
پاکستان کی گزشتہ سیاست پر ایک نظر ڈالیے تو یہ طرح طرح کی شدید محاذ آرائیوں سے عبارت نظر آئے گی۔ ان محاذ آرائیوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے درمیان قرونِ وسطیٰ کے مذہبی فرقوں کی طرح عداوت اور منافرت کا بازار گرم ہوا لیکن مولانا کی سیاسی بصیرت اس صورت حال پر دُکھ بھی محسوس کرتی تھی اور اس کے نقصانات پر بھی اُن کی نظر تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے ہمیشہ ہر سیاسی فریق اور ہر سیاسی مکتب فکر کو صبر و تحمل، برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے اور قبول کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ملک میں وہ معقول اور معتدل سیاسی فضا قائم ہو جو کہ جمہوریت کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر جمہوریت خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے یا آمریت کی طاقتوں کو جمہوریت اور سیاست کی بساط الٹ کر اپنا تخت اقتدار بچھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کی ایک فکر انگیز تحریر (اشارات) ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جلد ۴۴ شمارہ ۵ جولائی ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی تھی یہ تحریر مولانا کے سیاسی تصورات اور ان کی سیاسی بصیرت دونوں کی آئینہ دار ہے۔
مولانا اس مضمون میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں اختلافات کی فصلِ بہار آئی ہوئی ہے۔ فکر و نظر کے اختلافات اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں اور ٹولیوں کے اختلافات، علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور اُبھرتے چلے آرہے ہیں جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے دوسرا اس میں مزاحم ہوتا ہے اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس صورتحال نے ہر پہلو میں تعمیر روک رکھی ہے اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو۔
اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہو گئے ہیں تو ہمیں اختلافات اور مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے ذہن کو ان بنیادوں کی تلاش میں لگانا چاہیے جن پر سب، یا کم از کم بیشتر باشندگان پاکستان متفق ہو سکیں جن پر متفق ہو کر ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجائے اپنی تعمیر میں لگ سکیں۔
ایسی بنیادیں تلاش کرنا درحقیقت مشکل نہیں ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن ’’وجوہِ نزاع‘‘ کرید کرید کر نکالنے کے بجائے ’’اساسات اتفاق‘‘ ڈھونڈنے کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ ذرا سا زاویۂ نظر بدل جائے تو ہم با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اساساتِ اتفاق ہمارے قریب ہی موجود ہیں۔ ہم انہیں اپنے مذہب میں پا سکتے ہیں۔ دنیا کے تجربات میں پا سکتے ہیں اور عقلِ عام کی صاف اور صریح رہنمائی میں پا سکتے ہیں۔
اولین چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے۔ اختلافات اگر ایمانداری کے ساتھ ہو، دلائل کے ساتھ ہو اور اسی حد تک رہے جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح مختلف نقطہ ہائے نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھ کر خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں۔ تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہو سکتا لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ ’’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘‘۔ کا ابلیسی اصول اختیار کر کے اس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے اس کے نقطہ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمنِ وطن ٹھہرائے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصدِ زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے بلکہ عملاً بھی اس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں اور اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے۔ اس سے معاشرے کی فضا میں وہ تکدر پیدا ہو جاتا ہے جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو تو ہو مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے جس سے بالآخر وہ لوگ خود بھی نہیں بچ سکتے جو اختلافات کے اس بیہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے اختلافات میں رواداری، ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش اور دوسروں کے حق رائے کو تسلیم کرنا ہے، کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کر لینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا۔ پھر اس پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’ہمارے رائے سے مختلف کوئی رائے ایمانداری کے ساتھ قائم نہیں کی جا سکتی، لہٰذا جو بھی کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے‘‘۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کردیتی ہے۔ اختلافات کو مخالفتوں میں تبدیل کر دیتی ہے اور معاشرے کے مختلف عناصر کو جنہیں بہرحال ایک ہی جگہ رہنا ہے اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ وہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھ کر کسی مفاہمت و مصالحت پر پہنچ سکیں۔ اس کا نتیجہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ مدت دراز تک معاشرے کے عناصر ترکیبی آپس کی کشمکش میں مبتلا رہیں اور اس وقت تک کوئی تعمیری کام نہ ہو سکے جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کر دے۔ یا پھر سب لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے۔ بدقسمتی سے ناروا داری اور بدگمانی اور خود پسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وبائے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہیں حکومت اور اس کے ’’ارباب اقتدار‘‘ اس میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اس میں مبتلا ہیں۔ مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں۔ اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں۔ حتیٰ کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں اس کا مداوا صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفود اثر رکھتے ہیں اپنی ذہنیت تبدیل کر یں اور خود اپنے طرز عمل سے اپنے زیر اثر لوگوں کو تحمل و برداشت اور وسعتِ ظرف کا سبق دیں۔
تیسری چیز جسے تمام ان لوگوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے جو اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں کام کرتے ہوں یہ ہے کہ ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کی بجائے اپنی مثبت چیز پیش کرنے میں صرف کرے اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات کسی چیز کے اثبات کے لیے اس کے غیر کی نفی ناگزیر ہوتی ہے مگر اس نفی کو اس حد تک رہنا چاہیے جس حد تک ناگزیر ہو اور اصل کام اثبات ہونا چاہیے نہ کہ نفی۔ افسوس ہے کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے یہاں زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں اس کی مذمت کی جائے اس کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کر دی جائے بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہو جائے۔ یہ ایک نہایت غلط طریق کار ہے اور اس سے بڑی قباحتیں رونما ہوتی ہیں اس سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اس سے تعصبات ابھرتے ہیں اس سے عام بے اعتباری پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے عوام کو تعمیری طرز پر سوچنے کے بجائے تخریبی طرز پر سوچنے کی عادت پڑتی ہے۔
یہ روش خصوصیت کے ساتھ موجودہ حالت میں تو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بڑا خلاء پایا جاتا ہے جو ایک (دینی یا سیاسی) قیادت پر سے اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے اس خلاء کو اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مختلف جماعتیں اپنا جو کچھ اور جیسا کچھ بھی مثبت کام اور پروگرام رکھتی ہیں وہ لوگوں کے سامنے آئے اور لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملے کہ کون کیا کچھ بنا رہا ہے؟ کیا کچھ بنانا چاہتا ہے اور کس کے ہاتھوں میں کیا بننے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی چیز آخر کار ایک یا چند جماعتوں پر قوم کو مجتمع کر سکے گی اور اجتماعی طاقت سے کوئی تعمیری کام ممکن ہو گا لیکن اگر صورتحال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجائے دوسروں کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہو سکے اور ساری قوم بن سری ہو کر رہ جائے گی۔
ایک اور بات جسے ایک قاعدہ کلیہ کی حیثیت سے سب کو مان لینا چاہیے یہ ہے کہ اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہو وہ جبر سے نہیں بلکہ دلائل سے منوائے اور کوئی اپنی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجائے ترغیب و تلقین سے لوگوں کو راضی کر کے نافذ کرے۔ محض یہ بات کہ ایک شخص کسی چیز کو حق سمجھتا ہے یا ملک و ملت کے لیے صحیح اور مفید خیال کرتا ہے اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ اٹھے اور زبردستی لوگوں پر اس کو مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دے اس طریق کار کا لازمی نتیجہ کش مکش، مزاحمت اور بدمزگی ہے۔ ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو سکتی، کیونکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضا مندی ضروری ہے جن لوگوں کو کسی نوع کی طاقت حاصل ہوتی ہے خواہ وہ حکومت کی طاقت ہو یا اثر و نفوذ کی وہ بالعموم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی بات منوانے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رضائے عام کے حصول کا لمبا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس طاقت کافی ہے لیکن دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ہی زبردستیوں نے بالآخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے۔ ملکوں کے نظام تہ و بالا کر دیے ہیں ان کو پُرامن ارتقاء کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات و انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران و رہنما اگر واقعی اپنے ملک کے خیر خواہ ہیں تو انہیں دھونس کے بجائے دلیل سے اور جبر کے بجائے ترغیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے اور اسی طرح پاکستان کے عام باشندے بھی اگر اپنے بدخواہ نہیں تو انہیں اس بات پر متفق ہو جانا چاہیے کہ وہ یہاں کسی کی دھونس اور زبردستی نہ چلنے دیں گے۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خُوگر ہونا چاہیے۔ ایک مذہبی فرقے کے لوگوں کا اپنے ہم خیال لوگوں سے مانوس ہونا، یا ایک زبان بولنے والوں کا اپنے ہم زبانوں سے قریب تر ہونا، یا ایک علاقے کے لوگوں کا اپنے علاقے والوں سے دلچسپی رکھنا تو ایک فطری بات ہے، اس کی تو نہ کسی طرح مذمت کی جا سکتی ہے اور نہ اس کا مٹ جانا کسی درجے میں مطلوب ہے مگر جب اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی محدود دلچسپیوں کی بناء پر تعصب اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے گروہی مفاد یا مقاصد کے لیے معرکہ آرائی پر اتر آتے ہیں۔ تو یہ چیز ملک اور ملت کے لیے سخت نقصان دہ بن جاتی ہے۔ اس کو اگر نہ روکا گیا تو ملک پارہ پارہ ہو جائے گا اور ملت کا شیرازہ بکھر جائے گا جس کے بُرے نتائج سے خود یہ گروہ بھی نہیں بچ سکتے۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جس فرقے، قبیلے، نسل، زبان یا صوبے سے اس کا تعلق ہو اس کے ساتھ اس کی دلچسپی اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یہ دلچسپی جب بھی تعصب کی شکل اختیار کرے گی، تباہ کن ثابت ہو گی۔ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کرتا ہے اور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کرتا ہے پھر بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہو سکتی ہے جس کے اجزائے ترکیبی ہی آپس میں برسر پیکا ر ہوں۔
ایسا ہی معاملہ سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے کسی ملک میں اس طرح کی پارٹیوں کا وجود اگر جائز ہے تو صرف اس بناء پر کہ ملک کی بھلائی کے لیے جو لوگ ایک خاص نظریہ اور لائحہ عمل رکھتے ہوں انہیں منظم ہو کر اپنے طریقے پر کام کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ حق دو ضروری شرطوں کے ساتھ مشروط ہے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ، ملک کی بھلائی کے لیے ہی خواہاں اور کوشاں ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور معقول اور پاکیزہ طریقوں تک محدود رہے ان میں سے جو شرط بھی مفقود ہو گی۔ اس کا فقدان پارٹیوں کے وجود کو ملک کے لیے مصیبت بنا دے گا‘‘۔
(بحوالہ: ’’مولانا مودودیؒ کے سیاسی افکار‘‘ مرتبہ: عبدالکریم عابد)
Leave a Reply