک سکیڑیں، جنگ عظیم اول و دوم کے درمیان ایک زمانہ تھا جب اسے قوم کی فلاح کے ایک مقبول عام نظریے کی حیثیت حاصل تھی۔ مسولینی اور ہٹلر نے جس کامیابی کے ساتھ اپنے شکست خوردہ ممالک کو ترقی کے زینے چڑھائے تھے، اس نے دنیا بھر میں اَن گنت افراد پر ایک چھاپ چھوڑی تھی۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ اس زمانے میں ہندوؤں میں آر ایس ایس اور مسلمانوں میں خاکسار جیسی نیم عسکری تحریکیں شروع ہوئیں۔ آر ایس ایس کے ابتدائی لٹریچر میں تو کھل کر ہٹلر اور اس کے طریقہ کار کی تعریف کی گئی ہے اور ہندوستان میں بالخصوص اقلیتوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کے اسوے پر عمل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
اشتراکیوں کا دعویٰ ہے کہ ہٹلر اور مسولینی سرمایہ داروں کے ایجنٹ تھے، مولانا مودودیؒ کے نزدیک ایسا نہ تھا بلکہ وہ ’’مارکس اور لینن ہی کی طرح کے لوگ تھے۔ ویسے ہی مخلص، ویسے ہی ذہین، اور ویسے ہی کج فہم‘‘۔ یہ لوگ بے قید معیشت کی زیادتیاں بھی دیکھ چکے تھے اور پھر روسی انقلاب کے بعد اشتراکیت کی تباہ کاریاں بھی۔ پھر انہیں اس بات کا غم بھی تھا کہ اس نظریاتی کھینچ تان کی وجہ سے ان کی قوم کا افتخار مٹی میں مل گیا ہے اورسخت مصیبت کی گھڑی میں بھی قوم میں باہم افتراق کی جڑیں مضبوط سے مضبوط ترہوتی جارہی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اس بات کی تدبیر سوچنی شروع کی کہ اپنی قومی وحدت کو تقویت پہنچائیں اور معاشی و سیاسی لحاظ سے اپنی قوم کو عظمت کی بلندیوں پر فائز کریں۔ ’’لیکن‘‘ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ’’وہ اور ان کے حامی اور پیرو سب کے سب مغربی ذہن کی ان ساری کمزوریوں کے وارث تھے جنہیں ہم تاریخ میں مسلسل کارفرما دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے پیش رو مفکرین و مدبرین کی طرح انہوں نے بھی یہی کیا کہ چند صداقتوں کو لے کر ان کے اندر بہت سے مبالغے کی آمیزش کی، چند صداقتوں کو ساقط کرکے ان کی جگہ چند حماقتیں رکھ دیں، اور اس ترکیب سے ایک نیا غیر متوازن نظام زندگی بنا کھڑا کیا‘‘۔
فاشزم جنگ عظیم دوم کے بعد ایک متبادل کی حیثیت سے اپنی افادیت کھوچکا ہے۔ مولانا مودودیؒ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد فاشزم اور نازی ازم دونوں جڑواں بھائی بظاہر مرچکے ہیں ’’لیکن‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان کی پھیلائی ہوئی بہت سی بدعتیں بدلے ہوئے ناموں سے مختلف ملکوں میں اب بھی موجود ہیں اور خود ہمارا ملک بھی ان بلاؤں سے محفوظ نہیں ہے‘‘۔ واقعی ہمارا ملک تو آج بھی اس بلا سے محفوظ نہیں ہے۔ خیر، اس کے بعد مولانا مودودیؒ فاشزم کے میزانیہ نفع و نقصان کا جائزہ لیتے ہیں۔
فاشزم کے مثبت پہلو:
٭ فاشزم نے یہ صحیح رائے قائم کی کہ زمیندار و سرمایہ دار اور محنت پیشہ طبقات کے درمیان فطری تعلق نفرت اور جنگ کا نہیں بلکہ تعاون و تعامل کا ہے۔ عملی اقدام کے طور پر انہوں نے اجیروں اور مستاجروں کی مشترک کونسلیں بنائیں تاکہ تعاون باہمی کے اصول پر معیشت آگے بڑھ سکے۔
٭ فاشزم نے (اشتراکیت کی طرح )انفرادی ملکیت اور ذاتی نفع طلبی کا انکار نہیں کیا۔ اسے اجتماعی مفاد کے خلاف نہیں سمجھا۔ البتہ نظام سرمایہ داری کی طرح ان اصولوں کو بے قید نہیں چھوڑا۔ مولانا مودودیؒ حاشیے میں یہ بھی کہتے ہیں کہ نازی اور فاشسٹ دونوں سود کو بند کرنے کے قائل تھے اگرچہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
٭ فاشزم نے اس لبرل خیال کی بھی پرزور تردید کی کہ حکومت کا کام صرف امن و امان کا قیام اور تنازعات کا تصفیہ ہے۔ ’’انہوں نے کہا کہ قومی معیشت کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی اور توافق اور تعاون پیدا کرنا اور نزاع و کشمکش کے اسباب کو دور کرنا قومی ریاست کے فرائض میں سے ہے‘‘۔
٭ فاشسٹوں نے بڑے پیمانے پر سوشل انشورنس کا اہتمام کرکے نظام سرمایہ داری کی اس خرابی کو دور کیا، جس میں کوئی فرد عمر یا حادثے کی وجہ سے ناکارہ ہوتے ہی بے سہارا ہوجاتا تھا۔ خدمت کے اس طرح کے وسیع ادارے قائم کیے گئے جن میں بچے، بیوہ، بیمار، بوڑھے، اور بیکار کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ ’’جنگ سے پہلے جرمنی میں اس طرح کا جو ادارہ قائم تھا اس نے تقریباً ۵۰ لاکھ افراد کو سنبھال رکھا تھا‘‘۔
٭ قومی معیشت کی رہنمائی اور تنظیم کا کام ریاست نے سنبھالا۔ معاشی زندگی کے تمام شعبوں کی کونسلیں بنائیں۔ وسائل کے منظم استعمال پر توجہ دی، پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ کیا اور یوں بیروزگاری کے مسئلے کا خاتمہ کردیا۔ ’’۱۹۳۳ء میں جب نازی پارٹی بر سر اقتدار آئی تھی تو جرمنی میں تقریباً ۸۰ لاکھ آدمی بیکار تھے مگر چند سال بعد نوبت یہ آگئی کہ جرمنی کو کارکنوں کی کمی کا شکوہ تھا‘‘۔
منفی پہلو:
٭ ’’نازی اور فاشی حضرات نے طبقاتی منافرت کے افتراق انگیز اثرات کا مداوا قوم پرستی کی شراب سے، نسلی فخر و غرور کے جنون سے، اور دوسری قوموں کے خلاف غیظ و غضب کے اشتعال سے اور عالمگیری و جہاں کشائی کے جذبات سے کیا۔۔۔‘‘ اور یوں طبقاتی کشمکش کو قومی و نسلی کشمکش سے بدل دیا۔ جنون کا علاج کرنے کے بجائے اس کا رخ موڑ دیا۔
٭ اشتراکیت کی طرح نہیں لیکن فاشزم نے بھی فرد کی انفرادیت کا خون کیا۔ انہوں نے پارٹی، ریاست اور قوم کو باہم خلط ملط کردیا۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں:
ہر اس شخص کو قوم اور قومی ریاست کا دشمن قرار دے دیا گیا، جس نے بر سر اقتدار پارٹی سے کسی معاملہ میں اختلاف کی جرأت کی۔ تنقید اور بحث اور آزادیٔ رائے کو ایک خطرناک چیز بنادیا گیا۔ ایک پارٹی کے سوا ملک میں کوئی دوسری پارٹی زندہ نہ رہنے دی گئی۔ انتخاب محض ایک کھیل بن کر رہ گئے۔ قوم کے دماغ پر ہر طرف سے مکمل احاطہ کرنے کے لیے پریس، ریڈیو، درسگاہ، فن، لٹریچر اور تھیٹر کو بالکل حکمراں جماعت کے قبضہ میں لے لیا گیا تاکہ قوم کے کانوں میں ایک آواز کے سوا کوئی دوسری آواز پہنچنے ہی نہ پائے۔ یہی نہیں بلکہ ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں کہ اول تو غالب پارٹی کی رائے کے سوا کوئی رائے دماغوں میں پیدا ہی نہ ہو، اگر کچھ نالائق دماغ ایسے نکل آئیں، جو خداوندان ملت کے خیالات سے مختلف خیالات رکھتے ہوں تو یا تو ان کے خیالات ان کے دماغ ہی میں دفن رہیں یا پھر ان کے دماغ زمین میں دفن ہوجائیں۔
٭ فاشسٹوں نے مرکزی منصوبہ بندی پر ضرورت سے زیادہ توجہ دی، جس کے نتیجے میں تمام افراد بالکل ایک مشین کے کل پرزے بن گئے۔ ان کا یہ خیال غلط تھا کہ پیداوار ترقی اور خوشحالی کے لیے بس یہی ایک راستہ ہے۔ اس بے اعتدالی کی وجہ سے ’’انہوں نے سارے ملک کی زندگی کو اس کے تمام معاشی، تمدنی، مذہبی، تہذیبی اور سیاسی پہلوؤں سمیت ایک ضابطے میں کس ڈالااور ایک لگے بندھے منصوبے پر چلانا شروع کیا۔‘‘ یہ اس ’’منصوبہ بند زندگی کی اندرونی منطق‘‘ کا تقاضا تھا کہ وہ کسی اختلاف رائے اور تنقید کو برداشت کرنے کے روادار نہ تھے۔ مولانا مودودیؒ یہ بحث اس سوال پر ختم کرتے ہیں: ’’نازی اور فاشی مسلک جو کچھ دیتے ہیں، کیا وہ اس قیمت پر لینے کے قابل ہے؟ ساری قوم میں چند انسان تو ہوں انسان؛ اور باقی سب بن کر رہیں مویشی، بلکہ ایک مشین کے بے جان پرزے۔ اس قیمت پر یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ سب کو چارہ برابر ملتا رہے گا‘‘۔
نیشنلزم:
نیشنلزم اپنے آپ میں ایک اضافی نظریہ ہے۔ ہر قوم کا نیشنلزم دوسری قوم کے نیشنلزم سے الگ اور ممتاز ہوتا ہے۔ ’’نیشنلزم کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر قوم کا نیشنلسٹ اپنی قومیت کو دوسری قومیت پر ترجیح دے۔‘‘ایک قوم پرست Aggressive نیشنلسٹ بھی ہوسکتا اور نہیں بھی لیکن وہ بہرحال تمدنی، معاشی، سیاسی اور قانونی حیثیت سے قومی اور غیر قومی میں فرق کرے گا۔ اپنی تاریخی روایات، روایتی تعصبات اور قومی تفاخر کے جذبات کی پرورش کرے گا۔ ’’وہ دوسری قومیت کے لوگوں جو مساوات کے اصول پر زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اپنے ساتھ شریک نہ کرے گا۔‘‘ اس کا نصب العین جہانی ریاست (World State) نہیں بلکہ قومی ریاست (Nation State) ہوگا۔ بالفرض ’’اگر وہ کوئی جہانی نظریہ اختیار کرے گا بھی تو اس کی صورت لازماً امپیریلزم یا قیصریت کی صورت ہوگی‘‘۔ اس کے ’اضافی‘ہونے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ دوسرے نظریات بھی وقتاً فوقتاً سہولت کے اعتبار سے قومیت کا لبادہ اوڑھتے رہتے ہیں۔
قوم دراصل ساتھ رہنے؛ اس یکجائی و یکسانیت کی وجہ سے پیدا شدہ اغراض و مصالح کے اشتراک اور باہمی تعاون کے نتیجے میں بنتی ہے۔ اس طرح کثرت میں وحدت پیدا ہوتی ہے اور ’’تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس اجتماعی وحدت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے،‘‘۔ جب قومیت کا یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے تو ’’۔۔۔لازمی طور پر ’عصبیت‘ کا رنگ اس میں آجاتا ہے،‘‘ قومیت کا احساس جتنا قوی یا کمزور ہوتا ہے، یہ عصبیت بھی اسی مناسبت سے زورآوریا مضمحل ہوتی ہے۔ جب افراد کا کوئی مجموعہ بحیثیت قوم ایک رشتہ اتحاد میں منسلک ہوجائے گا تو وہ لازماً اپنوں اور غیروں کے درمیان امتیاز کرے گا۔ یہ عصبیت و حمیت، قومیت کا لازمی خاصہ ہے۔ ’’قومیت کا قیام وحدت و اشتراک کی کسی ایک جہت سے ہوتا ہے، خواہ وہ کوئی جہت ہو۔ البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں ایسی زبردست قوت رابطہ و ضابطہ ہونی چاہیے کہ اجسام کی تعداد اور نفوس کے تکثیر کے باوجود وہ لوگوں کو ایک کلمہ، ایک خیال، ایک مقصد اور ایک عمل پر جمع کردے اور قوم کے مختلف کثیرالتعداد اجزا کو قومیت کے تعلق سے اس طرح بستہ و پیوستہ کردے کہ وہ سب ایک ٹھوس چٹان بن جائیں،‘‘۔ تاریخ میں عام طور پر قومیں نسل، وطن، زبان، رنگ، معاشی اغراض یا نظام حکومت کے اشتراک سے بنی ہیں۔ ’’قدیم ترین عہد سے لے کر آج بیسویں صدی کے روشن زمانے تک جتنی قومیتوں کے عناصر اصلیہ کا آپ تجسس کریں گے، ان سب میں آپ کو یہی مذکورہ بالا عناصر ملیں گے۔ اب سے دو تین ہزار برس پہلے یونانیت، رومیت، اسرائیلیت، ایرانیت وغیرہ بھی انہی بنیادوں پر قائم تھیں، جن پر آج جرمنیت، اطالویت، فرانسیسیت، انگریزیت اور جاپانیت وغیرہ قائم ہیں‘‘۔
نیشنلزم کے مثبت پہلو:
٭ دنیا کی مختلف قوموں نے قومیت کی بنیادوں پر بڑی قوت کے ساتھ اپنی شیرازہ بندی کی ہے۔
٭ یورپ میں کلیسا کے تسلط، شہنشاہیت اور نظام جاگیرداری کے خاتمے میں جس تحریک اصلاح کا رول رہا، اسی تحریک نے یورپی قومیت کو جنم دیا۔ یورپی اقوام نے قومیت کے جذبے سے سرشار ہوکر زبان اور لٹریچر سے لے کر صنعت و تجارت اور علوم و فنون کو ترقی دی۔
٭ ایشیائی و افریقی ممالک کو نوآبادیاتی تسلط سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
منفی پہلو:
٭ نیشنلزم انسانوں کے درمیان ناقابل عبور دیواریں کھڑی کردیتا ہے۔ چونکہ کوئی بھی فرد اپنی نسل، (مادری) زبان، مقام پیدائش اور جلد کے رنگ کو نہیں بدل سکتا لہٰذا ان اتفاقی پہچانوں پر بننے والی قومیتوں کے درمیان نفرت و عداوت بالکل فطری ہے اور بقائے باہم ایک استثنائی صورتحال۔ ’’الجہاد فی الاسلام ‘‘ اور دیگر تحریروں میں مولانا مودودیؒ نے جنگ عظیم کے لیے مغربی ممالک کی قومی دست درازیوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں جانوں کا اتلاف ہوا۔
٭ مولانا مودودیؒ قومیت کے عناصر پر عقلی تنقید کرکے ان کے بودے پن کو واضح کرتے ہیں۔ مثلاً نسل پرستی مشترکہ خون کی بنیاد پر قائم ہے۔ نسل کبھی بھی سو فیصدی خالص نہیں ہوتی بلکہ اس میں مختلف ذرائع سے دوسرے خون شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ان آلودگیوں کے باجود اگر مشترک خون کی بنیاد پر اکٹھا ہوا جاسکتا ہے تو کیوں نہ اس مشترک خون کی بنیاد پر اکٹھا ہوا جائے جو آدمؑ و حواؑ کے ذریعہ تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مقام پیدائش کا اشتراک ایک لغو اور مہمل بات ہے کیونکہ انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے وہ ایک مربع میٹر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر ایک مربع میٹر مقام پیدائش ہونے کے باوجود پورا ملک ایک فرد واحد کا وطن ہوسکتا ہے تو پوری دنیا کیوں نہیں؟ زبان کی یکسانیت کا ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن زبان کی یکسانیت اور خیال کی یکسانیت میں فرق ہے۔ زبان خیال کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ لوگوں کے افکار و نظریات کو چھوڑ کر ان افکار و نظریات کی ترسیل کے ذریعے کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی مضحکہ خیز ہے۔ جلد کے رنگ کی بنیاد پر قومیت مضحکہ خیز ہے۔ رنگ ایک جسمانی وصف ہے۔ انسان اپنے جسم کی وجہ سے انسان نہیں ہے بلکہ اپنی روح کی وجہ سے انسان ہے۔ انسانوں کو رنگ کے بجائے ان کے افکار و خیالات کی بنیاد پر تولا جانا چاہیے۔ معاشی مفادات کی بنا پر جو قومیت وجود میں آتی ہے، وہ افرادِ قوم میں حیرت ناک حد تک خودغرضی اور مفادپرستی پیدا کرتی ہے۔ ایسی معیشت حقیقتاً آزاد نہیں ہوتی خصوصاً ’دوسروں‘ کومعاشی مواقع کم سے کم حاصل ہوں اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی تسلط اس نیشنلزم کی بدترین شکل ہے۔ اور جب ایسی کئی طاقتور قومیں کمزور قوموں پر ٹوٹ پڑتی ہیں تو کمزور قومیں تو تباہ ہوتی ہی ہیں، اخیر میں طاقتور قومیں بھی ایک دوسرے سے ٹکرا کر برباد ہوجاتی ہیں۔ سیاسی قومیت جو ایک علاقے، ملک یا سلطنت میں رہنے کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بہت دیرپا نہیں ہوتی۔ ایسی قومیت اسی وقت تک مضبوط ہوتی ہے جب تک علاقوں پر مرکزی حکومت کی پکڑ مضبوط ہو۔ جیسے ہی مرکز کی گرفت کمزور ہوئی، مختلف ذیلی قومیتیں سر اٹھانا شروع کردیتی ہیں۔
٭ قومیت کثرتیت کے خلاف ہے اور چاہتی ہے کہ افراد کو ’’۔۔ایسے رنگ میں۔۔ڈھالا جائے کہ وہ آہستہ آہستہ تمام افراد اور طبقوں اور گروہوں کو ہمرنگ کردیں، ان کو ایک سوسائٹی بنادیں، ان کے اندر ایک مشترک اجتماعی مزاج اور مشترک اخلاقی روح پیدا کردیں، ان کے اندر ایک طرح کے جذبات و احساسات پھونک دیں اور ان کو ایسا بنادیں کہ ان کی معاشرت ایک ہو، طرز زندگی ایک ہو، ذہنیت اور انداز فکر ایک ہو، ایک ہی تاریخ کے سرچشمے سے وہ افتخار کے جذبات اور روح کو حرکت میں لانے والے محرکات حاصل کریں اور ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے کسی چیز میں بھی کوئی نرالاپن باقی نہ رہے‘‘۔
مولانا مودودی کے مطابق قوموں کے بننے کی یہ تمام بنیادیں کھوکھلی اور یک رخی ہیں۔ فرماتے ہیں:
کیا انسان کے لیے اس سے زیادہ غیر معقول ذہنیت اور کوئی ہوسکتی ہے کہ وہ نالائق، بدکار، اور شریر آدمی کو ایک لائق، صالح، اور نیک نفس آدمی پر صرف اس لیے ترجیح دے کہ پہلا ایک نسل میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا کسی اور نسل میں؟ پہلا سپید ہے اور دوسرا سیاہ؟ پہلا ایک پہاڑ کے مغرب میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا اس کے مشرق میں؟ پہلا ایک زبان بولتا ہے اور دوسرا کوئی اور زبان؟ پہلا ایک سلطنت کی رعایا ہے اور دوسرا کسی اور سلطنت کی؟ کیا جلد کے رنگ کو روح کی صفائی وکدورت میں بھی کوئی دخل ہے؟ کیا عقل اس کو باور کرتی ہے کہ اخلاق و اوصافِ انسانی کے صلاح و فساد سے پہاڑوں اور دریاؤں کا کوئی تعلق ہے؟ کیا کوئی صحیح الدماغ انسان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ مشرق میں جو چیز حق ہو، وہ مغرب میں باطل ہوجائے؟ کیا کسی قلبِ سلیم میں اس چیز کے تصور کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ نیکی، شرافت، اور جوہر انسانیت کو رگوں کے خون، زبان کی بولی،مولد و مسکن کی خاک کے معیار پر جانچا جائے؟ یقینا عقل ان سوالات کا جواب نفی میں دے گی؛ مگر نسلیت، وطنیت اور اس کے بہن بھائی نہایت بیباکی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہے۔
مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی تنقید
مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ نے جو مطالعہ پیش کیا ہے اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
٭ گہری سمجھ: مولانا مودودیؒ نے ان نظریات کا پرائمری سورسس سے مطالعہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ کیپٹلزم پر بحث کرتے ہوئے ایڈم اسمتھ، کمیونزم پر بحث کرتے ہوئے لینن اور فاشزم پر بحث کرتے ہوئے ہٹلر کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ مطالعہ اگر پرائمری سورسس سے ہو تو ایک گہری سمجھ پیدا ہوتی ہے، جو کسی دوسری طرح نہیں پیدا ہوسکتی۔ ان نظریات کی گہری سمجھ ہی کا نتیجہ ہے کہ مولانا موددیؒ اپنے مطالعے میں یہ تک بتانے میں کامیاب ہیں کہ ان نظریات نے کب اور کہاں اپنے ہی مسلمہ اصولوں کو پامال کیا ہے۔
٭ خذ ما صفا ودع ما کدر: مغرب کے سلسلے میں جو بے اعتدالی پائی جاتی تھی کہ ایک فکر سے مرعوب گروہ اندھی تقلید اور دوسرا غضب سے مغلوب گروہ اندھی تغلیط میں مشغول تھا۔ مولانا مودودیؒ نے ان دونوں گروہوں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کی۔ یہاں تک کہ جب ان نظریات پر تنقید بھی کی تو ان کے مثبت پہلوؤں کا انکار نہیں کیا، انہیں سامنے رکھ کر کہا کہ جس قیمت پر یہ فوائد حاصل ہورہے ہیں وہ انسانیت کے لیے مہنگا سودا ہے۔
٭ سائنٹفک مطالعہ: مولانا مودودیؒ کے اس جائزے کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں چیزیں ریاضی کے اصولوں کی طرح واضح ہیں۔ سماجی علوم کی کوئی کتاب پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر باب میں اچانک ایک نیا نظریہ پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن مولانا مودودیؒ کی وقت کے تاریخی عوامل پر گہری نظر ہے، اور ان نظریات کے وجود میں آنے کی داستان وہ تفصیل سے سناتے ہیں۔ اس کی وجہ سے قاری کے ذہن میں ایک ڈھانچہ بنتا چلاجاتا ہے۔ اس ڈھانچے میں یہ سارے نظریات الگ الگ نہیں بلکہ جدید جاہلیت کے ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں نظر آتے ہیں۔
٭ مغربی ذہن کا مطالعہ: نظریات کے اس مطالعہ کے دوران مولانا مودودیؒ ان نظریات کی تخلیق کرنے والے ذہنوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں جس سے مغربی اذہان کی قوت اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ خود غرضی، انتہا پسندی، مبالغہ آمیزی وغیرہ کا تفصیل سے ذکر ہوچکا۔ فرماتے ہیں، ’’مغربی ذہن کی دلچسپ کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپچ کو بہت پسند کرتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ نہات لغو ہو اور اس کا پیش کرنے والا بے دھڑک اور بے جھجک ہوکر بڑے سے بڑے مسلمات کو کاٹتا چلا جائے اور اپنے دعاوی کو ذرا سائنٹفک طریقہ سے اتنا مرتب کرلے کہ ان کے اندر ایک ’سسٹم‘ پیدا ہوجائے‘‘۔ مغرب کے اندھے مقلدین میں بھی ذہن و فکر کی یہ کمزوریاں در آتی ہیں اور مشرقی کمزوریوں کے ساتھ مل کر برگ و بار لاتی ہیں مثلاً مولانا مودودیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ مغرب ’’۔۔۔کے اناڑی کم از کم مجتہد تو ہیں۔ لیکن یہاں جو حضرات مطب کھول بیٹھے ہیں، وہ اناڑی پن کے ساتھ ساتھ مقلد بھی ہیں۔ مغرب کے اناڑی نقصان ہوتے دیکھیں گے تو نسخے میں کچھ ردوبدل کرلیں گے۔ مگر یہاں مغرب ہی سے کسی ردوبدل کی اطلاع آجائے تو بات دوسری ہے ورنہ ڈاکٹر مریض کی آخری ہچکی تک ان شاء اللہ ایک ہی نسخہ پلاتا رہے گا‘‘۔
٭ داعیانہ جذبہ: مغربی نظریات کے اس جائزے سے صرف ہماری معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ داعیانہ جذبہ بھی حرکت میں آتا ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی سے محروم ہوکر انسانیت کیسی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے، اس پر دل تڑپ اٹھتا اور ایک مسلمان کو اپنی ذمہ داریوں کے بڑھے ہوئے ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ احساس کمتری یا فکری اضمحلال کی کیفیت اگر کسی میں ہو تو توفیق الٰہی سے دور ہوجاتی ہے:
جس طرح کمیونسٹ اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے، اسی طرح مسلمان بھی اپنا ایک نظریہ رکھتا ہے۔ پھر وہ کیوں اتنا ادنیٰ اور پست ہوجائے کہ کسی نقصان سے بچنے یا کسی کی نگاہ میں وقار قائم کرنے کے لیے اپنے مقام سے ہٹ جائے؟ اور اگر وہ اپنے مقام سے ہٹتا ہے تو اس میں کم از کم اس بات کا شعور تو ہونا چاہیے کہ وہ کس چیز سے ہٹ رہا ہے اور کس چیز کی طرف جا رہا ہے۔ کیونکہ اپنی جگہ چھوڑنا تو محض کمزوری ہے، مگر ایک جگہ سے ہٹ جانے کے باوجود اپنے آپ کو اسی جگہ سمجھنا کمزوری کے ساتھ بے شعوری بھی ہے۔ میں ’مسلمان‘ صرف اس وقت تک ہوں جب تک میں زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی نظریہ رکھتا ہوں۔ جب میں اس نظریہ سے ہٹ گیا اور کسی دوسرے نظریہ کی طرف چلا گیا تو میری جانب سے یہ سراسر بے شعوری ہوگی اگر میں یہی سمجھتا رہوں کہ اس نئے مقام پر بھی مسلمان ہونے کی حیثیت میرے ساتھ لگی چلی آئی ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے غیر اسلامی نظریہ اختیار کرنا صریح بے معنی بات ہے۔ ’مسلمان نیشنلسٹ‘ اور ’مسلمان کمیونسٹ‘ ایسی ہی متناقض اصطلاحیں ہیں، جیسے ’کمیونسٹ فاشسٹ‘ یا ’جینی قصائی‘ یا ’اشتراکی مہاجن‘ یا ’موحد بت پرست‘۔
٭ اسلام ایک نظام حیات: مولانا مودودیؒ کے اس مطالعہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ تنقید پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اسلام کو ایک متبادل کے طور پر کامیابی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔۔۔ ایک ایسے متبادل کے طور پر جس میں ان نظریات کی خامیاں نہیں پائی جاتیں البتہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔مولانا مودودیؒ قدم قدم پر یہ واضح کرتے ہوئے چلتے ہیں کہ ایسا صرف اس لیے ممکن ہوسکا ہے کیونکہ اسلام کسی انسان کا نہیں، جس کی عقل زمان و مکان، خواہشات و تعصبات سے محدود ہو بلکہ خالق کائنات کا بنایا ہوا نظامِ زندگی ہے، جس کی نظر سارے زمان و مکان پر محیط ہے اور جو کسی قسم کی محدودیت کا شکار نہیں ہے۔
٭ آگے کرنے کا کام: مولانا مودودیؒ کے علمی و فکری کام کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عصری نظریات پر مولانامودودیؒ نے جو بحثیں کی ہیں وہ اصولی نوعیت کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نظریات کے تفصیلی مباحث پر بھی اسلام کی روشنی میں بات کی جائے۔ ان نظریات پر بحث کرتے ہوئے ان کا معاشی پہلو غالب رہا ہے، سیاسی و عمرانی پہلو پرتوجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان نظریات کے عملی ماڈل جو پچھلی صدی میں پیش کیے گئے ان کے تعلق سے بہت سی نئی تاریخی معلومات منظر عام پر آئی ہیں، اس معلومات کے استعمال سے اس تاریخی تنقید کو مزیدجامع و نوکدار بنانا بھی ایک کام ہے۔ ان تمام نظریات نے شاخ در شاخ ترقی کی ہے،اس تبدیلی کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ متعدد نئے نظریات مثلاً پوسٹ ماڈرنزم، انارکزم، فیمنزم، اِنوائرنمنٹلزم وغیرہ نئے قسم کی انتہاپسندی کے ساتھ منظر عام پر آئے ہیں، ان سے اسی داعیانہ سطح پر مخاطب ہونے کی ضرورت ہے، جس طرح مولانا مودودیؒ وقت کے نظریات سے خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔
(۔۔ختم شد۔۔)
(بحوالہ: ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ اکتوبر ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply