سماجی حقیقتوں کی بہتر توضیح آسان کام نہیں۔ کسی بھی طبقے کا تعین کرنے کے سلسلے میں بہت سے غیر معاشی امور کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ افلاس ہی کو لیجیے۔ ہر ملک میں افلاس کی تعریف اور توضیح مختلف ہے کیونکہ سماجی پس منظر مختلف ہے۔ ہر ملک اپنے ہاں ترقی کے معیار کے تناظر میں افلاس کا تعین کرتا ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر کوئی اتفاق رائے اس لیے نہیں پایا جاتا کہ ہر ملک افلاس کو اپنے حالات اور وسائل کے تناظر میں پیش کرتا ہے اور اسی حوالے سے تعریف متعین کرتا ہے۔ یہی معاملہ متوسط طبقہ کا بھی ہے۔ اس امر پر تو سب متفق ہیں کہ یہ طبقہ نچلے اور بالائی طبقے کے درمیان ہوتا ہے مگر اس امر کا تعین بہت مشکل ہے کہ نچلا طبقہ کہاں ختم ہوتا ہے اور بالائی طبقہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس موضوع پر معاشیات اور سماجیات کے ماہرین نے خاصی شرح و بسط کے ساتھ بحث کی ہے مگر ہر ملک مختلف طبقات کو اپنے مسائل اور وسائل کے تناظر میں دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو کچھ کماتا ہے اس کی بنیاد پر اس کے طبقے کا تعین نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنی آمدنی کو کس انداز سے خرچ کیا، اس سے کیا فوائد حاصل کیے اور کس طرح اپنی زندگی کا معیار حقیقی مفہوم کے مطابق بلند کیا۔ تعلیم، پیشہ، آمدنی، طرزِ زندگی اور رہائش وہ معیارات ہیں جن کا عمیق جائزہ لینے کی صورت میں کوئی بھی ماہر معاشیات اور ماہر عمرانیات آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون کون متوسط طبقہ میں شمار کیے جانے کے قابل ہے اور کس کا معاملہ نچلے طبقے کا ہے۔ بالائی طبقے کے حوالے سے زیادہ بحث اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ آمدنی کا گراف غیر معمولی طور پر بلند ہو تو سبھی آسانی سے محسوس کرلیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ اپنے طرزِ زندگی کو الگ تھلگ ہی رکھتے ہیں۔ ان کے رہن سہن سے فوری طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق اعلیٰ ترین طبقے سے ہے۔ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد وسائل سے بڑھ کر خرچ کرتے ہوئے اعلیٰ ترین طبقے کا حصہ دکھائی دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مڈل کلاس میں ایسے بہت سے لوگ بھی ہوتے ہیں جو خاصی معقول آمدنی رکھنے کے باوجود نچلے طبقے سے جڑے رہتے ہیں۔ ان کی رہائش اور طرزِ زندگی سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان کی آمدنی کا گراف اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ چاہیں تو اعلیٰ طبقے کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا اور اس سے جڑے ہوئے دیگر خطوں میں طبقات کا تعین خاصا مشکل کام ہے کیونکہ لوگ اپنے وسائل سے کمتر یا برتر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ پاکستان ہی کی مثال لیجیے جہاں لوگ وسائل کے مطابق زندگی بسر کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی آمدنی بڑھانے میں کامیاب ہو بھی جائے تو عموماً آسانی سے رہائش بدلتی ہے نہ لائف اسٹائل۔ وہ جہاں زندگی بسر کرتا آیا ہے وہیں آباد رہتا ہے اور زندگی میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کسی کو بہتر زندگی کے لیے نفسیاتی طور پر تیار کرنا انتہائی دشوار امر ہے۔ بہت سے لوگ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود خود کو اعلیٰ ترین طبقے میں گنتے رہتے ہیں اور ان کا طرزِ زندگی بھی ان کے مزاج اور رجحان کی چغلی کھا رہا ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں سری لنکا کے سوا کسی بھی ملک کا متوسط طبقہ پاکستان کے متوسط طبقہ سے بڑا نہیں۔ بھارت کا متوسط طبقہ آبادی کے حجم کے اعتبار سے بڑا ہے مگر بھارت کی اپنی آبادی کے تناسب سے اس کا متوسط طبقہ بہت چھوٹا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارتی متوسط طبقہ ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے حوالے سے کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر رہا۔ متوسط طبقہ کے لوگ ہی معاشرے کی ساخت اور رجحانات تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت میں معاملہ اب تک زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ وہاں لوگ متوسط طبقہ کا حصہ بننے کے بعد بھی طرزِ زندگی تبدیل کرنے سے گریز کرتے رہتے ہیں۔ آبائی مکانات میں رہنا، انہی جیسا رہن سہن اپنائے رکھنا اور بیشتر معاملات میں زیادہ خرچ کرنے سے گریز، بھارتی متوسط طبقہ کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ بھارت میں تعلیم کے حوالے سے حکومتی اقدامات اس قدر ہیں کہ پرائمری اور سیکنڈری سطح کی تعلیم حکومتی خرچ پر ہو جاتی ہے۔ متوسط طبقہ کے لوگ اولاد کی اعلیٰ تعلیم پر خاطر خواہ خرچ نہیں کرتے۔
پاکستان میں متوسط طبقہ تیزی سے پنپتا رہا ہے۔ اب بھی لوگ اپنی رہائش، طرزِ زندگی اور تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاکر زیادہ کمائیں اور زیادہ خرچ کریں تاکہ زندگی میں مثبت، بنیادی تبدیلیاں رونما ہوں۔ پاکستان میں لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا معیار زندگی تبدیل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ آمدورفت کے ذرائع کا استعمال بھی اس کی عمدہ تشریح ہے۔ جب آمدنی بڑھتی ہے تو لوگ بسوں اور ویگنوں میں سفر ترک کرکے موٹر سائیکل اور پھر کار لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں لوگ مجموعی طور پر اعلیٰ معیار زندگی چاہتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے متحرک ہونے کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس کے ارکان یعنی عوام کس طرح کی زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ متحرک رہتے ہیں اور آمدنی بڑھاکر معیار زندگی بلند کرنے پر توجہ دیتے ہیں تو یقینی طور پر بہتر زندگی ان کی منتظر رہتی ہے اور اگر وہ آمدنی بڑھنے پر مٹھی بھینچے رہتے اور زیادہ خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں تو یقینی طور پر ان کی زندگی میں کوئی ایسی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی جو بہتری کی طرف لے جاتی ہو۔
پاکستان کی سڑکوں پر دنیا بھر کی جدید ترین ماڈل کی کاریں دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ لوگ پہلے موٹر سائیکل چلاتے ہیں، آمدنی بڑھنے پر کاریں خریدتے ہیں اور پھر آمدنی میں اضافے کے ساتھ کار کا ماڈل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صَرف کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہے مگر یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ صَرف کرنے کا رجحان ہی معاشرے کو متحرک رکھے ہوئے ہے اور حکومت کی جانب سے حوصلہ افزا معاشی پالیسیاں متعارف نہ کرائے جانے پر بھی زندگی کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔
پاکستان میں لوگ چونکہ خرچ کرنے کے زیادہ عادی ہیں اس لیے زر کی گردش کی رفتار زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کی آمدنی میں مستقل اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ خرچ بھی کرتے ہیں جس سے زندگی کا معیار کسی نہ کسی حوالے سے بلند ہوتا رہتا ہے۔ مختلف پیشوں میں آمدنی کا گراف تیزی سے بلند ہوتا جاتا ہے۔ ان پیشوں سے وابستہ افراد کی آمدنی بڑھتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ معاشرے میں زر کی گردش کو برقرار رکھتا ہے جس کے نتیجے میں روزگار کے نئے مواقع نکلتے رہتے ہیں اور یوں معاشرہ متحرک رہتا ہے۔ نچلے طبقے کے لوگ درمیانی کلاس کا حصہ بننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ بھی اعلیٰ طبقے کے کہلائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں متوسط طبقہ کا تعین بہت مشکل ہے کیونکہ لوگ اپنی آمدنی سے کہیں بڑھ کر خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ مصنوعی طور پر متوسط طبقہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا تو کرلیتے ہیں مگر اسے برقرار رکھنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ بہتر تیاری کے بغیر اعلیٰ طبقے میں شمولیت کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہ مصنوعی انداز ان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ جس طور غریب طبقے کے لوگ متوسط طبقہ کا حصہ بننے کی دُھن میں اپنے حالات پر جبر کرتے ہیں بالکل اُسی طرح متوسط طبقہ کے لوگ بھی جب اعلیٰ طبقے کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی آمدنی اور طرزِ زندگی پر غیر معمولی دباؤ پڑتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں مصنوعی ہیں اس لیے خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ نچلے طبقے سے لوگ آمدنی اور فکر میں تبدیلی لائے بغیر متوسط طبقہ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اِسی طور متوسط طبقہ کے لوگ کسی جواز کے بغیر اگر اعلیٰ طبقے میں شامل ہونا چاہیں تو اُن کی زندگی میں بھی طرح طرح کی مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان دونوں حالتوں میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
متوازی میڈیا پر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شعور سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں منطقی طریقے سے رونما ہوں۔ مین اسٹریم میڈیا میں لوگوں کو ایک ایسی طرز زندگی کی طرف بلایا جاتا ہے جو اُن کا نہیں ہوتا۔ یہ غیر حقیقی انداز زندگی کو صرف خرابیوں کی نذر کرتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ لوگوں کو طبقات کے حوالے سے شعور دیا جائے۔ انہیں ذہنی طور پر تیار کیے بغیر ہم بڑی اور بہتر زندگی کے لیے تیار نہیں کرسکتے۔ طبقہ اسی وقت تبدیل ہوتا ہے جب محض رہائش اور طرزِ زندگی ہی نہیں بلکہ نظامِ تعلیم بھی تبدیل ہو۔ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کا گراف اور معیار بلند کرکے ہی حقیقی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ایسا کیے بغیر جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ مصنوعی ہوگا۔۔۔
(ختم شد)
☼☼☼
Leave a Reply