جوناتھن مورینو کا شمار امریکا کے ان سرکردہ افراد میں ہوتا ہے جو جراثیمی ہتھیاروں کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے انسانیت سوز استعمال کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کئی ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں موثر طور پر آواز بلند کی ہے۔ امریکی اسلحہ خانے میں نت نئے ہتھیاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی رہنما اپنے مقاصد کے لیے ان کے استعمال کی اجازت دینے سے گریز نہیں کرتے۔ جوناتھن مورینو اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا میکینزم قائم ہو جو جدید ترین ہتھیاروں کے غیر ضروری اور غیر اخلاقی استعمال کی راہ میں مزاحم ہو۔ ذیل میں جوناتھن ڈی مورینو کی کتاب مائنڈ وارز سے اقتباس پیشِ خدمت ہے۔
دنیا بھر میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہتھیار تیار کرنے کا فیشن عام ہے۔ یہ ناگزیر فیشن ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کسی ایک ملک کی سلامتی اور سا لمیت ہی نہیں بلکہ پورے خطے کا مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ دفاعی ساز و سامان کی تیاری کے معاملے میں ترقی پذیر اور پس ماندہ کو صدیوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
مگر کیا جنگ صرف مادی ساز و سامان سے لڑی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی ہی میں ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت کو دنیا ہزاروں سال سے جانتی ہے کہ جنگ میں حریف کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی شخص یا ملک ہار اسی وقت مانتا ہے جب وہ ذہنی طور پر اس بات کو تسلیم کرلیتا ہے کہ لڑنا اس کے بس کی بات نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس سلسلے میں تحقیق پر ہمیشہ توجہ دی ہے۔ اہل علم کی مدد سے ایسے طریقے تلاش کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے دشمن اقوام کو اپنی طاقت کا یقین دلاکر نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
امریکا میں محکمہ دفاع اور اس کے ماتحت کام کرنے والے ادارے دماغ سے متعلق تحقیق پر کئی عشروں سے توجہ دے رہے ہیں تاکہ جنگ میں بہتر انداز سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار ممکن ہوسکے۔ امریکی خفیہ ادارے دماغی امور پر تحقیق کرنے والوں سے قریبی رابطوں میں رہے ہیں تاکہ جنگ کے میدان میں دشمن کو نفسیاتی طور پر زیر کرنے کے بہتر طریقے وضع اور اختیار کرسکیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور حکومت کا ایک مرکز پر اس طور جمع ہونا چند ایک سوالات بھی کھڑے کرتا ہے۔ ماہرین اس امر پر زور دیتے ہیں کہ چند ایک اخلاقی اصولوں کا احترام بھی ناگزیر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جنگ کے نام پر انسانیت ہی کو دائو پر لگا دیا جائے۔ دماغی امور کے علوم اور فنون میں امریکا کے سرکاری دفاعی اداروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے کئی سوالات بھی ذہنوں میں پیدا کیے ہیں۔ مورینو نے ان سوالات پر بحث کی ہے تاکہ دنیا اندازہ لگاسکے کہ امریکا میں دفاعی تحقیق کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔
چند تبصروں پر ایک نظر
امریکن ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنسز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ایلن لیشنر کہتے ہیں ’’بہت کم لوگوں کو اندازہ ہے کہ دماغ کی کارکردگی سے متعلق تحقیق کو جنگ میں کس طور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کسی کے ذہن پر اثر انداز ہونے میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی کا صحیح اور غلط دونوں طرح کا استعمال ممکن ہے۔ مورینو اپنے قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دماغ کی کارکردگی سے متعلق تحقیق سے ایک طرف ذہنی کارکردگی کی سطح بلند کی جاسکتی ہے اور دوسری طرف اس تحقیق کو غلط انداز سے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔‘‘
امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کی ریزیڈنٹ اسکالر سیلی سیٹل کا کہنا ہے ’’جوناتھن مورینو کی کتاب خاصی واضح زبان میں اور مدلل ہے۔ ہر قسم کی تحقیق کو دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، تاہم مورینو نے اس بات پر زور دیا ہے کہ علوم و فنون کے ماہرین اور سرکاری دفاعی اداروں کو متوازن تعلقات کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے مگر اس کے لیے سبھی کچھ دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘
سینٹر فار بایو ایتھکس (یونیورسٹی آف پنسلوانیا) کے ڈائریکٹر آرتھر ایل کیپلن کہتے ہیں ’’دماغی امور کے عمل یعنی نیورو سائنس میں انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ اخلاقی اصولوں اور پالیسی کے ماہرین کے علاوہ عوام بھی اس معاملے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ دفاعی مقاصد کے لیے نیورو سائنس کو استعمال کرنا بیشتر معاملات میں متنازع قرار پایا ہے اور اس کی کوکھ سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانے والے ادارے اور ان کے اہلکار نیورو سائنس کو کس طور استعمال کریں گے، اس امر پر کم ہی بحث ہوئی ہے۔ ’’مائنڈ وارز‘‘ میں جوناتھن مورینو نے نیورو سائنس میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ اسے دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کی نوعیت پر بھی بحث کی ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی دفاعی شعبہ اس تحقیق اور پیش رفت کو اخلاق سوز انداز سے استعمال نہیں کرے گا۔‘‘
’’مائنڈ وارز‘‘ سے اقتباسات
’’حقیقت یہ ہے کہ تمام ہتھیار ہمارے دو کانوں کے درمیان ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ذہن کے علاوہ کیا ہے جو کسی بھی چیز کو تیار اور استعمال کرے؟ اگر مخالفین کو یقین دلادیا جائے کہ وہ شکست کھاسکتے ہیں تو سمجھ لیجیے نصف جنگ تو آپ نے جیت ہی لی۔ حکومتیں اس مقصد کے حصول کے لیے پروپیگنڈا مشینری پر خطیر رقوم خرچ کرسکتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ دشمن کو ذہنی طور پر مغلوب کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے تجربہ گاہوں میں نیورو سائنس پر تحقیق تیزی سے جاری ہے تاکہ دشمن کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے کے نت نئے طریقے وضع کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔ اکیسویں صدی میں وہی اقوام دشمن پر برتری کا دعوٰی کرسکیں گی جو نیورو سائنس کے حوالے سے تحقیق کے میدان میں آگے ہوں گی اور اس بنیاد پر دشمن کو مغلوب کرنے کے طریقے بھی وضع کرنے میں کامیاب رہی ہوں گی۔‘‘
’’فطری علوم میں معروضی تحقیق اور قومی دفاع کے متعلق مقاصد میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ معاملات کو خفیہ رکھنے کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں سوچنا اور اس جنگ کو جاری رکھنا اب فیشن کا درجہ رکھتا ہے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے نیورو سائنس اور متعلقہ ٹیکنالوجی کا استعمال اب ناگزیر سمجھا جارہا ہے۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ ابلاغی ذرائع کی مدد سے مخالفین کو رام کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران سائنس دانوں کے لیے فنڈنگ عام ہوگئی تھی۔ سرد جنگ اور اس کے بعد کے زمانے میں سائنسی تحقیق کے اداروں اور دفاعی نظام سے منسلک اداروں میں خلیج سی پیدا ہوئی تاہم اب پھر سائنس دانوں کو قومی سلامتی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جارہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ چند ایک معاملات میں شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے اداروں اور سائنس دانوں کے مابین چند ایک امور پر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہائیڈروجن پر کام کرنے والے سائنس دانوں کو تو غیر معمولی اہمیت دی گئی تاہم انسانی جسم سے متعلق تحقیق کرنے والوں کو قابل توجہ نہیں گردانا گیا۔ اب ایسا نہیں ہے، مگر سیکیورٹی کے حوالے سے سختیاں اپنی جگہ ہیں۔ خفیہ ادارے نیورو سائنس اور اسی نوعیت کے دیگر علوم پر تحقیق کرنے والوں پر نظر رکھتے ہیں۔ تجربہ گاہوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ٹریک ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور غیر ملکی طلبا اور محققین کو ویزا جاری کرنے کے معاملے میں سخت تر اصول اور قوانین اپنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’نیورو سائنس میں کی جانے والی تحقیق سے دفاعی مقاصد کے حصول میں غیر معمولی مدد مل سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ایسے روبوٹس بنانے کی تیاری کر رہے ہیں جو جنگ میں وہ تمام مقاصد انجام دیں تو سپاہی انجام دیا کرتے ہیں۔ ان روبوٹس کو سیکڑوں یا ہزاروں میل کے فاصلے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ان روبوٹس کو ان کی اپنی صوابدید پر نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ انسان ہی انہیں کنٹرول کریں گے۔ اس صورت میں ان کا بہتر اور موثر استعمال ممکن ہوسکے گا۔ سوال روبوٹ تیار کرنے کا نہیں بلکہ ایسے روبوٹس تیار کرنے کا ہے جو مصنوعی ذہانت کے حامل ہوں یعنی صورت حال کے مطابق فوری ایکشن لے سکیں۔ روبوٹک ٹیکنالوجی میں انسان نے خاصی پیش رفت کی ہے مگر اب بھی خاصی گنجائش موجود ہے۔ پندرہ بیس سال بعد اس ٹیکنالوجی میں کیا کمال برپا ہوچکا ہوگا، پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا کیونکہ پیش رفت کی رفتار خاصی تیز ہے۔ آج روبوٹک سپاہی تیار کرنا خاصا مشکل ہے مگر کل کوئی مشکل باقی نہ رہے گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب میدان جنگ میں روبوٹس ہوں گے اور سپاہی، انٹیلی جینس آفیسر، طبی معاونین اور امدادی کارکن دور بیٹھے ریموٹ کنٹرول آلات کے ذریعے انہیں حیرت انگیز انداز سے کنٹرول کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’آنے والے دور کے سپاہی کیسے ہوں گے؟ اس معاملے میں انسان کہاں کھڑا ہے؟ ہزاروں سال کے عمل میں جنگ سے متعلق طریقے اور ٹیکنالوجی نے خاصی ترقی کی ہے۔ مگر سپاہی تو انسان ہی ہیں۔ انسان کو بھوک اور پیاس بھی لگتی ہے، اس پر تھکن بھی طاری ہوتی ہے، زخمی ہوجانے پر دوبارہ لڑنے کے قابل ہونے کے لیے اسے کچھ وقت بھی درکار ہوتا ہے اور خطرے کی بو سونگھ کر فوری فیصلہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حامل مشینی سپاہیوں میں بیشتر انسانی کمزوریاں نہیں ہوں گی۔ ماہرین کوشش کر رہے ہیں کہ ادویہ اور ٹرانسپلانٹ کے ذریعے انسانی سپاہیوں کے اذہان بھی اس حد تک تیز کردیں کہ ان میں اور عام انسانوں میں غیر معمولی فرق واضح ہوجائے۔ اس سلسلے میں مختلف ادویہ کے تجربات کامیاب بھی رہے ہیں۔ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ تیزی سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی ناگزیر ہے۔‘‘
’’انسانوں میں مشینیں نصب کرنے سے متعلق تصورات متنازع ہیں۔ اخلاقیات کے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کی نوعیت تبدیل نہ کی جائے کیونکہ اس صورت میں وہ فطرت کا اصولوں سے انحراف کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ انسان کو مشین میں تبدیل کرنے کا عمل قوانین اور اقدار میں تبدیل کا بھی موجب بنے گا۔ ماہرین مختلف طریقوں سے حافظے کی قوت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم کچھ بھول پانے کے قابل نہ رہیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو بڑی مشکل ہوگی۔ بھول جانا قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ بعض معاملات کو ارادی طور پر بھلانا بھی ہمارے لیے بہت حد تک ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زندگی عذاب کی شکل اختیار کرلے۔‘‘
’’ان ہتھیاروں پر بھی کام ہو رہا ہے جنہیں کسی بھی اعتبار سے مہلک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکی فوج کے پاس ایسے درجنوں ہتھیار ہیں جن کی مدد سے دشمن کو دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا جاسکتا! ایسا دھواں چھوڑا جاسکتا ہے جو افرا تفری پھیلا دے۔ خواب آور گیس بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ ایسے کیمیکل بھی تیار کرلیے گئے ہیں جن کی شدید بدبو زد میں آنے والوں کو بیمار کرسکتی ہے۔ بعض ایسے کیمیکل بھی تیار کرلیے گئے ہیں جن کے موثر استعمال سے مد مقابل سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عارضی طور پر محروم ہوسکتا ہے۔ ان ہتھیاروں کے استعمال سے طبیعت میں غیر معمولی گھبراہٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ ایسی گھبراہٹ میں حریف غیر منطقی حرکتیں کرکے اپنی پوزیشن مزید کمزور کرسکتا ہے۔ یہ تمام ہتھیار دماغ پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔ نیورو سائنس کے میدان میں پیش رفت نے امریکی فوج کو اس قابل کردیا ہے کہ وہ دشمن کو غیر موثر بنانے والے بہت سے ہتھیار بناسکتی ہے اور بر وقت استعمال بھی کرسکتی ہے۔ دیگر ممالک بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ دہشت گردی کے خطرے نے ہر ملک کو مجبور کردیا ہے کہ صورت حال سے مطابقت رکھنے والے طور طریقے اپنائے اور اپنے شہریوں اور سر زمین کی سلامتی یقینی بنائے۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر ممالک بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں نیورو سائنس کا سہارا لے رہے ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری کو بھی حرکت میں رکھا جاتا ہے۔ فوجیوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کے لیے تحقیق کا دائرہ مزید وسیع کردیا گیا ہے۔ دل کھول کر فنڈنگ کی جارہی ہے۔‘‘
جوناتھن مورینو کی کتاب سے دنیا کو یہ اندازہ لگانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی نیورو سائنس کو جنگ کے میدان میں برتری قائم رکھنے کے لیے کس حد تک استعمال کر رہے ہیں۔ تجربہ گاہوں میں ماہرین دن رات تحقیق میں مصروف ہیں۔ ایک طرف تو اپنے فوجیوں کی ذہنی استعداد بلند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف دشمن کو اس کی کمزوری کا احساس پوری شدت سے دلایا جارہا ہے تاکہ وہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرلے۔
ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا کے لیے ذہنی ترقی بہت بڑا چیلنج ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی ترقی ہوئی ہے اس کی پشت پر ذہنی ارتقا ہی کارفرما رہا ہے۔ مغرب کی برتری اسی بنیاد پر ہے۔ جاپان اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس ایک ہی آپشن ہے: ذہنی ارتقا کے بارے میں سوچیں اور جو سوچیں اس پر پوری لگن اور ایمانداری سے عمل بھی کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو مار کھائیں گے۔ ان کے پاس بہتر زندگی اور موٖثر دفاع کا یہی ایک آپشن رہ گیا ہے۔ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک انسان اور مشین کے ملاپ کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں نیورو سائنس سے بھرپور کام لیا جارہا ہے۔ جاپان نے روبوٹ ٹیکنالوجی میں غیر معمولی مہارت پیدا کی ہے۔ نیورو ٹیکنالوجی کی مدد سے سوچنے والے روبوٹس بنائے جارہے ہیں۔ یہ روبوٹس گھریلو کام کاج اور صنعتی سرگرمیوں کے دفاع کا فریضہ بھی عمدگی سے انجام دے سکیں گے۔ دفاعی امور میں مشینی انسانوں کا استعمال ترقی یافتہ دنیا کا دیرینہ خواب ہے جو اب چند برسوں میں مکمل طور پر شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے۔ ترقی پذیر دنیا تب کہاں کھڑی ہوگی، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ذہن کی جنگ ہے اور ذہن کی مدد ہی سے لڑنا ہوگی۔
☼☼☼
Leave a Reply