
براعظم یورپ اور شرقِ اوسط کے باہمی تعلقات کی وسیع تاریخ ہے۔ عقیدہ مسیحیت جس نے یورپی ذہن اور جغرافیہ کی تشکیل میں بلاشبہ غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے، بنیادی طور پر اس کا تعلق شرقِ اوسط سے ہے۔ مسیحیت کے بارے میں گمان کیا جاتا تھا کہ یہ بھی محض ایک فرقے کا نام ہے جسے مشرقی بحیرۂ روم کے علاقے سے، افلاطونی فکر، مانویت (Manichaeism)، زردشتی فکر، یہودیت اور نوافلاطونی فکر کی طرح درآمد کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے چند مخصوص عقائد، مثلاً تثلیث کا عقیدہ، پوپ کا منصب اور کرسمس کی تقریب، سب شرقِ اوسط کے مذاہب سے مشتق ہیں۔ مختصراً کہہ لیجیے کہ مسیحیت کا بیج یہیں بویا گیا اور اسے نشوونما بھی شرقِ اوسط کی مذہبی آب و ہوا ہی میں ملی۔
تاریخی پس منظر: یہ کہنا مشکل ہے کہ اہلِ یورپ اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں، تاہم کیتھولک گرجا گھروں کی نسبت پروٹسٹنٹ گرجا گھروں میں یورپی عیسائیوں کو مسلسل یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ان کے مذہب کے بانی نے شرقِ اوسط کے یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور اُن کی مقدس مذہبی کتاب بائبل میں خطاب بنی اسرائیل ہی کو کیا گیا ہے۔ کتاب پیدائش اور کتاب الحمد کے حصے اب تک زیادہ تر مسیحی عبادت کے دوران پڑھے جاتے ہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بائبل کے یہودی، کیتھولک، آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ نسخوں کے متن میں فرق پایا جاتا ہے۔ ان سب کے باوجود بھی بائبل ایک مربوط و مستحکم رابطہ ہے جو یورپ کے مسیحیوں کو ان مقامات کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ جہاں مسیح علیہ السلام سرگرم رہے اور جہاں انہوں نے (مسیحی عقیدے کے مطابق) وفات پائی۔ بیت المقدس (Jerusalem) مسیح علیہ السلام کی نسبت سے آج تک یورپ کے کئی مسیحیوں کے لیے احترام کا مقام رکھتا ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں یہ جذبہ اس قدر زور آور تھا کہ نہ صرف ہزاروں مسیحی بلکہ اُن کے بچے بھی شدید تمنا رکھتے تھے کہ فلسطین سے مسلم اقتدار ختم ہو جائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنی جانیں دینے کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔ مسیحی روحانی پیشوا، جنہیں پوپ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ۲۰۰ برس (۱۰۹۵۔۱۲۹۱ء) تک اس کی تلقین و یاددہانی کراتے رہے اور اس اشتعال کے نتیجے میں نوصلیبی جنگیں ہوئیں جن کے دوران یورپی جانباز سردار، حتیٰ کہ لوئیس نہم (۵۰۔۱۲۴۸ء)، شاہِ فرانس (۱۲۷۰ء) اور انگلستان کے شاہ رچرڈ اول جو شیر دل کے نام سے مشہور ہیں، شرقِ اوسط (۲۹۔۱۱۸۹ء) آئے اور انہوں نے صلیبی ریاستیں بھی قائم کر دیں۔ یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی نے انہیں نکال باہر کیا۔ دوسرے ممالک کو اپنے تسلط میں لانے کے حالیہ دور اور اس سرزمین پر اسرائیل کے قبضے نے صلاح الدین ایوبی کی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا۔
یورپی تہذیب و تمدن کے مشرق کے ساتھ فوجی ٹکرائو کے نتیجے میں جو اثرات اُن پر مرتب ہوئے ان کا پوری طرح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ طرفین کو اقتصادی طور پر بھی معقول فوائد حاصل ہوئے۔ متصادم تہذیبیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوئیں اور اسے عالمگیریت کااولین دَور کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد مغرب کبھی بھی مسلم تہذیب و تمدن سے الگ نہ رہ سکا۔
انیسویں صدی، اپنے ظاہر کے لحاظ سے ’الحادی‘ صدی (یعنی لُڈوگ، فرور باخ، کارل مارکس، چارلس ڈارون اور فریڈرک نٹشے کی صدی) تھی۔ استعمار نے بطور پالیسی یہ طے کر رکھا تھا کہ شرق اوسط کے ممالک پر بہرصورت قبضہ کرنا ہے۔ جمعیت اقوام کی جانب سے ملنے والی اجازت کی بدولت، استعماری طاقتوں فرانس اور برطانیہ نے اس علاقے کو اپنے درمیان تقسیم کر لیا اور اقتصادی طور پر اس کا بھرپور استحصال کیا۔ یورپ کی ’مشرق شناسی‘ نے اس علاقے کو بالادست سفید قوم کی بلندی سے اس طرح دیکھا گویا کہ عرب ایسے بچے ہیں جنہیں قابض و مسلط حکمرانوں کے طور طریقے سکھانا ضروری ہیں۔ اس عمل کے دوران، یورپ کے سیاستدان، سائنس دان، تاجر، سپاہی اور مبلغین نے شرق اوسط کے بارے میں بہت کچھ جانا لیکن بہت کم سمجھا۔ بذاتِ خود مادّہ پرست ہونے اور خدا کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہونے کے سبب اہل یورپ اس علاقے میں مذہب کی اہمیت اور اسلام کے اہم ترین کردار کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اسی کی بدولت وہ اس ناقابلِ یقین حد تک غلط فیصلے پر پہنچے کہ فلسطین ایک ایسی بے قوم سرزمین ہے جو بے زمین قوم (یعنی یہود) کے لیے ہے۔
شرقِ اوسط کے بارے میں اہلِ یورپ کے نقطہ نظر میں تبدیلی، فلسطینی تحریکِ مزاحمت اور یورپ کے مختلف ممالک میں شرقِ اوسط سے آکر بسنے والے پناہ گزینوں کی موجودگی سے آئی۔ اہلِ یورپ درست طور پر یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ وہ کس فریق کا ساتھ دیں، صہیونی ریاست اسرائیل کا یا فلسطینی تحریکِ مزاحمت کا۔ آخرکار اکثر ممالک میں حکومتیں اپنی آبادیوں سے بالکل الگ ہو کر رہ گئیں، حکومتوں کا ایک رویہ اور عوام کا دوسرا۔
یورپی حکومتیں بالعموم اور جرمن حکومت بالخصوص تاریخی اسباب کی بناء پر اسرائیل کا ساتھ دینا چاہتی تھیں۔ یورپی عوام، صہیونیوں کے مظالم سے نفرت کرتے اور فلسطینی جانبازوں کا ساتھ دیتے۔ اس سلسلے میں اہلِ یورپ کا رویہ امریکا سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں اسرائیل کی بلالحاظ حمایت کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا ہی نہیں جاتا۔
’درست ہے یا غلط‘ وہ میرا بھائی ہے، کے نظریے کی بدولت امریکا، اسرائیل کا اقتصادی، سیاسی اور عسکری حلیف بن چکا ہے۔ یہ پالیسی اختیار کرنے اور اس پالیسی کا مسلسل دفاع کرنے میں طاقتور یہودی لابی کا کردار روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ہمہ پہلو ہے اور نئی وجود میں آنے والی جنونی الٹرا مسیحی سوچ کی تاثیر بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ اس سوچ اور نظریے کے پیروکار بائبل کے مطالعے سے یہ بے معنی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مسیح موعود کا ظہورِ ثانی اُسی وقت ممکن ہوگا جب فلسطین کی سرزمین پر (عیسائیوں کے بغیر) یہودی ریاست اسرائیل مستحکم ہوجائے۔
اس کے نتیجے میں اہلِ یورپ اور امریکیوں نے نائن الیون کی الگ الگ توضیح کی۔ امریکیوں نے اس واقعہ کے تجزیے سے انکار کر دیا اور اسے برائی قرار دیا۔ وہ چلّانے لگے: ’’لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ حالانکہ انہیں اس سوال کے جواب کی امید نہیں تھی (بلکہ جواب معلوم تھا)۔
اس کے برعکس اہلِ یورپ نے ۱۱؍ ستمبر کے نقصانات پر امریکیوں سے اظہارِ افسوس کیا۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ چکے تھے کہ امریکا کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ شرقِ اوسط کے معاملات میں متحرک فریق بن چکا تھا اور فاصلے سے بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں پراکسی جنگ لڑ رہا تھا۔ امریکا نے شرقِ اوسط میں فوجی قوت کے استعمال کی جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے مقابلے میں یورپ کی پالیسی زیادہ سیاسی گہرائی کی حامل معلوم ہوتی ہے۔ اُس پر یہودی عمل دخل بھی کم، نیز بہتر اور براہِ راست معلومات پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ یورپ کے بڑے شہروں میں مشکل ہی سے کوئی کالج یا گریجویٹ اسکول ہو گا جہاں فلسطینی پروفیسر موجود نہ ہوں اور وہ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم نہ ہوں اور مسئلہ فلسطین کی وضاحت نہ کرتے ہوں۔
جب یہودیوں کے ساتھ ظلم ہوا تھا تو وہ دنیا میں پھیل گئے تھے اور اسی وجہ سے تعلیم کے میدان میں یہودی آج تک ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ تعذیب و تشدد کا رویہ اختیار کیا اور اس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو منتشر ہونا پڑا، اور آج دنیا میں جگہ جگہ فلسطینی ہمیں ملتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں اپنے وجود کو منوا رہے ہیں۔
یورپ کے مختلف حصوں میں محنت کش طبقہ مختلف اسلامی ممالک سے آکر قیام پذیر ہوا ہے۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق البانیہ، الجزائر، افغانستان، بوسنیا، مصر، بھارت، ایران، عراق، کوسووا، مراکش، نائیجریا، پاکستان، سینیگال، صومالیہ اور تیونس سے ہے۔ فطری طور پر وہ سب سے پہلے اپنے وطن اور اس کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اُن میں سے ہر شخص مختلف حالات کا شکار ہو گا لیکن یہ بھی درست ہے کہ یورپ میں پائے جانے والے مسلمان، فلسطین کے حالات پر بے چین ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مسلم اُمت کا تصور ابھی زندہ حقیقت ہے۔ فلسطینیوں کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہوسکا، تاہم یہ امر تکلیف دہ ہے۔
موجودہ کردار: یورپ کے کئی ملک اب یورپی یونین میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ شرقِ اوسط کے ممالک کے ساتھ بہتر اقتصادی تعلق کے نتیجے میں یورپی یونین کو علاقے میں امریکا، روس اور ہر روز آگے بڑھنے والے چین کی مسابقت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب خارجہ پالیسی کے خطوط، نیز سیاسی، فوجی اور تہذیبی امور ایسے معاملات ہیں جن کا تعین دوطرفہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مناسب نہ ہوگا کہ صرف یورپی نقطہ نظر اور ترجیحات کی بات کی جائے۔ چند مثالوں کے ذریعے یورپی ترجیحات کو سمجھنا آسان ہوگا۔
عراق: کویت پر عراقی حملے اور صدام حسین کی جارحیت کے خلاف اتحادی افواج کی کارروائی کے سبب یورپی ممالک اور امریکا کے درمیان قریبی فوجی تعاون موجود رہا ہے۔ ۱۱؍ ستمبر کے بعد اس تعاون نے ایک عسکری و سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرلی اور امریکا نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ کر ڈالا۔ پھر جب امریکا کی جانب سے عراق پر بھی فوجی حملے کے عزائم سامنے آئے تو یہ اتحاد کمزور ہونا شروع ہو گیا۔ اس خاص مسئلے پر یورپ کی دو انتہائی اہم اور مؤثر ریاستوں فرانس اور جرمنی نے نہ صرف اتحاد سے باہر نکلنے کا اعلان کر دیا بلکہ امریکی یلغار کی شدید انداز میں مذمت بھی کی۔ لیکن اب جبکہ عراق خانہ جنگی کے بعد سنبھلنا شروع ہوا ہے، نیز انسانی وسائل کی ترقی، سیکوریٹی تعاون اور توانائی کے میدانوں میں نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، اس سے یورپی یونین نے بھی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔
۲۰۰۹ء میں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی، جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والسٹر اسٹائن ملر اور برطانیہ کے وزیر تجارت پیٹر مینڈلسن، تجارتی وفود لے کر بغداد پہنچے۔ عراق میں معدنی وسائل کے انبار اور مزید دولت کے وسیع تر امکانات کے بارے میں کسی مبالغہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے۔ یورپی یونین کے نائب صدر نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا: یورپی یونین ۲۰۰۳ء تک عراق کو ایک بلین یورو کی رقم امداد کی صورت میں دے چکا ہے۔ بنیادی خدمات، انسانی ترقی، مہاجرین، گڈ گورننس، سیاسی عمل اور استعداد میں اضافے میں تعاون، عراق کی ترجیحات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔ چونکہ جنوبی راہداری کے لیے عراق قدرتی گیس وسیع پیمانے پر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین نے عراق کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت اسٹریٹجک توانائی شراکت پر دستخط کیے ہیں۔
عراق میں یورپی یونین کے روز افزوں اثرات کی بدولت عراق میں یورپی یونین کے مفادات میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ دیگر بڑی طاقتوں، مثلاً امریکا، برطانیہ، روس اور چین کے مفادات بھی چیلنج کی زد میں آجائیں گے۔
ایران: ۱۹۷۹ء کے ایران انقلاب سے پہلے یورپی ممالک دوطرفہ سطح پر ایران سے متوازن سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات رکھتے تھے لیکن ان کے تعلقات کی استواری و پائیداری میں اہم ترین عنصر تیل اور گیس ہی تھے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ایرانی نعرے ’مشرق نہ مغرب سب سے متوازن تعلقات‘ کی وجہ سے یورپ ایران سیاسی تعلقات سرد مہری اور ایران گریز پالیسی میں تبدیل ہو گئے۔ عراق نے کویت میں مہم جوئی کی تو مغربی ممالک کے اتحاد نے عراق کے مخالف ایران پر پابندیوں میں کچھ کمی کر دی جس کی وجہ سے ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں یورپی یونین اور ایران کے تعلقات میں کچھ بہتری محسوس ہونے لگی۔ بش انتظامیہ نے ناسمجھی سے ایران کو موردِ الزام ٹھہرانے کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ اس سب نرم گرم کے باوجود ایران ایک جوہری قوت کی حیثیت سے یورپی ممالک کو کبھی بھی قبول نہیں رہا، نہ انفرادی طور پر اور نہ یورپی یونین کے پلیٹ فارم ہی سے۔ اجتماعی طور پر جوہری توانائی کے عالمی ادارے (IAEA) کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایران کو ڈھب پر لانے کے لیے قابلِ عمل راستہ تلاش کرے۔ اگرچہ ہمیں مذاکرات اور پابندیوں، پھر مذاکرات اور پابندیوں کا بار بار تذکرہ ملتا ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں یورپی یونین نے جو پالیسی بھی اختیار کی اسے بار بار امریکی مخالفت اور دبائو کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیل اور فلسطین کا تنازع: اسرائیلیوں کا دعویٰ رہا ہے کہ انہیں ’واپسی کا حق‘ حاصل ہے اور وہ فلسطین میں وسیع پیمانے پر دوبارہ آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں (لیکن فلسطینیوں کو وہ واپسی کا یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جنہیں گزشتہ صدی میں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا) صورتحال یہ ہے کہ اہلِ یورپ کے نزدیک بین الاقوامی قانون بھی ایسے دعوئوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ موجودہ قوموں میں سے شاید ہی کوئی قوم اس جگہ رہ رہی ہو جہاں ان کے آبا و اجداد رہ چکے ہوں۔
اگر چند گروہوں اور آبادیوں کو واپسی کا حق دے دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اینگلوسیکسن جو آج کے ڈنمارک سے آئے تھے، انہیں برطانیہ خالی کرنا پڑے گا۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے امریکی مجبور ہوں گے کہ وہ گرین لینڈ واپس چلے جائیں۔ سارے کا سارا لاطینی امریکا ریڈ انڈین قبائل کو واپس کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سے آسٹریلیا سے بھی آبادی کے بڑے حصے کو نکلنا پڑے گا۔
اس لحاظ سے اہلِ یورپ کے نزدیک ’واپسی کا حق‘ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جو قوم کسی علاقے کو چھوڑ جائے، اس کا اس سے کوئی حقیقی تعلق نہیں، چاہے علاقہ انہوں نے جبر کی وجہ سے چھوڑا ہو یا اپنی رضامندی سے چھوڑا ہو۔ اسی طرح اُن فلسطینی مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جنہوں نے ۶۳۸ء میں (۱۳۷۱ برس قبل) حضرت عمر کے زمانے میں اس علاقے کو مسلمان کر لیا تھا۔
۱۸۹۷ء میں یہودیوں کا ایک اہم اجلاس باسل میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت تھیوڈو رہرزل نے کی تھی جس کی خواہش تھی کہ یہودیوں کے لیے ایک مستقل الگ وطن ہو اور یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ فلسطین ہی میں ہو۔ قبل ازیں فلسطین کے بارے میں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہ ایک ایسا خطہ ہے کہ جہاں کوئی قوم نہیں بستی۔ یہودیوں نے اس خطے کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ یہ تیاری بھی کرلی کہ اس سرزمین میں لوگ لاکر بسائے جائیں اور اسے ’بغیر قوم‘ سرزمین قرار دیا جائے تاکہ وہ زمین حاصل کر سکیں اور یہاں کی پہلے سے موجود آبادیوں کو نکال باہر کریں۔
اسرائیل کے حامی یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ بالفور ڈیکلریشن کے ذریعہ برطانیہ نے انہیں ایک تہائی سرزمین پہلے ہی دے دی تھی۔ اس طرح فلسطین کو نشان زد کر دیا گیا تھا کہ یہاں یہودی ریاست وجود میں لائی جائے گی۔ ضروری تھا کہ فلسطینی مسلمان اور عیسائی بھی یہیں رہتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
قومی قانون اور بین الاقوامی قانون کی اہم شق یہ بھی ہے کہ جس کے پاس خود کوئی حق ملکیت نہ ہو، وہ ان حقوق کو آگے منتقل نہیں کر سکتا۔ برطانیہ فلسطین کا حقیقی مالک نہیں تھا، فلسطین کا علاقہ اُن کو بطور انتداب (Trusteeship) مختصر مدت کے لیے دیا گیا تھا۔ برطانیہ اہلِ فلسطین کے ساتھ ۱۹۲۳ء سے ۱۹۴۸ء تک دھوکے بازی کرتا رہا اور ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانیہ نے فلسطینی مملکت کو اسرائیل کے حوالے کر دیا جس کا اُسے حق ہی حاصل نہیں تھا۔ اس لحاظ سے مذکورہ معاہدہ وجود ہی میں نہیں آیا۔
آئیے اب اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ ارضِ فلسطین پر کیا گزری؟
۲۸؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو مسئلے کے حل کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد عبداللہ نے یہ تجویز پیش کی کہ: ٭ اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں میں چلا جائے۔ ٭ فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۱۹۴ کے مطابق حل کیا جائے۔ ٭ آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ ٭ اس سارے عمل کی توثیق کے لیے اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان امن کا معاہدہ ہو۔
اس حوالے سے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ جتنے بھی اقدامات کیے گئے ان میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب سفارتکار اس مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہے تھے اسرائیل نے نئی نئی نوآبادیوں (Settlements) کے قیام کے ذریعے دو ریاستی حل کا راستہ عملاً روک دیا۔ صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور انہیں اس کے علاوہ کوئی آزادی حاصل نہیں ہے کہ اپنی غربت پر تڑپتے رہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل، فلسطینی ریاست کے قیام پر رضامندی کا اظہار ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے یہ امر یقینی بنالیا ہے کہ ایسی ریاست بن ہی نہ سکے۔ اس صورتحال کو کولمبیا انسائیکلوپیڈیا میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’اسرائیلی آبادی کی اکثریت یہودی ہے اور یہاں مسلم اقلیت بھی موجود ہے‘‘۔
نیا منظر نامہ: شرقِ اوسط میں اہلِ یورپ کے لیے کیا راستہ ہو، اس کے بارے میں دوٹوک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہر بات غیر یقینی ہے۔ یہ امکان بھی ہے کہ مزید مشکلات اور تشدد ہی تشدد ہو۔ اور اس کا بھی امکان موجود ہے کہ اسرائیل کو مسلسل جنگی صورتحال کا سامنا رہے اور اُس کو ملنے والی امداد میں کمی آتی جائے۔ اسرائیل کا وجود مسلسل خطرے میں رہے گا جب تک کہ وہ فلسطینیوں کو جبر و تشدد کے ذریعے دبائے رکھنے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ قتل و غارت کے ذریعے اسرائیل کو تحفظ دینا چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے تیسرے درجے کے شہریوں کا رویہ برقرار رکھتا ہے، جسے جمہوریت کم اور نسل پرست حکومت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی عدالت نے ایک فلسطینی کو بلاجواز قتل کرنے کی سزا ایک یہودی کو یہ دی کہ وہ تین سینٹ جرمانہ ادا کرے۔ اس مثال سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرنا فوجی و غیر فوجی اسرائیلیوں کے لیے کیوں آسان ہے۔ ایسی ریاستیں جن میں نصف آبادی آزاد اور نصف غلام ہو، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں۔ اگر اسرائیل نے یہی طرزِ عمل جاری رکھا تو وہ بھی اسی طرح ختم ہو جائے گا جس طرح ۸۰۰ برس قبل کی صلیبی ریاستیں نقشہ ارض سے مٹ گئیں۔
شرقِ اوسط کے حوالے سے مشاہدات درج ذیل ہیں:
٭ جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مؤثر کردار کا تعلق ہے، عرب دنیا کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عربوں کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ایک رائے کے مطابق الفتح اور حماس کے درمیان پایا جانے والا موجود تنازع، اٹھنا ہی تھا۔ ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوتے رہیں گے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کے بڑھتے چلے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ الفتح، اسرائیل اور امریکا کے اشاروں پر چل رہی ہے۔
٭ یورپی نقطہ نظر بھی اس سے مختلف نہیں۔ بازاروں میں عام لوگ مسئلہ فلسطین سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نے نازیوں کے مظالم کی یاد بھلا دی ہے، حالانکہ یورپ کے لوگ ٹی وی اسکرینوں پر وہ تمام مظالم نہیں دیکھتے جو اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف کرتی ہے۔ ان کی حکومتوں کا مفاد بھی اسی میں ہے۔
تاہم، الجزیرہ قطر کے انگریزی یا عربی پروگرام دیکھیں تو اسرائیلی مظالم کی صورتحال سامنے آتی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ اہلِ یورپ اس جرمن محاورے کے مصداق بنے ہوئے ہیں: ’’جس چیز کو میں جانتا نہیں ہوں وہ مجھے پریشان بھی نہیں کرتی‘‘۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ اہلِ یورپ کی فلسطینیوں سے ہمدردی عملی تعاون میں تبدیل نہ ہوسکے گی۔
(بشکریہ: ’’پالیسی پرسپیکٹو‘‘ اسلام آباد۔ جنوری۔ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply