نظریہ، نظام اور قانون معاشرے کے ایسے بنیادی عناصر ہیں جن میں باہمی ربط اور ہم آہنگی ضروری ہے، اگر ایسا نہ ہوتو معاشرہ بے سمتی کا شکا ررہتا ہے اور معاشرے کی مشینری لاچاری اور بے بسی میں مبتلا رہتی ہے۔ عریانیت کی اشاعت سے متعلق ایک معاملے میں گزشہ دنوں بھارت کی سپریم کورٹ نے جو آبزرویشن دیے اس میں ان تینوں عناصر کے درمیان ایک خلا صاف نظر آتا ہے۔ اخبارات میں عریاں تصاویر اور مواد کی اشاعت پر روک لگانے کے لیے ایک وکیل نے عرضی داخل کی تھی، جس پر ہندوستان ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا کو نوٹس جاری کیے گئے۔سماعت کے بعد عدالت نے یہ عرضی مسترد کر دی اور تین مختلف قسم کے نکات پیش کیے۔
۱۔تصویروں اور مواد پر مکمل پابندی ایک ایسی صورت حال کی موجب ہوگی جس میں اخبارات محض وہی مواد شائع کرنے پر مجبور کریں گے جو بچوں کے لیے موزوں ہوگا۔
۲۔ایسا کوئی قدم پریس کی آزادی کو متاثر کرے گا، جو کہ ہمارے ڈیموکریٹک سیٹ اپ کی ایک خصوصیت ہے۔
۳۔اخبارات کو اخلاقیات کا پابند کرنے کے لیے پریس کونسل کو مزید اختیارات دیے جانے چاہئیں۔
گویا عدالت نظریاتی طور پر فحش اشاعت کی تائید نہیں کرتی اور اس پر روک ٹوک لگانے کی بات سے اتفاق کرتی ہے۔ لیکن نظام اور قانون کی تشریحات اس خواہش کا ساتھ نہیں دیتی۔ نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ پریس آزاد ہو اور قانون کی نظر میں یہ فحاشی نہیں ہے۔
ایسا دراصل اس لیے ہے کہ آزادی، جمہوریت اور فلسفہ ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہیں۔ فلسفۂ اخلاق اگر یہ ہے کہ فحاشی ایک برائی ہے، تو قانون اپنی تشریح کے واسطے سے ایک برائی کو آزادی کے زمرے میں ڈال سکتا ہے، جب کہ جمہوریت آزادی کی منطق کے سامنے اس وقت بے مطلب ہو کر رہ جاتی ہے جب وہ معاشرے کے غالب رحجان اور روایتی اخلاق کے خلاف چند مفاد پرستوں کی خود سری کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔ چنانچہ ایک ٹھوس، منطقی اور مربوط معاشرہ بنانے کے لیے ایسا نظام ضروری ہے جس کی ایک پائیدار بنیاد ہو۔ ایسی بنیاد جسے ہلایا نہ جا سکے جسے چیلنج نہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ اسلام ! جس میں ایک حاکم الحاکمین کا اقتداراعلیٰ تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کی قائم کردہ حدود معاشرے کے تمام عناصر کو مربوط، منظم اور ہم آہنگ رکھتی ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ ملی جلی تہذیبی قدروں کا ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں عریانیت کچھ لوگوں کی مذہبیت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی عام زندگی میں ناقابل قبول ہے، کیوں کہ اسے اخلاق، اقدار اور فطری حیا کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ سماج کے اس مسلمہ اخلاق کو تحفظ دیا جائے اور اسے چھیدنے والی کوششوں کو راہ دینے کی گنجائش قانون میں نہ ہو، نہ قانون کی ایسی تشریح کی جاسکے۔ جس سے ایک مسلمہ ضابطے کو پامال کر کے اپنے تجارتی فوائد سمیٹنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ مگر عدالت ’’ڈیموکریٹک سیٹ اپ‘‘ کی دہائی دینے کے باوجود جس فیصلے پر پہنچی وہ ’’ڈیموز‘‘ یعنی عوام کے مجموعی مفاد یا نظریے یا اجتماعی روایتی قدروں کے خلاف ہے۔ یہ ان چند لوگوں کے مفاد میں ہے جو تجارتی فوائد سمیٹنے کے لیے عوام کی جبلت کا استحصال کر رہے ہیں۔
عریانیت کی اشاعت کی اجازت عوام اور سماج کے حق میں نہیں ہے۔ یہ بات کچھ اور ٹھوس حقائق کی بنیاد پر بھی کہی جاسکتی ہے۔عریاںتصویروںاورشہوت انگیزموادکی اشاعت و نمائش سے انسان کے اندر جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جنسی جرائم کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں سماجی نظام میںخلل پیدا ہو تا ہے تو انتشار برپا ہوتا ہے اور سماجی ترقی اور فلاح و بہبود کی راہ متاثر ہوتی ہے۔ یہ ایسے بنیادی حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا، الا یہ کہ ہٹ دھرمی اور بد نیتی کے ساتھ الٹی سیدھی تاویلیں کی جائیں۔ چنانچہ خود سماجی ترقی اور استحکام کا تقاضا یہ ہے کہ عریانیت کی اشاعت کی اجازت نہ دی جائے۔
آڈیو ویزول میڈیا کے ذریعے عریانیت کی اشاعت کو حق بجانب قرار دینے سے پہلے یہ بھی دھیان دیا جانا چاہیے تھا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اپنی طلب اور مرضی کے بغیر اسے دیکھنے اور سننے کے لیے مجبور ہے۔ جب کہ کچھ تجارتی اداروں کے آزادیٔ اظہار کے حق سے زیادہ اہم یہ عوامی حق ہے۔ وہ جس چیز کو نا پسند کریں، اسے ان پر تھو پا نہ جائے۔
عریانیت کی اشاعت پر پابندی کے لیے عدالت کے سامنے جو دلیل رکھی گئی تھی، وہ بچوں اور نا بالغوں کے حوالے سے تھی۔ یعنی یہ کہ بچوں کے ذہن پر ان چیزوں کا غلط اثر پڑتا ہے اور ان کی اخلاقی تربیت متاثر ہوتی ہے۔
اس دلیل کے جواب میں عدالت نے جو باتیںکہی ہیں ان پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’’کم عمروں کو بچانے کا مطلب یہ نہ ہونا چاہیے کہ بالغوں کو وہ چیزیں دیکھنے اور پڑھنے کا پابند کیا جائے جو صرف بچوں کے لیے ہی موزوں ہیں۔‘‘ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ گویا ایک عریانیت ہی ایسا ائٹم ہے جو بالغوں کے لیے دلچسپی کا سامان ہے، باقی کچھ نہیں۔ عریانیت پر اگر پابندی لگا دی جائے تو بالغوں کی دلچسپی کے لیے کیا کوئی سامان باقی نہیں رہے گا؟ پھر یہ کہ عریانیت، شہوت یا جنسیت بالغ لوگوں کی عمومی پسند ہے تو یہ خیال بھی بالغ عوام کی سوچ کا ایک غلط تجزیہ ہے۔ بے شک عریانیت اور جنسیت کے مناظر ایسی چیزیں ہیں جن میں بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی الجھ جاتے ہیں لیکن اگر کوئی جامع سروے کرایا جائے تو بالغ لوگوں میں سے ان لوگوں کا صحیح تناسب معلوم ہو جائے گا جو ان چیزوں کی طلب اور مانگ کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تناسب بہت کم ہو گا۔ ہندوستانی سماج بہت ساری خامیوں کے باوجود اخلاقی طور پر ابھی اتنا بے راہ نہیں ہواہے کہ اس میں شہوت رانی، عریانیت اور فحاشی کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی ہو۔
ہندوستانی جمہوریت میں عدالت محض ایک غیر متحرک ادارہ نہیں ہے۔ عدالت کا از خود فعال ہونا اب کھل کر سامنے آگیا ہے یعنی عدالت عوام کے مفاد میں اور قانون نیز اس کی روح کے نفاذ کے لیے از خود بھی ایکشن لے سکتی ہے اور کسی دہائی یا اپیل کے ذیل میں وہ مدعی سے زیادہ فعال بھی ہو سکتی ہے۔ دِلّی میں سی این جی کا نفاذ اور گنگا کی صفائی جیسے متعدد معاملے عدالت کے از خود فعال ہونے کی مثال ہیں۔ا گر عدالت عوام کی جسمانی صحت کی ضامن ہے تو کیا وجہ ہے کہ اخلاقی صحت کی طرف توجہ نہ کرے؟ عریانیت کو خواہ ایک آرٹ سمجھا جائے، خواہ کچھ لوگوں کی مرضی اور حقِ آزادی۔ اگر یہ اخلا ق کے لیے تباہ کن ہے اور یقیناً ہے تو اس نام نہاد آرٹ اور نام نہاد حق آزادی کو صحت عامہ کے تحفظ کے پیش نظر محدود کیا جانا چاہیے۔
غیر محدود انفرادی آزادی سماجی استحکام اور اجتماعی نظام کے لیے ایک خطرہ ہے اور یہ خطرہ اب ہندوستانی جمہوری نظام پر بڑی شدت کے ساتھ منڈلانے لگا ہے۔
کچھ عرصے پہلے سپریم کورٹ نے ہم جنسی سے متعلق ایک معاملے میں ’’لبرل ‘‘ نقطہ نظر اختیار کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ہم جنسی کو لائق تعزیر (غیرفطری جنسی افعال ) کے دائرے سے نکالنے کی درخواست پر سماعت کرے۔ حالانکہ ہائی کورٹ اسے سوسائٹی کے مجموعی رویے کے خلاف قرار دے کر مسترد کر چکی تھی۔ سپریم کورٹ نے دلیل دی تھی کہ بین الاقوامی تناظر بدل رہا ہے اور افکار و خیالات میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ اس لیے بدلتے ہوئے رویوں کے مد نظر اس معاملے پر غور کیا جانا چا ہیے۔ گویا غیر محدود انفرادی آزادی پر مبنی جمہوریت سرکشوں، باغیوں، مفسدوں، فطرت مخالفوں اور اخلاق دشمنوں کے لیے ایک ساز گار نظام بن گئی ہے اور انھیں تاویلات کے سہارے کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’افکارِ مِلّی‘‘ دہلی۔ شمارہ: فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply