
ٹرمپ انتظامیہ کے تجربہ کار سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی طاقتوں خاص کر چین سے مسابقت میں اضافہ کر کے امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کردیا ہے۔ ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر کے مطابق چین سے مسابقت میں اضافہ سرد جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی ہے۔
جیو پولیٹکس کے حوالے سے کھیل، کاروبار اور طرزِ زندگی میں مقابلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ واشنگٹن کو چین کو قابو کرنے کے لیے بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ طریقہ کار حقیقت پسندانہ اور قابل عمل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے امریکا ان معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ امریکا کی تین بڑی اسٹریٹجک غلطیوں نے اس کی مسابقتی حیثیت کو کمزور کیا، ایشیا میں کامیابی کے لیے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو ایسی انتظامیہ کی ضرورت ہے جو باتیں کم اور کام زیادہ کرے، تصورات کی دنیا سے دور ہو اور اپنی اصل طاقت کا فائدہ اٹھا سکے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ایشیا میں مزید شراکت داروں کی ضرورت پڑے گی۔ ایشیائی ریاستیں بھی چین کا مقابلہ کرنے اور امریکی تعاون سے خطے میں طاقت کا توازن بہتر بنانے کی خواہاں ہیں۔ انہیں معاشی اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے امریکا کی مدد کی ضرورت ہے۔ خطے میں نقشہ کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ چین واحد ملک ہے جو ایشیا کے شمال مشرق، جنوب مشرقی، جنوب اور وسطی علاقے میں جغرافیائی طور پر پھیلا ہوا ہے۔ چین کی اس جغرافیائی برتری کا امریکا کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔ کیوں کہ بیجنگ پاکستان سے مغربی چین تک شاہراہ تعمیر کرسکتا ہے، لیکن واشنگٹن قازقستان سے کیلیفورنیا تک پل نہیں بنا سکتا۔ اسی لیے جب امریکا چین کے انفرااسٹرکچر منصوبوں کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا بہتر متبادل دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ واشنگٹن کو اپنی صلاحیت کے مطابق چین سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں سرمائے تک رسائی، بہترین کمپنیاں، دنیا کو شکست دینے والی ٹیکنالوجی اور عالمی سطح پر تجارتی سامان کی نقل وحمل کا نظام شامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکا تجارتی طور پر یوریشین خطے کے دو تہائی میں کہیں نظر ہی نہیں آتا ہے، امریکی کمپنیاں اور سرمایہ وہاں موجود ہی نہیں ہے۔ امریکا وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں اپنی محدود موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔
درحقیقت چین ایشیا کے بڑے حصے پر تاجر، بلڈر اور قرض فراہم کرنے والے کے طور پر موجود ہے، لیکن پھر بھی امریکا ایشیائی شراکت داروں کو اپنی سرحد کا دفاع کرنے اور سستے سامان کی فراہمی کی وجہ سے معاشی خرابی کا مقابلہ کرنے پر ابھر رہا ہے۔ گزشتہ برس سیکرٹری خارجہ مائیک پامپیو نے وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا دورہ کرکے امریکی اقدامات کو بڑھاوا نہیں دیا بلکہ یہ دورہ صرف چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تھا۔ اس کوشش کا نتیجہ ان ممالک کے متضاد بیانات کی شکل میں الٹا نکلا۔ اصل میں پامپیو اور ٹرمپ انتظامیہ نے سابق نائب سیکرٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج سے منسوب قول الٹا کردیا تھا کہ ’’ایشیا کو ٹھیک رکھنے کے لیے چین کے ساتھ ٹھیک رہا جائے‘‘۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایشیائی حکومتوں کو پیغام دیا کہ امریکا کی خطے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف بیجنگ سے اسٹریٹجک مقابلے کے لیے ان ممالک کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ واشنگٹن کی حیثیت خطے میں کمزور ہورہی ہے، یہ رویہ بظاہر تو کامیاب ہے لیکن علاقائی حکمت عملی کے طور پر ناکام رہے گا۔ دوسری غلطی چین کے ساتھ اسٹریٹجک مقابلے کو صرف سکیورٹی چیلنج کے طور پر لینا ہے، حالانکہ یہ مسئلہ معاشی بھی ہے۔
چین امریکی سلامتی کے لیے ایک ناقابل تردید خطرہ ہے، لہٰذا خطرے کا تدارک کرنا بھی اہم اسٹریٹجک ترجیح ہونی چاہیے۔ جب تک چین اور جاپان ۱۹۴۵ء میں فرانس اور جرمنی کے طرز کے معاہدے تک نہیں پہنچ جاتے بحرالکاہل میں اجتماعی سکیورٹی کی کوئی بنیاد نہیں ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں اس لیے امریکی دفاعی قیادت کو ایشیا میں مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔
جب تک واشنگٹن اتحاد، دفاعی شرکت داری، اپنی افواج کی رسائی بہتر بنانے اور اسلحہ کی جدید کاری میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا، تب تک ایشیا میں طاقت کاتوازن برقرار کھنے والا اہم ترین ملک بنا رہے گا۔ جاپان سے ویتنام تک لگ بھگ ہر ایشیائی ملک چین کی طاقت سے خوفزدہ ہے اور بیجنگ کی بڑھتی بحری طاقت کا سامنا کرنے کے لیے امریکا سے مضبوط تعلقات کا خواہاں ہے۔ لیکن اگر واشنگٹن خطے میں اپنا سکیورٹی کردار بڑھاتا بھی ہے تو اس کی معاشی برتری خطرے میں ہے۔ امریکی کامیابی صرف خطے کو سکیورٹی فراہم کرنے میں نہیں ہے، بلکہ واشنگٹن کو ایشیائی برآمدات میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور خطے کے لیے قابل تقلید مثال بھی۔
مسئلہ یہ ہے کہ مشرقی ایشیائی معیشتیں تیزی کے ساتھ اپنی مانگ کو بڑھا رہی ہیں، جبکہ امریکا اور ایشیا کے درمیان تجارت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس میں بہتری کے لیے امریکا کو ایشیا میں اپنے دیرینہ کردار کو بڑھانا چاہیے۔ لیکن ٹرمپ ٹرانس پیسیفک معاہدے سے دستبردار ہوگئے، جسے اب جامع اور ترقی پسند ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ کہا جاتا ہے۔ امریکا ان دونوں معاہدوں سے دستبردار ہوچکا ہے۔ ان معاہدوں نے ایشیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کے معیارات طے کردیے تھے۔ ایشیا میں صرف سکیورٹی کردار کو بڑھانے سے واشنگٹن کو فائدہ نہیں ہونے والا،کیوں کہ وہ ایک ایسی فوجی طاقت ہوگی جس پر بیجنگ کے علاوہ سب انحصار کرتے ہیں لیکن معاشی شراکت داری کے لیے انحصار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بھارت ایک اہم شراکت دار ہوتے ہوئے بھی سی پی ٹی پی پی اور آر سی ای پی جیسے اہم معاہدے سے باہر ہے۔ان معاہدوں کا مقاصد چین سے اسٹرٹیجک مقابلہ کرنا تھا، اگر انڈوپیسفک اور بحرالکاہل کے ممالک بھی ان کا حصہ نہیں ہوں گے تو امریکا کو ان معاہدوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک اور غلطی مالیاتی بحران کے بعد سے تبدیلی کا پیمانہ ختم کرنا تھا، بہرحال امریکا وقت کے پہیے کو پیچھے نہیں گھوما سکتا۔
ایشیا میں اب صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کے علاوہ صارف اور درآمد کنندگان بھی موجود ہیں، یہ صرف سرمایہ وصول نہیں کرتے بلکہ سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ اقتصادی انضمام ایشیا کو مزید ایشیائی بنائے گا، ورنہ یہ خطہ چینی تسلط میں چلا جائے گا، جس کا امریکا کو خوف بھی ہے۔ بیجنگ بھی سی پی ٹی پی پی معاہدے میں شامل نہیں ہے۔ بہرحال جاپان جنوب مشرقی ایشیا اور بھارت میں سرمایہ کاری میں چین کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔ خطے کی تبدیل شدہ صورتحال میں امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھانا بائیڈن کا امتحان ہے۔ ایشیا میں دوبارہ امریکا کو مرکزی حیثیت دلانے کا تصور لاحاصل ہوگا۔
موجود ہ اقتصادی صورتحال میں پرانے ایشیا کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن امریکا اپنی منفرد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے چین سے مقابلہ کرسکتا ہے اور ایک قابلِ تقلید ملک کے طور پر اپنا کردار دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کے برعکس بائیڈن کے لیے سب سے پہلے امریکا کے پیغام پر عمل کرنا زیادہ آسان ہوگا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Meeting the challenge in Asia”. (“nationalinterest.org”. December 22, 2020)
Leave a Reply