
مناظرے اور باہمی تنقید کی آزادی:
آج کل کے اخبارات اور نیوز چینلز کا یہ خاص وتیرہ بن گیا ہے کہ وہ چند ماہرین کو بلا کر کسی خاص موضوع پرمباحثے کراتے ہیں۔ اس مباحثے کے موضوعات کی تحدید نہیں ہوتی۔ اس کا موضوع سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی، مذہبی بھی ہوتا ہے اور تعلیمی بھی۔ اس قسم کے مباحثوں میں ایک فریق دوسرے فریق کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے فریق مخالف پر جرح و تنقید سے بھی کام لیتا ہے۔ اسلام نے اس قسم کے مباحثے اور مکالمے کی آزادی دی ہے، بشرطیکہ اس میں کسی قسم کے خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ کیا جارہا ہو۔ اور تنقید و جرح تعمیری ہو، تخریبی نہ ہو۔بات وزن دار ہو، دلائل سے مزین ہو اور اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوتے ہوں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے‘‘۔ (العنکبوت: ۴۶)
آیت میں اگرچہ خطاب یہود سے ہے، لیکن اس کے عموم پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے۔
شہادت کی آزادی:
ذرائع ابلاغ کی وساطت سے منظر عام پر آنے والی خبروں کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ سے لے کر ریاستی اور مرکزی حکومت بھی حرکت میں آجاتی ہے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ روزانہ ایسے کتنے معاملات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں، جن میں حکومت میڈیا میں شائع ہونے والی خبر کو بنیاد بنا کر مجرمین کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے اور اگر کسی بے قصور شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور میڈیا والے اس کی بے گناہی پر کوئی خبر یا مضمون چھاپ دیتے ہیں، توحکومت اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کو بری کردے۔ شہادت اور گواہی کی اس اہمیت اور تاثیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو کسی کی حمایت یا کسی مجرم کی مخالفت میںگواہی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام نے شہادت کو چھپانے والے کو سخت وعید اور دھمکی دی ہے۔
’’اور شہادت کو نہ چھپائو۔ جو شہادت کو چھپائے گا، اس کا دل گناہ سے آلودہ ہوجائے گا‘‘۔ (البقرہ: ۲۸۳)
اقربا اور رشتے داروں کے خلاف گواہی دینے کی آزادی بھی ذرائع ابلاغ کو حاصل ہے، جس کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ چاہے وہ اس کے اقربا اور رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ کا حدود و تعزیر پر مبنی نظام عدل و انصاف کی روشنی کاایک مینارہ ہے، جس میں اشراف و اراذل، بادشاہ و رعایا اور امیر و غریب سب برابر ہیں۔ اس نظام میںہر حق دار کے حق کی ضمانت دی گئی ہے، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اس نظام میں نہ کسی پر ظلم و زیادتی ہوگی، نہ استحقاق سے زیادہ اس کو سزا دی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ وہ کسی مفسدے سے عوام کو باخبر کرنے اور کسی جرم اور بد عنوانی کا پردہ فاش کرنے میں مداہنت اور مصالحت سے کام نہ لے۔ کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمھارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یاوالدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف۔وہ شخص(جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جارہا ہے) چاہے امیر ہو یا غریب، اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا (تم سے)زیادہ خیر خواہ ہے، لہٰذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمھیں انصاف کرنے سے روکتی ہو۔‘‘ (النساء:۱۳۵)
حمایت و مخالفت کا اسلامی اصول:
ذرائع ابلاغ پروپیگنڈا اور تشہیر کا مضبوط وسیلہ ہیں۔ عوام ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹ اور تجزیوں کی بنیاد پر بہت سے فیصلے کر لیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عوام کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ حمایت و مخالفت کی مختلف شکلیں اس وقت دیکھنے کو ملتی ہیں، جب ملک میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس وقت اشتہارات، مضامین، خبروں اور تبصروں کی وساطت سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت اور فریق ثانی کی مخالفت کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے حمایت ومخالفت کا بھی اصول متعین کردیا ہے۔ کسی سے محبت بھی ہو تو اللہ کے لیے اور کسی سے بغض و عداوت بھی ہو تو اللہ کے لیے۔ حمایت و مخالفت کو سفارش کے لفظ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ کسی کی سفارش اسی بنیاد پر کی جائے کہ وہ شخص واقعی اس عہدے یا مرتبے کا مستحق ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا، وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (النساء: ۸۵)
لیکن ذرائع ابلاغ کو ان امور میں سفارش سے باز رہنا چاہیے جن کا تعلق حدود اور تعزیرات سے ہے۔حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیںکہ قریشیوں کے ہاں ایک مخزومی عورت کا معاملہ پیش آیا، اس نے چوری کی تھی۔ قریشیوں نے کہا کہ اس کے بارے میں آپؐ سے کون بات کرے گا؟ (یعنی ہاتھ نہ کاٹنے کی سفارش کون کرے گا) لوگوں نے کہا آپؐ کے سامنے اس کی جرأت کون کرے گا، البتہ اسامہ بن زید بات کرسکتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اسامہ نے آپؐ سے بات کی۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ پھر کھڑے ہوئے اور خطبہ دے کر فرمایا: تم سے پہلے کی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ ان لوگوں میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی ان میں کا کمزور چوری کرتا تو وہ ا س پر حد قائم کرتے تھے۔ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ (بخاری، کتاب الحدود، حدیث نمبر:۶۷۸۹)
فریق مخالف کے لیے کوئی ایسانازیبا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ وہ اس کے جواب اور رد عمل کے طور پر ایسا جواب دے، جس سے آپ کی توہین یا تضحیک ہوتی ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
’’ (اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں، انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘۔ (الانعام: ۱۰۸)
با اثر افراد کے خلاف اظہار رائے کی آزادی
آج کے جتنے ذرائع ابلاغ ہیں، ان پر چند با اثر افراد یا سیاستدانوں کا کنٹرول ہے۔ آجکل کے اخبارات کارپوریٹ گھرانے نکالتے ہیں، نیوز چینلز پر بھی ان ہی کا مالکانہ کنٹرول ہے، جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے سمجھوتہ کرکے ان کی تشہیر اور حمایت میں فضا سازگار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ آج کا میڈیا صرف اسی خبر کو مشتہر کرتا ہے، جس سے اس کے مخالف کی شبیہ بگڑتی اوراس کی شبیہ اچھی ہوتی ہو۔ موجودہ عہد کے صحافی اور رپورٹر اُن مشتبہ خبروں کو منظر عام پر لانے سے گھبراتے ہیں، جو با اثر افراد سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ اسلامی نقطئہ نظر یہ ہے کہ ایسی خبروں کی اشاعت، جن سے مفاد عامہ و ابستہ ہواور کسی پر ذاتی تنقید اور کیچڑ اچھالنا مقصود نہ ہو، کسی ملامت اور خوف کی پروا کیے بغیر کی جائے۔ اس خبر کی اشاعت میںکسی شخص، ادارے، تنظیم، حکومت کے اثرو رسوخ، جنگی ساز و سامان، طاقت و قوت اور فوجی طاقت کو خاطر میں نہ لا یا جائے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
’’خبر دار! تم کسی شخص کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حق کے اظہار میں تردد سے کام نہ لو‘‘۔ ( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر)
با مقصد تفریح کی آزادی:
اسلام نے حیا سوز اور انسانی معاشرے پر برا اثر ڈالنے والے تفریحی پروگرام کی اجازت نہیں دی ہے، جیسا کہ آج کل کے تجارتی چینل کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہر قسم کے ما ورائے اخلاق پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں اور اس کو تفریح اور ذہنی تسکین کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ بگ باس اور مختلف ریئلٹی شوز پر جس قسم کے بے سروپا پروگرام کے ذریعے ذہنی آسودگی کا دعویٰ کیاجاتا ہے، وہ ہمارے معاشرے اور بچوںپر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں اور معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔ذہنی آسودگی کے لیے اسلام نے تفریحی پروگرام اور مزاحیہ لٹریچر شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ خود آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مزاح فرمایا ہے۔ جو مزاح نگاری اور فکاہیہ چینلز کے لیے اسوہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی وہی شرط ہے کہ یہ تفریح کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنے۔ جیساکہ آج کل کے ریئلٹی شوز کا یہ وتیرہ بن گیا ہے کہ وہ تفریح کے نام پر ہمارے ذہنوں میں برائی اور بد اخلاقی کا زہر گھول رہے ہیں۔ تفریح کے نام پر دوسروں کی پگڑی اچھالنے کا جرم کرتے ہیں اور اس کو تفریح کے نام پر جواز کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اسلام میں اسی تفریحی پروگرام کی اجازت ہے، جو طنز و تضحیک اور توہین پر منتج نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ(جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑارہی ہیں)خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں‘‘۔ (الحجرات: ۱۱)
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے بُرا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے‘‘۔ (مسلم: کتاب البر والصل، حدیث نمبر، ۲۵۶۴)
مذاق اور تمسخر سے دشمنی سر اُبھارتی ہے۔ اس سے لوگوں میں اختلاف اورتنازع کو ہوا ملتی ہے۔ ٹکرائو اور تصادم کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اسی لیے علامہ عبد الرحمن سعدی نے لکھا ہے: ’’تمسخر ان ہی لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے، جن کا دل برے اخلاق و آداب کی آماجگاہ اور ساری مذموم خصلتوں کا مرکز ہوتا ہے‘‘۔ (تفسیر سعدی، ج:۷، ص:۱۳۵)
ایسے تمسخر کی ممانعت کے سلسلے میں آپؐ کا منہج واضح اور ٹھوس تھا، جس کا نتیجہ لوگوں کی توہین و تضحیک کی شکل میں بر آمد ہوتا ہو۔ ہم یہاں صرف دو مثالیں بیان کرنا چاہیں گے:
پہلی مثال حضرت ابو ذر غفاریؓ کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک آدمی سے میرا جھگڑا ہوگیا۔ میں نے اس کی ماں کو گالی دے ڈالی۔ تو آپ ؐنے مجھ سے کہا: ابو ذر! کیاتم نے اس کی ماں کو گالی دی، بلا شبہ تم ایسے آدمی ہو، جس میں جاہلیت کی عادت ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث نمبر:۳۰) دوسری مثال حضرت عائشہؓ کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں:میںنے ایک مرتبہ آپؐ کی خدمت میں عرض کی: آپؐ کے لیے حضرت صفیہؓ کا فلا ں فلاںعیب یعنی صفیہ کا پست قد ہونا کافی ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے کہ اگروہ دریامیں گھول دی جائے تو اس کا پانی بھی کڑوا ہوجائے۔ دوسری روایت میں حصرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میںنے آپؐ کے سامنے ایک آدمی کی نقل اتاری۔ آپؐ نے فرمایا:میں نہیں چاہتا کہ کسی انسان کی نقل اتاروں، اگرچہ مجھے اتنا اتنا روپیہ ملے۔ (ابو دائود، کتاب الادب، حدیث نمبر:۴۸۵۷)
تصویری صحافت؟
آج کا دور الیٹرانک میڈیا ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ کا دور ہے۔جدید ذرائع ابلاغ میں بات کہنے سے زیادہ اسے تصویروں اور نقوش کے ذریعے عام قارئین کے ذہن و دماغ میں اتارا جاتا ہے۔ ایک تصویر جتنی مؤثر ہوسکتی ہے، اتنی کوئی تحریر یا تقریر مؤثر نہیں ہوسکتی۔ علاوہ ازیں تصویر سے خواندہ اور ناخواندہ ہر شخص مستفید ہوسکتا ہے، جبکہ تحریر صرف پڑھے لکھے افراد کو اپیل کرسکتی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں اور دنیا کے دوسرے خطوں میں مسلمانوں کی مظلومیت کی مقدار و معیار کوجتنا نمایاں طریقے سے کسی تصویر سے ابھارا جاسکتا ہے، اتنا کسی تحریر کے ذریعے ممکن نہیں۔ لہو الحدیث کے ذریعے جس طرح اسلام مخالف عناصر ہمارے معصوم ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں، اس سے امت مسلمہ کے ہر فرد کو بچانے کے لیے اس قسم کے پروگرام بنانے اور اس کے نشر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
اسی ذیل میں کارٹون سازی کا مسئلہ بھی آتا ہے۔ گورنمنٹ اور کسی بھی مشنری پر تنقید کرنے کے لیے کارٹون سازی کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔خاکہ اس طرح بنایا جائے کہ اس پر کسی تصویر کا اطلاق نہ ہوسکے۔
اسلام نے ذرائع ابلاغ کو جن قوانین کا پابند بنایا ہے، وہ صرف اسلام ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ اس قسم کی پابندی ان تمام سیکولر قوانین اور دستوروں میں بھی ہے، جس کو آج کی ترقی یافتہ دنیا اپنا رول ماڈل تسلیم کرتی ہے۔اگر مملکت کا کوئی فرد ان قوانین کی حدود پھلانگتا ہے تو اس کو مجرم قرار دیاجاتا ہے۔ برطانیہ میں عام آدمی کا ذکر تو چھوڑ دیجیے، صرف ملکہ کی اہانت کو بھی قانوناً جرم قرار دیا گیا ہے۔ میڈیا والے اظہار رائے کی دہائی دینے کے باوجود ان کے خلاف کوئی ایسا مواد مشتہر نہیں کرسکتے جس سے ان کی حیثیت عرفی پر حرف آتا ہو۔ اسی طرح یورپی ممالک میں نسلی تفریق کو بھی جرم کے خانے میں رکھا گیا ہے۔ برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں ہم جنسی کو قانون کا درجہ حاصل ہے، کوئی صحافی یا میڈیا اہل کار اس کے خلاف لب کشائی یا تنقید کی ہمت نہیں کرسکتا۔ بلکہ امریکا میں صرف یہودیوں پر تنقید کو جرم باور کرلیا گیا ہے۔ کوئی بھی آزادی ہر قسم کے قیود سے آزاد نہیں ہوتی۔ پابندیوں میں گِھر کر ہی صحیح اور مفید آزادی کا حصول کیاجاسکتا ہے۔
اسی لیے اسلام نے بھی ذرائع ابلاغ کو مشروط آزادی دی ہے، تاکہ آزادی کے غلط اور ناجائز استعمال پر قدغن لگائی جاسکے۔ غیبت، چغلی، بھونڈے مذاق، کارٹون سازی، تفریح کے نام پر گندے پروگرام، فحش اور بیہودہ سیریلز، تصویر کشی اور افشائے راز کی اسی لیے ممانعت ہے کہ اس قسم کے عوامل سے معاشرے کی بنیادیں ڈانوا ڈول ہوسکتی ہیں۔ یہ پابندیاں کسی کی حق تلفی نہیں، بلکہ دوسروں کے پیدائشی حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں۔اسلام کے نزدیک دوہرے پیمانے نہیں ہیں۔ وہ پورے انسانی معاشرے کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ مسلم و غیر مسلم، کالے گورے، شاہ و گدا کی یہاں کوئی تفریق نہیں۔ جبکہ اہل مغرب نسلی امتیازات کے خوگر ہیں۔ کہاں تو یورپ میں ملکہ کے خلاف لب کشائی اور یہودیوں پر ادنیٰ تنقید بھی جرم ہے اور دوسری طرف پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز فلم اور کارٹون بنانے والوں کی اظہار رائے کے پردے میںحوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس اقدام سے ایک یا دو فرد نہیں، بلکہ کروڑوں اشخاص کی دل آزاری ہوتی ہے۔ مغرب میں مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط، بے حیائی اور ہم جنسی کے عوامل کو تو پیدائشی آزادی سے تعبیر کیاجاتا ہے لیکن پردہ ، اسکارف اور حجاب کو قانوناً ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اسلام نے حفظ ماتقدم کے طور پرکچھ جائز تنبیہات کے ساتھ ذرائع ابلاغ کو اظہار رائے کی پوری آزادی دی ہے، مگر اہل مغرب تو سنسر شپ کے نام پر پورے ادارتی عملے کو ہی اظہار رائے سے محروم کردیتے ہیں۔ اخبار، رسالہ یا ٹی وی کا کوئی بھی رکن کوئی خبر شائع کرنے کے حوالے سے آزاد نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسی خبروں کو صیغۂ راز میں ہی رکھاجاتا ہے جس سے حکومت وقت کی پیشانی پر بل آتا ہو۔ اسرائیل میں باہمی تنازعات روز ہوتے ہیں جن میں خود یہودی ملوث ہوتے ہیں، لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر صہیونیوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ اس قسم کی خبروں کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے۔پیڈ نیوز کے حالیہ تصور نے تو صحافتی آزادی کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے مختلف مواقع پر اس رویے پر ناگواری کا اظہار کیا ہے اور اس کو میڈیا کے نازک جسم کے لیے زہر قرار دیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ذرائع ابلاع کی مثال چھری کی ہے کہ اس کے ذریعے پھل بھی کاٹاجاسکتا ہے اور کسی کی گردن بھی۔ وہ محتسب کا کردار ادا کرکے کسی کی جان اور عزت و آبرو بھی بچا سکتا ہے اور کسی رہزن کا بھیس بدل کر کسی کی جان اور عزت و آبرو سے کھیل بھی سکتا ہے۔ وہ ظلم وستم اور جبر و تشدد کی حمایت اور بے حیائی اور بد اخلاقی کا پرچار بھی کرسکتا ہے اور اصلاح و تبلیغ کے میدان میں مصلح و مبلغ کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ذرائع ابلاغ فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں ہیں، بلکہ اس کے حسن و قبح اور جواز و عدم جواز کا دار و مدار اس کے استعمال اور نیت ومقصد پر موقوف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ذرائع ابلاغ کو اسلامی قانون اور ضوابط کی روشنی میں ملنے والے حقوق دیے جائیں، وہیں اس پر ایک محتسب اور نگراں بھی مقرر کردیا جائے، تا کہ میڈیا ہر قسم کی بے راہ روی اور انحراف سے دور رہ کر معاشرے کی تعمیر اور ترقی کے لیے کام کر سکے۔ میڈیا میں در آنے والی برائیوں اور بے راہ روی کی وجہ سے ہی پریس ایسو سی ایشن کو گائڈ لائن جاری کرنی پڑتی ہے اور پریس کونسل کے چیئرمین کو میڈیا کے اہل کاروں کو کھری کھری سنانی پرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا ہر قدم پر بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے حقائق کی ایسی ترجمانی کرے کہ اس کے ذریعے ایک صحتمند، بد عنوانی اور ہر قسم کی برائی سے پاک معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں رہ نمائی مل سکے۔وہ خبروں کو نشر کرتے وقت فلاح عامہ اور انسانی عظمت و شرافت کا خیال رکھے۔ تعلیمی، معلوماتی اور تفریحی مواد کی اشاعت کے وقت حزم و احتیاط کا دامن تھامے رکھے۔ مملکت اور ریاست کے حقوق اور اس کی عزت و توقیر کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دے، جنسی جرائم اور بے حیائی پر مبنی پروگرام کی اشاعت سے اجتناب کرے، تا کہ میڈیا کا صاف ستھرا چہرہ عوام کے سامنے آئے اور اس کی معتبریت پر حرف نہ آئے۔ متنازعہ امور کی رپورٹنگ کرتے وقت اس بات کا خاص طور پر دھیان رکھا جائے کہ اس سے کسی خاص فریق کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی سے متعلق واقعات میں عموما ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ذرائع ابلاغ اس واقعے پر ایسے سطحی تبصرے اور تجزیے نشر کرتے ہیں، جن سے ایک مخصوص طبقے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بو آتی ہے۔ کسی بھی خبر کو مشتہر کرتے وقت، میڈیا کے اہلکارقرآن کریم کی درج ذیل آیت کو نمونۂ عمل بنائیں:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو‘‘۔ (الحجرات: ۶)
نیوز چینل اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ نیم عریاں رقاصائوں اور فلمی اداکاروں کے ذریعے ، ماورائے اخلاق پروگرام نشر کرکے فحاشی اور عریانیت کو فروغ نہیں دیں گے، چاہے ان کا TRP نیچے کیوں نہ آجائے اور انہیں اس کی بھاری قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ وہ اخلاقیات کو کبھی بھی اقتصادیات کے تابع نہ بنائیں، انہی خطوط پر عمل کرکے ذرائع ابلاع کی آزادی کا صحیح اور سچا استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسلامی شریعت کی رو سے ملنے والی صحافتی آزادی کا بھرپور استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اسی میں ذرائع ابلاع کی دائمی عزت و عظمت اور آبرو کا راز مضمر ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ جولائی،اگست ۲۰۱۳)
☼☼☼
Leave a Reply