
لاکھوں افراد کی نقل مکانی کا بوجھ اٹھانا صرف یورپ کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پوری دنیا کو مل کر یہ بحران حل کرنا چاہیے۔
جو کچھ مشرقِ وسطیٰ میں ہو رہا ہے، اُس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نکل کر یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے اور منتظر ہے کہ تنہا یورپ اس مسئلے کا کوئی قابلِ قبول اور آبرو مندانہ حل تلاش کرے۔ یہ سراسر غیر اخلاقی امر ہے۔ جن ممالک سے لوگ نکل رہے ہیں، وہ یورپ سے نزدیک ہیں۔ ایسے میں نقل مکانی کرنے والوں کو محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے کی راہ میں بڑھتے بڑھتے یورپ ہی کی طرف دیکھنا تھا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی دنیا صرف تماشا دیکھے اور بالخصوص امریکا اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس ہی نہ کرے۔ شام، یمن، عراق اور دیگر ممالک سے لاکھوں افراد نکل کر اُن ممالک کی طرف جارہے ہیں جن میں امن بھی ہے اور استحکام بھی۔ ان لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپ کے ممالک میں پناہ دی جارہی ہے۔ ایسے میں امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کا لاتعلق سا رہنا انتہائی حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری سے کسی طور چشم پوشی نہیں کرسکتے۔
کسی بھی ملک کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے ہمیں زمینی حقائق اور معروضی حالات کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔ کسی بھی پالیسی پر تنقید سے قبل یہ دیکھنا لازم ہے کہ کسی بھی متعلقہ صورت حال میں ہمارا جواب کیا رہا ہے۔ ہنگری اور چند دوسرے یورپی ممالک نے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ہیں، اُن پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ پناہ گزینوں کا رَیلا صرف یورپ کی طرف گیا ہے جس کے باعث وہاں شدید بحرانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ امریکا نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری نبھانے سے واضح طور پر گریز کیا ہے۔ لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپ کے دروازے پر بے یار و مددگار چھوڑ دینا کسی بھی امریکا جیسی طاقت کے شایانِ شان نہیں۔ عالمی اداروں پر اس کی اجارہ داری ہے۔ ایسے میں اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پناہ گزینوں کے بحران کے حوالے سے ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کو بظاہر تیار نہیں۔ ذرائع ابلاغ میں یہ بحران ابھی سے اپنی وقعت کھو رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور بہت حد تک مدد کرنے کے اہل ممالک دامن بچا رہے ہیں۔ یورپ میں بھی کئی ممالک نے اس بحران سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی رویہ تو بہت واضح ہے۔ اسے تو جیسے اس معاملے میں کچھ کرنے کی پڑی ہی نہیں۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ مصائب کا شکار لاکھوں افراد اگر نظر انداز کردیے گئے تو مسائل ختم نہیں ہوں گے، بلکہ بڑھ جائیں گے۔
مشرقِ وسطیٰ سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کے مسائل حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر انہیں نظرانداز کردیا گیا تو یقینی طور پر ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ کیا اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ مزید اموات واقع ہوں؟ کیا مزید اموات واقع ہونے ہی پر بہت سی اقوام کا ضمیر جاگے گا؟ ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ موت اور مصائب کے اس دائرے سے ان لاکھوں افراد کو نکالیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ان مصیبت زدہ انسانوں کی مدد کرنی ہے، قبل اس کے کہ دنیا انہیں بھول جائے۔
پناہ گزینوں کو کسی بھی حال میں بھلایا یا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پناہ گزینوں میں بہت سے بچے بھی ہیں، جو اپنے والدین یا سرپرستوں کے بغیر سفر کر رہے ہیں۔ ایسی تصاویر بھی ذرائع ابلاغ میں آئی ہیں کہ بے سہارا بچے سرحدوں پر خار دار باڑ کے پیچھے کھڑے ہیں، یعنی انہیں ملک میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ یہ سب کچھ بہت دل دکھانے والا ہے۔ ایسے مناظر پناہ گزینوں کے بحران کی شدت ظاہر کر رہے ہیں مگر دنیا ہے کہ محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے حوالے سے جو سوچ اپنائی جاچکی ہے، اُس میں معقول حد تک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، اُس کے حوالے سے نئی پالیسیاں بنائی جائیں یا موجودہ پالیسیوں میں غیر معمولی حد تک تبدیلیاں کرکے ان میں حالات سے مطابقت پیدا کی جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اس مقام پر ہیں کہ عالمی سطح پر ابھرنے والے ایک بڑے بحران کو ختم کرنے کے لیے بہتر انداز سے اقدامات کی راہ ہموار کریں۔ وہ چاہیں تو عالمی رہنماؤں کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں تاکہ پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کو حل کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ایسی پالیسی اور طریقِ کار وضع کرنے کی بھی راہ ہموار ہو، جن کی مدد سے یہ بحران آئندہ سر نہ اٹھائے۔
پناہ گزینوں کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے ماضی سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے پر امریکا نے بے گھر ہونے والے لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے دیگر طاقتوں کے ساتھ مل کر ۱۹۵۱ء کے جنیوا کنونشن کی راہ ہموار کی تھی۔ اس کنونشن کی مدد سے لاکھوں افراد کو بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع ملے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں محفوظ زندگی کا تحفہ ملا تھا۔ ۱۹۵۱ء کا ’’ریفیوجیز کنونشن‘‘ صرف اُن لوگوں کے لیے تھا جو یہ ثابت کرسکیں کہ انہیں اپنے علاقوں یا ممالک میں شدید خوف لاحق ہے اور ان کی زندگی کسی نہ کسی حوالے سے خطرے میں ہے۔ اس شرط کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی نقل مکانی روکنا تھا جو محض بہتر معاشی حالات کے لیے اپنی زمین یا ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا کی طرف جانے کے متمنی ہوں۔ آج کی دنیا میں پناہ گزینوں کا مسئلہ زیادہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ ۱۹۵۱ء کی دنیا سے مطابقت رکھنے والے جنیوا کنونشن میں اب بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ کنونشن موجودہ شکل میں نافذ رہا تو لاکھوں افراد خطرناک حالات سے دوچار ہوتے ہوئے بھی ریلیف حاصل نہ کرسکیں گے اور یوں معاملات مزید سنگین شکل اختیار کرتے رہیں گے۔
کسی بھی شخص کو معاشی امکانات تلاش کرنے کے گمان کی بنیاد پر پناہ دینے کے حق سے محروم رکھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت سے ممالک میں لاکھوں افراد شدید ترین مشکلات اور امتیازی سلوک کا شکار ہونے کے باوجود کسی بھی بین الاقوامی قانون کے تحت پناہ کا حق حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کے لیے بنیادی مسئلہ یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ معاشی تارکِ وطن نہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے لیے اپنی ہی سرزمین پر حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔
کسی بھی ملک میں آبادی کے ایک معقول حصے کو پناہ تلاش کرنے پر مجبور کرنے والے عوامل بہت سے ہوسکتے ہیں۔ مختلف گروہوں کے درمیان محاذ آرائی سے غربت پیدا ہوتی ہے۔ آلودگی کا تناسب بڑھنے سے بہت سے لوگوں کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا ممکن نہیں رہتا۔ صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے سے بھی مسائل جنم لیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت سے ممالک میں سیاسی تشدد اور خانہ جنگی کی سی کیفیت عام ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنے ہی ملک اور اپنے ہی علاقوں میں در بدر ہوتے ہوئے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں اگر وہ بیرونِ ملک پناہ تلاش کریں تو ان کے مسائل دوچند ہوجاتے ہیں۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے بہت کچھ سوچنا ہے تاکہ لوگوں کی پریشانیاں حقیقی بنیاد پر ختم کرنے میں مدد ملے۔
اس وقت دنیا بھر میں تقریباً چھ کروڑ افراد بے گھر ہیں یعنی اپنے علاقوں یا ممالک میں غیر محفوظ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ بے گھر افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے جو کسی ایک وقت میں پائی گئی ہے۔ پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے متعلق جو شرائط عائد کی جاتی ہیں، اُن کی روشنی میں دیکھا جائے تو بے گھر اور غیر محفوظ افراد کی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لاکھوں یا کروڑوں افراد شدید مشکلات کا شکار ہونے پر بھی اپنا کیس بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایک بڑا یا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چند ممالک کے پناہ گزینوں کو تو کسی نہ کسی طور قبول کرلیا جاتا ہے مگر دوسرے بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والے بے گھر اور بے سہارا افراد کو قبول کرنے سے واضح طور پر گریز کیا جاتا ہے اور انہیں تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو یورپ میں قبول کیا جارہا ہے مگر اریٹیریا، سوڈان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے بے سہارا یا بے گھر افراد کو قبول کرنے سے صاف انکار کیا جارہا ہے۔
حالات بدل چکے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ پناہ گزینوں کے مسائل کی جانچ کے نئے معیارات اور پیمانے مقرر کیے جائیں۔ جن کی زندگی مستقل خطرے میں ہو، اُن کے لیے قوانین میں ایسی گنجائش پیدا کی جائے کہ فوری تحفظ پانا تو ممکن ہو ہی جائے۔ دیگر معاملات پر بعد میں توجہ دی جاسکتی ہے۔
پناہ گزینوں کی حیثیت کے تعین کے لیے نئے معیارات مقرر کرنا ہوں گے تاکہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے باشندے بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ کسی بھی ملک کی آبادی اور معاشی حیثیت کی مناسبت سے اس کے پناہ گزینوں کو برتا جائے تاکہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے بے سہارا لوگوں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ابھرنے والے پناہ گزینوں کے بحران کو برداشت کرنے کی پابندی اقوام متحدہ کے تمام ممالک پر عائد کی جانی چاہیے۔ صرف یورپ یا کسی اور خطے کی ذمہ داری نہیں کہ پناہ گزینوں کو سنبھالتا پھرے۔ یہ ذمہ داری تمام خطوں اور ممالک کو مل کر ادا کرنی چاہیے۔ ایسی صورت میں کسی بھی ایک ملک یا خطے پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا اور وہ اپنی سکت کے مطابق پناہ گزینوں کو برداشت کرسکے گا۔ اس کے لیے بہتر طریقِ کار کی ضرورت ہے جس میں عالمی برادری شریک ہو۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایسا کوئی بھی طریق کار وضع کرنا آسان ہوگا۔ بڑی طاقتیں چاہیں تو اس میں زیادہ بالا دست کردار ادا کرسکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں اور پناہ گزینوں کو جھیلنے کی سکت بھی کم نہیں۔ جن ممالک میں تنازعات چل رہے ہیں، اُن میں ثالثی کے ذریعے بہتر حالات پیدا کرنے کی بھرپور کوشش بھی معاملات کو درست رکھنے میں مدد دے گی۔ خانہ جنگی سے دوچار ممالک میں اگر بہتر حالات پیدا کرنے کی کوششیں تواتر سے کی جائیں تو کروڑوں افراد کو اپنے گھر اور علاقے چھوڑ کر دنیا بھر میں بھٹکنا ہی نہ پڑے۔
اقوام متحدہ کے تحت کوئی بھی نیا طریقِ کار لانے سے پناہ گزینوں کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں کیا جاسکے گا۔ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں اپنے علاقے اور ممالک چھوڑنے والے تو ہر دور میں سامنے آتے رہیں گے۔ معاشی بنیاد پر اپنی زمین چھوڑنے والوں کو تحفظ اور سہولتیں فراہم کرنا اقوام متحدہ کا مسئلہ نہیں۔ اس کے لیے کوئی اور طریقِ کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Migration Crisis: How to Break the Cycle of Death and Amnesia”. (“theglobalist.com”. October 5, 2015)
Leave a Reply