
عزتمند پاکستانی قوم!
ایران کے اسلامی انقلاب کی چھبیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں سے مخاطب ہونے کا اعزاز حاصل ہوتے ہوئے مجھے انتہائی مسرت ہو رہی ہے۔ ہردل عزیز انقلاب کا وہ پودا جو ایسے ہی پرمسرت دنوں میں ایک عظیم عالمِ دین کے توانا ہاتھوں نے بویا آج استحکام‘ ترقی اور نشوونما کے حساب سے ایک مثالی طاقت کے ساتھ بلندی و عظمت حاصل کر کے اپنے علاقے اور جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے اندر امن و سلامتی کا آرزومند ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران اور اس کے معمار اور بانی امام خمینیؒ نے ہمیشہ ایک ایسے چراغ کا کردار ادا کیا جس نے انسانیت کو آزادی اور وقار و عظمت کا راستہ دکھایا اور جن کے پیغام کا منتہاے مقصود مادہ پرست استعمار کے قید و بند اور اسارت کی زنجیروں کو توڑنا تھا۔ ایسے بے مثال‘ بے نظیر مظاہر جنہوں نے اس انقلاب کی مدد کی ہے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ استعمار کی گزشتہ کئی سالوں کی مسلسل مخاصمت اور دشمنی کے باوجود یہ انقلاب مستحکم رہا اور دشمنانِ دین اپنی اس مخالفانہ راہ پر چلتے چلتے اپنی کامیابی سے مایوس اور ناامید ہو چکے ہیں۔ بے شک اس نظام کی کامرانی اور استمرار و بقا کا راز خدا کی رسی کو تھامنے میں مضمر ہے۔
میرے پاکستانی بھائیو اور بہنو!
اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ سال کے دوران اپنے خارجہ تعلقات میں تمام ممالک سے عموماً اور علاقائی اور بین الاقوامی روابط کے سلسلے میں منعقدہ معاہدوں کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقتصادی‘ ثقافتی اور دفاعی شعبوں میں خاص طور پر ہمہ جانبہ تعاون کو فروغ دینے پر خاص توجہ مبذول کیے رکھی۔ علاوہ ازیں ملک کے داخلی امور میں بھی تعمیرِ نو اور اقتصادی اور بنیادی معاشرتی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر بھی خصوصی طور پر زور دیا گیا اور اس جدوجہد کے نتیجے میں اب تک بے شمار ثمرات و نتائج حاصل ہو چکے ہیں۔
ان ثمرات و برکات میں اقتصادی ترقی کا حصول‘ قومی پیداوار میں اضافے کے اشاریے‘ شرح افراطِ زر‘ بے روزگاری اور بیرونی قرضوں میں کمی‘ معاشرے کی ضروریات کے مطابق اقتصادی اور مالی پالیسیوں میں توازن خصوصاً اس کے مظلوم طبقات کے سلسلے میں‘ انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد میں تیزی‘ آزاد تجارتی علاقوں کا قیام‘ ان کا استحکام اور ان کو روبہ عمل لانا‘ غیرپیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ‘ پُرامن مقاصد کے لیے سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجیکل پروگرام پر توجہ‘ خود انحصاری میں پیشرفت‘ خصوصاً گندم کی پیداوار میں اضافہ‘ سائنسی اور صنعتی بنیادوں کی تقویت‘ قدرتی اور اسٹراٹیجک وسائل کی تلاشی‘ محرومی‘ فقر اور غربت کے خاتمے پر مناسب توجہ‘ معاشرتی ضرروں اور نقصانات کے خاتمے نیز خاندانی روابط کی تحکیم کی طرف مناسب توجہ‘ معاشرے میں نظم و ضبط کی روح کی بالادستی‘ سول معاشرے میں مذاکرے اور گفتگو کی ثقافت کا فروغ‘ شہریوں خصوصاً نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت‘ خاص طور پر خواتین کے حقوق کی نگہداری و تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ اسلامی جمہوریۂ ایران میں توانائی کے وسیع ذخائر اور وسائل کی فراوانی کے پیشِ نظر قومی استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی توجہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں ملک میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے اور اس عمل میں سرعت پیدا کرنے کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
ملکی اقتصادیات کو سرگرم اور متحرک صورت دینے کی یہی ایک راہ ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامرانی کے بعد ایران میں تعلیم و تربیت نے قابلِ رشک ترقی کی ہے یہاں تک کہ موجودہ صورت میں چھ سال سے اوپر کے افراد میں شرح خواندگی ۸۱ء۸۵ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کی تعداد پچیس لاکھ ہے جن میں ۴ء۵۳ فیصد لڑکیاں اور ۶ء۴۶ فیصد لڑکے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ سال یونیورسٹیوں میں داخلے کی خواہش مند لڑکیوں کی شرح ۶۴ فیصد تھی۔
عزتمند پاکستانی قوم!
اسلامی جمہوریۂ ایران کی خارجہ پالیسی کی میکرو اسٹراٹیجی کا اہم ترین ستون ہمسایہ ممالک کے ساتھ ترقی اور سلامتی کے فلسفے پر کاربند رہنا ہے۔ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا‘ جو ایران کا ہمسایہ مسلمان ملک ہے اور جس کے ساتھ اس کی طویل سرحدیں ملتی ہیں‘ اس نظریے کے لحاظ سے ایران کے لیے ایک خاص مقام ہے۔ ایک خیر خواہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے پائیدار اور ترقی یافتہ پاکستان کا وجود ایران کے لیے موجبِ اطمینان ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تہران اور اسلام آباد کے رہنمائوں کی بصیرت اور دونوں حکومتوں کے مابین دو طرفہ سنجیدہ سیاسی عزم اور علاقائی اور بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کے لیے مطلوبہ مثبت فضا کی موجودگی سے خیرسگالی کے جو جذبات پیدا ہوئے ہیں‘ انہیں دونوں قوموں کی سعادت اور سلامتی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دونوں قوموں کی تاریخی اور لازوال دوستی کی جڑیں مصلحین اور باہمی تعلقات کی دلدادہ شخصیتوں میں پیوست ہیں‘ اس لیے کوئی بھی حادثہ ان دو حکومتوں اور قوموں کے برادرانہ تعلقات کو کمزور نہیں کر سکتا۔
پاکستان ان گنے چنے ملکوں میں سے ایک ہے جن سے ہم نے پیمانِ وفا باندھا ہے اور تہران اور اسلام آباد کی موجودہ مثبت فضا دونوں قوموں کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے۔ اسی سلسلے میں ’بم‘ میں قدرتی زلزلے کا جو سانحہ رونما ہوا اس نے ایک ایسا بے مثال حماسہ پیدا کیا جس کے پرتو میں ہم نے پاکستان کی حکومت اور قوم کے ایسے پرولولہ جذبات کا مشاہدہ کیا جو اس سانحے کے آفت زدگان کی مصیبتوں اور آلام میں کمی کا سبب بنے۔ اس حادثے نے دونوں مسلمان ہمسایہ ممالک کے درمیان موجود گہرے دلی دوستانہ تعلقات کو ایک بار پھر ظاہر و مشہود کر دیا۔ گزشتہ سال پہلے تو دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے دونوں ملکوں کے مسلسل دورے کیے اور پھر ایران و پاکستان کے مشترکہ کمیشن کا اجلاس دونوں ممالک کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے افق پر رو بہ ترقی اور بلند آہنگ سیاسی اقتصادی و ثقافتی تعلقات کا پیغامبر بن کر ابھرا۔
علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر موجودہ دور میں ایک اور چیلنج جو ہمیں درپیش ہے وہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران انقلابِ اسلامی کی کامرانی کی ابتدا ہی سے اس مذموم عمل کا مسلسل شکار رہا ہے اور اس نے بارہا دہشت گردی کی کارروائیوں اور بے گناہ لوگوں کی قتلِ عام کی ہر شکل میں مذمت کی ہے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کا خیال ہے کہ اس منظم وجود سے نبٹنے کے لیے ترجیحی اقدامات کے بجائے ابتدائی طور پر اس کی نشوونما میں سرگرم جڑوں کو‘ جن میں فقر‘ بے روزگاری‘ تعصب اور امتیازات اور عصب حقوق شامل ہیں‘ شناخت کر کے ان کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے تاکہ عالمی برادری امن اور سلامتی سے۔۔۔ جو انسانی معاشرہ کی ترقی کی ضمانت ہے۔۔۔ رہ سکے۔ اس سلسلے میں تمام ممالک کا بین الاقوامی اداروں سے تعاون نیز دو طرفہ چند طرفہ باہمی تعاون موثر ہو سکتا ہے۔ علاقے کی دیگر مشکلات و مسائل میں سے ایک منشیات جیسے خانہ برانداز عنصر اور اس میں ملوث بڑے بڑے بین الاقوامی مافیائوں کے وجود کے خلاف جدوجہد ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اس انسان دشمن عنصر سے ہمیشہ سنجیدہ طور پر نبردآزما رہا ہے اور اب تک اس راہ میں فوج اور پولیس کے ہزاروں افراد کے جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور لاکھوں ٹن پکڑی گئی منشیات کو قومی اور بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں تلف کیا جاچکا ہے۔
ایٹمی توانائی کے شعبہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا یہ راسخ اور پختہ یقین اعتقاد ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو ایٹمی توانائی سے پُرامن استفادے کا حق حاصل ہے اور اس پر بعض انتہا پسند اور جارح ممالک کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ اس بنا پر ایران نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پُرامن استفادے کی راہ میں اب تک ایٹمی توانائی کے تمام علاقائی اور بین الاقوامی اداروں سے انتہائی تعاون کیا ہے‘ مذکورہ اداروں کے انسپکٹروں اور مبصرین کے لیے اپنی پُرامن ایٹمی تنصیبات کے دروازے کھول دیے اور انہوں نے بارہا ایران کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کے فوجی استعمال کی نفی پر زور دیا ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران قتلِ عام کے اسلحہ جات کے وجود کو دین اور عقل کی مخالفت جانتے ہوئے اور اپنی اس ڈاکٹرائن کے سلسلے میں کہ ایٹمی ہتھیاروں کو نہیں ہونا چاہیے‘ مدتوں سے علاقائی اور بین الاقوامی فورموں میں جدوجہد کرتا رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کر دیا جائے۔
آخر میں ایرانی حکومت اور عوام کے نمائندے کے طور پر میں خداوند تبارک و تعالیٰ کی حمد اور شکر ادا کرتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کے سلسلے میں خیرسگالی کی مثبت فضا پیدا کرنے کے لیے انقلابِ اسلامی ایران کی چھبیسویں سالگرہ کا پیغام‘ جو اقوامِ عالم اور بالخصوص پاکستان کی عزتمند قوم کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور پُرامن بقاے باہمی کے جذبات پر مبنی ہے‘ آپ بہن بھائیوں کو پیش کرتا ہوں۔ خدا کرے ان دونوں ممالک کی سربلندی و دوستی کا چراغ ہمیشہ روشن رہے اور خداوند تعالیٰ کی برکتیں آپ سب کے شاملِ حال رہیں۔ آمین!
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغام آشنا‘‘۔ اسلام آباد۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply