
درج ذیل مضمون نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ اخبار ’’دعوت‘‘ کے خصوصی ایڈیشن ’’عالمی استعمار اور ہندوستان‘‘ سے شکریے کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں اگرچہ کہ بھارت کے پس منظر میں، اور وہیں کی مثالیں دے کر بات سمجھائی گئی ہے‘ مگر حقیقتاً یہ ہمارے اپنے ملک کی بھی کہانی ہے۔ کچھ نام اور مقامات تبدیل کر دیجیے، یہی کچھ پاکستان میں بھی ہوتا دکھائی دے گا۔ دراصل آج پوری انسانیت ایک نہایت سفاک عالمی استعمار اور ازحد بے رحم عالمی نظامِ سرمایہ داری کے شکنجے میں جکڑ دی گئی ہے۔ عالمِ انسانیت کی یہ تازہ غلامی اس لحاظ سے ماضی کی تمام غلامیوں سے مختلف بھی ہے اور مہلک بھی، کہ ماضی کی غلامی سر کی آنکھوں سے نظر بھی آتی تھی اور اُس وقت کے غلام‘ آزادی حاصل کرنے کی خواہش و کوشش میں بھی لگے رہتے تھے۔ جبکہ آج کی غلامی کی زنجیریں نادیدہ بھی ہیں اور آج کے غلام اپنے حالِ زار کو اپنا اوجِ کمال بھی سمجھتے ہیں اور اس راستے پر شاداں و فرحاں بگٹٹ دوڑے بھی چلے جا رہے ہیں۔ (مدیر)
سرمایہ دارانہ استعمار اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جن وسائل کو استعمال کرتا ہے، ان میں ’میڈیا‘ سب سے طاقتور وسیلہ ہے۔ عام طور پر سرمایہ دارانہ استعمار کی خدمت میں مصروف میڈیا کے لیے ’کارپوریٹ میڈیا‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ’کارپوریٹ میڈیا‘ سے مراد میڈیا پروڈکشن، میڈیا ڈسٹری بیوشن، میڈیا کی ملکیت اور میڈیا میں سرمایہ کاری کا ایک ایسا نظام ہے جس پر تجارتی اداروں کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ کاروں، حصص داروں اور مشتہرین کے مفادات اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کی فراہمی کے اصول پر کام کرتا ہے۔ عوامی مفاد سے اس کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اور یہی میڈیا عوام کی رائے پر سب سے زیادہ اثر انداز بھی ہوتا ہے۔
غیر جمہوری ممالک میں ذرائع ابلاغ نظام حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور انہیں وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ جمہوری ممالک میں ذرائع ابلاغ کے نظام کا ڈھانچہ، اس پر کنٹرول کا طریقہ اور اس کے ضوابط ملک کے مجموعی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ امریکا وہ پہلا ملک ہے جہاں میڈیا مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہے اور امریکا کے ذرائع ابلاغ پر دو درجن سے بھی کم سرمایہ دار کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیر اثر آزاد معاشی نظام کے غلبے کے بعد دیگر کئی ممالک میں اسی ماڈل کو اپنایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں میڈیا پر سے حکومت کا کنٹرول کم سے کم ہو گیا ہے اور ریاست کا چوتھا ستون ملک اور عوام کی خدمت کے بجائے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی خدمت میں مصروف ہو گیا۔
۱۹۹۰ء میں ہندوستان نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دبائو میں اپنے دروازے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے کھول دیے۔ چونکہ ہندوستان ۳۰ کروڑ ناظرین کے ساتھ دنیا کا ایک بڑا سٹیلائٹ ٹی وی مارکیٹ ہے، چنانچہ بین الاقوامی ٹیلی ویژن کمپنیاں اسی مارکیٹ پر قبضہ کرنے کے لیے بڑی تیزی سے ہندوستان میں داخل ہوئیں اور ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے پر آج ان ہی کمپنیوں کا قبضہ ہے۔
ذرائع ابلاغ میں استعمار کا ایک اور مظہر یہ ہے کہ بڑی اور طاقتور میڈیا کمپنیوں کی طاقت کے مقابلے میں کمزور اور چھوٹے ممالک اپنی شناخت سے محروم ہو رہے ہیں۔ جس طرح خدمات اور مصنوعات کے میدان میں بڑی بڑی کمپنیوں کے داخلے کے بعد مقامی کمپنیاں یا تو بند ہو رہی ہیں یا انہیں یہ بڑی کمپنیاں نگل رہی ہیں اور جس طرح ریلائنس مارٹ، وال مارٹ جیسی ریٹیل کمپنیوں کی آمد کے بعد مقامی سطح کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے اسی طرح میڈیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے داخلے کے بعد اس میدان میں کام کرنے والی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں مجبوراً یا تو بند ہو رہی ہیں یا ان بڑی کمپنیوں میں ضم ہو رہی ہیں۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد رکھنے اور خانگی میڈیا کا تصور بنیادی طور پر غلط نہیں ہے۔ اس سے صحت مند مسابقت پیدا ہوتی اور حکومت کی غلطیوں پر نگاہ بھی رکھی جا سکتی تھی۔ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی تمام کمپنیاں بتدریج صرف چند بڑے سرمایہ داروں کی ملکیت بنتی جا رہی ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا کے میڈیا پر ۱۰ سے بھی کم ملٹی نیشنل میڈیا کمپنیوں کا قبضہ ہے۔
ان کمپنیوں میں ٹائم وارنر (Time Warner)، ڈزنی (Disney)، نیوز کارپوریشن (News Corporation)، وایا کام (Viacom)، سونی (Sony)، سیگرام (Seagram)، برٹیلس مین (Bertelsmann) اور جی ای (G.E) شامل ہیں۔
روپرٹ مرڈوک کی نیوز کارپوریشن کے مختلف ٹی وی اسٹیشن لاطینی امریکا، جنوبی و وسطی امریکا، برطانیہ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اسٹار ٹی وی کے تمام چینلز اسی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ امریکا کا پہلا براڈ کاسٹ نیٹ ورک NBC پوری دنیا میں ۲۸ سے زائد اسٹیشن چلاتا ہے، جس میں بزنس چینل CNBC بھی شامل ہے۔ CNN انٹرنیشنل دنیا کے ۲۱۲ ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے ناظرین کی تعداد دنیا بھر میں تقریباً ایک بلین ہے۔ میڈیا پر چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے تسلط کے باعث صحافت کا معیار تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ حد سے زیادہ دولت پرستی کا کلچر فروغ دیا جا رہا ہے، جس کے باعث عام انسانی زندگی تباہ ہو رہی ہے اور جمہوری اقدار پامال ہوتی جا رہی ہیں۔
اصولی طور پر ذرائع ابلاغ کا نظام چند بنیادی مقاصد کے تحت کام کرتا ہے، جو دراصل میڈیا کے فرائض بھی ہیں:
۱۔ معلومات کی فراہمی ۲۔ ذہن سازی
۳۔ تفریح کی فراہمی
لیکن سرمایہ دارانہ معاشی استعمار کے غلبے کے نتیجے میں میڈیا کی ان تینوں ذمے داریوں کی معروضیت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور کارپوریٹ دنیا کے مفادات کی تکمیل ہی ان کا اصل مقصد ہو چکا ہے۔
۱۔ معلومات کی فراہمی
میڈیا کا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ مختلف ذرائع سے کام لے کر عوام تک صحیح معلومات فراہم کرے۔ لیکن آج کا کارپوریٹ میڈیا اپنے مالکوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کی خاطر انتہائی بددیانتی سے حقائق و واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے، غیر اہم معلومات کو انتہائی اہم بنا کر پیش کرتا ہے اور کبھی کبھی انتہائی بے بنیاد اور غلط خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور ان سب کا مقصد صرف سرمایہ دارانہ استعمار کے مفادات کا تحفظ ہے۔
گزشتہ دنوں دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینل اور اخبارات کے صفحات برڈفلو نامی ایک مرض پر چیخ پکار کر رہے تھے جس کے نتیجے میں تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں مرغیوں کو ہلاک کیا گیا۔ خود ہندوستان کی کئی ریاستوں میں لاکھوں مرغیاں تلف کی گئیں‘ ہندوستان کی پوری پولٹری انڈسٹری بحران کا شکار ہو گئی۔ چھوٹے فارمرس کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ لوگ انڈوں کے استعمال سے بھی خوف کھانے لگے۔ یہ ساری کارروائی میڈیا کی جانب سے کھڑے کیے گئے برڈ فلو کے ہوّے کا نتیجہ تھی۔ جبکہ ان دنوں ہندوستان میں برڈ فلو سے ایک مریض بھی نہیں مرا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کا بحران اور سنسنی پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل یہ سارا ہوّا چند ملٹی نیشنل دواساز کمپنیوں کے ایما پر کھڑا کیا گیا تھا جو اپنی تیار کردہ اینٹی بائیوٹک دوائوں کو ایشیائی ممالک میں پھیلانا چاہتے تھے۔ اس بات کے بھی شکوک پائے جاتے ہیں کہ بعض بڑے ممالک کی پولٹری کمپنیاں تیسری دنیا کے ان ممالک کی پولٹری مارکیٹ میں داخل ہونا چاہتی تھیں اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ بازار میں موجود پولٹری پروڈکٹس کے متعلق عوام کو بدگمان کیا جائے۔ اس طرح دولت کی بنیاد پر ایک مصنوعی ہوّا کھڑا کیا گیا اور اس کے بعد پتا نہیں برڈ فلو کہاں چلا گیا؟
اس کے برخلاف ایک دوسری صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر منٹ میں ایک آدمی ٹی بی کے مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ روزانہ تقریباً ۴۴۰ء۱ افراد اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سالانہ اس مرض کا شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد ۵۲۵۶۰۰ تک پہنچتی ہے۔ تفصیلات کسی کے اندازے یا تخیل کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ کچھ دنوں قبل وزارت صحت و خاندانی بہبود میں ڈائریکٹر جنرل (ٹی بی) ڈاکٹر ایل ایس چوہان نے یہ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ۱۸ لاکھ ٹی بی کے نئے مریض دواخانوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان میں سے زائد از ۵ لاکھ مریض اس کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان مریضوں کی اکثریت کا تعلق سماج کے غریب طبقات سے ہوتا ہے۔ قالین سازی، بیڑی، اگربتی و دیگر کارخانوں میں کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور، رکشہ کھینچنے والے، بے زمین کسان، جاروب کش اور ان کے وہ افراد خاندان اس جان لیوا مرض کے شکار ہیں جو پیدائش کے بعد ہی سے۔ بلکہ اکثر پیدائش سے قبل ہی۔ نقص تغذیہ کا شکار ہوتے ہیں اور انتہائی غیر صحت مند ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن اس ساری صورتحال پر اس کارپوریٹ میڈیا کو کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ پرنٹ میڈیا کی دنیا کے بڑے بڑے اخباروں کے پاس اس سے متعلق خبروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم پروگراموں میں اس پر مباحثے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ انہیں خوف ہے کہ اس کے باعث وہ اشتہارات سے محروم ہو جائیں گے یا ان کی TRP کم ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ان خبروں کے باعث دنیا میں ہندوستان کے متعلق غلط تصویر بنے گی اور نتیجے کے طور پر یہاں کی جانے والی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔۔۔۔۔ جاری ہے!
{}{}{}
Leave a Reply