
حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ‘ دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ۔ پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیں اسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلہ میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائلِ ثروت پر قابض اور ان کے نظمِ مملکت پر حاوی ہو جائے۔ اس کے مقابلہ میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک ذہنی مغلوبیت‘ دوسری سیاسی مغلوبیت۔ ان دونوں قسموں کی صفات کو ان صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اُوپر غلبہ کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔
یہ دونوں قسمیں ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ لازم نہیں ہے کہ جہاں ذہنی غلبہ ہو وہاں سیاسی غلبہ بھی ہو۔ اور نہ یہ لازم ہے کہ جہاں سیاسی غلبہ ہو وہاں ذہنی غلبہ بھی ہو۔ لیکن فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و اکتشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے‘ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا‘ اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ اور ضعیف قومیں اپنی درماندگی اور ضعف میں جس قدر ترقی کرتی جاتی ہیں اسی قدر وہ غلامی اور محکومیت کے لیے مستعد ہوتی چلی جاتی ہیں اور طاقتور۔ ذہنی اور مادی دونوں حیثیتوں سے طاقتور قومیں ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمراں ہو جاتی ہیں۔
مسلمان آج کل اسی دوہری غلامی میں مبتلا ہیں۔ کہیں دونوں قسم کی غلامیاں پوری طرح مسلط ہیں اور کہیں سیاسی غلامی کم اور ذہنی غلامی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی اسلامی آبادی ایسی نہیں ہے جو صحیح معنوں میں سیاسی اور ذہنی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہو۔ جہاں ان کو سیاسی استقلال اور خود اختیاری حاصل بھی ہے‘ وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کے مدرسے‘ ان کے دفتر‘ ان کے بازار‘ ان کی انجمنیں‘ ان کی گھر‘ حتیٰ کہ ان کے جسم تک اپنی زبان حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب‘ مغرب کے افکار‘ مغرب کے علوم و فنون حکمراں ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں۔ مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مغرب کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں۔ خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو‘ بہرصورت یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلط ہے کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دے دیا ہے۔ حق‘ صداقت‘ تہذیب‘ اخلاق‘ انسانیت‘ شائستگی‘ ہر ایک کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔ اپنے دین و ایمان‘ اپنے افکار و تخیلات‘ اپنی تہذیب و شائستگی‘ اپنے اخلاق و آداب‘ سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پوری اترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں‘ مطمئن ہوتے ہیں‘ فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر پوری اتر آئی اور جو چیز اس معیار پر پوری نہیں اترتی اسے شعوری یا غیرشعوری طور پر غلط مان لیتے ہیں۔ کوئی اعلانیہ اس کو ٹھکراتا ہے‘ کوئی دل میں گھٹتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اسے مغربی معیار کے مطابق کر دے۔
جب ہماری آزاد قوموں کا حال یہ ہے تو جو مسلمان قومیں مغربی اقوام کی محکوم ہیں ان کی ذہنی غلامی کا حال کیا پوچھنا۔
اس غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کی تشریح کے لیے ایک کتاب کی وسعت درکار ہے مگر مختصراً اس کو چند لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ذہنی غلبہ و استیلاء کی بنا دراصل اصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ پر پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد و متبع بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار و معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد و محقق قوم کے طاقتور افکار و معتقدات کا سیلاب ان کو بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بَل بوتا نہیں رہتا کہ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہ جائیں۔ مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے تمام دنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حسن اور قبح‘ نیکی اور بدی‘ غلط اور صحیح کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اضطرارً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہو گئے‘ جب انہوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا‘ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انہوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس میں آگے بڑھیں۔ انہوں نے غور و فکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا‘ کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے‘ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی رہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
چار پانچ سو سال تک مسلمان اپنے بزرگوں کے بچھائے ہـوئے بستر پر آرام سے سوتے رہے اور مغربی قومیں اپنے کام میں مشغول رہیں۔ اس کے بعد دفعتہ مغربی اقتدار کا سیلاب اُٹھا اور ایک صدی کے اندر اندر تمام روئے زمین پر چھا گیا۔ نیند کے ماتے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تو دیکھا کہ مسیحی یورپ قلم اور تلوار دونوں سے مسلح ہے اور دونوں طاقتوں سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ ایک چھوٹی سی جماعت نے مدافعت کی کوشش کی مگر نہ قلم کا زور تھا نہ تلوار کا۔ شکست کھاتی چلی گئی۔ رہا قوم کا سوداِ اعظم تو اس نے اسی سنت پر عمل کیا جو ہمیشہ کمزوروں کی سنت رہی ہے۔ تلوار کے زور‘ استدلال کی قوت‘ علمی شواہد کی تائید اور نظر فریب حسن و جمال کے ساتھ جو خیالات‘ نظریات اور اصول مغرب سے آئے‘ آرام طلب دماغوں اور مرعوب ذہنیتوں نے ان کو ایمان کا درجہ دے دیا۔ پرانے مذہبی معتقدات‘ اخلاقی اصول اور تمدنی آئین جو محض روایتی بنیادوں پر قائم رہ گئے تھے‘ اس نئے اور طاقتور سیلاب کی رو میں بہتے چلے گئے اور ایک غیرمحسوس طریقے سے دلوں میں یہ مفروضہ جاگزیںہو گیا کہ جو کچھ مغرب سے آتا ہے وہی حق ہے اور وہی صحت و درستی کا معیار ہے۔
مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا ان میں سے بعض تو وہ تھیں جن کی کوئی مستقل تہذیب نہ تھی۔ بعض وہ تھیں جن کے پاس اپنی ایک تہذیب تو تھی مگر ایسی مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلہ میں وہ اپنے خصائص کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی۔ بعض وہ تھیں جن کی تہذیب اپنے اصول میں اس آنے والی تہذیب سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ ایسی تمام قومیں تو بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں‘ اور کسی شدید تصادم کی نوبت نہ آنے پائی۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے۔ یہ ایک مستقل اور مکمل تہذیب کے مالک ہیں۔ ان کی تہذیب اپنا ایک مکمل ضابطہ رکھتی ہے جو فکری اور عملی دونوں حیثیتوں سے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی اصول کلیتہً اس تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدم قدم پر یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں اور ان کے تصادم سے مسلمانوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کے ہر شعبے پر نہایت تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔
مغربی تہذیب نے جس فلسفہ اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی ہے وہ پانچ چھ سو سال سے دہریت‘ الحاد‘ لامذہبی اور مادہ پرستی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ جس تاریخ پیدا ہوئی اسی تاریخ سے مذہب کے ساتھ اس کی لڑائی شروع ہو گئی‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی ہی نے اس تہذیب کو پیدا کیا۔ اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ‘ ان کے اسرار کی تحقیق‘ ان کے کلی قوانین کی دریافت‘ ان کے مظاہر پر غور و فکر اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان کے ذریعہ سے نتائج کا استنباط‘ کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہے‘ مگر سوء اتفاق سے نشاۃ جدید (Rennaissance) کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی‘ تو اس تحریک کو ان عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش آیا جنہوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہوا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہو جائے گی۔ اس غلط تخیل کے زیرِ اثر انہوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے قوت سے کام لیا۔ مذہبی عدالتیں (Inquisitions) قائم کی گئیں جن میں اس تحریک کے علمبرداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں۔ لیکن یہ تحریک ایک حقیقی بیداری کا نتیجہ تھی اس لیے تشدد سے دبنے کے بجائے اور بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ حریتِ فکر کے سیلاب نے مذہبی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
ابتدا میں لڑائی حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان تھی مگر چونکہ کلیسا مذہب کے نام پر آزاد خیالوں سے جنگ کر رہا تھا‘ اس لیے بہت جلدی اس لڑائی نے مسیحی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدِمقابل قرار دیا گیا۔ سائنٹفک طریقہ پر سوچنے کے معنی یہ قرار پائے کہ یہ طریق فکر مذہبی طریقِ فکر کی عین ضد ہے۔ جو شخص سائنٹفک طریق سے کائنات کے مسائل پر غور کرے اس پر لازم ہے کہ مذہبی نظریہ سے ہٹ کر اپنی راہ نکالے۔ کائنات کے مذہبی نظریہ کا بنیادی تخیل یہ ہے کہ عالمِ طبیعت (Physical World) کے تمام آثار اور جملہ مظاہر کی علت کسی ایسی طاقت کو قرار دیا جائے جو اس عالم سے بالاتر ہو۔ یہ نظریہ چونکہ جدید علمی تحریک کے دشمنوں کا نظریہ تھا اس لیے جدید تحریک کے علمبرداروں نے لازم سمجھا کہ خدایا کسی فوق الطبیعت (Super natural) ہستی کو فرض کیے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہر اس طریقہ کو خلافِ حکمت (Unscientific) قرار دیں جس میں خدا کا وجود فرض کر کے مسائلِ کائنات پر نظر کی گئی ہو۔ اس طرح نئے دور کے اہلِ حکمت و فلسفہ میں خدا اور روح یا روحانیت اور فوق الطبیعت کے خلاف ایک تعصب پیدا ہو گیا جو عقل و استدلال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ سراسر جذبات کی برانگیختگی کا نتیجہ تھا۔ وہ خدا سے اس لیے تبریٰ نہ کرتے تھے کہ دلائل اور براہین سے اس کا عدم وجود اور عدم وجوب ثابت ہو گیا تھا‘ بلکہ اس سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ ان کے اور ان کی آزادیٔ خیال کے دشمنوں کا معبود تھا۔ بعد کی پانچ صدیوں میں ان کی عقل و فکر اور ان کی علمی جدوجہد نے جتنا کام کیا اس کی بنیاد میں یہی غیرعقلی جذبہ کارفرما رہا۔
مغربی فلسفہ اور مغربی سائنس دونوں نے جب سفر شروع کیا تو اگرچہ ان کا رُخ خداپرستی کے بالکل مخالف سمت میں تھا تاہم چونکہ وہ مذہبی ماحول میں گِھرے ہوئے تھے اس لیے وہ ابتداً نیچریت (Naturalism) کو خداپرستی کے ساتھ ساتھ نباہتے رہے۔ مگر جوں جوں وہ اپنے سفر میں آگے بڑھتے گئے‘ نیچریت خدا پرستی پر غالب آتی چلی گئی حتیٰ کہ خدا کا تخیل اور خدا کے ساتھ ہر اس چیز کا تخیل جو عالمِ طبیعت سے بالاتر ہو‘ ان سے بالکل غائب ہو گیا اور وہ اس انتہا پر پہنچ گئے کہ مادہ وحرکت کے سوا کوئی شے ان کے نزدیک حقیقی نہ رہی‘ سائنس نیچریت کا ہم معنی قرار پایا گیا اور اہلِ حکمت و فلسفہ کا ایمان اس نظریہ پر قائم ہو گیا کہ ہر چیز جو ناپی اور تولی نہیں جاسکتی اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔
مغربی فلسفہ و سائنس کی تاریخ اس بیان کی شاہد ہے۔ ڈیکارٹ (Descartes) (متوفی ۱۶۵۰ء) جو مغربی فلسفہ کا آدم سمجھا جاتا ہے ایک طرف تو خدا کا زبردست قائل ہے اور مادہ کے ساتھ روح کا مستقل وجود بھی مانتا ہے مگر دوسری طرف وہی ہے جس نے عالم طبیعت کے آثار کی توجیہ میکانکی (Mechanical) طریق پر کرنے کی ابتداء کی اور اس طریقِ فکر کی بنیاد رکھی جو بعد میں سراسرمادہ پرستی (Materialism) بن گیا۔ ہابس (Hobbes) (م ۱۶۷۹ء) اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فوق الطبیعت (Super natural) کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے‘ نظامِ عالم اور اس کی ہر شے کو میکانکی توجیہ کے قابل قرار دیتا ہے اور کسی ایسی نفسی یا روحی یا عقلی قوت کا قائل نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں تصرف کرنے والی ہو مگر اس کے ساتھ ہی وہ خدا کو بھی مانتا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ایسی ایک علت العلل کا ماننا ایک عقلی ضرورت ہے۔ اسی زمانہ میں سپائنوزا (Spinoza) (م ۱۶۷۷ء) اٹھا جو سترہویں صدی میں عقلیت (Rationalism) کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ اس نے مادہ اور روح اور خدا کے درمیان کوئی فرق نہ رکھا‘ خدا اور کائنات کو ملا کر ایک کل بنا دیا اور اس کل میں خدا کے اختیار مطلق کو تسلیم نہ کیا۔ لائبنیز (Leibnitz) (م ۱۷۱۶ء) اور لاک (Locke) (م ۱۷۰۴ء) خدا کے قائل تھے‘ مگر دونوں کا میلان نیچریت کی جانب تھا۔
یہ سترہویں صدی کا فلسفہ تھا جس میں خداپرستی اور نیچریت دونوں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں‘ اسی طرح سائنس نے بھی سترہویں صدی تک کامل الحاد کا رنگ اختیار نہیں کیا۔ کوپرنیکس (Copernicus) کپلر (Kepler) گیلیلو (Galileo) نیوٹن اور سائنس کے دوسرے علمبرداروں میں سے کوئی بھی خدا کا منکر نہ تھا۔ مگر یہ کائنات کے اسرار کی جستجو میں الٰہی نظریہ سے قطع نظر کر کے ان قوتوں کو تلاش کرنا چاہتے تھے جو اس نظام کو چلا رہی ہیں اور ان قوانین کو معلوم کرنے کے خواہشمند تھے جن کے تحت یہ نظام چل رہا ہے۔ یہ الٰہی نقطۂ نظر سے قطع نظر کرنا ہی دراصل اس دہریت اور نیچریت کا تخم تھا جو بعد میں حریتِ فکر کے درخت سے پیدا ہوئی۔ لیکن سترہویں صدی کے حکماء کو اس کا شعور نہ تھا۔ وہ نیچریت اور خدا پرستی میں کوئی خطِ امتیاز نہ کھینچ سکے اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نبھ سکتی ہیں۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ۔ ستمبر ۱۹۳۴ء)
Leave a Reply