
معاشیات، عمرانیات اور سیاسیات میں عمومی سطح پر زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح مڈل کلاس ہے۔ اصطلاح بہت زیادہ استعمال کرنے کے باوجود کم ہی لوگ ہیں جو مڈل کلاس کی تعریف متعین کرتے ہیں۔ بالعموم مڈل کلاس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سب سے نچلے اور سب سے بلند طبقے کے درمیان ہوتا ہے۔ مگر خیر، اس امر کا تعین بھی بہت مشکل ہے کہ امیر کون ہے اور غریب کون۔ مڈل کلاس کی بیشتر تعریفیں مبہم اور نامکمل ہیں۔
تاریخی طور پر مختلف معاشروں میں مڈل کلاس کا تصور موجود رہا ہے اور اس پر وقیع بحث بھی پائی جاتی ہے۔ دور حاضر میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں بالخصوص بھارت اور چین میں تیزی سے ابھرتی ہوئی مڈل کلاس نے اس حوالے سے بحث کو نئی زندگی دی ہے۔ عالمی کساد بازاری کے باوجود دونوں ممالک میں مڈل کلاس کے پنپنے کا عمل جاری رہا ہے جس پر ماہرین کو حیرت ہے۔ جب ترقی یافتہ دنیا اپنی معیشتوں کو قومی اور گھریلو دونوں سطحوں پر زندہ اور توانا رکھنے کی بھرپور جدوجہد میں مصروف تھی تب ایشیا میں مڈل کلاس بھرپور کنزیومرازم کا مظاہرہ کرتی رہی یعنی صَرف کا رجحان نمایاں رہا اور لوگ اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے خرچ کرتے رہے۔
کسی بھی معاشرے میں معیشت کی مجموعی کارکردگی کے حوالے سے مڈل کلاس کا مرکزی کردار رہا ہے کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے جو معیشت اور معاشرت دونوں معاملات میں فروغ کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین معاشیات اور ماہرین عمرانیات اپنی خالص علمی بحث مڈل کلاس کی بنیاد پر کرتے ہیں کیونکہ اس طبقے کے پھیلنے یا سکڑنے ہی سے معاشرے میں حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مڈل کلاس کے پھیلنے، سکڑنے، دباؤ میں آنے، دباؤ سے آزاد ہونے، آزادی و خود مختاری سے مزین ہونے، قنوطیت کا شکار ہونے، رجائیت سے ہمکنار ہونے اور بہتر یا بدتر کردار ادا کرنے کے حوالے سے وقیع بحث کی جاتی رہی ہے۔ مڈل کلاس کا حجم بڑھنے یا گھٹنے پر ماہرین معاشیات خاص نظر رکھتے ہیں کیونکہ اس عامل ہی کی بنیاد پر معاشرتی تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ مڈل کلاس میں کون لوگ شامل ہیں۔ بھارت میں اگر ایک اسکول ٹیچر ماہانہ ڈھائی ہزار ڈالر کما رہا ہے تو وہ مڈل کلاس میں شامل کہلائے گا مگر امریکا میں کسی بھی فرد کو اسی وقت مڈل کلاس کا حصہ سمجھا جاسکے گا جب وہ سالانہ دو لاکھ ڈالر تک کما پائے گا۔ بین الاقوامی معیشتی عوامل کے پس منظر میں مڈل کلاس کا تصور الگ الگ ہے۔ کسی معاشرے میں چند ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والے بھی مڈل کلاس میں شمار ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں مڈل کلاس کا حصہ بننے کے لیے بہت کچھ کمانا پڑتا ہے۔ ہر معاشرے کے لیے مڈل کلاس کی تعریف مختلف ہے اور عالمی سطح پر اس طبقے کے لیے کوئی ایک جامع اور قابل قبول تعریف متعین کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
علمی بحث میں اپر اور لوئر مڈل کلاس کا تصور بھی ابھرا ہے۔ مڈل کلاس میں جو لوگ نچلی سطح پر ہوں یعنی غریب طبقے سے کسی نہ کسی طرح بلند ہوکر مڈل کلاس تک پہنچ پائے ہوں اور ان کے دوبارہ غریب طبقے سے جڑ جانے کا خدشہ پایا جائے وہ لوئر مڈل کلاس کہلاتے ہیں۔ مڈل کلاس میں وسطی درجے کے لوگ وہ ہیں جو خاصے مستحکم ہوچکے ہوں اور اب ان کے دوبارہ غریب طبقے کا حصہ بننے کا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا ہو۔ اپر مڈل کلاس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مڈل کلاس میں رہتے ہوئے مالی اعتبار سے اس قدر مستحکم ہوچکے ہیں کہ اب ذرا سی جدوجہد سے اعلیٰ ترین طبقے یا اشرافیہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
مڈل کلاس پر بحث کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ پہلے تو ہم اس کی کوئی جامع اور قابل قبول تعریف تلاش کریں۔ اس تعریف ہی کی بنیاد پر اپنے معاشرے میں مڈل کلاس کا تعین ممکن ہوسکے گا۔ جامع تعریف کی روشنی ہی میں ہم مڈل کلاس کا تفاعل سمجھ سکیں گے۔ اور اسی کی بنیاد پر مڈل کلاس کے حجم کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے کہی جاسکے گی۔ مختلف قابل قبول تعریفوں کی روشنی میں پاکستان کی مڈل کلاس کے تعین پر بحث کی گئی ہے تاکہ اس کا واقعی حجم معلوم ہوسکے۔ کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل اس ورکنگ پیپر میں مڈل کلاس کے حوالے سے علاقائی اور پیشہ ورانہ نقطہ نظر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
مڈل کلاس کا تصور
اسٹرینز نے ۱۹۷۹ء میں لکھا کہ مڈل کلاس کا تصور بہت مبہم اور الجھا ہوا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس طبقے کے تعین کے حوالے سے بحث ملتی ہے۔ کارل مارکس نے پیداواری عمل میں کردار ادا کرنے والے گروہوں کے حوالے سے معاشرے کے مختلف طبقات پر بحث کی۔ میکس ویبر نے دولت کی تقسیم کو بنیاد پر بناکر دولت، وقار اور طاقت کی درجہ بندی کے حوالے سے مڈل کلاس کا تصور پیش کیا۔ میکس ویبر اور کارل مارکس نے مڈل کلاس کے حوالے سے کسی بھی سادہ سی تعریف کو یکسر مسترد کیا کیونکہ دونوں نے لوگوں کے سماجی رتبے کو معاشی جدوجہد سے جوڑنے کی کوشش کی۔ دونوں مکاتب فکر نے بتایا کہ معاشرتی رشتے اور روابط معاشی جدوجہد میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنیاد پر لوگوں میں کشمکش بھی پائی جاتی ہے اور ان پر دباؤ بھی مرتب ہوتا ہے۔ ویسے مارکس اور ویبر جس انداز سے معاشرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ مارکس کے نزدیک استحصال کا پہلو ہی سب کچھ ہے یعنی معاشرے میں ہر تبدیلی استحصال کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف میکس ویبر نے زندگی کو تبدیلیوں سے ہمکنار کرنے والے مواقع کی بات کی ہے۔
۲۰۰۳ء میں رائٹ نے یہ تصور پیش کیا کہ پانچ عوامل یا درجہ بندیوں کی بنیاد پر مڈل کلاس کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پانچ درجہ بندیاں مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ موضوعی حالت : یہ کہ لوگ اپنے آپ کو اور دوسروں کو معاشی ناہمواری یعنی عدم مساوات کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں۔
۲۔ معروضی حالت : یعنی کہ یہ لوگ خود کو دولت کی تقسیم کے لحاظ سے مختلف درجوں میں رکھتے ہیں۔ دولت کی تقسیم کے لحاظ سے اپر کلاس، مڈل کلاس، اپر مڈل کلاس، لوئر کلاس اور انڈر کلاس پائی جاتی ہیں۔ یہ مختلف طبقات ہیں جو معاشرے میں حقیقی تفاعل کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
۳۔ معاشی سطح بلند کرنے کے مواقع کے حوالے سے باہمی روابط کی بنیاد پر کی جانے والی تشریح و تفہیم : میکس ویبر اور کارل مارکس کے نقطہ ہائے نظر کی روشنی میں مختلف طبقات کی بحث جس میں معیار زندگی بلند کرنے کے مواقع اور اس حوالے سے کی جانے والی جدوجہد پر بھی وقیع بحث کی گئی ہے۔ اس نقطہ نظر کی روشنی میں کسی بھی طبقے کے لوگوں کا اصل کردار آمدنی پیدا کرنے والے وسائل سے ان کے تعلق کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے نہ کہ درجے کی بلندی کے عمومی تصور کی روشنی میں۔
۴۔ عدم مساوات کے نظام میں تاریخ تغیر : معاشروں میں مختلف سطحوں پر پائی جانے والی معاشی جدوجہد پر کی جانے والی اس بحث میں بنیاد کلی معاشیات کو بنایا گیا ہے۔ تمام امور کا جائزہ معاشرے یا معیشت کے مجموعی کردار کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔
۵۔ معاشی استحصال اور دباؤ کی بنیاد : اس نقطۂ نظر سے معاشرے میں معاشی ناہمواری ختم کرنے کے تصور پر بحث کی جاتی ہے اور متعلقہ مواقع کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا امور کی روشنی میں مڈل کلاس کہاں ہے؟ کارل مارکس کی نظر سے دیکھیں تو مڈل کلاس دراصل پیداواری ذرائع کے مالکان یعنی بورژوا طبقے اور بقا کے لیے اپنی پیداوار کو کسی نہ کسی طرح بیچنے پر مجبور طبقے پرولتاری کے درمیان کہیں مڈل کلاس پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے چھوٹے صنعتی یونٹس کے مالکان اور دکاندار بھی مڈل کلاس ہی کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ میکس ویبر کی نظر سے دیکھیں تو مڈکل کلاس میں وہ افراد شامل سمجھے جائیں گے جو کسی نہ کسی طرح دولت، وقار اور طاقت حاصل کرتے رہنے میں کامیاب رہتے ہیں اور معاشرے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرتے جاتے ہیں۔ دولت کے حصول کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جانے والوں ہی کو مڈل کلاس میں تصور کیا جائے گا۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو نہ تو کرائے پر رہنے کے محتاج ہیں اور نہ غیر ہنر مندوں کے درجے میں ہیں۔ اگر طاقت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مڈل کلاس میں وہ لوگ شامل ہیں جو نہ تو اتنے کمزور ہیں کہ دوسروں کے حکم پر چلیں اور نہ اتنے طاقتور کہ اپنا کوئی بھی کام کسی بھی نوع کی مزاحمت ختم کیے بغیر کراسکیں۔ وقار کی سطح پر دیکھیں تو مڈل کلاس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ذرا سا زیادہ احترام پائیں اور نہ ہی وہ لوگ اس طبقے کا حصہ ہیں جو واضح طور پر امتیازی حیثیت میں احترام پاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہر شعبے اور مرحلے میں مڈل کلاس درحقیقت درمیانی سیڑھی پر پایا جانے والا طبقہ ہے۔
بھارتی معاشرے کا تجزیہ کرتے ہوئے سری دھرن نے ۲۰۰۴ء میں لکھا کہ دور حاضر میں (بالخصوص ترقی پذیر معاشروں میں) مڈل کلاس کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس طبقے کے افراد کا تعین کرنے کے لیے کلاسیکی تعریفیں کسی طور ہمارے کام نہیں آسکتیں۔ ایک صدی کے دوران مختلف معاشروں میں ترقی کا عمل دراصل علم اور فنی تربیت کا دائرہ وسیع تر کرنے اور، سرمایہ دارانہ معاشروں میں بھی، سرکاری مشینری کے ذریعے وائٹ کالر جابس میں اضافے سے جڑا رہا ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ ترقی کا پورا عمل تعلیم کے فروغ سے بھی وابستہ رہا ہے۔ تنخواہ دار اور اپنے کام سے وابستہ طبقہ بھی مڈل کلاس کا حصہ رہا ہے۔ پروفیشنلز کے اس نئے گروپ کی مجموعی آمدنی مارکس کے نظریات کے مطابق بورژوا اور پرولتاری قرار دیے جانے والوں کے درمیان کہیں بھی ہے۔ سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے یہ بھی طبقہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کا فروغ سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ معیشت میں خدمات کے شعبے کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے اس طبقے کی اہمیت کو مزید وسعت دی ہے۔
یہ وہ طبقہ ہے جس میں تبدیلیاں تیزی سے رونما ہوتی رہتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ رائٹ نے اسے حقیقی مڈل کلاس تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ ۱۹۸۵ء میں اپنی ایک کتاب میں رائٹ نے لکھا کہ طبقات کے درمیان پائے جانے والے تعلقات میں یہ طبقہ خاصی متضاد حیثیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ رائٹ کے خیال میں پروفیشنلز اور وائٹ کالر جاب کرنے والوں پر مشتمل یہ طبقہ مارکس کی تعلیمات میں پائے جانے والے اس چھوٹے سے طبقے سے مختلف ہے جو دکانداروں اور پیداواری ذرائع کے مالک چھوٹے آجروں پر مشتمل ہے۔ تمام اور بالخصوص ترقی پذیر معاشروں میں اس طبقے کو نمایاں اور دوسروں سے ممتاز کرنے والی صفت خود مختاری ہے۔ یہ خود مختاری مختلف مہارتوں کے حصول اور ان کی بنیاد پر مملکتی امور میں پنپتی ہوئی مرضی سے پیدا ہوتی ہے۔ بردھان نے بھی اس تصور کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فی زمانہ مختلف مہارتوں کے حامل افراد یعنی پرفیشنلز اور وائٹ کالر جاب کرنے والے افراد ہی معاشرے میں سب سے طاقتور طبقے کی حیثیت سے ابھرے ہیں۔ اس طبقے کے افراد میں اعلیٰ تعلیم، ہنر اور چند مخصوص مہارتیں دکھائی دیتی ہیں۔ معاشرے میں بالا دست طبقات اب بڑے صنعتکاروں، بڑے زمینداروں اور سول اور ملٹری پروفیشنلز پر مشتمل ہیں۔
مڈل کلاس کے اجزائے ترکیبی بہت اہم ہیں
ویسے تو ہر دور میں مڈل کلاس کو معاشرے کے مجموعی استحکام کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا رہا ہے۔ سیاسیات اور عمرانیات کے ماہرین مڈل کلاس کو کسی بھی حقیقی تبدیلی کے لیے اصل قوتِ متحرکہ قرار دیتے رہے ہیں مگر فی زمانہ وہ کسی بھی بڑی اور انقلابی نوعیت کی تبدیلی کے لیے مڈل کلاس کو لازمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کو جمود سے نکالنے اور تحرک کی راہ پر گامزن کرنے میں حقیقی کردار مڈل کلاس ہی ادا کرتی ہے کیونکہ یہ عدم مساوات اور ناہمواریوں کو ختم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ چین اور بھارت کی مثال بہت واضح ہے کیونکہ ان دونوں ممالک کا مستقبل اب مڈل کلاس کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چین اور بھارت سب سے آگے ہیں اور ان کی مڈل کلاس بے حد مضبوط ہے جو حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ مڈل کلاس کو غیر معمولی اہمیت دینا کوئی نیا رجحان نہیں۔ مختلف ادوار میں مڈل کلاس کو حقیقی تبدیلی کا انجن سمجھا جاتا رہا ہے۔ لینڈز نے ۱۹۸۹ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں انگلینڈ کی مڈل کلاس پر روشنی ڈالی ہے جس نے ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے اور عالمی سطح پر بہتر مقام دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ برڈزال، گراہم اور پیٹنیٹو نے ۲۰۰۰ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمگیریت کے تناظر میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی بقا کے لیے مڈل کلاس کا ہونا اور مضبوط ہونا ناگزیر ہے۔ ۲۰۰۱ء میں ایسٹرلی نے لکھا کہ جن معاشروں میں نسلی اور لسانی تنوع نہ ہو ان میں مڈل کلاس تیزی سے پنپتی ہے۔ ارسطو نے ۳۰۶ قبل مسیح مین لکھا تھا ’’سیاسی اعتبار سے بہترین طبقہ مڈل کلاس ہے اور جن معاشروں میں مڈل کلاس مضبوط ہو وہ معاشی اور معاشرتی دونوں اعتبار سے تیزی سے فروغ پاتے ہیں۔ جن معاشروں میں مڈل کلاس بڑی اور مستحکم ہو ان میں گروہ بندی اور تضادات و تنازعات کم پائے جاتے ہیں‘‘۔
مڈل کلاس اگر مضبوط ہو تو معاشرے میں تعلیم عام ہوتی ہے، لوگ ہنر سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں، آمدنی کا گراف بلند ہوتا ہے اور بہتر زندگی بسر کرنے کا رجحان پنپتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو حقیقی استحکام اور فروغ سے ہمکنار کرنے میں مڈل کلاس مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ طبقہ دراصل بفر زون کا کردار ادا کرتا ہے۔ نچلے اور بالائی طبقوں کے درمیان حدِ فاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس حقیقی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے، آمدنی کا معیار اور گراف بلند ہوتا ہے اور سیاسی عدم استحکام اور افلاس کی سطح گرتی ہے۔ دوسری طرف وہ معاشرے عدم استحکام اور افلاس کا شکار رہتے ہیں جن میں مڈل کلاس کمزور ہو۔ ایسٹرلی، ایسٹبین اور رے نے اس پر مبسوط بحث کی ہے۔
مڈل کلاس کا عمومی کردار تو معاشی نوعیت کا ہے یعنی اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرے میں حقیقی معاشی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر فی زمانہ اس کا طبقے کا سیاسی کردار بھی تیزی سے پنپ رہا ہے۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی کئی معیشتوں میں مڈل کلاس نے سیاسی اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع تر کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس ہی کی مدد سے معاشرہ سیاسی اعتبار سے تبدیل ہو رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کی بڑی سیاسی جماعتیں اب مڈل کلاس کو بنیاد بناکر کام کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد مرکزی عہدوں پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹۶۶ء میں مور نے اس نکتے پر زور دیا کہ جمہوریت کے فروغ میں مڈل کلاس مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ اب کسی بھی ملک میں حکومت کی نوعیت کا مدار اس بات پر ہے کہ اس ملک کی مڈل کلاس حجم میں کتنی اور طاقت میں کیسی ہے۔ سیاسی کردار میں رونما ہوتی ہوئی وسعت نے مڈل کلاس کو حکومت سازی میں مرکزی کردار ادا کرنے کے قابل بنادیا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں کولیئر نے اپنی کتاب میں مور سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ بہت سے معاشروں میں مڈل کلاس نے لوئر کلاس کے لوگوں کے ساتھ مل کر حقیقی سیاسی تبدیلی لانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مڈل اور لوئر کلاس کے اشتراک سے ایسی حکومتیں معرض وجود میں آئی ہیں جن میں سب کی آواز شامل کرنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مڈل کلاس نے اپر کلاس سے مل کر ایسی سیاسی تبدیلی پیدا کی کہ سیاسی نظام میں نچلے طبقوں کے لیے کچھ بھی نہ بچا اور جمہوریت کی راہ ایسی مسدود ہوئی کہ تان آمریت پر ٹوٹی۔ ۲۰۰۳ء میں لیونٹوگلو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بعض معاشروں میں مڈل کلاس نے خاصا منفی کردار بھی ادا کیا ہے اور اپر کلاس سے مل کر ایسی حکومتوں کی راہ ہموار کی جن میں معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقوں کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی بھی مڈل کلاس سیاسی حوالے سے کیا کردار ادا کرتی ہے، اس کا مدار بہت حد تک حالات پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی مڈل کلاس حالات اور معاملات کو جوں کا توں رکھنے پر بھی توجہ دیتا ہے۔ اگر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کو یقین ہو جائے کہ ان کی اولادیں اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گی تو وہ نیم جمہوریت کو قبول کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں گے بلکہ کبھی کبھی تو وہ دولت کی تقسیم مساوات پر مبنی بنائے جانے سے روکنے کے لیے قدرے آمرانہ طرز حکومت کی بھی حمایت کریں گے۔ دوسری طرف اگر انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ مقتدر طبقہ کچھ کرنے نہیں دے گا تو وہ لوئر کلاس کے ساتھ مل کر دولت کی تقسیم قدرے منصفانہ بنانے پر زور دیں گے۔ ایسیموگلو اور رابنسن نے ۲۰۰۳ء میں اپنی کتاب میں لکھا کہ مڈل کلاس کا یہ بدلتا ہوا اور حالات کے تابع کردار ہی اسے سیاسی اعتبار سے نہایت اہم پوزیشن عطا کرتا ہے۔ بیشتر واقعات میں مڈل کلاس معاشرے میں فیصلہ کن سیاسی کردار ادا کرتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں فیصلہ کن ووٹ عموماً مڈل کلاس کی طرف ہی سے آتا ہے۔
ویسے تو مڈل کلاس کے اور بھی بہت سے کردار ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا بنیادی کردار معیشت کو فروغ دینا ہے اور اس کی عمدہ کارکردگی ہی سے حقیقی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ مڈل کلاس کو معیشتی فروغ میں اپنا کردار پورے تحرک کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
(۔۔۔جاری ہے)
(بشکریہ: ریسرچ پیپر۔ ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ‘‘)
☼☼☼
Leave a Reply