اس دنیا میں کون ہے جو سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق رونما ہوتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند نہیں؟ ہر انسان سب کچھ اپنے حساب کتاب سے چاہتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس بے حساب دولت ہو تب بھی دوسروں کی زندگی اور حالات پر آپ کا موثر کنٹرول تو بہر حال نہیں ہے۔ ایسے میں بہتر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ آپ دوسروں کو اپنا سمجھ کر ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں اور اسی طور زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے لئے گنجائش پیدا کریں۔ مگر کیا واقعی دوسروں کی پسند و ناپسند کا خیال رکھ کر اپنے لئے پنپنے کی حقیقی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب بہت سے لوگوں کے نزدیک نفی میں ہوگا۔ اور اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ دوسروں کی مرضی کا راستہ چننے کی صورت میں آپ اپنی مرضی کے مطابق سفر جاری نہیں رکھ پاتے۔ ہر انسان اپنی مرضی دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے۔ اور کسی گروپ کا حصہ بننے پر آپ ہمیشہ وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے آپ کی اپنی زندگی کو بھرپور طور پر پنپنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ کیا ایسے میں یہ بہتر ہے کہ دوسروں کی کوئی بات نہ مانی جائے؟ یہ انتہائی اقدام ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ آپ سب کی سنیں اور ہر اس بات کو اپنالیں جو معقول محسوس ہوتی ہو۔ گروپ کے ساتھ چلنے کی صورت میں بھی آپ اپنے سفر کی سمت اور منزل کا تعین کرسکتے ہیں۔ اپنے وجود کو بہاؤ کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے بس بہتے چلے جاتے ہیں، اور جب انہیں سنبھلنے کا خیال آتا ہے تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ ڈوبنے کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔
سڈنی ہرمن نے اپنی کتاب ’’مائنڈ یور اون بزنس‘‘ میں یہ نکتہ عمدگی سے بیان کیا ہے کہ ہر معاملے میں اپنی الگ راہ نکالنے والے ہی کچھ ڈھنگ کا کام کر پاتے ہیں۔ اس دنیا میں انہی لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں انفرادیت کا مطالبہ اور تقاضا کرتی ہے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے والے پورا صلہ بھی پاتے ہیں۔ حالات کے رحم و کرم پر جینے والے ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہتے ہیں۔ کامیابی انہی کو ملتی ہے جن کی زندگی میں انفرادیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
کاروباری دنیا میں حقیقی کامیابی ان کا مقدر بنتی ہے جو جدت اور ندرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاملے میں لگی بندھی سوچ کو نہیں اپناتے اور اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی ہر آن بدلتے رہنے کا نام ہے۔ عام طور پر اجتماعی سوچ ایک خاص ڈگر کی حامل ہوتی ہے۔ جب کوئی گروپ کسی معاملے پر سوچتا ہے تو معمول کو اپناتا جاتا ہے۔
سڈنی ہرمن نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ اکیسویں صدی کا کاروباری ماحول اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم ہر آن بدلتے رہیں اور اپنے وجود کی اہمیت کو منواتے رہیں۔ یہی پیش رفت کا راز ہے۔ انفرادیت کو اولیت دینے والے بالعموم فائدے میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں خطرات مول لینے کا ہنر آتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ خطرات مول لئے بغیر بہتر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ دوسروں کی طرح ہر معاملے میں آنکھ بند کرکے چلنے کے عادی نہیں ہوتے اور اپنی بات کو عمدگی سے منوانے کے لئے الگ راہ نکالتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا ان سے کچھ نہ کچھ خاص چاہتی ہے۔ اگر وہ بھی دوسروں کی طرح لگی بندھی زندگی بسر کریں گے تو اپنا ہی زیاں کرتے رہیں گے۔
سڈنی ہرمن نے لکھا ہے کہ کوئی بھی بڑا کاروباری ادارہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ اسے انسان کی حیثیت سے ٹریٹ کیا جائے۔ ہر ادارہ انسانوں ہی سے مل کر بنتا ہے۔ ہر ادارے کے سینے میں دل بھی ہوتا ہے، اس کے احساسات بھی ہوتے ہیں۔ ادارے کو مجموعی طور پر پنپنے کے لئے بھرپور توجہ درکار ہوتی ہے۔ ہر ادارے کو چلانے کے لئے چند اصول مرتب کئے جاتے ہیں۔ ان اصولوں کو نظر انداز کرنے کی صورت میں صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔ انفرادیت کے تعاقب میں ہم دوسروں کی مرضی اور سوچ کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتے۔
جو لوگ اپنی الگ راہ نکالنے پر یقین رکھتے ہیں وہی قائدانہ حیثیت کے حامل بھی ہوتے جاتے ہیں۔ انگریزی میں ایسے لوگ اصطلاحاً Maverick کہلاتے ہیں۔ وہ جب کسی بھی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو لوگ اسے تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگاتے کیونکہ کہیں نہ کہیں انفرادیت جھلک رہی ہوتی ہے۔ کسی بھی ادارے میں قائدانہ کردار کی حامل شخصیت کا بنیادی کام ادارے کے مقاصد کو واضح کرنا ہے تاکہ ان کے حصول کی راہ ہموار ہو۔ ہر ادارہ کامیابی کی راہ پر تیزی سے گامزن رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے چند اصولوں کا تعین لازم ہے۔ قائد کا کام اصولوں کا تعین ہی نہیں، ان پر عمل کرانا بھی ہے۔ جو انفرادیت کو ترجیح دیتے ہیں ان میں قائدانہ سوچ پروان چڑھتی جاتی ہے۔ یہی آئیڈیل صورت حال ہے۔ ہر معاملے میں منفرد رہنے والے افراد ہی ہمیشہ فرنٹ پر رہتے ہیں اور قیادت کا موقع پاتے ہیں۔
سڈنی ہرمن نے اس نکتے پر بھی زور دیا ہے کہ کسی بھی ادارے میں قائد کا بنیادی فرض دوسروں کو بہتر کارکردگی کی تحریک دینا بھی ہے۔ لوگ معمول کی زندگی بسر کرتے کرتے کام کرنے کی لگن سے بھی محروم ہوتے جاتے ہیں۔ انہیں کچھ نہ کچھ نیا کرنے پر آمادہ رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ جو لوگ یہ کام کر پاتے ہیں وہ قائد ہونے کا حق بھی ادا کر پاتے ہیں۔ قائد ہی اپنے ماتحت افراد کو بتاتا ہے کہ زندگی میں مالی معاوضہ یا منافع ہی سب کچھ نہیں۔ اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لینا بجائے خود ایک منفرد تجربہ ہے۔ زندگی ہم سے بے دلی نہیں چاہتی۔ ہم اپنی زندگی کو خانوں میں بھی نہیں بانٹ سکتے کہ کہیں تو بھرپور لگن ہو اور کہیں بے دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔ زندگی بسر کرنے کا یہ انداز ہماری شخصیت کو تقسیم کردیتا ہے۔ قائد کا کام ادارے کے تمام افراد کو یہ بتانا ہے کہ کام میں پوری دلچسپی لئے بغیر ہم اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔
جو لوگ اپنی انفرادیت کو دوسروں پر واضح کرنے کا ہنر جانتے ہیں ان کے لئے قائدانہ کردار ادا کرنے کے بہترین مواقع پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کو بہتر انداز سے جینے کے قابل ہونے میں خاطر خواہ مدد دینے کے قابل بھی ہو پاتے ہیں۔
سڈنی ہرمن نے اپنے ادارے ہرمن انٹرنیشنل کو دنیا کے لئے مثال بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی خواہش رہی ہے کہ لوگ معیاری زندگی بسر کرنے کے بارے میں سوچیں اور اس معاملے میں ان کے ادارے سے کچھ سیکھیں۔ ہرمن انٹرنیشنل کے ملازمین کو اس نکتے پر توجہ دینے کی تحریک دی جاتی ہے کہ گھر کے اندر اور گھر کے باہر زندگی ایک ہی ہے۔ جو لوگ بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ناگزیر ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم ہونے سے بچائیں۔ اگر کسی کے گھر میں سکون نہیں ہے تو اس کی پیشہ ورانہ زندگی بھی بے سکونی کی زد میں رہے گی۔ اہل خانہ سے بہتر سلوک بھی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ جن کے اہل خانہ ہر وقت شکایت ہی کرتے پائے جائیں ان کی زندگی میں بہت کچھ ٖغلط ہوتا جاتا ہے۔ پیشہ ورانہ امور میں بہتری کے لئے گھر کا ماحول بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
نظم و ضبط کسی بھی معاملے کے لئے ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیشہ ورانہ زندگی نظم و ضبط کے بغیر بھی گزاری جاسکتی ہے وہ خیالی جنت کے باسی ہیں۔ کسی بھی ادارے کو مکمل یا معقول نظم و ضبط کے ذریعے ہی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ انفرادیت بھی چاہتے ہیں اور قائدانہ کردار کے بھی حامل ہیں تو لازم ہے کہ آپ کے ماتحت کام کرنے والوں میں نظم و ضبط ہو اور آپ اس نظم و ضبط کی قدر بھی کرتے ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ آپ دوسروں سے کام لینے کو ترجیح دیں، انہیں مختلف ذمہ داریاں سونپیں، اختیارات دیں تاکہ ان کی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آئے۔ اس صورت میں لوگ آپ پر زیادہ بھروسہ کرنے لگیں گے اور ان کی زندگی میں بھی فراوانی کا وہی تصور پیدا ہوگا جو آپ کی زندگی میں ہے۔ جب انسان اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے کی آزادی پاتا ہے تو اس کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر کامیاب زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
جو لوگ ہر معاملے میں انفرادیت کو زندگی کا بنیادی اصول قرار دیتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ انہیں کم ہی معلوم ہے۔ جب بھی کسی معاملے میں ان کا ذہن واضح نہیں ہوتا تو وہ پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ جاننا ہی زندگی ہے۔ جنہیں کچھ پوچھنے میں شرم محسوس ہوتی ہو وہ زندگی بھر الجھے رہتے ہیں اور کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ چین کے مشہور دانشور لاؤ زو نے لکھا ہے کہ بہترین قائد وہ ہے جو دوسروں کو پنپنے کا موقع دیتا ہے۔ اگر دوسروں کو بھی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا رہے تو ان کی زندگی میں توازن پیدا ہوتا جاتا ہے اور وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرنے لگتے ہیں۔ قائد وہ ہے جو دوسروں میں بھی سوچنے کی عادت اور لگن پیدا کرے۔
’’مائنڈ یور اون بزنس‘‘ میں سڈنی ہرمن نے بتایا ہے کہ کسی بھی شعبے میں نمایاں مقام انہی کو ملتا ہے جو وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اور جنہیں وقت کی اہمیت کا احساس ہو وہ دوسروں کے وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔
سڈنی ہرمن نے اس نکتے پر بھی زور دیا ہے کہ کسی بھی ادارے کو چلانے میں بنیادی کردار اس کی متوازن مالی حالت کا ہوتا ہے۔ اگر ادارے پر زیادہ قرضے چڑھے ہوئے ہوں تو اعلیٰ عہدوں پر تعینات افراد کا بیشتر وقت قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں سوچنے اور بینکوں کو خوش رکھنے پر صرف ہو جاتا ہے۔ قرضے ہمیشہ سرمائے کے تناسب سے ہونے چاہئیں۔ اس صورت میں ادارے کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات مارکیٹ کے حالات اور ادارے کی سکت پر اچھی طرح نظر رکھ سکتی ہیں۔ سالانہ بجٹ اور ترقیاتی منصوبہ بندی ایک خاص طریق کار کے تحت ہونی چاہیے۔ کوئی بھی ادارہ بہتر منصوبہ بندی کے بغیر عمدگی سے چلایا نہیں جاسکتا۔
سڈنی ہرمن نے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر بتایا ہے کہ کسی بھی ادارے کو بہتر انداز سے چلانے میں اعتماد کی فضا بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر شیئر ہولڈروں کو یقین ہو کہ انہیں منافع سے محروم رکھنے کی کوشش نہیں کی جارہی تو وہ ادارے میں دلچسپی لیتے رہتے ہیں۔ اگر ادارے کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات مالیاتی زبان سمجھتی ہوں تو وہ بہت سے معاملات کو اچھے طریقے سے نمٹانے کے قابل ہو پاتی ہیں۔ میٹنگوں کے دوران اس بات کی خاص اہمیت ہوتی ہے کہ اعلیٰ عہدیدار مالیاتی اصطلاحات کو سمجھتے ہیں اور شیئر ہولڈر کو ادارے کی مالیاتی حیثیت کے بارے میں بہتر انداز سے بریفنگ دے سکتے ہیں۔ قائد کو ہر حال میں ادارے کے مالیاتی امور کے بارے میں تازہ ترین معلومات کا حامل ہونا چاہیے۔
اگر آپ منفرد رہنا چاہتے ہیں تو کئی اضافی خوبیاں اپنے وجود میں پیدا کرنا پڑیں گی۔ لوگ آپ کی انفرادیت کو اسی وقت تسلیم کریں گے جب آپ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کر دکھائیں گے۔ زندگی کے چند بنیادی تقاضوں میں اظہار بھی شامل ہے۔ اگر آپ اپنے خیالات کو عمدگی سے پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو لوگ تیزی سے آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جنہیں بولنا آتا ہے انہیں سننے والے مل جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کچھ کہیں گے اور لوگ سننے کے لئے بے تاب ہوجائیں گے۔ جب آپ کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہوگا تو یہ فکر لاحق نہ رہے گی کہ سننے والے کہاں سے آئیں گے؟ جن کی باتوں میں وزن ہوتا ہے ان کے لئے سامعین کی بڑی تعداد دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ اس کے لئے طویل مدت تک جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ انسان جب تک اپنے ذہن کو واضح نہیں کر پاتا، اس کے لئے معیاری بولنے کی راہ ہموار نہیں ہو پاتی۔
لکھنا بھی انفرادیت قائم کرنے کی ایک بنیادی شرط ہے۔ قائدانہ کردار کے حامل افراد کے لئے لکھنے کی صلاحیت ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ سڈنی ہرمن کا استدلال ہے کہ لکھنا ایک بنیادی وصف ہے جس کے پنپنے سے شخصیت پنپتی ہے۔ ہاں، بہتر لکھنے کے لئے خیالات کا واضح ہونا لازم ہے۔ جن کے خیالات الجھے ہوئے ہوں وہ بہتر انداز سے اپنی بات لکھ کر یا بول کر بیان نہیں کر پاتے۔ مطالعہ ہی انسان کے خیالات میں پیدا ہونے والی الجھن دور کرتا ہے۔
(سڈنی ہرمن کی کتاب ’’مائنڈ یور اون بزنس‘‘ کی تلخیص)
Leave a Reply