گزشتہ ہفتے سابق چیف آف جنرل اسٹاف الکر باسبگ (ilker basbug) کو گرفتار کیا گیا تو ان کے لیے ۱۰۰ افراد نے بھی سڑک پر آکر احتجاج کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰۰۷ء میں ہیڈ اسکارف استعمال کرنے والی بیوی کے شوہر کو صدر منتخب ہونے سے روکنے کے لیے کس طرح ترکی کے تمام بڑے شہروں میں ہزاروں افراد پر مشتمل ’’ری پبلک میٹنگیں‘‘ منعقد کی گئی تھیں، تو تب اور اب کا فرق آپ پر واضح ہو جائے گا۔ اب بھی ۳۵ فیصد ترک یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے ارجینیکون کیسز در اصل اعلیٰ طبقے سے انتقام لینے یا اپوزیشن کو دبانے کے لیے گھڑے تھے، مگر اس کے باوجود ان مقدمات کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں کمزور پڑتی جارہی ہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مقدمات درست ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ترک اپنی گہری نیند ختم کرکے اس خام خیالی کے دائرے سے باہر آ جائیں کہ وہ عسکری قوتوں کے ہاتھوں میں پلنے والی قوم ہیں۔
آئسے گل التینے (Ayse Gul Attinay) نے ۲۰۰۴ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’دی مِتھ آف دی ملٹری نیشن : ملٹرازم، جینڈر اینڈ ایجوکیشن ان ٹرکی‘‘ میں لکھا ہے کہ عسکری ثقافت اور عسکری قوم ہونے کا تصور تاریخ کے صدیوں کے عمل کا پیدا کردہ ہے۔ انیسویں صدی کے وسط تک قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی ضبط کرلینا سلطنت عثمانیہ کا عمومی طریقہ نہ تھا۔ آج کی اصطلاح میں کہیں تو سلطنت عثمانیہ میں ترک فوج خالص پیشہ وارانہ تھی۔ آج ترک قوم کو یہ باور کرادیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ سے عسکریت پسند تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکوں کی اکثریت کسان تھی اور ان میں چھوٹے تاجر بھی معقول تعداد میں تھے۔ ریاست کو مرکز کی حامل اور جدید بنانے کے لیے جب سلطنت عثمانیہ کے اعلیٰ طبقے نے ایک مضبوط فوج کی تشکیل کا سوچا تو جبری بھرتی یا املاک کی ضبطی کا تصور بھی ابھرا۔
۱۸۸۴ء میں پرشین عسکریت پسندی سے متاثر ہوکر پرجوش ترک نوجوانوں نے بیرن وان ڈر گولز کی کتاب ’’دی نیشن ان آرمز‘‘ کا ترک زبان میں ترجمہ ’’ملتِ مسلح‘‘ کے عنوان سے کیا۔ جن نوجوانوں نے یہ نظریاتی بنیاد رکھی وہ کمال اتا ترک کے نظریاتی باپ تھے۔ انہوں نے ترکوں کو یقین دلایا کہ وہ پیدائشی سپاہی ہیں اور عسکریت تو ان کے خون میں بہتی ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات ٹھونسی گئی کہ عسکریت ہی سے ترقی ممکن ہے اور یہ کہ انہیں ہر معاملے میں فوج کی طرف دیکھنا چاہیے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو یقین آتا گیا کہ سیاست، معیشت اور سفارت سمیت تمام اہم معاملات میں فوج کی شمولیت یا ملوث ہونا کوئی بری بات نہیں اور یہ کہ اگر اس سے معاملات نارمل رہتے ہوں تو ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔
ترکی میں جرنیلوں کا ہمیشہ احترام کیا گیا ہے اور فوج سب سے زیادہ باعزت ادارہ سمجھی جاتی رہی ہے۔ ویسے تو ترکی میں لوگوں کو فوج کے مافوق البشر ہونے کے تصور سے دور کرنے والے عوامل اور بھی ہیں مگر ارجینیکون کیسز نے عوام کو باور کرایا کہ جرنیل بھی انسان ہیں اور ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں۔ اب ترک قوم کو مختلف مقدمات کی سماعت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ جرنیل ہیرو نہیں اور وہ قوم کے لیے زندگی داؤ پر نہیں لگا رہے بلکہ اپنے مفادات کے لیے جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
قوم جن خیالات اور ’’عقائد‘‘ میں ۱۰۰ سال سے غلطاں ہے انہیں راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مگر خیر، یہ ایک اچھی ابتدا ہے۔ اب ایک ایسا عمل شروع ہوچکا ہے جو فوج کے بجٹ، تعلیمی نظام اور دیگر متعلقہ امور میں شفافیت کو یقینی بنائے گا۔ اس سے فوج کو اس کے اعمال کے لیے قابل احتساب بنانے میں مدد ملے گی۔ اے کے پی اس معاملے میں تھوڑی سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ اس لیے کر رہی ہے کہ وہ نظریاتی طور پر کمال اتا ترک سے متاثر لوگوں کے ووٹوں پر منحصر رہی ہے۔ عسکری قوم کے تصور سے چھٹکارا پانے کے بعد ترکی کو دو تصورات کے درمیان مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف مقدس ریاست ہونے کا تصور ہے اور دوسری طرف قوم پرستی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ٹوڈیز زمان‘‘ استنبول۔ ۱۱؍جنوری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply