
سرمایہ دارانہ استعمار کی نظر میں اس وقت اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ اسلام اور مسلمان ہیں۔ اس لیے میڈیا میں مسلمانوں کے متعلق پیش کی جانے والی خبریں اور تبصرے جانبداری سے پاک نہیں ہوتے۔ اسلام کو تشدد کا علمبردار اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا کوئی موقع میڈیا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی پرتشدد واقعہ ہوتا ہے تو واقعہ کی اصل حقیقت چاہے کچھ بھی ہو، اخبار یا ٹی وی کے ذریعے بغیر کسی ثبوت یا تحقیق کے اس کا الزام کسی مسلم گروپ پر رکھ دیا جاتا ہے اور اسی مفروضے کی بنیاد پر انتہائی جھوٹی کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔ ٹی وی چینل تو اس معاملے میں سب پر بازی لے جاتے ہیں اور انتہائی معمولی باتوں کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب تحقیقات کے بعد حقائق سامنے آتے ہیں تو یہی میڈیا اس چیز کو اس طرح بلیک آئوٹ کر دیتا ہے جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔
اس کے برخلاف کسی واقعہ میں ہندو دہشت پسندوں کی کارستانی کے واضح اشارات بھی موجود ہوں تو میڈیا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ ناندیڑ کا بم دھماکہ، مالیگائوں بم دھماکے، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ، آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر پر دھماکہ اور مڑ گائوں (گوا) بم دھماکے کے واقعات اس کی بدترین مثالیں ہیں، جس میں سارے شواہد کے باوجود قومی اخبارات اور ٹی وی چینل چپ سادھے رہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی صورت حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اوکلاہاما میں بم دھماکے کا ذمہ دار ایک امریکی تھا لیکن کسی تحقیق کے بغیر میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان کھڑا کیا گیا، مسلمانوں کی تصویر ایک دہشت گرد قوم کی بنا دی گئی۔ بعض اوقات ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے متعلق ایسے موضوعات زیر بحث لاتے ہیں، جن کی خود مسلمانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن انہیں اس طرح بحث و گفتگو کا موضوع بنا دیا جاتا ہے کہ اسلام کے دینی احکام اور شعائر مذاق اور تحقیر کا نشانہ بن جائیں۔ مثلاً اترپردیش کے عارف اورگڑیا کی شادی کا معاملہ، جس کی راست ٹیلی کاسٹ کے ذریعے ٹی وی نے اپنے TRP میں اضافہ کرنے کے لیے تمام صحافتی اخلاق کو پامال کیا۔
اس ملک میں روزانہ نہ جانے کتنی عورتوں کی عصمتیں پامال کی جاتی ہیں۔ کئی واقعات میں ان کے قریب ترین رشتے دار اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کی خبریں اخبار کے کسی کونے میں جگہ پانے سے بھی محروم رہتی ہیں۔ لیکن مراد آباد کے کسی گائوں میں ایک مسلم خاندان کے خسر اور بہو کے درمیان ہونے والا واقعہ اس میڈیا کے نزدیک اس قدر اہمیت حاصل کر لیتا ہے کہ اس پر کئی کئی دنوں تک بحثیں جاری رہتی ہیں اور مختلف زاویوں سے اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ یہاں اس واقعے سے انکار یا اس کی شناعت و قباحت کو کم کرنا نہیں ہے بلکہ میڈیا کے دوہرے رویے کا ذکر مقصود ہے۔
کارپوریٹ میڈیا کے نزدیک عوام کے حقیقی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر وہ ان کے لیے مالی منافع کا سبب نہ بنتے ہوں تو ان مسائل کے لیے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں بچے نقص تغذیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں اس ملک میں کسی پرنس کے بورویل میں گر جانے اور اس کے بچانے کے واقعے پر ہندوستان کا میڈیا اس طرح سرگرم ہو جاتا ہے جیسے وہ بچوں کا حقیقی ہمدرد ہو۔ پورے دو دن تک اس کو بچانے کی کوششوں کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا رہا اور اس کے دوران کروڑوں روپے کے اشتہارات حاصل کیے گئے۔
چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں ہندوستان کی شکست کے اسباب اور دھونی کی کپتانی پر پرائم ٹائم میں کئی کئی دنوں تک مباحثے کے لیے وقت ہوتا ہے لیکن ہزاروں کسانوں کی خودکشی پر گفتگو کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ ٹی وی کے اسکرین پر امیتابھ بچن کے گھٹنے کا آپریشن دکھایا جاتا ہے اور ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کی موت کی اطلاع Scrolling میں آئی اور چلی گئی۔
مشہور این آر آئی لکشمی متل فولاد کی دنیا کے ٹائیکون ہیں۔ ہندوستانی عوام کے لیے ان کی کوئی اہم خدمات نہیں ہیں لہٰذا یہاں کے عوام کو ان سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ لیکن میڈیا میں ان کی بیٹی کی شادی کی خبریں انتہائی اہم واقعے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ ایشوریہ رائے اور بھیشک بچن کی شادی ہندوستان کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات پر کئی دنوں تک چھائی رہی۔ ان خبروں کو میڈیا میں اس طرح پیش کیا جاتا رہا جیسے یہ ہندوستان کے عوام کے لیے انتہائی اہم خبریںہیں۔
ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کی جانب سے معلومات کی فراہمی کے اس کام میں کوئی معروضیت نہیں بلکہ خود غرضی اور مفاد پرستی پائی جاتی ہے اور عوام کو ایسی ہی معلومات فراہمی کی جاتی ہیں جن سے سرمایہ دارانہ استعمار کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔ اس کے لیے وہ حقائق کو تبدیل بھی کرتے ہیں، غیر اہم واقعات کو اہم بنا دیتے ہیں اور انتہائی جھوٹی اور بے سروپا باتیں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پھیلاتے ہیں۔ وہ خبریں جو ایک جمہوری سماج کے لیے ضروری ہیں، جو اس کے شہریوں کو سماج کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے پر آمادہ و تیار کرتی ہیں کارپوریٹ میڈیا ان سے صَرف نظر کر لیتا ہے تاکہ غیر اہم، سنسنی خیز اور اخلاق کو بگاڑنے والی خبروں کو جگہ مل سکے۔
۲۔ ذہن سازی
میڈیا کا دوسرا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ عوام کی ذہن سازی کرے۔ ان کی رائے، طرزِ عمل اور رویوں کو ملکی و قومی ضروریات کے مطابق تبدیل کرے۔ سماج کے اہم اور سلگتے ہوئے مسائل پر حکومت اور عوام کی توجہ مبذول کرے۔ دورِ حاضر کا کارپوریٹ میڈیا جو سرمایہ دارانہ استعمار کا سب سے طاقتور آلہ ہے وہ استعمار کے مفادات کے تحت غلط باتوں پر عوام کی ذہن سازی کرتا ہے۔ انہیں خوشی سے معاشی غلامی پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ذہن سازی اتنی چابک دستی اور مہارت سے کی جاتی ہے کہ متاثرین بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ زہر ہلاہل کو بھی آب حیات سمجھ کر استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ مختلف دلائل کے ذریعے سرمایہ دارانہ استعمار کے ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے۔ نئے نئے نعرے اور القاب کو متعارف کرواتا ہے۔ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے دشمنوں کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلے کو بھڑکاتا ہے۔ اپنی پسندیدہ شخصیات اور اداروں کے لیے عوام کے دلوں میں ہمدردی اور حمایت کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے، ان کے قد کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ناپسندیدہ شخصیات، اداروں اور پالیسیوں کے متعلق بدگمانی پیدا کرتا ہے اور ان کے وقار کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ استعماری میڈیا کا ہی کارنامہ ہے کہ اپنی سرزمین پر دشمنوں کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کو دہشت گردوں کا خطاب عطا ہوتا ہے اور غاصب و ظالم اسرائیل پرامن ملک قرار پاتا ہے۔
عراق پر حملے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے صدام حسین کی شخصیت کو امریکا، مغربی دنیا، جمہوریت اور انسانیت کا دشمن مشہور کیا گیا۔ پورا عالمی میڈیا عراقی عوام کی ہمدردی میں راگ الاپنے لگا۔ صدام حسین کی فوج ’نیشنل گارڈ‘ کو دنیا کی طاقتور ترین اور اعلیٰ درجے کی ایسی ماہر فوج قرار دیا گیا جو بہترین اسلحے اور اعلیٰ ترین صلاحیتوں کی حامل ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ عراق کے خلاف امریکا کی خلیجی جنگ کو میڈیا کے ماہرین نے میڈیا کی جنگ قرار دیا۔ ایسی جنگ جو صرف میڈیا نے لڑی اور اسی میڈیا کی مدد سے امریکا نے عربوں سے کھربوں ڈالر بھی وصول کیے اور ان پر مسلط بھی ہو گیا۔
Centre for public Integrity کی جانب سے کی گئی ایک تفصیلی تحقیق کے مطابق امریکا کے سابق صدر جارج بش اور ان کی انتظامیہ کے سات دیگر اہم ترین عہدیداروں نے اس دوران دنیا و امریکی قوم کی صیانت کے لیے صدام حسین کو انتہائی خطرناک ثابت کرتے ہوئے کم ازکم ۹۳۵ جھوٹے بیانات جاری کیے جن کو کارپوریٹ میڈیا نے بغیر کسی اعتراض اور تحقیق کے نشر کیا اور انہیں ’’عراق پر حملے‘‘ اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ (War on Terror) کے لیے معقول جواز کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسی طرح ملکی و ریاستی سطح پر ہونے والے ہر انتخاب کے موقع پر میڈیا کے ذریعے اپنے پسندیدہ یا پیسہ فراہم کرنے والے افراد، پارٹیوں اور پالیسیوں کے متعلق عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس بات کے واضح شواہد ہیں کہ سال ۲۰۰۹ء کی ابتدا میں آندھرا پردیش کے اسمبلی و پارلیمانی انتخابات اور ماہ اکتوبر میں مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر اخبارات نے انتخابی امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کو خبروں کی جگہ (News Space) فروخت کی۔ دونوں ریاستوں کے علاقائی و انگریزی اخبارات و ٹی وی چینلوں کو مبینہ طور پر اربوں کی آمدنی ہوئی۔ ان کے ذریعے امیدوار یا ان کی پارٹی نے مختلف اخباروں میں خبروں کی جگہ خرید لی اور اس پر ان کی مرضی کی خبریں شائع کی جاتی رہیں، جس کے ذریعے رائے دہندگان کے سامنے ان کی بہتر تصویر پیش کی گئی۔ جن امیدواروں یا پارٹیوں نے Coverage Packages کو قبول نہیں کیا ان کی تشہیر سے اخباروں نے انکار کر دیا۔ پی سائی ناتھ نے اپنے ایک مضمون میں مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات کے موقع پر ہونے والے اس طرح کے معاملات کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ (’’دی ہندو‘‘۔ ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۹ء)
کئی سنجیدہ صحافیوں نے ’’خبروں کی جگہ کی فروخت‘‘ کی سختی سے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے باعث اخبارات پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اور اخبار اپنا اعتبار کھو دیں گے۔
کانگریس کی موجودہ امریکا نواز پالیسی سرمایہ دارانہ استعمار کی پسندیدہ پالیسی ہے بلکہ بعض ماہرین سیاسی کا خیال ہے کہ یہ پالیسی خود سرمایہ دارانہ استعمار کی مسلط کردہ ہے۔ ہند امریکا نیوکلیئر معاہدہ اس پالیسی کا ایک اہم مظہر تھا۔ ملک میں بائیں بازو کی پارٹیوں نے اس معاہدے کی مخالفت کی تھی جس کے نتیجے میں ہندوستان کی کارپوریٹ میڈیا بائیں بازو کا مخالف ہو گیا تھا۔
کارپوریٹ میڈیا کا ایک رویہ مسلمانوں کے مسائل کے متعلق یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں کی نمائندگی ایسے افراد سے کروائی جاتی ہے جو مسلمانوں میں ناپسندیدہ مگر کارپوریٹ میڈیا کے نزدیک پسندیدہ ہوتے ہیں یا ان کی پسند کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح غیر اہم افراد اور اداروں کو مسلمانوں کو نمائندگی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
بنگلا دیش کی تسلیمہ نسرین ایک معمولی مصنفہ ہے، جس کی تصانیف کا کوئی معیار نہیں ہے۔ خود اس کا ناول ’’لجّا‘‘ بھی ادبی معیار کے اعتبار سے ایک گھٹیا قسم کا ناول ہے۔ لیکن میڈیا نے جس طرح اس کی تشہیر کی اور اس کو آزادی فکر و علم و دانش کی ہیروئن بنا کر پیش کیا، اس سے میڈیا کی ذہنیت کا پتا چلتا ہے۔
۳۔تفریح کی فراہمی
میڈیا کا ایک اور مقصد لوگوں کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔ تفریح انسان کی فطری ضرورت ہے، لیکن اگر یہ تفریح انسان کو انسان کے مرتبے سے گرا دے تو پھر یہ تفریح نہیں بلکہ اذیت ہے۔
سرمایہ دارانہ استعمار کے خدمت گزار کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے تفریح کے نام پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے اس کے باعث انسان اپنے مرتبے سے گر کر حیوان بنتا جا رہا ہے۔ اس میدان میں اخبارات، میگزین، ٹی وی چینل، ریڈیو، فلم اور انٹرنیٹ تمام ذرائع ابلاغ پوری طرح مشغول ہیں اور تفریح کے نام پر وہ سب کچھ پیش کر رہے ہیں، جس کو ایک مہذب سماج کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا، لیکن سماج کو بتدریج اس طرح اس کا عادی بنایا گیا کہ اب اس کی سنگینی کو محسوس کرنے والے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹی وی پر گھریلو موضوعات کے سیریلوں کے نام پر ملک میں اخلاق سے عاری ثقافت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ کئی برسوں تک مسلسل دکھائے جانے والے ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘، ’’کہانی گھر گھر کی‘‘ اور اس جیسے بے شمار ’’گھریلو‘‘ ٹی وی سیریل روزانہ مختلف ٹی وی چینلوں پر جاری ہیں۔ ان سیریلوں میں ناجائز جنسی تعلقات، بے حیائی، مخلوط پارٹیاں، گھریلو جھگڑے، قریبی رشتے داروں کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کی کہانیاں نام بدل کر دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے عالیشان مکانات، آرام دہ کاریں، اعلیٰ قسم کے ملبوسات و زیورات، انتہائی نفیس و عمدہ فرنیچر و دیگر سازو سامان کو اس طرح دکھایا جاتا ہے کہ خواتین ان کی دیوانی ہو جاتی ہیں اور بازار سے اس قسم کی اشیا کی خریداری کی کوشش کرتی ہیں۔ خواتین کے اکثر ملبوسات اور زیورات کے نام مختلف سیریلوں یا ان کی ہیروئنوں کے نام پر ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کے ذریعے ریالٹی شوز کے نام پر انتہائی بے ہودہ قسم کا کلچر ہندوستانی سماج کے رگ و پے میں سرایت کیا جا رہا ہے۔
ٹی وی چینلوں پر جرائم سے متعلق بھی کئی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں جن میں ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے جرائم کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔ اسلام نے جرم اور گناہ کی تشہیر سے منع کیا ہے تاکہ لوگ جرم و گناہ کے متعلق بے حس نہ ہو جائیں۔ لیکن ان پروگراموں میں جرائم کی تفصیلات سنسنی خیز انداز میں پیش کی جاتی ہیں اور اس قدر جزئیات کے ساتھ پورے جرم کی تفصیل بتائی جاتی ہے کہ ان سے جرائم میں کمی کے بجائے اور اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی لوگوں کے لیے سامان لذت فراہم ہوتا ہے اور ناتجربہ کار مجرم بھی جرم کرنے کے طریقوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر تفریح کے نام پر بچوں کو تشدد، بے حیائی اور توہم پرستی کا زہر پلایا جا رہا ہے۔ بچوں کے ٹی وی سیریلوں اور کارٹونس میں جادو ٹونا، بھوت پریت، ہیرو کے مافوق الفطری کارناموں کی بہتات ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بچوں کا معصوم ذہن غیر حقیقت پسند بنتا جا رہا ہے۔ لٹل چیمپ جیسے بچوں کے گیم شو کے ذریعے معصوم بچوں کو ناچ گانے اور اس میں مسابقت کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ گیم شو چھوٹے بچوں میں انتہائی مقبول ہیں۔
لوگوں کے لیے سنیما تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دورِ حاضر میں سنیما بھی سرمایہ دارانہ استعمار کا ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ ہندوستان کی فلمی صنعت جسے عرفِ عام میں بالی ووڈ کہتے ہیں دنیا کی سب سے زیادہ فلمیں تیار کرنے والی صنعت ہے۔ یہاں امریکا کے ہالی ووڈ سے بھی زیادہ یعنی اوسطاً سالانہ ۳۰۰ فلمیں تیار ہوتی ہیں۔ آزادی کے بعد ہی سے ہندوستانی فلم صنعت میں مغربی فلموں کی نقالی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ان میں بتدریج مغربی کلچر کے عناصر شامل ہوتے گئے۔ لیکن گلوبلائزیشن کے بعد جب مختلف سٹیلائٹ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیرونی فلمیں نشر کی جانے لگیں تو اس سے یہاں کی فلمی صنعت بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ ان سے مسابقت میں ہندوستان کی فلمیں بھی زیادہ تشدد اور عریانیت کا سہارا لینے لگیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندوستانی فلمیں عریانیت، بے حیائی، تشدد کے مناظر میں مغربی فلموں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ گلوبلائزیشن کے بعد بڑے پردے پر بھی فلموں کی نمائش کے لیے ملکوں کی سرحدیں اب کوئی رکاوٹ نہیں رہیں۔ ہالی ووڈ کی فلمیں تمام اہم ہندوستانی زبانوں میں ڈب ہو کر یہاں کے عوام کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔ امریکا کی فلمی صنعت کی بڑی بڑی کمپنیوں کے لیے ہندوستانی ناظرین کی شکل میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہاتھ آئی ہے، جہاں وہ انتہائی کم سرمایہ کاری کے ذریعے زبردست منافع حاصل کر سکتے ہیں۔
