
عبدالقادر ملّا کی مظلومانہ پھانسی نے ۱۹۷۱ء کے زخم ہرے کر دیے۔ اور یہ مہینہ بھی دسمبر کا ہے اور وہ تاریخ کل ہے جب ڈھاکا میں اس وقت کے جرنیلوں نے قائداعظمؒ کا پاکستان پلٹن میدان کی مٹی میں ملا دیا تھا۔ پہلے تو یحییٰ خاں اور اس کی غدّار الیون نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کو کھلی چھوٹ دیے رکھی، الیکشن میں ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی جس کا ایک صاف مقصد تھا کہ علیحدگی پسند ہار گئے تو مشرقی پاکستان کو الگ کیسے کریں گے جس کی ساری ملی بھگت بھٹّو کے ساتھ ہو چکی تھی۔اس کے بعد اسی منصوبے کے تحت غدّار الیون نے الیکشن کرانے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس پہلے ڈھاکا میں بلایا پھر ملتوی کر دیا جس کے بعد عوامی لیگ نے اردو بولنے والوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ غدّار الیون کا غدّار گورنر یہ قتل عام دیکھتا رہا اور صرف ڈھاکا او رچٹانگانگ میں ایک لاکھ کے قریب اردو بولنے والے، اور ساتھ ہی کئی سو پٹھان قتل کر دیے گئے۔ اور جب ہر طرف عوامی لیگ کا غلبہ ہوگیا تو آپریشن کرکے بنگالیوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا، ان کی بستیوں پر تیل کے ڈرم پھینک کرآگ لگا دی گئی اور چاروں طرف سے ان کا محاصرہ کر لیا گیا تا کہ جو آگ سے بچنے کے لیے بھاگے، اسے بھون دیا جائے۔ غدّاری اور درندگی کے اس مشترکہ کھیل کا آخر انجام وہی ہواجو غدّار الیون نے اسلام آباد اور پھر لاڑکانہ کی شکار گاہوں میں بھٹو کے ساتھ مل کر طے کیا تھا۔ غدّارالیون کا کپتان یحییٰ خاں اس شکار گاہ میں تیتر بٹیر نہیں، پاکستان کا شکار کرنے گیا تھا۔ ہانکا کرنے والا اس کے ساتھ تھا، اس نے ہانکا کیا، یہ مچان پر بیٹھا اور پاکستان کا شیر ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔
آج اتنے برس ہوگئے کہ گویا نصف صدی ہونے کو آئی۔ پاکستان میں کسی فوجی یا سیاسی حکومت کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ غدّاروں پر مقدمہ چلاتی۔ اگرچہ قدرت کی عدالت حرکت میں آئی۔ اور سازش کے تین کردار عبرت کے گھاٹ اتر گئے۔ ایک کو اسی کے فوجیوں نے انجام تک پہنچایا، دوسرے کو سکھ باڈی گارڈ نے چھلنی کیا، تیسرا قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، چوتھا تنہائی کی عبرتناک موت مرا لیکن اسے اعزاز کے ساتھ دفنا کر قدرت کی عدالت کا مذاق اڑایا گیا۔ شاید اسی مذاق کی پاداش میں قدرت نے سارے پاکستان کو عبرت کا میدان بنا دیا ہے۔
اب ایک اور غدّارِ اعظم پر ایک چھوٹی سی غدّاری کا مقدمہ چل رہا ہے، آئین توڑنے کا مقدمہ۔ آئین توڑنا چھوٹی غدّاری ہے، بڑی غدّاری ملک بیچنا ہے۔ مشرف نے ملک بھی بیچا اور ملک والے بھی۔ اس جرم پر مقدّمہ چلے تو قدرت بھی اپنا مذاق بند کرے۔
عبدالقادر ملّا کو پھانسی پر پاکستان کا ’’ ڈالرائزڈ ‘‘میڈیا خاموش ہے۔ غنیمت ہے کہ ان اینکر پرسنز اور کالم نویسوں نے اپنا اظہار مسّرت نہاں ہی رکھا، عیاں نہیں کیا۔ ان حضرات کا مشرقی پاکستان کے المیے کے بارے میں یہ متفقہ موقف رہا ہے کہ وہاں پاکستانی فوج نے جتنے بھی مارے وہ سب شہید تھے اور جو اُدھر والوں نے مارے، وہ سب رائیگاں موت مرے۔ حالانکہ پاکستانی فوج نے جہاں بہت سے بے گناہ مارے، وہیں بھارت سے آنے والی مکتی باہنی کے درانداز بھی مارے۔ لیکن ڈالرائزڈ میڈیا انہیں بھی شہید مانتا ہے۔ اسی طرح ادھر سے مارنے والوں میں عوامی لیگ کے ساتھ مکتی باہنی کے بھی تھے لیکن ڈالرائزڈ میڈیا کا یہ عقیدہ ہے کہ مکتی باہنی کے درانداز ہندو بھی غازی تھے۔ یہ ڈالرائزڈ میڈیا بلوچستان کے باب میں بھی اسی عقیدے کو مانتا ہے کہ فوج نے جو بھی بلوچی مارا وہ شہید ہے اور جو اس کے برعکس مرا، اس کی موت برعکس ہے۔حالانکہ وہاں بہت سے بھارتی ایجنٹ بھی مارے گئے لیکن یہی ڈالرائزڈ میڈیا جب سوات اور وزیرستان کی باری آتی ہے تو ایک دم اپنا عقیدہ بدل کر بمباری کی حمایت کرکے حیران کر دیتا ہے۔ یہ کس قسم کا فارمولا ہے۔
انصاف یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج نے جو بے گناہ شہری مارے وہ شہید ہیں لیکن جو بھارتی ایجنٹ، دہشت گرد اور مکتی باہنی والے مارے ، وہ درست مارے۔ اسی طرح بھارتی ایجنٹوں اور بھارتی فوجیوں نے جتنے فوجی اور شہری مارے، وہ سب شہید ہیں۔ شہادت کا فارمولا اتنا مشکل نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے۔ جو بھی بے گناہ مسلمان مارا جائے، وہ شہید ہے چاہے اسے مارنے والا فوجی ہو،پولیس والا ہو، ٹارگٹ کلر ہو، ڈاکو ہو یا جنونی قاتل ہو، چاہے طالبان ہو، چاہے مسلمان ہو چاہے غیر مسلم ہو اور مظلوم تو مظلوم ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو۔ جان کی حرمت کا پیمانہ مذہب یا نسل کو نہیں دیکھتا وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر جان ناحق لی گئی تو معافی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ڈالرائزڈ میڈیا یہ دیکھتا ہے کہ مرنے والا اسلام کا نام لیتا ہے تو واجب القتل تھا، نہیں تھا تو شہید ہے۔
ذرا تصور کیجیے، بنگلہ دیش میں کسی اسلامی جماعت (یا کم از کم مسلم قوم پرست پارٹی) کی حکومت ہوتی اور وہ توہین رسالت کے جرم پر کسی کو پھانسی دے دیتی اور اتفاق سے پھانسی پانے والا غیر مسلم ہوتا تو پاکستان کے ڈالرائزڈ میڈیا پر کیا قیامت ٹوٹ پڑتی اور وہ کیسا کہرام برپا کرتا۔ ایک پروگرام میں اینکر چڑی وال گریباں چاک کرکے ماتم کر رہا ہوتا، دوسرے پروگرام میں را کے کام والا خاں دو ہتّڑمار مار کر رو رہا ہوتا۔کسی اور چینل پر کوئی فارغ البال بوڑھا بانکا صف ماتم برپا کیے ہوتا، کچھ دوسرے چینلز پر ’’رودالیاں‘‘ بین کرکے ناظرین کے سینے کم کان زیادہ شق کر رہی ہوتیں، ماتم کا مشترکہ نکتہ یہ ہوتا کہ اسلامی دہشت گردی یا اسلامی انتہا پسندی پر کوئی بم کیوں نہیں مار دیتا، ہائے ہائے اتنی عدم برداشت، ایسی سفاکی، ایک بے گناہ کو توہین رسالت کے معمولی جرم پر مار دیا۔ لیکن ایسا تو کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ ایک ۶۵ سالہ ’’اسلامی‘‘ بوڑھے کو، نصف صدی پرانے الزام پر، اسے ثابت کیے بغیر ہی، پھانسی دے دی گئی، اس لیے کوئی بریکنگ نیوز نہیں، کوئی پروگرام نہیں، کسی پروگرام میں کوئی ذکر نہیں۔ ہو بھی کیوں، کچھ ہوا ہوتا تو ذکر بھی ہوتا، کچھ ہوا ہی نہیں، بس ایک اسلامی بوڑھے کو پھانسی دی گئی ہے، جس کا ذمہ دار وہ خود ہے، اس نے کیوں پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی مخالفت کی، اس نے غلطی کی اور بھگت لی۔ بات ختم، اس میں خبریت کہاں ہے اور تبصرے کی ضرورت کیا ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کراچی۔ ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply