
مورخہ ۲۹ مئی کو دن کے ایک بجے فیس بک آن کیا توچونکا دینے والی اس خبر پر نظر پڑی کہ عصر حاضر کے سماجی مسائل پر گہری بصیرت رکھنے والے عالم ربانی، پابندِ سنت اور نمونۂ اسلاف مولانا سلطان احمد اصلاحی کا علی گڑھ میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ بعد میں اس خبر کی تصدیق مولانا جرجیس کریمی رکن ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ کے ذریعہ ہوئی کہ کل ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوگیاہے۔ اس کے بعد یہ مصرعہ ذہن میں بار بار گردش کرنے لگا:
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
حالانکہ مولانا صحت مند اور تندرست وتوانا تھے اور معاشی بوجھ سے بھی بے نیاز تھے کیوں کہ ان کے دو صاحب زادے گلف میں اعلیٰ ملازمتوں پر کام کرتے ہیں۔ خود بھی مولانا متحرک آدمی تھے۔ لکھنے پڑھنے میں لگے رہتے تھے اور اسفار بھی بکثرت کرتے تھے۔ لیکن مشیت الٰہی کے سامنے ساری قیاس آرائی بے سود۔ اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب اللہ کے معاملات ہیں۔ ہمیں بھی ایک دن اس دنیا سے جانا ہے اس لیے اس کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔
مولانا مرحوم سے میری قربت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں گرچہ کم رہی، تاہم ان سے گہری وابستگی ضرور تھی۔ اور ان کی یادوں کی سوغات لیے میں انہیں زندگی بھر یادکرتا رہوں گا۔ وہ میری تحریروں کو جب کبھی کسی علمی رسائل و مجلات میں دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور میری رائے کو سراہتے ہوئے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے۔ وہ ہمیشہ مشورہ دیتے کہ فلاں فلاں موضوع پر آپ ضرورلکھا کریں۔ اس سے قوم وملت کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور آپ کا بھی وقارو اعتماد بڑھے گا۔ جس وقت میں ادارہ تحقیق وتصنیف سے بحیثیت ملازم منسلک ہوا، اس وقت وہ ادارہ سے موجودہ انتظامیہ کے ناروا سلوک سے تنگ آکر الگ ہو چکے تھے، تاہم یہاں آنے جانے کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری تھا۔ ادارہ سے وابستگی سے قبل جب کبھی کہیں ان سے ملاقات ہوتی اور میرے ساتھ میرا بڑا لڑکا ہوتا تو بسکٹ کا ایک پیکٹ اور کم سے کم سو روپے ضرور اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ میں منع کرتا تو فرماتے کہ شمیم صاحب آپ چپ رہیے، یہ میرا بھی بچہ ہے۔ ہر عید بقرعید کے موقع پر فون کرکے مجھے اور میرے بچوں کو بلاتے اور قسم قسم کی سوئیاں اور مٹھائیاں کھلاتے اور میرے بچوں کو عیدی دیتے۔ کوئی فقہی مسئلہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تو میں ان سے ہی رجوع کرتا اور ان کے گھر واقع پان والی کوٹھی میں پہنچ جاتا۔ کیونکہ فقہ پر اتنی گہری بصیرت رکھنے والا فرد میری نظر میں اس وقت کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کا برہان پور میں سیمینار تھا، ایک جدید مسئلہ کے استفسار کے لیے ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہواکہ اس مسئلہ میں میری اور ان کی رائے بالکل مختلف ہے، میں نے ان سے کہا کہ مولانا مفطرات صوم کے مسئلہ میں اتنی سہولت مسلمانوں کو مل جائے تو اس کا مذاق اڑا دیں گے۔ جب کہ فقہی جزئیات کی روشنی میں اس کی نفی ہوتی ہے۔ مولانا نے میری بات کو سمجھ لیا اور اپنا فائنل مضمون قلم زد کرکے رکھ دیا کہ بعد میں اس پر مزید غور کروں گا۔ پھر انہوں نے کوئی دو ہزار روپے نکال کر دیے اور کہا اس سے ہم دونوں کا دوطرفہ ریلوے ٹکٹ بنوا لیجیے گا ہم دونوں ایک ساتھ برہان پور جائیں گے۔ جب جانے کا وقت قریب آیاتو انہوں نے فون کیا کہ شمیم صاحب میرا سفر ممکن نہیں، کیوں کہ میرا سعودی عرب جانے کا ویزا آگیا ہے اپنے بڑے لڑکے کے پاس جانے کے لیے، اس لیے میرا ٹکٹ کینسل کرادیجیے، میں نے ٹکٹ کینسل کراکر روپیہ ان کو دینے گیا تو انہوں نے صرف اپنے ٹکٹ کے پیسے لیے میرے ٹکٹ کے بارے میں کہا کہ یہ میری طرف سے آپ کے لیے ہے۔ مولانا مجھے شاید اس وجہ سے بھی بہت عزیز رکھتے تھے کہ میں نے ان کے دو بچوں کو بحیثیت استاذ اقرا پبلک اسکول میں عربی اور اردو پڑھا ئی تھی۔ بعد میں انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ آپ میرے لڑکوں کے استاذ ہیں۔ مولانا کو جو کوئی دیکھ لیتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ وہ صاف شفاف سفید کپڑا زیب تن کرتے سر پرسفید عمامہ /پگڑی باندھے رہتے اور کہیں جاتے تو کھادی قسم کا تھیلا گردن پر ٹانگے رہتے جس میں فوری ضرورت کا ہر سامان ہوتا۔ مثلاً گلاس، بسکٹ، چاقو، سوئی دھاگا وغیرہ۔ چلتے تو دیکھنے والا ان کے طویل القامت اور لحیم الجثہ بدن کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوتا۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
وہ بہت زیادہ ملنسار اور تحریکی ذہن رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی سے بڑی گہری وابستگی تھی۔ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور چھوٹی سے چھوٹی سنت پر دلجمعی سے عمل کرتے تھے۔
مولانا طویل عرصے تک ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ سے جڑے رہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا سید جلا ل الدین عمری، ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی کی طرح ادارہ کا علمی معیار ووقار بلند کرنے میں ہمیشہ لگے رہے۔ ان کی درجنوں اہم کتابیں پہلے ادارہ سے بعد میں مرکزی مکتبہ اسلامی سے شائع ہوئیں۔ وہ ایک بڑے مصنف ہونے کے ساتھ ایک بڑے مفکر اور مقرر تھے۔ فقہ اسلامی پر بھی بڑی گہری نظر تھی۔ عصری مسائل سے ان کو خاصی دلچسپی تھی۔ اردو، ہندی اور انگریزی اخباروں کا مطا لعہ بڑی خوردبینی سے کرتے اور ان کے تراشے جمع کرتے۔ زیادہ تر انہوں نے انہی مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کیا جس سے مسلم امت اس وقت دوچار ہے اورجو مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی ایک کتاب ’’اسلام کا نظریہ جنس‘‘ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ’مشترکہ خاندانی زندگی اور اسلام‘، ’پردیس کی زندگی اور اسلام‘ بڑی ہی معلومات افزا کتابیں ہیں۔ ہندوستان میں جو علمی سیمینار اور کانفرنسیں ہوتیں اس میں انہیں بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا۔ اسلامی فقہ اکیڈمی اور ابجیکٹیو اسٹڈیز کے علمی پروگراموں میں وہ بڑی پابندی سے شرکت کرتے اور وہاں اپنے فقہی آرا کو بڑے ہی خوش اسلوبی اور دلائل کی روشنی میں پیش کرتے، جسے لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے۔
جب میں کولکتہ عالیہ یونیورسٹی میں آگیا تو وہ برابر فون کرکے میری خیریت معلوم کرتے۔ جب شعبہ دینیات کی طرف سے میں نے سہ روزہ عالمی سمیناراسلامک اکیڈمی کے اشتراک سے منعقد کیا جس کا عنوان تھا ’’تکثیر معاشرہ، اسلام اور مسلمان‘‘ تو وہ مجھے اس کام کو انجام دینے کے لیے اسرارورموز سے آگاہ کرتے رہے۔ اس کانفرنس میں وہ کسی اہم مصروفیت کی بنا پر شریک نہ ہوسکے، مگر مقالہ سپرد قلم کرکے اکیڈمی کو بھیج دیا تھا۔ جب ان کو کانفرنس کی کامیابی کی خبر کسی دوسرے ذرائع سے ہوئی تو انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔
دو تین ہفتہ قبل مولانا نے اپنا سہ ماہی رسالہ ’’روح و ادب‘‘ جس کے وہ خود مدیر تھے پہلی بار مجھے کولکتہ ڈاک سے بھیجا تھا۔ شاید مولانا کایہ میرے لیے آخری علمی تحفہ تھا، جس کی حفاظت میرے لیے ضروری ہے۔
اللہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور امت مسلمہ کو ان کے بدل سے نوازے آمین۔
Leave a Reply