ہندوستانی فلموں میں منصوبہ بند طریقے سے ایک خاص کلچر کو ملک میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے بعد بننے والی اکثر فلموں کا موضوع محبت تھا۔ جب کہ آجکل Live in Relationship ہم جنس پرستی اور Gay کلچر کو پیش کرنے والی فلموں کا انبار لگا ہوا ہے اور ہندوستان میں اب اس کلچر کے متعلق لوگوں کی ذہن سازی ہو رہی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ ہندوستان کا پرنٹ میڈیا بھی اسی کلچر کے فروغ میں مصروف ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ملک کی مختلف علاقائی زبانوں میں سے دو سو سے زائد ایسے رسائل شائع ہوتے ہیں جو تمام اخلاقی حدود کو پار کر کے معاشرے کو ہوس پرست بنا رہے ہیں۔ یہ جنسی رسائل کیا کم تھے کہ روزنامہ اخبارات نے بھی انتہائی مہذب طریقے سے اسی کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ملک کے کسی بھی زبان کے روزنامہ اخبار پر نظر ڈالیں تو آسانی سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تمام اخبارات اس معاملے میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ جا بجا عریاں تصاویر کی بھرمار پیج تھری کے کالم جس میں بڑے شہروں کی پارٹیوں اور اس میں شریک ہونے والی شخصیتوں کا تعارف اور ان کی تصاویر، شراب خانوں اور کلبوں کا تعارف، فیشن اور آرائش حسن کے طریقے اور ان سے متعلق تصاویر، صحت کے کالموں میں بیداری کے نام پر بے ہودہ سوال و جواب وغیرہ کے ذریعے تمام اخبارات ایک مخصوص کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن، فلموں، اخبارات و رسائل اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے تفریح کے نام پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے اس کے انتہائی تباہ کن اثرات سماج پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ملک میں روز بروز جرائم کی تعداد میں ہونے والے اضافے کا سب سے اہم سبب یہی میڈیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں جرائم کی رفتار میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔ ان شہروں میں ۲۰۰۳ء کے دوران ہونے والے درج رجسٹر جرائم کی تعداد ۲۴۶،۹۱،۲ تھی، جو ۲۰۰۷ء میں بڑھ کر ۸۸۹،۳۶،۳ ہو گئی۔ خواتین کے خلاف جرائم کی رفتار میں اضافہ بھی قابل غور ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۰۳ء کے دوران خواتین کے ساتھ زیادتی کے ۸۴۷،۱۵، اغوا کے ۲۹۶،۱۳ اور اذیت رسانی کے ۹۳۰،۷۵ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جبکہ ۲۰۰۷ء میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے ۷۳۷،۲۰، اغواء کے ۴۱۶،۲۰ اور اذیت رسانی کے ان سے بھی زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ بچوں میں بھی جرائم کے رجحانات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں اخلاقی قدریں زوال پذیر ہیں۔ خاندان کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔ (اس سلسلے کی تفصیلی رپورٹ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ویب سائٹ www.ncrb.nic.in پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
میڈیا اور اشتہارات
بنیادی طور پر اشتہارات میڈیا کے اصل مواد کا حصہ نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ ذرائع ابلاغ کے اصل مواد کے ساتھ اضافی معلومات کے طور پر شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ ذرائع ابلاغ کی رسائی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد تک ہوتی ہے اس لیے مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کے تعارف کے لیے میڈیا کی مدد حاصل کرتی ہیں۔ بات سادہ انداز میں اس حد تک مناسب تھی۔ لیکن میڈیا پر سرمایہ کے غلبے کے باعث اس کا نقطۂ نظر ہی بدل چکا ہے۔ موجودہ کارپوریٹ میڈیا کے نزدیک اصل چیز اشتہارات ہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اشتہارات کا حصول ہی کارپوریٹ میڈیا کا ہدف ہے۔ بڑی کمپنیوں اور کارپوریٹ میڈیا کے مشترکہ مفاد کے باعث اشتہار بازی کی نئی نئی حکمت عملیاں تیار ہو چکی ہیں۔ نئی نئی ضرورتیں ایجاد کی جا رہی ہیں۔ مختلف تعیشات کو ضرورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس طرح صارفیت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے،جو سرمایہ دارانہ استعمار کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس کام کے لیے ایڈورٹائزنگ کا ایک پورا نظام وجود میں آ چکا ہے۔ کئی کمپنیاں صرف پرکشش اشتہارات تیار کرتی ہیں۔ بے شمار ماڈل، ڈیزائنرس اور اختراعی اشتہارات تیار کرنے والے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ دنیا بھر میں اشتہارات کا یہ کاروبار دنیا کی آبادی میں اضافے کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اشتہارات پر ۴۳۵ (یہ بلین ہے، ملین نہیں) بلین ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ (Human Development Report)
اشتہارات دینے والی کمپنیوں کے دبائو کے تحت پروگرام کا مواد بھی ان کی مرضی کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ ناظرین، جو اشتہارات کا اصل ہدف ہوتے ہیں، کے ذہن کے مطابق پروگراموں کی تیاری ہوتی ہے اور بتدریج اب یہ کیفیت ہو گئی ہے کہ میڈیا میں پیش کیے جانے والے مواد کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ اشتہارات کا ہدف کون سا طبقہ ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں کارپوریٹ کے نزدیک ہر چیز صرف (Commodity) یا پروڈکٹ ہوتی ہے۔ چنانچہ کارپوریٹ میڈیا کے نزدیک اس کے ناظرین، سامعین یا قارئین اس کا پروڈکٹ ہیں جو وہ مختلف کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسٹار ٹی وی کے کسی پروگرام کے ۵ لاکھ ناظرین ہیں تو وہ دراصل اسٹار ٹی وی کے پروڈکٹ ہیں اور اس پروڈکٹ کو وہ مختلف مصنوعات کی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ جس ٹی وی چینل یا اخبار کے ناظرین و قارئین کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی وہ اخبار اسی قدر زیادہ اشتہارات حاصل کرے گا اور جن ٹی وی چینلوں یا اخبار و میگزین میں عوام کی دلچسپی کا مسالہ جس قدر زیادہ ہو گا اس کے ناظرین و قارئین کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس طرح یہ سرمایہ داروں کا مفاد پرستانہ شیطانی چکر ہے، جس میں عوام پھنسے ہوئے ہیں۔
اشتہارات کا سب سے قابل اعتراض پہلو یہ ہے کہ اس میں عورت کا استعمال بہت زیادہ اور انتہائی غلط طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ استعمار نے عورت کا جس طرح استحصال کیا ہے اس کا زندہ ثبوت یہ اشتہارات ہیں۔ اشیا چاہے مردوں کے استعمال کی ہوں یا عورتوں کے استعمال کی، باورچی خانے کا سامان ہو یا حمام کے ٹائلٹس غرض ہر اشتہار میں خواتین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے اور ان میں عریانیت و بے حیائی کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اور خواتین کی مخصوص ضرورتوں کی اشیا کے اشتہارات بھی اس قدر بے شرمی کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں کہ انہیں گھر میں افرادِ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا نہیں جا سکتا۔ ان اشتہارات سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں۔
میڈیا کا اسلامی نظریہ
اسلام نے زندگی کے تمام معاملات میں انسانوں کی رہنمائی کی ہے۔ یہ دین ہر زمانے کے حالات میں انسانوں کے لیے ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ قرآن و حدیث کے اور اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے ہمیں موجودہ دور کے اس اہم شعبے یعنی میڈیا کے متعلق بھی اصولی ہدایات ملتی ہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ ذرائع ابلاغ فی نفسہٖ غلط یا بُرے نہیں ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ پر اس وقت جن قوتوں کا قبضہ ہے وہ اس کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔ اگر اسلامی اصولوں کی روشنی میں میڈیا کی تشکیل ہو تو یہی میڈیا انتہائی کارگر اور معاشرے کے لیے مفید و وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ (کارپوریٹ میڈیا)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کا خصوصی ایڈیشن ’’عالمی استعمار اور ہندوستان‘‘)
Leave a Reply