بنیادی سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں براک اوباما کے لیے کوئی بھی بات کب درست نکلے گی؟ جب اوباما نے امریکی صدر کا منصب سنبھالا تھا تب ان کے ذہن میں یہ تھا کہ فلسطین کے حوالے سے دو ریاستوں کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر اچھا خاصا سیاسی سرمایہ ٹھکانے لگانے کے بعد بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آسکا ہے۔ گزشتہ جنوری میں جب عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو امریکی صدر نے چاہا کہ امریکا کو درست جانب رکھیں مگر ہوا یہ کہ ان کا ملک (ایک خاص حد تک) لیبیا میں الجھ گیا اور دوسری طرف وہ ایک اور ملک (شام) کو بے بسی اور خاصی مایوسی سے دیکھتا رہا جبکہ وہاں انسانی خون ناحق بہایا جاتا رہا۔ براک اوباما کا تازہ ترین مسئلہ یہ ہے کہ اب امریکا مشرق وسطیٰ (مشرقی بحیرہ روم) کے خطے میں اپنے بہترین دوستوں کی آپس کی لڑائی میں پھنس گیا ہے اور فی الحال بحفاظت نکل پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ابھی کل کی بات ہے (یا کم از کم ایسا ہی دکھائی دیتا ہے) کہ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں مکمل امن تھا۔ امریکا کا چھٹا بیڑا خطے کے پانیوں میں گشت کرتا تھا۔ ترکی، اسرائیل اور مصر صرف امریکا کے دوست نہیں تھے بلکہ آپس میں بھی دوست ہی تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند برسوں کے دوران اسرائیل اور مصر کے درمیان دوستی ویسی گرم جوشی پر مبنی نہیں رہی تھی جیسا ہوا کرتی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگ کے بعد اسرائیل اور ترکی کے تعلقات میں دراڑ پڑگئی۔ تینوں ممالک کی حکومتیں اور مسلح افواج بظاہر ایک دوسرے سے بہتر رابطوں میں رہیں اور اسٹریٹجک معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کا عندیہ دیتی رہیں۔ اس سے امریکی پالیسی سازوں کو یہ تاثر ملا کہ مشرقی وسطیٰ کی نحوست زدہ جیومیٹری میں شاید یہ ایک اچھی مثلث ہے۔
اب یہ سب کچھ نہیں رہا۔ ۱۰ ستمبر کو امریکی صدر اوباما اور وزیر دفاع لیون پنیٹا کو اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور مصر کی حکمراں (عبوری) کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کی فون کال آئیں جنہوں نے بتایا کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اسرائیلی سفارت خانے پر کیے جانے والے حملے کے بعد اسرائیلی سفارتی عملے کو خطرہ لاحق ہے۔ مصر کے فوجیوں نے عملے کو مشتعل مصریوں سے بچالیا۔ مگر خیر، عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے جبڑوں سے اسرائیلی سفیر کو بحفاظت نکال کر مقبوضہ بیت المقدس پہنچانے سے یہ اندازہ تو سبھی کو ہوگیا کہ اب اسرائیل اور مصر کے درمیان ۳۰ سال قبل طے پانے والے اس امن معاہدے کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جو سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا نمایاں کارنامہ تھا اور جس پر اب تک عرب دنیا میں استحکام کی بنیادیں قائم رہی ہیں۔
گزشتہ سال غزہ کی ناکہ بندی کے خلاف ترکی کی جانب سے روانہ کیے جانے والے امدادی قافلے پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے ۸ ترک اور ایک ترک نژاد امریکی کی ہلاکت کے بعد اسرائیل اور ترکی کے تعلقات میں در آنے والی کشیدگی کو دور کرنے کے لیے بھی امریکا خاصا متحرک رہا ہے۔ امریکا نے چاہا کہ اسرائیل اس واقعے کے حوالے سے محض رسمی سا تاسف ظاہر کرنے کے بجائے باضابطہ معافی مانگے۔ مگر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کو ان کے حکومتی اتحادیوں نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ ترکی بھی اس معاملے میں اب بہت آگے جاچکا ہے۔ اسرائیلی سفیر کو نکالا جاچکا ہے، اسرائیل سے دفاعی روابط ختم ہوچکے ہیں اور اب قانونی کارروائی کا انتباہ بھی کیا جارہا ہے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان ایک موقع پر مستقبل میں امدادی قافلوں کو جنگی جہازوں کی سیکورٹی میں روانہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
اسرائیل اور ترکی کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات نے امریکا کو اسی طرح مخمصے میں ڈال دیا ہے جس طرح مصر اور اسرائیل کے درمیان معاملات کی خرابی نے اسے الجھن سے دوچار کردیا تھا۔ ترکی نیٹو میں امریکا کا شراکت دار ہے اور اسرائیل اس کا بہترین دوست ہے۔ امریکی دفتر خارجہ خاصے پیار بھرے انداز سے کہتا ہے کہ وہ اپنے ان دونوں اتحادیوں کو خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے مل کر کام کرتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ ایسا مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ نے ایک تفتیشی رپورٹ میں طاقت کے استعمال کو غلط قرار دینے کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی کو قانونی قرار دے کر بنیامین نیتن یاہو کے لیے ترکی سے باضابطہ معافی مانگنے کے معاملے کو مزید مشکل اور بظاہر ناممکن بنادیا ہے۔ ترک وزیر اعظم اردگان نے اس دوران اسرائیل کو بگڑا ہوا بچہ قرار دیتے ہوئے جنگ کی راہ پر گامزن ہونے کا تاثر دیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ان ممالک کا دورہ کیا ہے جہاں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہے۔ اسرائیل کے خلاف جرأت مندانہ موقف اختیار کرنے پر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اردگان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔
ترکی کے قومی وقار کو ناکافی سمجھتے ہوئے اب طیب اردگان فلسطینی کاز کے چیمین بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ جب اردگان اسرائیل اور شام کے درمیان تنازع ختم کرانے کے حوالے سے ثالثی کے لیے کوشاں تھے تب اسرائیلی حکومت نے غزہ کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ اردگان نے اس اقدام کو ذاتی توہین سمجھا اور اب وہ فلسطینیوں کی جانب سے نام نہاد امن عمل کو ترک کرکے فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی رکنیت دلانے کے لیے متحرک ہیں۔ حال ہی میں قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ سے خطاب کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ آئیے، ہم فلسطین کا پرچم بلند کریں اور اسے مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن اور استحکام کی علامت بنادیں۔
مشرق وسطیٰ میں امن عمل متعارف کرانے والا امریکا اردگان کے اقدامات سے حیران ہے۔ امریکی صدر بھی چاہتے ہیں کہ ایک الگ فلسطینی ریاست معرض وجود میں آئے تاہم وہ اس بات کے خلاف ہیں کہ اسرائیل سے مذاکرات کیے بغیر، کسی معاہدے پر پہنچے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا جائے۔ ایسا کرنے کو وہ طے شدہ راستے سے الگ ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسے کسی بھی اقدام کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔ اسرائیل اور امریکی کانگریس میں اس کے دوست جواب میں کئی اقدامات پر غور کر رہے ہیں جن میں فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالیاتی امداد کی کٹوتی اور ٹیکسوں کی منتقلی نمایاں ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیل اور فلسطین کی سیکورٹی فورسز کے درمیان تعاون ختم ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ایک اور انتفاضہ کی راہ روکنا دشوار ہو جائے گا۔ براک اوباما نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی رکنیت کی درخواست کی مخالفت کرکے آئندہ انتخابات کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے کیونکہ امریکا کی یہودی لابی اس اقدام سے یقیناً خوش ہوئی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ دوسری طرف عرب ممالک کی نظر میں ان کی وقعت کم ہو جائے گی۔
اسرائیل کو ’’پریمیم‘‘ کی ادائیگی
امریکی سفارت کاروں نے فلسطینی ریاست کی رکنیت کے معاملے پر خاصی بھاگ دوڑ کی۔ یورپ کی مدد سے انہوں نے معاملے کو بہت حد تک دبا تو دیا ہے مگر اس سے مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کو لاحق مشکلات کسی طور کم نہ ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ مصر کے موجودہ (عبوری) حکمران یہ نہ چاہیں کہ اسرائیل سے معاملات اچانک الجھ جائیں یا ختم ہو جائیں تاہم مصر کے عوامی انقلاب سے آزاد ہونے والی قوتیں یقیناً یہی چاہیں گی کہ اسرائیل سے تعلقات ختم کردیے جائیں۔ ترکی کا اسرائیل مخالف رویہ برقرار رہے گا کیونکہ سوال صرف فلسطینیوں کی حالت پر دکھ محسوس کرنے اور شکوہ کناں ہونے کا نہیں بلکہ شام میں جاری خون خرابہ تادیر دیکھتے رہنے کے ازالے کے لیے طیب اردگان عرب ممالک میں بیداری کی لہر کے بعد کی صورت میں درست سمت رہنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ سب اسرائیل کے لیے بہت سخت دکھائی دے گا۔ بنیامین نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا اب ان کا ملک اس کی قیمت ادا کر رہا ہے اور عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے پیش منظر میں اسرائیل کے ساتھ رہنے کی قیمت امریکا بھی ادا کر رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ برطانیہ۔ ۱۷؍ستمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply