
اٹھارہویں صدی میں یہ حقیقت نمایاں ہو گئی کہ جو طریقِ فکر خد اکی ہستی کو نظرانداز کر کے نظامِ کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت‘ بے دینی اور الحاد تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس صدی میں جان ٹولینڈ (John Toland) ڈیوڈ ہارٹلے (David Hartley) جوزف پریسٹلے (Josoph priestley) والٹیر (Voltaire) میٹری (La Mettrie) ہول باخ (Hlbach) کیبانیس (Cabanis) ڈینس ڈائیڈیرو (Denis Diderot) مانٹسکیو (Montisque) روسو (Rosseau) اور ایسے ہی دوسرے آزاد خیال فلاسفر و حکماء پیدا ہوئے جنہوں نے یا تو اعلانیہ خدا کے وجود سے انکار کیا یا اگر بعض نے اسے تسلیم کیا بھی تو اس کی حیثیت ایک دستوری فرماں روا سے زیادہ نہ سمجھی جو نظامِ کائنات کو ایک مرتبہ حرکت میں لے آنے کے بعد گوشہ نشین ہو گیا ہے اور اب اس نظام کے چلانے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ عالمِ طبیعت‘ اور دنیائے مادہ و حرکت کے باہر کسی چیز کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور ان کے نزدیک حقیقت صرف انہی چیزوں کی تھی جو ہمارے مشاہدہ و تجربہ میں آتی ہیں۔ ہیوم (Hume) نے اپنی تجربیت (Empiricism) اور فلسفۂ تشکیک (Scepticism) سے اس طریقِ فکر کی زبردست تائید کی اور معقولات کی صحت کے لیے بھی تجربہ ہی کو معیار قرار دینے پر زور دیا۔ برکلے (Berkeley) نے مادیت کی اس بڑھتی ہوئی رو کا جاں توڑ مقابلہ کیا مگر وہ اس کو نہ روک سکا۔ ہیگل (Hegal) نے مادیت کے مقابلہ میں تصوریت (Idealism) کو فروغ دینا چاہا مگر ٹھوس مادے کے مقابلہ میں لطیف تصور کی پرستش نہ ہوئی۔ کانٹ (Kant) نے بیچ کی یہ راہ نکالی کہ خدا کی ہستی‘ روح کا بقا‘ اور ارادہ کی آزادی ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکیں۔ یہ چیزیں مانی نہیں جاسکتیں۔ تاہم ان پر ایمان لایا جا سکتا ہے اور حکمتِ عملی (Practical Wisdom) اس کی مقتضی ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ یہ خدا پرستی اور نیچریت کے درمیان مصالحت کی آخری کوشش تھی لیکن ناکام ہوئی۔ کیونکہ جب عقل و فکر کی گمراہی نے خدا کو محض وہم کی پیداوار یا حد سے حد ایک معطل اور بے اختیار ہستی قرار دے لیا تو محض اخلاق کی حفاظت کے لیے اس کو ماننا‘ اس سے ڈرنا اور اس کی خوشنودی چاہنا سراسر ایک غیرعاقلانہ فعل تھا۔
انیسویں صدی میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ گئی‘ فوگت (Vogt) بوخنر (Bochner) سولبے (Czolbe) کومت (Comte) مولشات (Moleschotte) اور دوسرے حکما و فلاسفہ نے مادہ اور اس کے خواص کے سوا ہر شے کے وجود کو باطل قرار دیا۔ مِل (Mill) نے فلسفہ میں تجربیت اور اخلاق میں افادیت (Utiliterianism) کو فروغ دیا۔ اسپنسر (Spencer) نے فلسفیانہ ارتقائیت اور نظامِ کائنات کے خود بخود پیدا ہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رونما ہوجانے کا نظریہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ حیاتیات (Biology) عضویات (Physiology) ارضیات (Geology) اور حیوانیات (Zoology) کے اکتشافات‘ عملی سائنس کی ترقی اور مادی وسائل کی کثرت نے یہ خیال پوری پختگی کے ساتھ دلوں میں راسخ کر دیا کہ کائنات آپ سے آپ وجود میں آتی ہے‘ کسی نے اس کو پیدا نہیں کیا۔ آپ سے آپ لگے بندھے قوانین کے تحت چل رہی ہے‘ کوئی اس کو چلانے والا نہیں ہے۔ آپ سے آپ ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے‘ کسی فوق الطبیعت ہستی کا ہاتھ اس خود بخود حرکت کرنے والی مشین میں کام نہیں کر رہا ہے۔ بے جان مادے میں جان کسی کے امر سے نہیں پڑتی‘ بلکہ خود مادہ جب اپنے نظم میں ترقی کرتا ہے تو اس میں جان پڑجاتی ہے۔نمو‘ حرکتِ ارادی‘ احساس‘ شعور‘ فکر‘ سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبیعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پرزے جس طور سے ترتیب پاتے ہیں اسی طور کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختیار اور کوئی آزاد ارادہ (Free will) نہیں ہے‘ ان کے نظام کا درہم برہم ہو جانا‘ ان کی انرجی کا خرچ ہو جانا ہی ان کی موت ہے جو فنائے محض کی ہم معنی ہے۔ جب مشین ٹوٹ پھوٹ گئی تو اس کے خواص بھی باطل ہو گئے۔ اب ان کے لیے حشر اور باردگر پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس نیچریت اور مادیت کو استحکام بخشے اور ایک مدلل اور منظم علمی نظریہ کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی کتاب اصل الانواع (Origin of Species) جو ۱۸۵۹ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی‘ سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس نے ایک ایسے طریق استدلال سے جو انیسویں صدی کے سائنٹفک دماغوں کے نزدیک استدلال کا محکم ترین طریقہ تھا‘ اس نظریہ پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ کائنات کا کاروبار خدا کے بغیر چل سکتا ہے‘ آثار و مظاہر فطرت کے لیے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اور علت کی حاجت نہیں‘ زندگی کے ادنیٰ مراتب سے لے کر اعلیٰ مراتب تک موجودات کا ارتقاء ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کا نتیجہ ہے جو عقل و حکمت کے جوہر سے عاری ہے۔ انسان اور دوسری انواع حیوانی کو پیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیں ہے بلکہ وہی ایک جاندار مشین جو کبھی کیڑے کی شکل میں رینگا کرتی تھی‘ تنازع للبقا‘ بقائے اصلح اور انتخاب طبیعی کے نتیجہ کے طور پر ذی شعور اور ناطق انسان کی شکل میں نمودار ہو گئی۔
یہی وہ فلسفہ اور سائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کو پیدا کیا ہے۔ اس میں نہ کسی علیم و قدیر خدا کے خوف کی گنجائش ہے‘ نہ نبوت اور وحی و الہام کی ہدایت کا کوئی وزن‘ نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصور‘ نہ حیاتِ دنیا کے اعمال پر محاسبے کا کوئی کھٹکا‘ نہ انسان کی ذاتی ذمہ داری کا کوئی سوال‘ نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالاتر کسی مقصد اور کسی نصب العین کا کوئی امکان۔ یہ خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خدا ترسی‘ راست روی‘ صداقت پسندی‘ حق جوئی‘ اخلاق‘ دیانت‘ امانت‘ نیکی‘ حیاء‘ پرہیزگاری اور پرہیزگاری کے ان تصورات سے خالی ہے جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ اسلام کے نظریہ کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اس راستہ کی عین مخالف سمت میں ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بنا رکھتا ہے ان کو یہ تہذیب بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتی ہے اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے ان پر اسلام کی عمارت ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب دو ایسی کشتیاں ہیں جو بالکل مخالف سمتوں میں سفر کر رہی ہیں۔ جو شخص ان میں سے کسی ایک کشتی پر سوار ہو گا اسے لامحالہ دوسری کشتی کو چھوڑنا پڑے گا اور جو بیک وقت ان دونوں پر سوار ہو گا اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔
اس کو بدقسمتی کے سوا اور کیا کہیے کہ جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی مادہ پرستی الحاد اور دہریت کی انتہا کو پہنچی‘ ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرق اقصیٰ تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور حاکمانہ استیلا سے مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبہ سے مرعوب اور دہشت زدہ ہو چکے تھے ان کے لیے مشکل ہو گیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رعب و داب سے محفوظ رہتے۔ خصوصیت کے ساتھ ان مسلمان قوموں کی حالت اور بھی زیادہ نازک تھی جو براہِ راست کسی مغربی سلطنت کے زیرِ حکم آگئی تھیں۔ ان کو اپنے دنیوی مفاد کی حفاظت کے لیے مجبوراً مغربی علوم حاصل کرنے پڑتے اور چونکہ یہ تحصیلِ علم خالص تحصیلِ علم کی خاطر نہ تھی اور مزید براں ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا گیا تھا اس لیے مسلمانوں کی نئی نسلوں نے شدت کے ساتھ مغربی افکار اور سائنٹفک نظریات کا اثر قبول کیا۔ ان کی ذہنیتیں مغربی سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔ ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کا نفوذ بڑھتا چلا گیا۔ ان میں وہ ناقدانہ نظر پیدا ہی نہیں ہوئی جس سے وہ صحیح اور غلط کو پرکھتے اور صرف صحیح کو اختیار کرتے۔ ان میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہ ہو سکی کہ آزادی اور استقلال کے ساتھ غور و فکر کرتے اور اپنے ذاتی اجتہاد سے کوئی رائے قائم کرتے‘ اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر قائم ہے وہ متزلزل ہو گئی ہیں۔ ذہنیتوں کا وہ سانچہ ہی بگڑ گیا ہے جس سے اسلامی طریق پر سوچا اور سمجھا جا سکتا تھا۔ مغربی طریق پر سوچنے اور مغربی تہذیب کے اصولوں پر اعتقاد رکھنے والے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں اسلام کے اصول ٹھیک نہیں بیٹھ سکتے اور جب اصول ہی اس میں نہیں سما سکتے تو فروغ میں طرح طرح کے شبہات اور نت نئے شکوک پیدا ہونا ہرگز ناقابلِ تعجب نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے۔ لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی غلبہ و استیلا سے قطع نظر‘ مغرب کا علمی اور فکری داب و تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہو گا جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اسلام میں ایک نشاۃ جدید (Rennaissance) کی ضرورت ہے۔ پُرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا۔ دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کو اب الٹے پائوں ان منازل کی طرف واپس لے جانا ممکن نہیں ہے جن سے وہ چھ سو برس پہلے گزر چکی ہے۔ علم و عمل کے میدان میں رہنمائی وہی کر سکتا ہے جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہٰذا اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریقِ فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ ایک نئی حکمتِ طبیعی (Natural Science) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ ملحدانہ نظریہ کو توڑ کر الٰہی نظریہ پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔
یہ جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مقصد و مدعا کو تمثیل کے پیرایہ میں یوں سمجھیے کہ دنیا گویا ایک ریل گاڑی ہے جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہا ہے اور مفکرین و محققین اس انجن کے ڈرائیور ہیں۔ یہ گاڑی ہمیشہ اس رخ پر سفر کرتی ہے جس رخ پر ڈرائیور اس کو چلاتے ہیں جو لوگ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اسی طرف جائیں جس طرف گاڑی جارہی ہے خواہ وہ اس طرف جانا چاہیں یا نہ چاہیں۔ اگر گاڑی میں کوئی ایسا مسافر بیٹھا ہے جو اس پر نہیں جانا چاہتا تو وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ چلتی گاڑی ہی میں بیٹھے بیٹھے اپنی نشست کا رُخ آگے کے بجائے پیچھے یا دائیں یا بائیں پھیر دے۔ مگر نشست کا رُخ بدل دینے سے وہ اپنے سفر کا رُخ نہیں بدل سکتا۔ سفر کا رُخ بدلنے کی صورت اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ انجن پر قبضہ کیا جائے اور اس کی رفتار کو اس جانب پھیر دیا جائے جو مطلوب ہے۔ اس وقت جو لوگ انجن پر قابض ہیں وہ سب خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور فکرِ اسلامی سے بے بہرہ ہیں۔ اس لیے گاڑی اپنے مسافروں کو لیے ہوئے الحاد اور مادہ پرستی کی طرف دوڑی چلی جا رہی ہے اور سب مسافر طوعاً و کرہاً اسلام کی منزلِ مقصود سے دور اور دورتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس رفتار کو بدلنے کے لیے ضرورت ہے کہ خدا پرستوں میں سے کچھ باہمت مرد اٹھیں اور جدوجہد کر کے انجن کو ان ملحدین کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ جب تک یہ نہ ہو گا گاڑی کا رُخ نہ بدلے گا اور ہمارے جھنجلانے بگڑنے اور شور مچانے کے باوجود وہ اسی راہ پر سفر کرتی رہے گی جس پر ناخدا شناس ڈرائیور اس کو چلا رہے ہیں۔ (مکمل)
(بحوالہ: ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور۔ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ۔ ستمبر ۱۹۳۴ء)
Leave a Reply