سب سے پہلے نسل پرستی تھی:
ایک زمانہ تھا جب برٹش آرمی اوپر کی سطح پر تو برٹش تھی اور نچلی سطح پر انڈین تھی۔ تمام اعلیٰ افسران کا تعلق انگلستان کے مختلف حصوں اور سفید فام نسل سے تھا اور تمام نچلی سطح کے افسران اور سپاہی انڈیا کی مختلف نسلوں اور رنگوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔
یہ درجہ بندی اس لیے دکھائی دیتی تھی کہ برطانوی حکمران اور فوج کے کرتا دھرتا ہمارے خطے کو اسی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ اس نظریے کے تحت برطانوی حکمرانوںکی نظر میں بعض اقوام یا ذاتیں جنگ کے لیے دوسروں سے بہتر اور تیاری کی حالت میں تھیں۔ جاٹ، راجپوت، سکھ اور گورکھا لڑائی کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے۔ بنگالی اور دوسرے بہت سے انڈینز کو لڑائی کے لیے سخت ناموزوں تصور کیا جاتا تھا۔ مختلف نسلوں کے بارے میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی باتیں بھی ایک مخصوص ذہنیت کو پروان چڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ یہی ذہنیت بہت حد تک آج بھی پاک فوج کے حوالے سے فعال دکھائی دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سوچ کو معروضی طور پر نہ اپنایا گیا ہو۔
برٹش انڈیا میں فوجی بھرتی کے وقت مذہب پر بھی غور کیا جاتا تھا مگر جب مختلف نسلوں کے حوالے سے فوج کے اعلیٰ ترین افسران کی سوچ کی بات آتی تھی تو مذہب کا معاملہ بالائے طاق رکھ دیا جاتا تھا۔ ہر (صحت مند) بھارتی خاکی یونیفارم پہننے کے لیے موزوں نہیں تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں شاندار خدمات انجام دینے پر برٹش آرمی نے انڈین نسل کے لوگوں کو افسران کی صف میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہاں بھی یہ بات کھل کر کہی گئی کہ بعض مخصوص نسلیں ہی فوج میں افسر کے مرتبے پر پہنچنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
پھر آیا جے سی او کا زمانہ:
اسٹیفن کوہن نے ۱۹۹۸ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دی پاکستان آرمی‘‘ میں لکھا ہے ’’مارشل ریس ازم یعنی فوج میں بعض نسلوں کو دیگر پر فوقیت دینے کا رجحان دراصل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی فوج کی تشکیل کا آغاز تھا۔ جاٹ اور دیگر چند دوسری نسلوں کے لوگوں ہی کو اوپر آنے کا موقع ملا اور جاٹ برہمنوں کے مقابلے میں معاشرتی سیڑھی پر زیادہ تیزی سے چڑھے۔ فوج میں بھرتی نہ کیے جانے کے باعث برہمن معاشرتی سطح پر بلندی پانے میں ناکام رہے‘‘۔
۱۹۱۸ء میں رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ (Sandhurst) میں انڈین افسران کے پہلے بیج کو کنگز کمیشن دیے جانے سے قبل ہی جونیئر کمیشنڈ آفیسر (جے سی او) کا منصب انڈیا میں برطانیہ اور فرانس نے متعارف کرادیا تھا۔
جے سی او کا منصب آج بھی ملٹری مڈل کلاس کی علامت ہے۔ برطانوی دور میں وہ برطانوی گورا صاحب اور انڈین سپاہی کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتا تھا۔ اس کے کاندھے پر چند تمغے آویزاں ہوتے تھے، وہ تھوڑی بہت انگریزی بولتا تھا اور اپنے ہم وطن فوجیوں میں اسے خاصے احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ عمر اور تجربہ آگے بڑھنے کا معیار تھا اور اس کی تنخواہ ماتحت فوجیوں سے خاصی زیادہ ہوتی تھی۔ مگر خیر اسے اعلیٰ درجے کے کمیشنڈ افسر کی مکمل حیثیت نہیں ملی ہوتی تھی۔
پاکستان اور بھارت کی افواج میں آج بھی جے سی او دیگر افواج کے مقابلے میں خاصی امتیازی حیثیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ آپ دیگر رینکس کے مقابلے میں جے سی او کو بہت آسانی سے شناخت کرسکتے ہیں۔ اس کے لہجے سے اختیار کا احساس صاف جھلک رہا ہوگا اور پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول) کا گریجویٹ نہ ہونے پر بھی تند لہجے میں حکم صادر کرنے کے قابل ہوگا۔ کبھی کبھی وہ انگریزی میں بھی اظہار خیال کرتا ملے گا۔ یہ کمیشنڈ افسران اور نان کمیشنڈ افسران کے درمیان طبقات کی بنیاد پر نمایاں فرق پیدا کرنے والے معیارات ہیں۔ آج کے کمیشنڈ افسران بھی نوآبادیاتی دور کی اُسی سوچ کے مطابق کام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کو کیسا دکھائی دینا چاہیے اور کس طرح کا طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا چاہیے۔
پنجابی مسئلہ:
پاک فوج میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھنے والوں اور پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے حالات، فاٹا کے علاقے میں آپریشن، سندھ میں لاقانونیت کے خلاف کارروائی اور کراچی و دیگر شہری علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف اقدامات ہوں تو پنجاب پر زیادتی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ فوج میں پنجابیوں کی اکثریت ایسا معاملہ ہے جس کا تاریخی تجزیہ کرنا ہوگا۔
برطانوی سامراج نے مارشل ریس یعنی لڑنے والی ذاتوں کا جو نظریہ اپنایا تھا اس نے آزادی کے بعد خاصی خطرناک صورت حال پیدا کی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈیا کی فوج میں پنجابی مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد خدمات انجام دے چکی تھی۔ اسٹیفن کوہن کے الفاظ میں پہلی جنگ عظیم میں برٹش انڈیا کی فوج میں ایک لاکھ ۳۶ ہزار پنجابی مسلمان بھرتی کیے گئے جو فوج کی مجموعی افرادی قوت کا ۱۸ فیصد تھے۔ دوسری جنگ عظیم کی ابتدا کے وقت برٹش انڈیا کی فوج میں پنجابی مسلمانوں کی تعداد ۳۴ ہزار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کی تعداد ۳ لاکھ ۸۰ ہزار تک جاپہنچی۔ کوئی اور طبقہ بڑھوتری کے معاملے میں ان کا مقابلہ نہ کرسکا۔ ۱۹۴۷ء میں برٹش انڈیا کی فوج میں مسلمان ایک چوتھائی تھے مگر ان کی اپنی کوئی رجمنٹ نہ تھی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کی فوج پاکستانی فوج بننے سے پہلے ہی پنجابی فوج بن چکی تھی۔ اس میں پنجابی مسلمان نمایاں پوزیشن میں تھے۔ ویسے تو برٹش انڈین آرمی میں پشتون (پٹھان) بھی ایک صدی سے زائد مدت تک مختلف کیڈرز میں خدمات انجام دیتے رہے مگر پنجابی مسلمانوں نے عددی برتری کی بنیاد پر نمایاں حیثیت حاصل کی۔ تنظیمی سطح پر اپنی بات منوانا ان کے لیے زیادہ ممکن نہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد برطانوی فوج میں کسی بھی مسلم رجمنٹ کے قیام کی اجازت نہیں دی گئی۔ کسی بھی فوج میں رجمنٹس بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔ مسلمانوں کو اس فیصلے نے برٹش انڈیا کی آرمی میں غیر معمولی نقصان پہنچایا۔
ضیاء نے تقسیم کیا، کیانی نے جوڑا:
۱۹۴۷ء میں برٹش انڈیا آرمی کے پنجابی مسلمانوں کی اکثریت نے پاک فوج کی شکل اختیار کی۔ تنظیمی سطح پر پاک فوج میں پنجابیوں کی پوزیشن مستحکم ہوئی تو ان کے مختلف گروپس زیادہ حرکت پذیری اور حصول دولت کی طرف بڑھتے گئے۔ برٹش انڈیا کی فوج میں مخصوص نسلی گروپوں کو فوج میں ترجیح دینے کی جو روش اختیار کی گئی تھی وہ قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہی اور اس کے نتیجے میں پاک فوج میں ایک مخصوص مڈل کلاس ذہنیت پنپتی گئی۔ جونیئر کمیشنڈ آفیسرز کے بچے بھی جنرل کے رینک تک پہنچے۔ ان میں جنرلاشفاق پرویز کیانی ایک نمایاں مثال ہیں۔ اور جب وہ جنرل بنے تو انہوں نے اپنی کیٹیگری کے لوگوں کو اوپر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل کیانی نے، فوج کی سربراہی سنبھالنے والے سال یعنی ۲۰۰۸ء کو ’’سپاہی کا سال‘‘ قرار دے کر عام سپاہیوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی طرف اہم قدم اٹھایا اور یوں فوج میں متوسط طبقے کو مستحکم کرنے کا عمل جاری رہا۔ پے اسکیلز پر نظر ثانی کے ذریعے نچلے طبقے کو اوپر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فوج میں کارپوریٹائزیشن بھی فروغ پاتی رہی ہے۔ کنٹونمنٹ علاقوں میں مختلف رینک کے افسران کے لیے ایک مخصوص طرزِ زندگی کی راہ ہموار ہوتی گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاص سطح تک ہو رہا ہے۔ ہمارے تجزیے کی بنیاد بھی یہی ہے۔
سیاسی عسکریت اور دولت کو چند ہاتھوں میں سمیٹے رکھنے کے عمل کے ذریعے فوج ’’ریاست میں ریاست‘‘ کا سا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ فوج کو اپنی صفوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں جہادی کلچر فروغ پانے سے فوج میں غیر معمولی نظریاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس دور کے اثرات سے گلوخلاصی کی کوششیں کی جاتی اور کی جارہی ہیں۔ اعلیٰ سطح پر ’’اعلیٰ خاندانوں‘‘ سے تقرریاں کی جاتی ہیں اور غیر پنجابیوں کو نچلی سطح پر رکھا جاتا رہا ہے۔ ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال کی مناسبت سے فوج کو جس انداز کا حامل ہونا چاہیے، وہ اس کے پاس دکھائی نہیں دیتا۔ متوسط طبقے کو فروغ دیا جارہا ہے مگر چند حدود اور پابندیوں کے ساتھ۔
(“Middle-class Military”)
Leave a Reply