
مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب بہار‘ کے بعد خطے میں جو بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، ان میں سے کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں اور مصر جیسے ممالک اب اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’تبدیلی‘ کا عمل شروع ہوا تھا۔ عرب بہار سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام بھی اہم منزل رہا ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ عوامی بے چینی کی نئی لہر میں کیا اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟ شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید قیاس مع الفارق والی بات ہو، لیکن مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں نظر آنے والی بعض نشانیاں سوڈان میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ سوڈان میں ۲۵؍اکتوبر کو فوج نے اس خودمختار کونسل پر شب خون مارا، جس کے ساتھ عسکری قیادت نے شرکتِ اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کرکے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کے مطابق روز افزوں سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے انہیں فوج کو بیرکوں سے باہر نکالنے جیسا انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔
ماضی میں مصر کے اندر ڈاکٹر محمد مرسی مرحوم کی منتخب حکومت کے خلاف عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو تو امریکا اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جبکہ سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک فوجی جنتا کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ خرطوم میں قید شہریوں کی رہائی اور ان کی اقتدار میں واپسی کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ سوڈانی فوج کے اقدام کو ملک میں پزیرائی ملی اور نہ ہی بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے، جن پر فوج نے گولیاں برسائیں۔ فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران آج خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بے قاعدہ بْنت اور اس کے کرتا دھرتاؤں کا پیچیدہ باہمی تعلق ہے۔ حالیہ عبوری سیاسی انتظام کا آغاز لمبے عرصے تک سوڈان پر حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کو ۲۰۱۹ء میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔ ماضی میں بھی سوڈان کے اندر کئی مرتبہ ایسے ہی پیچیدہ عبوری سیاسی بندوبستوں کے ذریعے ملکی نظام چلایا جاتا رہا، تاہم موجودہ عبوری سیٹ اپ کی مدت گزشتہ تمام عبوری ادوار سے لمبی ثابت ہوئی۔
یادش بخیر! ۱۹۵۳۔۱۹۵۵ء کے دوران سوڈان، تاج برطانیہ کی نو آبادی کے طور پر بھی ایک عبوری سیاسی انتظام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اس سیاسی انتظام کی ابتدا ایک انتخاب کے ذریعے ہوئی جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت نے ’خود اختیاری کا قانون مجریہ ۱۹۵۳ء‘ منظور کیا۔ اس قانون کی روشنی میں منتخب ایوان اور کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی، تاہم ریاست کی سربراہی برطانوی گورنر جنرل کرتے رہے۔ اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر براعظم افریقا کے نقشے پر طلوع ہوگا۔ عبوری سیاسی بندوبست کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کرلی۔ خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔ بعدازاں ۱۹۶۴ء کے انقلاب کے وقت بھی خود مختار عبوری کونسل کا آزمودہ فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراہیم عبود کے اقتدار کی بساط لپیٹی گئی تھی۔ آگے چل کر ۱۹۸۵ء میں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ان تاریخی انقلابات (بغاوتوں) میں عبوری حکومتیں راتوں رات تشکیل پاتی رہیں جبکہ حال ہی میں اپنے انجام کو پہنچنے والا عبوری سول انتظام نو مہینوں کی صبر آزما جدوجہد کے بعد تشکیل پایا۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات سوڈان کے ماضی کے بیانیے سے ہر لحاظ سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ عمرالبشیر اور سوڈان کی پیپلز لبریشن موومنٹ/آرمی کے درمیان ۲۰۰۵ء میں طے پانے والے ’جامع امن معاہدے‘ سے ملک کے جنوب میں جنگ کے بادل چھٹے اور اس کی روشنی میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ٹائم ٹیبل طے پایا۔ یہی معاہدہ آگے چل کر ۲۰۰۵ء میں بننے والے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا، جس میں اختیارات کی تقسیم سمیت شہری اور انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھے سالہ عبوری دور بہت اچھا گزرا، اگرچہ کہیں کہیں ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا، لیکن معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔
اس معاہدے سے دارفور میں ۲۰۰۳ء سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔ جامع امن معاہدہ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا، جس میں ان کو اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا خواہ اس کے لیے انہیں انتخابات میں جھرلو چلانا پڑے۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔
جنوبی سوڈان کی ملک سے علٰیحدگی کے موقع پر بعض سیاسی مبصرین جامع امن معاہدے کا موازنہ فلسطین سے متعلق اوسلو معاہدے سے کرتے دکھائی دیے۔ فریقین پُرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن شومیٔ قسمت یہ خواب نہ فلسطین میں شرمندۂ تعبیر ہوا اور نہ ہی سوڈان میں ایسا ہو سکا۔
ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست ۲۰۱۹ء کو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد فورسز فار فریڈم اینڈ چینچ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ایسی ہی خامیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ جامع امن معاہدے کی طرح اس معاہدے پر بھی فریقین کے درمیان پائے جانے والے تنازعات اصل مقصد پر حاوی ہونے لگے۔ اگست ۲۰۱۹ء کو طے پانی والی دستوری دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو (حمیدتی) خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ ریاست کے اندر ریاست بنی بیٹھی ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال یقینا محال است والی بات ہے۔
آر ایس ایف پر رواں برس ۳ جون کے خونیں واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خونریزی کے ذمے دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ فورسز فار فریڈم اینڈ چینج نے اس معاہدے کی تائید ضرورت کے تحت نہیں بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست ۲۰۱۹ء کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور اسلام پسندوں کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا مبادا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئیں۔اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبک دوش ہو جانا تھا۔ معاہدے کے مطابق اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمائندے کو سربراہ مملکت بننا تھا جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔ ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی تھی کہ وہ سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی۔ لیکن جنرل البرہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد حمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے تمام ساتھیوں کی خواہش رہی ہے کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان ہی میں مقدمہ چلایا جائے۔ سابق صدر کے ان ساتھیوں کا یہ خوف بجا تھا کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔ جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی دامن گیر رہا کہ اگر ۲۰۱۹ء میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا تو اس سلسلے میں بھی ان ہی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔ خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوا تھا، جب پُرامن مظاہرین ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جرنیلوں کو اس بات نے بھی پریشان کر دیا تھا کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔
ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ ان معاہدوں کے بعد فوج اور فورسز فار فریڈم اینڈ چینج کے مابین تہہ در تہہ عدم تحفظ اور پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔ کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کر سکیں۔ سوڈان میں سول حکومت کے لیے فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔ نیز معاہدے میں خود مختار کونسل میں شامل عسکری نمائندوں کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے سے روکنے کا بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کے سربراہ جنرل البرہان نے سوڈان کے ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ کے طور پر اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جناب حمیدتی سویلین گورنمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ تھے اور باغی جتھوں سے معاملات طے کرنے کے لیے بزعم خود اعلیٰ مذاکرات کار بن بیٹھے۔ فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابل اعتراض بات تھی۔ گزشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا ہے بلکہ فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے اور انہیں اکثر ٹھیکوں میں بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔ جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اس کی ایک اور وجہ فورسز فار فریڈم اینڈ چینج کی صفوں میں انتشار بھی بتایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنے۔ بیجا قبائیلوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بند کر دی، جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو جولائی کے مہینے میں انہوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن وہ بھی ان کے کام نہ آئی۔ سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کرتا دکھائی دیا۔
حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا کے قبائلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں لیکن فوج اس دوران وزیراعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا منصوبہ تیار کر چکی تھی اس لیے انہوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے انکار کیا۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ حکومت کے عبوری دور کے اگلے مرحلے میں فوج کو باقاعدہ سویلین کنٹرول کے تابع لایا جائے گا۔ لیکن اب طاقت کے بَل بُوتے پر غیرآئینی قبضہ کر کے جنرل البرہان ایک بڑا جوا کھیل چکے ہیں۔ وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت جبکہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے چکے ہیں۔ فوج نے ۲۰۱۹ء میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد نے پس پردہ رہتے ہوئے افریقی یونین کے توسط سے مذاکرات کے ذریعے ایک حل نکال لیا تھا۔ شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کی کوشش کی ضرورت ہے۔ سوڈان میں سعودی سفیر علی بن حسن جعفر کی معزول وزیراعظم عبداللہ حمدوک سے ملاقاتوں کی خبروں کے بعد کسی بریک تھرو کی امید کی جا سکتی ہے، لیکن حالیہ واقعات کے بعد اب جنرل عبدالفتاح البرہان پر کون اعتبار کرے گا؟
(بحوالہ: ’’انڈی پینڈنٹ اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۵ نومبر ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply