
تلکجیو (Tilkidjiev) نے ۱۹۹۸ء میں لکھا کہ محض اوسط آمدنی سے یہ طے نہیں ہو جاتا کہ کوئی مڈل کلاس کا حصہ بن گیا۔ مڈل کلاس کی کئی جہتیں ہیں۔ حقیقی تبدیلی رونما ہونے کی صورت ہی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی مڈل کلاس کا حصہ بن گیا۔ کسی بھی شخص کے مڈل کلاس میں شامل ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی ذہنی، سماجی اور سیاسی سطح ایک خاص حد تک بلند ہوگئی ہے۔ افلاس زدہ لوگوں سے زیادہ کما لینا اس بات کی دلیل نہیں کہ کوئی مڈل کلاس کا حصہ بن گیا۔ زندگی میں مجموعی طور پر غیر معمولی تبدیلیوں کا رونما ہونا کسی کے مڈل کلاس میں شامل یا داخل ہونے کی نوید بنتا ہے۔ طبقے کی تفہیم میں بہت سے امور کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک طرف معاشی امور ہیں اور دوسری طرف ثقافتی امور۔ جب کوئی شخص ایک طبقے سے نکل کر دوسرے، بلند تر طبقے میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سوچ بھی بدلتی ہے اور معاشی حیثیت بھی۔ اگر کوئی مڈل کلاس میں داخل ہو رہا ہے تو لازمی طور پر اس کی اقدار بھی بدلیں گی اور زندگی کے بارے میں اس کی رائے بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوگی۔ جب کوئی شخص مڈل کلاس کا حصہ بنتا ہے تو محض آمدنی نہیں بڑھتی اور آسائشات ہی زندگی کا حصہ نہیں بنتیں بلکہ تعلیم اور تربیت کا گراف بھی بلند ہو جاتا ہے۔ اگر یہ تبدیلی رونما نہ ہوسکے تو پھر کسی کا مڈل کلاس میں شامل یا داخل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
مڈل کلاس کی تفہیم سے متعلق جو لٹریچر پایا جاتا ہے اس میں یہ بات خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ زندگی کا معیار اسی وقت بلند ہوتا ہے جب تعلیم کا گراف بلند کیا جاتا ہے یعنی مڈل کلاس میں شامل ہونے والے افراد اپنی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں تاکہ ایک طرف تو زندگی کے بہتر طور طریقے اپنائے جاسکیں اور دوسری طرف آمدنی کا گراف بھی بلند ہو۔ مڈل کلاس میں رہتے ہوئے ہی بلند تر آمدنی اور تعلیمی معیار کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ کالج سطح کی تعلیم مڈل کلاس کا خاصہ کہلاتی ہے۔
مڈل کلاس کے تعین کے لیے سب سے اہم امر آمدنی کا تعین ہے۔ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں سے بہتر، بلکہ اعلیٰ معیار کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہونا ہی مڈل کلاس کا ایک پیمانہ ہے۔ اس پیمانے کے مطابق ہی یہ طے ہوسکتا ہے کہ کوئی مڈل کلاس میں داخل ہوسکا ہے یا نہیں۔ خطِ افلاس کے نیچے دوبارہ آ جانے کے خطرے سے تھوڑا سا دور ہٹ جانا کافی نہیں۔ مڈل کلاس میں وہ لوگ شامل ہیں جو افلاس کو شکست دے چکے ہیں۔ یہ شکست جامع ہونی چاہیے تاکہ دوبارہ افلاس زدہ زندگی بسر کرنے کا خطرہ تمام پہلوؤں سے ٹل جائے، ختم ہو جائے۔
مڈل کلاس میں شمولیت کے لیے ناگزیر ہے کہ مکان اپنا ہو۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کے اپنے مکانات ہیں مگر وہ مڈل کلاس میں شامل نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مکان تو والد سے ترکے میں ملا ہوتا ہے مگر آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا ہوتا۔ یہ کیفیت حقیقی مڈل کلاس تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پاکستان میں جو لوگ اپنے مکان میں رہتے ہیں انہیں ہم لازمی طور پر مڈل کلاس میں شمار نہیں کرسکتے کیونکہ وہ آمدنی کے اعتبار سے پست درجے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اپنے مکان میں رہنے کے باوجود وہ اعلیٰ تعلیم اور بہتر فنی تربیت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ برانڈولینی، بینرجی اور ڈفلو نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ اپنے مکان میں سکونت پذیر ہر شخص لازمی طور پر مڈل کلاس کا حصہ نہیں کیونکہ ترکے میں ملی ہوئی رہائش زندگی کا معیار بلند کرنے میں کوئی حقیقی کردار ادا نہیں کرتی۔ محض مکان کا ذاتی ملکیت میں ہونا اس بات کے لیے کافی نہیں کہ کوئی مڈل کلاس کا حصہ بن جائے۔ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ فی کس کتنے کمرے دستیاب ہیں اور گھر کے تمام افراد کو تمام بنیادی سہولتیں بھی دستیاب ہیں یا نہیں۔ ماہرین زندگی کے معیار کا تعین کرتے وقت بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا معیار خاص طور پر جانچتے ہیں۔ ذاتی رہائش کا ہونا مڈل کلاس کے لیے لازم ہے مگر یہی کافی نہیں، دوسرے بہت سے عوامل کو ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے۔
مڈل کلاس کے تعین کے لیے طرزِ زندگی بھی دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ کسی بھی رہائشی یونٹ میں آباد تمام افراد کے معیار زندگی کا بہتر تعین اسی وقت ہوسکتا ہے جب انہیں تمام بنیادی سہولتیں اور آسائشیں میسر ہوں۔ اگر گھر میں ضرورت کی تمام اشیا ہوں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ اِسی کا نام ترقی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہر گھر میں طرح طرح کے آئٹمز بھر دیے ہیں۔ مڈل کلاس میں شمار کیے جانے والے گھرانے وہ ہیں جن میں آسائش پیدا کرنے والی اشیا بھری پڑی ہیں۔ آپ بھی اپنی زندگی کا جائزہ لے کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے گھرانے کا شمار مڈل کلاس میں ہونا چاہیے یا نہیں۔ طرزِ زندگی میں وہ تمام اشیا شامل ہیں جو زندگی میں آسانیاں بھی پیدا کرتی ہیں اور شخصیت میں تھوڑی بہت چمک دمک اور وقار بھی۔ آپ کے کپڑے، جوتے، سفری سہولت اور دوسری بہت سی اشیا اس امر کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہیں کہ آپ حقیقی مڈل کلاس کا حصہ ہیں یا نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سی اشیا خود بہ خود زندگی کا حصہ بن گئی ہیں۔ ایسے میں ہم مڈل کلاس کا تعین آسانی سے نہیں کرسکتے۔ جو اشیا ترقی پذیر ممالک میں مڈل کلاس کا حصہ ہیں وہ ترقی یافتہ معاشرے میں عام گھرانوں کا جُز ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں لوگ مڈل کلاس تک پہنچنے کے لیے ایک عمر لگا دیتے ہیں۔ مڈل کلاس کہلائے جانے کے قابل ہونے کے لیے انہیں وہ تمام بنیادی اشیا حاصل کرنا پڑتی ہیں جو اُنہیں آسانیاں بھی دیتی ہیں اور زندگی کا معیار بھی بلند کرتی ہیں۔ مڈل کلاس میں شامل ہونے کی کوشش ہر انسان کو بھرپور تگ و دَو کی تحریک دیا کرتی ہے۔ جو لوگ وقت کے تقاضوں کو سمجھتے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے لیے بہتری پیدا ہوتی ہے۔
مڈل کلاس میں شمار کیے جانے کے قابل ہونے میں یہ بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ آپ کرتے کیا ہیں۔ کوئی بھی باعزت اور باوقار پیشہ آپ کی زندگی کا معیار بلند کرتا ہے۔ اگر کوئی پست معیار کا پیشہ اختیار کرکے آپ بڑے پیمانے پر دولت حاصل کرلیں تب بھی مڈل کلاس میں شمار کیے جانے کی اہلیت آپ میں پیدا نہیں ہوتی۔ پیشے کا تعین بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پیشے میں زیادہ دولت کمالے مگر مجموعی طور پر زندگی کا معیار بلند نہ کرسکے۔ ماہرین پیشے کو اس لیے اہمیت دیتے ہیں کہ اس کی نوعیت ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ میں مڈل کلاس کا حصہ بننے کی حقیقی اہلیت ہے یا نہیں۔ بعض پیشوں میں دولت تو ہے مگر ان سے زندگی کا معیار بلند نہیں ہوتا اور معاشرے میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ایک استاد زیادہ نہیں کماتا اور آسانی سے مڈل کلاس کا حصہ نہیں بن پاتا مگر وہ معاشرے میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ضرور ہموار کرتا ہے۔ استاد ہی ایسے انسان تیار کرتا ہے جو معاشرے کو بدلتے ہیں۔ استاد کی دی ہوئی سوچ نوجوانوں کو کچھ کر گزرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے۔ استاد کی دی ہوئی تربیت انسان کو مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ دوسری طرف بہت سے لوگ معمولی پیشوں کے ذریعے ڈھیروں دولت کما لیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی حقیقی اور ہمہ گیر تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ان کا طرزِ زندگی بھی تبدیل نہیں ہوتا اور ان کی تعلیمی سطح بھی بلند نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی بھی معاشرے کا حصہ نہیں بنتی۔ ایسے لوگ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں سے کہیں زیادہ دولت کمانے میں کامیاب ہوکر بھی مڈل کلاس کا حصہ نہیں بن پاتے۔ وہ دولت پاکر بھی معاشرے کو بدلنے کی سوچ اپنے اندر پروان چڑھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ مڈل کلاس کے تعین میں کئی عوامل کا عمیق جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ زندگی میں رونما ہونے والی حقیقی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اگر کوئی شخص اپنا طبقہ تبدیل کرنے کے بعد بھی معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا طبقہ تبدیل ہوا ہی نہیں۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
(بشکریہ: ریسرچ پیپر۔ ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ‘‘)
Leave a Reply