
چھ ماہ قبل اسلام آباد میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس نے ایک مقالہ شائع کیا جس میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر دُرّ نایاب نے پاکستان کے متوسط طبقے کا حجم متعین کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب کہتی ہیں کہ متوسط طبقے کا حجم متعین کرنے سے قبل ہمیں اس امر کا تعین کرنا ہوگا کہ متوسط طبقے سے کون لوگ مراد ہیں۔ انہوں نے متوسط طبقے کی مختلف مروج تعریفیں بیان کی ہیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کے متوسط طبقے کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب نے پندرہ فارمولوں کے ذریعے متوسط طبقے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے فی کس ۲ سے ۲۰ ڈالر کے اخراجات کو بھی متوسط طبقے کے تعین کا فارمولا بنایا ہے۔ انہوں نے جن فارمولوں کا اطلاق کیا ہے ان کے مختلف نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک طرف پاکستان میں کہیں بھی متوسط طبقہ دکھائی نہیں دیتا اور کہیں ساٹھ فیصد پاکستانی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر دُرّ نایاب نے پاکستان میں متوسط طبقے کے تعین کے لیے ایک الگ، ملا جلا معیار اپنایا ہے۔ انہوں نے صرف آمدنی کو سامنے نہیں رکھا بلکہ گھرانے کے کسی ایک فرد کے پاس کالج ڈگری کا ہونا متوسط طبقے کا رکن ہونے کی بنیادی شرائط میں سے قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور سمجھی گئی ہے کہ مکان اپنا ہو اور گھر میں بنیادی ضرورت کی چند اشیا ہوں، تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوں اور یہ کہ گھر کے کفیل کا تعلق کس شعبے سے ہے۔
یہ ملا جلا انڈیکس ایسے نتائج حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے جو قابل غور اور حقیقت سے قریب تر ہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب کا کہنا ہے کہ ۸۔۲۰۰۷ء میں پاکستان کے ۹ء۴۱ فیصد باشندے شدید غربت کی زد میں تھے۔ اگر معاملات کو صرف دیہی معاشرے کے تناظر میں دیکھا جائے تو شدید غربت سے دوچار افراد کا تناسب ۵۵ فیصد تک جا پہنچتا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق کے خواہش مند افراد معاشرے کا صرف ۲۳ فیصد نکلے۔ اور اگر اِن میں اُن لوگوں کو بھی شامل کرلیں جو متوسط طبقے کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو تناسب ۱۵؍فیصد ہو جائے گا۔ ہارڈ کور مڈل کلاس یعنی ہر اعتبار سے متوسط طبقے کی تعریف پر پورا اترنے والے لوگ آبادی کا صرف چار اعشاریہ تین فیصد رہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب نے متوسط طبقے کے تعین کے لیے جن تعریفوں اور فارمولوں کا ذکر کیا ہے وہ عمرانیاتی نقطہ نگاہ سے زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ طبقات دراصل معاشرے کی پرتیں ہی تو ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر دُرّ نایاب نے متوسط طبقے کے تعین کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا اس کے موثر ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے صرف آمدنی پر غور نہیں کیا بلکہ مختلف طبقات میں رونما ہونے والی معاشرتی اور نفسیاتی تبدیلیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا۔ اس اعتبار سے پاکستان بھر میں کم و بیش ۳۵ فیصد پاکستانی متوسط طبقے میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہم ان لوگوں کو شامل نہیں کر رہے جو متوسط طبقے کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو گنا جارہا ہے جو خاصے خوش حال ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں متوسط طبقہ تقریباً ۶ کروڑ افراد پر مشتمل ہے جو خاصی معقول تعداد ہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب کہتی ہیں کہ پاکستان کا متوسط طبقہ مستقل وسعت اختیار کرتا رہا ہے۔ اس وقت معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کی روشنی میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متوسط طبقہ مزید وسعت اختیار کرے گا۔
متوسط طبقہ کسی بھی معاشرے میں تحرک اور تبدیلی کی علامت ہوا کرتا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو ہر اعتبار سے بہتری کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب کا تجزیہ خوش آئند ہے کہ پاکستانی معاشرے میں متوسط طبقہ فروغ پارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثبت تبدیلی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر دُرّ نایاب نے جو مقالہ لکھا ہے اس پر کیے جانے والے تبصروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا تجزیہ محض خالص معاشی نقطۂ نظر کا حامل نہیں بلکہ انہوں نے معاشرتی عوامل مثلاً تعلیم اور معاشرت کو بھی ذہن نشین رکھا ہے۔ پاکستان کا متوسط طبقہ کم و بیش چھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے جو اس امر کا غماز ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی لانے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ عمران خان جیسے سیاست دانوں کی اس نکتے سے خاصی حوصلہ افزائی ہوگی جو کسی بھی تبدیلی کے لیے متوسط طبقے کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی کی حمایت سے کامیابی پر یقین رکھتے ہیں۔ متوسط طبقہ ہی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے کیونکہ اس طبقے کے لوگ زیادہ سے زیادہ مقدار میں اشیا و خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ صنعتی بنیادیں متوسط طبقے کی بدولت ہی مضبوط ہوتی ہے۔ چین اور بھارت کی غیرمعمولی ترقی میں متوسط طبقے کے تحرک نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر دُرّ نایاب نے متوسط طبقے کے تعین کے لیے محض آمدنی کو مدنظر نہیں رکھا۔ انہوں نے متوسط آمدنی اور متوسط طبقے کی بات کی ہے۔ ان کی متعین کی ہوئی تعریف کی رُو سے متوسط طبقے میں موجود ۳۵ فیصد افراد ممکنہ طور پر آمدنی کی اُس سطح کے حامل نہیں بھی ہوسکتے جو اس طبقے کو متحرک رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔
مقالے کا مجموعی لہجہ مثبت اور امید افزا ہے۔ پاکستان میں آبادی کا تقریباً ۳۵ فیصد متوسط طبقے پر مشتمل ہے جبکہ بھارت میں آبادی کے اعتبار سے یہ تناسب ۲۵ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی معیشت اور معاشرت تیزی سے بہتری کی جانب جاسکتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے لیے تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں نٹالی چن نے بھی پاکستان کے متوسط طبقے کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور امید افزا قرار دیا تھا۔ بھارت میں ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران قومی پیداوار میں ہونے والا اضافہ ۷ء۷ سے زائد تھا جبکہ پاکستان میں یہ اضافہ ۷ء۴ فیصد تھا۔ آبادی کے اعتبار سے بھارت کا نسبتاً چھوٹا متوسط طبقہ جب امید افزا ہوسکتا ہے تو پاکستان کا متوسط طبقہ بھی معیشت اور معاشرت کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طبقے کو غیر معمولی تحرک سے ہمکنار رکھ کر قومی ترقی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بہت بلند ہیں اور متوسط طبقے کو بھی اپنی مجموعی آمدنی کا ۲۱ فیصد تو صرف Staples پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ اشیائے خورونوش پر خرچ کی جانے والی رقم متوسط طبقے کی آمدنی کے ۳۵ فیصد تک ہے۔ ایسے میں کسی حقیقی تبدیلی اور معاشی نمو کی بات سوچنا عجیب سا لگتا ہے۔ متوسط طبقہ اسی وقت کوئی بڑا کردار ادا کرسکتا ہے جب وہ سرمایہ کاری، تعلیم اور فنی تربیت کے حوالے سے متحرک ہو۔ اگر متوسط طبقے کے لوگ بھی کھانے پینے کی اشیا کے اہتمام ہی کی خاطر نصف کی حد تک آمدنی خرچ کرنے پر مجبور ہوں تو کسی بڑی اور حقیقی تبدیلی کا سوچنا عجیب لگتا ہے۔
کے بعد خاصی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تنخواہوں میں کمی آنے لگی۔ بیروزگاری کی شرح منجمد ہوکر رہ گئی۔ تب سے اب تک امدادی قیمتیں بڑھائی نہیں گئی ہیں۔ چند ایک اشارے ایسے بھی ہیں جو صورت حال کو پیچیدہ اور گنجلک بناتے ہیں۔ ماہرین معاشیات دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کے تجزیے میں سب کچھ پورا کا پورا درست نہیں ہوسکتا۔ اگر اعداد و شمار میں خامی ہو تو وہ تجزیہ بھی تھوڑا اوپر نیچے ہوسکتا ہے مگر تجزیہ کار کی مثبت سوچ تجزیے کو قدرے متوازن بناتی ہے۔ ڈاکٹر دُرّ نایاب کی کاوش قابلِ قدر ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ اعداد و شمار جب حقیقت کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں، تب درست نہیں نکلتے۔
(Who is middle class?)
Leave a Reply