
دوپہر تھی ۲۵ اگست ۱۹۴۱ء کی۔ کپور تھلہ (پنجاب) ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک نوجوان اپنی نئی نویلی دلہن کی رخصتی کے بعد گھر لانے کی غرض سے کھڑا ٹرین کا منتظر تھا۔ اچانک ایک شخص نے اس سے نام دریافت کیا کہ کیا وہ ہی میاں طفیل محمد ہے اور پھر مثبت جواب ملنے پر اسے ایک دستی مراسلہ دیا جسے پڑھتے ہی اس نے فوراً ہی اپنا پروگرام تبدیل کیا اور سسرال جانے کے بجائے لاہور کا رُخ کیا۔ وہ مراسلہ برصغیر میں بانی تحریکِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تھا جس میں انہوں نے میاں صاحب کو ۲۶ تا ۳۰ اگست ۱۹۴۱ء لاہور میں اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں چھپے ایک مضمون ’’ایک اصلاحی جماعت کی ضرورت‘‘ کے حوالے سے ہونے والے ایک خصوصی پانچ روزہ اجتماع میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ اہلیہ کی پہلی رخصتی کے بجائے تاسیسِ جماعت اسلامی کے اجتماع میں وہ آتو گیا لیکن دوسری طرف سسرال میں اس کا انتظار ہوتا رہا کیونکہ وہاں کسی نظم کے نہ ہونے کے سبب کوئی اطلاع دی نہ جا سکی تھی۔
یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ میاں طفیل محمد نے پورے اجتماع میں شرکت کی، لیکن تاسیسی ارکان کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ تحریکِ اسلامی پر فدا اس شخص کا اس وقت حلیہ ولایتی تھااور پیشے سے وہ وکیل تھا۔ سر پر فرنگی ہیٹ، خاص طرح کی پتلون اور شرٹ نیز شکاری جوتے میں ملبوس اس کا دل و دماغ خالص اسلامی تھا، لیکن یہ سب جماعت کی رکنیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ پھر جب اسلامی جذبے سے سرشار اس جوان نے اس تاسیسی اجتماع میں موجود ۷۴ شرکاء جو کہ ارکان بن چکے تھے سے اپنی رکنیت کی التجا کی تب نومنتخب امیر جماعت مولانا مودودیؒ نے اس کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ لیکن مولانا امین احسن اصلاحیؒ کو اس آبدیدہ جوان پر ترس آ گیا اور انہوں نے امیرِ جماعت سے اس کی رکنیت کی اس شرط پر سفارش کر دی کہ وہ اپنے حلیہ کو تین ماہ کے اندر درست کر لے گا اور وکالت کا پیشہ بھی ترک کر دے گا۔ میاں صاحب جو دل و جان سے تحریکِ اسلامی پر فدا تھے نے فوراً ہی اس شرط کو مان لیا اور پھر اس طرح وہ جماعت کے ۷۵ ویں تاسیسی رکن بن گئے۔ واضح رہے کہ میاں طفیل محمدؒ جن کی تحریکِ اسلامی سے وابستگی کی داستان بہت ہی نرالی اور سبق آموز ہے کا ۹۵ برس کی عمر میں لاہور کے شیخ زائد اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ وہ ۷ جون کو برین ہیمرج کے بعد اسپتال میں داخل کیے گئے تھے۔ پسماندگان میں ۸ بیٹیوں اور چار بیٹوں کے علاوہ تحریک اسلامی کے بے شمار افراد ہیں۔ ۲۶ جون کو منصورہ میں بعد نماز جمعہ، نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر وہیں تدفین عمل میں آئی۔ میاں طفیل محمدؒ برصغیر میں تحریکِ اسلامی کے معمر ترین بزرگ تھے۔ بانی جماعت سے اگست ۱۹۴۱ء میں جو رفاقت شروع ہوئی وہ ستمبر ۱۹۷۹ء میں بانی ٔجماعت کی حیات تک جاری رہی۔ اگست ۱۹۴۱ء سے وسط ۱۹۴۴ء تک جماعت کی کور ٹیم میں شامل رہے۔ اسی حیثیت میں ۱۹۴۳ء میں محمد حسنین سید جامعیؒ کی دعوت پر دربھنگہ (بہار) میں ہونے والے اولین علاقائی اجتماع میں مرکز سے مولانا مودودیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، نصراللہ خاں عزیزؒ اور مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کے ساتھ شرکت کی۔ پھر جب ۱۹۴۴ء میں پٹھان کوٹ میں جماعت کا اولین کُل ہند اجتماع ہوا تو اس موقع پر انہیں قیم جماعت بنایا گیا۔ ۱۹۷۲ء تک قیمی اور پھر مغربی پاکستان کے امیر کی ذمہ داری نبھائی۔ ۱۹۷۲ء میں مولانا مودودیؒ کی سبکدوشی کے بعد امیر جماعت پاکستان منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۷ء تک بحسن و خوبی اس اہم فریضے کو انجام دیا۔ امارت سے سبکدوشی اور قاضی حسین احمد کو چارج دینے کے بعد لاہور ہی میں تصنیف و تالیف کے کام میں لگے رہے اور اپنی رہائش پر اندرون و بیرون ملک سے آنے والے ہر ایک مہمان کا استقبال کرتے رہے۔ چند برس قبل احساسات اور تجربات پر مبنی ایک کتاب ’’مشاہدات‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی جو کہ ان کی تلخ و شیریں باتوں کی بناء پر بعض لوگوں کی نگاہ میں متنازعہ فیہ بھی بن گئی۔ ان کا احساس یہ رہا کہ پاکستان میں جماعت نے کچھ ایسا رُخ اختیار کیا جس سے اس کی بنیادی باتوں پر حرف آتا ہے۔ ان سب احساسات کے باوجود خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے تاحیات نظمِ جماعت کی پابندی کی اور سرپرست کے طور پر تحریک کی پاسداری کرتے رہے۔ میاں طفیل محمدؒ کی امارت کا دور اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ اس دوران ۱۹۷۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں جو عام انتخابات ہوئے اور اس میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے تحت جماعت نے نظامِ مصطفیؐ کے نعرے کے ساتھ حصہ لیا اور پھر Rigging ہونے کے سبب پی این اے نے ملک گیر تحریک چلائی۔ ان دنوں انگریزی ہفتہ وار ’ایکسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘ میں اِندر ملہوترا کے ایک تجزیاتی مضمون کے مطابق یہ تحریک اتنی مؤثر محسوس ہوتی تھی کہ اگر بھٹو ازسرِ نو انتخابات نہ کراتے تو عوام اقتدار پر قابض ہو جاتے۔ انہی حالات میں جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں فوجی بغاوت ہوتی ہے اور پھر اقتدار ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ بعد ازاں جب عبوری حکومت بنتی ہے اور پی این اے اس کا حصہ بنتی ہے تو اس میں جماعت کے تین رہنما بھی وزراء بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں ایران کے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے بعد عالمی تحریکاتِ اسلامی کا ایک وفد جب خیر سگالی کے دورے پر تہران جاتا ہے تو اس کی قیادت میاں صاحب ہی کرتے ہیں۔ اسی سال ۲۲ ستمبر کو مولانا مودودیؒ کا انتقال انہی کے دورِ امارت میں ہوتا ہے۔ اس موقع پر یہ جس معاملہ فہمی اور تدبر کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی جائے قبر کے حوالے سے دو رائے پائی جا رہی تھیں۔ ایک رائے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے نوجوانوں کی یہ تھی کہ قذافی اسٹیڈیم میں نمازِ جنازہ کے بعد کسی مرکزی مقام پرانہیں دفن کیا جائے جبکہ مولانا مودودیؒ کے ورثاء کی رائے ان کی رہائش گاہ کے صحن میں تدفین کرنے کی تھی۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے جنرل سیکریٹری انتظار نعیم کے مطابق جوشِ محبت میں جمعیت کے طلبہ کی ایک قابل ذکر تعداد اپنی رائے سے ہٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی لیکن میاں صاحب کے چند تدبرانہ کلمات نے انہیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کر دیا کہ مولانا مودودیؒ بلاشبہ تحریکِ اسلامی کے وابستگان کے دل کی دھڑکن تھے لیکن ان کی میت کی تدفین کے مقام کے فیصلے کا شرعی حق تو ان کے وارثین ہی کا ہے۔ واضح رہے کہ مولانا مودودیؒ کے آخری سفر میں شرکت کے لیے ہندوستان سے ان دنوں امیر جماعت مولانا محمد یوسفؒ، مدیر دعوت محمد مسلمؒ، مولانا سید حامد حسینؒ، مولانا حامد علیؒ وغیرہ کے ساتھ انتظار نعیم بھی گئے تھے۔ میاں صاحب ان سب حضرات کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے۔ میاں طفیل محمدؒ کا آبائی علاقہ کپور تھلہ تھا۔ آج بھی کپور تھلہ کے افراد میاں صاحب پر فخر کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل دہلی میں ایس آئی او کے مرکز جانا ہوا تو استقبالیہ پر ایک ذمہ دار نوجوان انتظار علی سے ملاقات ہوئی۔ جب راقم الحروف نے اس سے تعارف حاصل کیا تو اس نے اپنا علاقہ کپور تھلہ بتایا۔ پھر جب اس سے دریافت کیا کہ کیا وہی کپور تھلہ جو کہ میاں صاحبؒ کا علاقہ تھا تب اس نے برجستہ کہا کہ جی ہاں، وہی۔ اس نوجوان نے یہ جان کر کہ راقم الحروف کپور تھلہ کو میاں صاحب کے حوالے سے جانتا ہے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ میاں صاحب نے پاکستان جا کر بھی اپنے علاقے کپور تھلہ کو فراموش نہیں کیا اور ہندوستان میں گزرے ہوئے لمحات کو بھی یاد کرتے رہے۔ وہ بورڈ آف اسلامک پبلی کیشنز کے تحت شائع ہونے والے انگریزی ہفتہ وار ’ریڈئینس‘ کو بے حد پسند کرتے تھے۔ ۱۹۷۹ء میں حسنین سیدؒ کو لکھے گئے ایک مراسلے میں انہوں نے اس کی بے حد تعریف بھی کی اور اسے ’’ہندوستان کی ایک کھڑکی‘‘ سے موسوم کیا۔ برصغیر میں تحریکِ اسلامی کے اب معمر ترین رہنما محمد شفیع مونس بڑے فخر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ انہوں نے تو ماقبل تقسیمِ ہند مولانا مودودیؒ کی امارت اور میاں طفیل محمدؒ کی قیمی کے ادوار دیکھے ہیں۔ ۹۴ سالہ مولانا شفیع مونس جن کی ان سے ۱۹۴۴ء میں پٹھان کوٹ اجتماع کے دوران پہلی ملاقات ہوئی تھی، کہتے ہیں کہ ’’انہوں نے میاں صاحب کو ہمیشہ دور رس اور نظم و ضبط کا پابند پایا‘‘۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب میاں صاحبؒ کو چند سال قبل حسنین سید پر تیار کی جانے والی کتاب کی خبر ملی تو وہ بے حد خوش ہوئے اور کہا کہ اس تحقیقی کام سے برصغیر میں تحریکِ اسلامی کی تاریخ کا گمشدہ باب عوام الناس کے سامنے آ جائے گا۔
(بحوالہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ یکم جولائی ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply