چالیس سالہ ایلیت شیکد اسرائیلی سیاست میں نووارد ہیں۔ وہ وزیراعظم نیتن یاہوکے دفتری امور کے نگراں کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ۲۰۱۲ء میں انھوں نے وزیراعظم سے اپنی راہیں جدا کر کے نفتالی بینٹ (Naftali Bennetts) کی جماعت jewish home party میں شمولیت اختیار کر لی۔ پھر ۲۰۱۳ء میں انتخاب جیت کر اسرائیلی پارلیمان ’’کنیسٹ‘‘کی رکن منتخب ہو ئیں۔ ۲۰۱۵ء کے الیکشن میں Ayelet اسرائیل کی وزیر انصاف مقرر ہوئیں۔ تب سے اب تک، انہوں نے کئی ایسے معاملات کی جرح کی جنہیں ناقدین نے غیر جمہوری بھی کہا، مثال کے طور پر اس بل کی حمایت کرنا جس سے ان غیر سرکاری تنظیموں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، جو بیرونِ ممالک سے بھاری رقوم امداد کی صورت میں لیتی ہیں۔ Ayelet جو کہ سیاست میں داخل ہونے سے پہلے سوفٹ وئیر انجینئر کی حیثیت سے کام کرتی تھیں، حال ہی میں انھوں نے ’’فارن افیئرز‘‘ کے مدیر منتظم، جوناتھن ٹیپرمین سے تل ابیب میں ملاقات کی، دوران ملاقات مختلف امور پر ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
س:آپ تقریباً ایک سال سے وزیر انصاف ہیں، آپ اپنے کن کارناموں پر فخر محسوس کرتی ہیں؟
ج: سب سے اہم کام ججوں کی نامزدگی تھی، میں نے ججوں کی تقریباً ۱۰۰ سے زائد اسامیاں پُرکی ہیں۔ نظام انصاف میں بہتری کے لیے مزید اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کی جا رہی ہے، بینک دیوالیہ پالیسی بہتر کرنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔اس کے علاوہ ہم ایسے تمام تجارتی ضابطوں پر کام کر رہے ہیں، جن میں آسانی لائی جا سکتی ہے۔بدعنوانی کے خلاف قانون بھی اہم ہے ،جو ابھی تک منظور نہیں ہوسکا۔ اور دہشت گردی کے خلاف بِل بھی جسے کنیسٹ پچھلے پانچ سال سے منظور کروانے میں ناکام رہی ہے، اگلے ماہ پاس ہوجائے گا۔ یہ بل بھی بہت اہم ہے،کیونکہ اس بل سے شابک Shabak (اسرائیل کی اندرونی سلامتی کا ادارہ ’جوشن بیٹ‘ کے نام سے مشہور ہے) اور پولیس کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہو جائیں گے، جس سے دہشت گردی پر کنٹرول کیا جا سکے گا۔
س : کس طرح کے اختیارات ؟
ج : مثال کے طور پر مخصوص حالات میں پولیس ملزم کو ۲۱ دن وکیل تک رسائی دیے بغیر اپنی حراست میں رکھ سکتی ہے۔
س : آپ بنیادی طور پر ایک سیکولر خاتون ہیں اورتل ابیب کی رہائشی ہیں،توایک ایسی جماعت جس کا تاثر مذہبی جماعت کا ہے اس کی راہنما کی حیثیت سے کیسا محسوس کرتی ہیں؟
ج : میرا اس منصب پر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ jewish home کے ووٹر وسیع ذہنیت کے حامل ہیں اور لبرل بھی۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہماری جماعت بنیاد پرست اور سیکولر طبقے کے درمیان ایک پل کا کام کر رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور مل جل کر رہنا چاہیے۔
س : آج کل آپ وزیراعظم نیتن یاہو کے ماتحت کام کررہی ہیں۔ آپ نے اپنی دور ملازمت کا آغاز بھی نیتن یاہو کے ماتحت کام کرنے سے کیا تھا، کیا مگر ۲۰۱۲ء میں آپ نے وہ نوکری چھوڑ دی اور ساتھ ہی’’ لیکوڈ‘‘جماعت کو بھی خیر آباد کہہ دیا تھا ۔آج آپ میں ،لیکوڈ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟
ج: ’’لیکوڈ‘‘ اور ’’جیوش ہوم پارٹی‘‘ میں مذہب اور نظریہ کے علاوہ بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ نیتن یاہو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ کے پہلے سوال پر میں مزید کہوں گی کہ ہم اسرائیل میں عرب معاشرے کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں، عرب شہروں میں عدالتیں قائم کی جارہی ہیں اور پہلی بار خواتین کو قاضی (اسلامی عدالتوں کے جج) کی حیثیت سے مقرر کیا جارہا ہے ۔
س : کیا یہ اصلاحات عرب اور یہودی اسرائیلیوں کے درمیان عدم مساوات کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہیں؟
ج : یہاں عدم مساوات نہیں ہے ۔ قانون کے مطابق سب برابر ہیں، البتہ عرب شہروں میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور حکومت اس پر کام کر رہی ہے۔
س : تو مسئلہ قانونی مساوات کا نہیں بلکہ وسائل کا ہے؟
ج : ہاں، مگر حکومت اس مسئلہ کو حل کر رہی ہے ۔جیسا کہ اب میری وزارت میں ۹ فیصد ملازمین عربی یا دروز ہیں۔
س : سیاست کی طرف واپس آتے ہیں،وزیراعظم کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ وہ ایک نئی دائیں بازو کی بڑی جماعت بنا رہے ہیں ،جو تما م چھوٹی دائیں بازوکی ْتنظیموں کو اپنے اندرضم کرلے گی۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ج : ان امور پر کبھی ہم نے بات نہیں کی۔اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،مگر ہم کسی چیز کوخارج از امکان قرار نہیں دے سکتے۔
س : کچھ ناقدین، جن میں امریکا کے سفیر، ڈین شہ پیرو (Dan Shapiro) بھی شامل ہیں، کا موقف ہے کہ ــ’’این جی او ٹرانسپیرنسی بل‘‘ مخالفین کو کچلنے کی کوشش ہے۔ کیا یہ واقعی ضروری ہے کہ عوامی سطح پر ان غیر سرکاری تنظیموں کا نام عیاں کیا جائے، جواپنے اخراجات کا نصف یا اس سے زیادہ ،امدادکی صورت میں بیرونی ممالک سے لیتی ہیں؟
ج : اس بل کو ملنے والی توجہ مضحکہ خیز ہے۔ اور بہت سارے معاملات میں حکومت اپناکام کر رہی ہے۔ اس بل کو اتنا بڑا مسئلہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور جہاں تک بل کی بات ہے تو یہ اسرائیلی عوام کا حق ہے کہ ان کو پتاچلے کہ کون کتنی امداد باہر سے لیتا ہے۔ کیونکہ آج کل دیگر ممالک عمل دخل کے لیے ان غیر سرکاری تنظیموں کی مدد کرتے ہیں، جو ان کے نظریے پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔
س : ’’دیگر ممالک‘‘ سے کیا آپ کی مراد امریکا اور یورپ ہے؟
ج : بنیادی طور پر یورپ۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان تنظیموں کو فنڈ کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ جمہوریت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن آگہی عوام کا حق ہے، اس لیے ان کو معلومات ضرور دی جائیں گی۔
س : ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اصل مقصد قانون سازی کے ذریعے ان تنظیموں کے ارکان کو پارلیمان میں بیجز نمایا ں کرنے کا کہا جائے گا اورانھیں عوامی سطح پر لا کر ان غیر سرکاری تنظیموں کو بدنام کیا جائے گا۔ اس سے قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔
ج : پہلی بات تو یہ کہ بیجز لگانے کی پابندی قانون میں زیر غور نہیں ہے۔ اور ویسے ہر رکن کو کنیسٹ میں بیج تو لگانا ہی ہوتا ہے تو اگر یہ قانون بن بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں ۔ اور دوسرا یہ کہ اس میں غیر سرکاری تنظیموں کی بدنامی کی بات نہیں،بلکہ یہ تو عوام کا حق ہے، جاننے کا۔
س : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ بیرونی ممالک کو اسرائیل میں موجود غیر سرکاری تنظیموں کی فنڈنگ نہیں کرنی چاہیے؟
ج : میرا خیال ہے کہ سیاسی غیر سرکاری تنظیموں کی مددنہیں ہونی چاہیے۔ میرا نہیں خیال کہ امریکا بھی اس بات کو قبول کرے گا کہ اسرائیل، امریکا کی کسی ایسی غیرسرکاری تنظیم کو امدادی رقوم دے رہا ہو، جو افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی کارگردگی پر مقدمہ چلانے میں مصروف ہے۔
س : ایسی غیر سرکاری تنظیمیں جو اس قانون کی زد میں آئیں گی ،کیا انھیں غیر ملکی ایجنٹ یا اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے گا؟
ج : وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بن سکتیں،کیونکہ ہماری جمہوریت بہت مضبوط ہے۔مگر میں سمجھتی ہوں کہ وہ بیرونی دنیا میں اسرائیل کی شناخت اور اس کے تاثر کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر آپ آدھا سچ لوگوں کو بتائیں تو یہ بھی جھوٹ ہی میں شمارہوتا ہے۔ وہ ایک مخصوص واقعہ کو لے کر اسے ایسے بیان کرتے ہیں جس سے اسرائیل کا تاثر بیرونی دنیا میں خراب ہوتا ہے۔ یہ تنظیمیں اس طرح کا پروپیگنڈا امریکا کی جامعات میں کر رہی ہیں۔
س : کیا قانون سازی سے دائیں بازو کی تنظیمیں بھی متاثر ہوں گی؟
ج : میں نے یہ دیکھا نہیں ہے کہ کونسی غیر سرکاری تنظیم اس کی زد میں آئے گی۔
س : اگلے سال عدالت عظمیٰ کی چار سے پانچ اسامیاں خالی ہوں گی، اور ان کی تقرری کا معاملہ آپ کے پاس ہوگا۔ آپ عدلیہ کے حوالے سے بہت تحفظات کا شکار رہی ہیں اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے کی بات بھی کرتی ہیں، تاکہ وہ پارلیمان (کنیسٹ) اور کابینہ کے فیصلوں کو منسوخ نہ کرسکے۔ جمہوری معاشرے میں عدالت عظمیٰ کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
ج :یقیناً بہت اہم کردار ہونا چاہیے،عدالت کا کام ہے کہ وہ تنازعات کو ختم کروائے اور حکومت کو ایسے اقدام سے روکے جو غیر آئینی ہوں۔ میں تنقید صر ف اس بات پر کرتی ہوں، جب عدالت پالیسی کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے نہ کہ قانونی معاملات میں۔
س : امریکا میں عدالت عظمٰی ’’سیاسی سوالات کے نظریے ‘‘کو استعمال کر کے بہت سے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے۔کیااسرائیل میں بھی ایسا کوئی نظریہ ہے؟
ج: جی، لیکن حقیت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کی عدالت عظمیٰ بھی فعالیت پسند ہے،مگرامریکامیں عدالت عظمیٰ کے ججوں کا انتخاب سیاستدان کرتے ہیں۔لیکن اسرائیل میں یہ کام کمیٹی کرتی ہے ۔میں اس کمیٹی کی سربراہ ہوں،لیکن اس میں عدالت عظمٰی کے تین جج بھی شامل ہوتے ہیں اور ہم ان کی رائے کے بغیر جج منتخب نہیں کر سکتے۔ اور ان کااس عمل میں خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
س : کیا آپ اس طریقہ کارکو تبدیل کرنا چاہتی ہیں؟
ج : اس اتحاد میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں، جو ہم نہیں کرسکتے۔ میں اپنے سر کو دیوار سے تو نہیں ٹکرا سکتی۔ مگر ہم ایک ایسے قانون کی حمایت کریں گے جو ججوں کوقانونی طور پر اختیارات دے کہ وہ کوئی قانون منسوخ کر سکیں۔ یہ طاقت انہیں کبھی کسی قانون نے نہیں دی ہے، انہوں نے خود ہی حاصل کر لی ہے۔ مگر قانون کنیسٹ کو بھی اجازت دے گا کہ وہ عدالت کے احکامات کو منسوخ کرسکے، جیسا کہ کینیڈا میں ہے۔
س: فریڈم ہاؤس نے حال ہی میں اسرئیل کی پالیسیوں پر اس کے مرتبے میں کمی کی ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔ اور گزشتہ ہفتے اسرائیلی دفاعی فوج کے نائب سربراہ نے بیان دیا ہے کہ موجودہ عدم برداشت کا ماحول ،تشدداوراپنی تباہی کا عمل انھیں ۱۹۳۰ء کے جرمنی کی یاد دلاتا ہے۔آپ اس تنقید کا کیا جواب دیں گی؟
ج: آپ کو ان دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو آی ڈی ایف کے نائب سربراہ اپنے بیان سے مکر گئے اور کہا کہ اس طرح کے موازنے کا کوئی جواز نہیں۔ جہاں تک فریڈم ہاؤس کی بات ہے تو ہم ان سے حالات پر نہیں، حقائق پر بات کرنے کی امید رکھتے ہیں۔اسرائیل ایک مضبوط جمہوریت کا نام ہے اور آزادی اظہار رائے کا اندازہ ہمارے معاشرتی ماحول سے لگایا جاسکتا ہے۔
س : تو آپ کو اس بات کی فکر نہیں کہ جو اقدامات آپ کرنے جا رہی ہیں ان سے آزادیٔ اظہار رائے پر فرق پڑے گا؟
ج: نہیں، ان کا یہ مقصد نہیں۔
س: اس بل کے بارے میں بتائیے جس کے تحت صہیونیوں کے خلاف بیان دینے پر کنیسٹ کے ارکان کی رکنیت معطل کردی جائے گی؟
ج: مجھے یہ بل پسند نہیں، نہ میں اس کی حمایت کرتی ہوں۔ اس کی کوئی ضرورت مجھے نظر نہیں آتی۔میں نے ووٹ اتحادی نظم و ضبط کی خاطر دیا تھا۔میرا خیال ہے کنیسٹ کے ارکان کو بولنے کی آزادی ہونی چاہیے۔اور ویسے اس قانون کو کوئی استعمال نہیں کرے گا۔
س: آپ نے حال ہی میں مغربی کنارے میں یہودی آبادکاریوں کے حوالے سے اسرائیلی سول قانون میں توسیع کی تجویز پیش کی ہے۔
ج: نہیں، ہر اس چیز پر بھروسہ نہیں کیاجا سکتا، جو اخبار میں چھپتی ہو۔آج اسرائیل میں جب بھی کوئی قانون کنیسٹ میں پاس ہوتا ہے تو فوج کے پاس اختیار ہے کہ وہ آبادکاریوں میں کس طرح اپنی صوابدید کے مطابق عمل در آمد کروائیں۔میری رائے اس بارے میں یہ تھی کہ وزارت دفاع اور عدلیہ کے افراد کی مشترکہ کمیٹی بنائی جائے جو نئے قوانین کو باآسانی فوج کے قوانین میں ضم کروا دے ، بجائے اس کے کہ وقفے وقفے سے کام ہو۔
س : آپ نے ماضی میں یہ بات کہی تھی کہ آپ مغربی کنارے کے بڑے حصے ،Area Cـ کے الحاق کی حامی ہیں، جو کہ علاقے کا ۶۱ فیصد ہے۔تو یہ حیرت کی بات تو نہیں کہ کچھ ناقدین اس اقدام کو الحاق کی جانب پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔ اس پر آپ کیا کہیں گی؟
ج: نہیں، ہم مغربی کنارے اور نابلس کے الحاق کی بات نہیں کررہے، تجویز پر تنقید اس لیے کی گئی کہ، آپ کی طرح، کسی نے اس کو سمجھا نہیں۔بائیں بازو والے سیاست دان اس کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔کسی نے اصل مفہوم سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔
س : الحاق کی بات کریں تو کوئی دورانیہ آپ کے ذہن میں ہے؟
ج: میں سمجھتی ہوں کہ مستقبل قریب میں تو دو ریاستی حل ممکن نہیں۔فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان خلا کو دور کرنا آسان نہیں۔ عرفات، ابو مزین (محمود عباس)، اولمرت، باراک، ان سب نے بہت کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ اور غزہ سے انخلا نے اسرائیلی عوام پر یہ ثابت کیا کہ اگر ہم آخری انچ سے بھی دستبردار ہو جائیں، تب بھی دہشت گردی ہمارے ہی حصے میں آئی گی۔ آئن اسٹائن نے پاگل پن کے بارے میں یہی کہا تھا کہ ایک کام باربار کیا جائے اور مختلف نتائج کی امید رکھی جائے۔ جب ہی آج اسرائیلیوں کی اکثریت فلسطینی ریاست کے قیام کو حقیقت نہیں سمجھتی۔ تو ایسانہیں ہے کہ ہم ’سی‘ علاقے کوآج ہی اپنے ساتھ ملحق کر سکتے ہیں، یہ وہ معاملہ ہے جس پر بات ہوتی رہنی چاہیے۔
س: آپ کا اندازِ بیاں یہ بتا رہا ہے کہ دو ریاستی حل پر اعتراض نظریاتی سے زیادہ عملی ہے۔
ج : دراصل یہ ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کے علاوہ جتنے بھی ممالک پڑوس میں ہیں، سب تباہی میں گھرے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں شیعہ سنی فسادات ہورہے ہیں۔ اسرئیل اس وقت جنگل میں ایک نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے، اور فلسطینیوں کے لیے مغربی کنارے اور نابلس میں صورتحال اچھی نہیں تو مناسب ضرور ہے۔ وہ اپنی زندگی جی رہے ہیں، اپنے راہنماؤں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ورنہ معاملات تو اس سے بھی زیادہ خراب ہوسکتے تھے اور دوسری بات یہ کہ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ سرزمین اسرائیل پر یہودیوں کا حق ہے۔
س: تو آپ تبدیل ہوتے فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کو کس تناظر میں دیکھتی ہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ جیسے جیسے حالات خراب ہورہے ہیں، فلسطینیوں کے غصے میں اضافہ ہورہا ہے؟
ج: مجھے نہیں پتا، جو آپ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے ۔ اسرائیل فلسطینی سلامتی کے حوالے سے روابط مضبوط ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیل اور عالمی برادری کو فلسطین کی معیشت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح حماس کو بھی کمزور کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمیں خوشحالی چاہیے تو ہمیں اصل معیشت میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ دیگر ممالک امداد دیں، انہیں چاہیے کہ فلسطین میں توانائی اور صنعت کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ معاون ثابت ہوگا۔میں تو غزہ میں ایک بندرگاہ کی تعمیر کے حق میں بھی ہوں، جو سمندر میں جزیرہ بناکر ممکن ہے۔
س :عرب اسرائیلیوں کی صورتحال کے بارے میں مزید بتائیے، کیا آپ ایسا محسوس کرتی ہیں کہ کچھ اہم مسائل ہیں جن کو حل ہونا چاہیے؟
ج: میں سمجھتی ہوں کہ حکومت اب صحیح اقدامات کر رہی ہے۔
س : مگر سابقہ حکومت نے ان معاملات کو بہت نقصان پہنچایا، جس نے ووٹروں کومجبور کر دیا کہ وہ ایک نئی جماعت کو ووٹ دے کر کنیسٹ میں پہنچائیں۔
ج: میں اس معاملے کوچھیڑنے کی حمایتی نہیں تھی اور نہ ہی ووٹروں کے جذبات کو ابھارنے کی حمایت میں تھی۔اس کی ضرورت نہیں تھی۔لیکن یہ واضح رہے کہ مقصد عربوں کو تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔
س :ارادے جو بھی تھے، گزشتہ انتخابات میں وزیراعظم نے عربوں کے بارے میں جو تبصرہ کیا تھا، اس نے عرب، اسرائیلی آبادی میں ایک غلط تاثر کو جنم دیا تھا۔کیا جو اقدامات اب کیے جارہے ہیں وہ اس احساس بیگانگی کو دور کرسکتے ہیں؟
ج : وزیر اعظم کے علاوہ بھی بہت سارے سیاست دانوں نے گزشتہ انتخابات میں بہت کچھ کہا تھا۔ ہم اب جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ہم اسے ٹھیک سمجھتے ہیں۔
س : موجودہ حالات میں اسرائیل کی سلامتی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل ہمیشہ سے زیادہ محفوظ ہوگیا ہے کیونکہ اب ایک منظم عرب فوج سے جنگ شاید کبھی نہ ہو۔مگر بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق خطے کے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ حالات خراب ہونے کی وجوہات میں اسرائیل کے نئے عرب دوستوں کی کمزوریاں،شیعہ سنی فسادات،داعش ہیں۔
ج : دونوں خیالات اپنی جگہ درست ہیں۔ یہ خطرہ تو اب اسرائیل کو نہیں ہے کہ کبھی کوئی بڑی عرب فوج اس پر حملہ آور ہو سکے گی۔ مگر دوسری جانب بہت سارے دیگر خطرات ہیں۔ بغیر کسی ابہام کے سب سے پہلاخطرہ تو ایران اور اس کا ایٹم بم ہے۔ ایران سے ایٹمی معاہدے کی وجہ سے دو چیزیں ہوں گی، ایک تویہ کہ دس سالوں میں ایران کے پاس ایٹم بم ہو گا۔ انہیں صرف فیصلہ کرنے کی دیر ہے، دس سالوں بعد جیسے ہی وہ فیصلہ کرے گا، اس کے چند ماہ میں ہی وہ ایٹمی صلاحیت کا حامل ہو جائے گا۔ یہ اسرائیل کے لیے خطرہ کی علامت ہے۔ دوسرا اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ میں اسلحہ کی دوڑ شروع کردی ہے۔ امریکا سنی ریاستوں کو طاقتور کرنے کے لیے انہیں مزید اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ ایران پر ہتھیاروں کی پابندی پانچ سال میں ختم ہوجائے گی۔ اور اب ایران کو پیسوں کا مسئلہ نہیں تو وہ کھل کر ہتھیار خریدے گا۔ ایک اور مسئلہ اسلحہ کی غیر روایتی دوڑ ہے، سعودی عرب اور مصر جانتے ہیں کہ اب ایران بم بنا لے گا تو وہ بھی ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
س: بین الاقوامی صورتحال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ اس بات سے پریشان نہیں کہ اسرائیل بہت زیادہ الگ تھلگ ہوکر رہ گیا ہے۔اس کی وجہ اسرائیل کے خلاف جاری بائیکا ٹ اور پابندیوں کی تحریک ہے یا پھر واشنگٹن اوراسرائیلی قیادت میں تناؤ؟
ج : میں سمجھتی ہوں کہ امریکی انتظامیہ، چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو ،ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کیونکہ امریکی انتظامیہ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اسرائیل ان کا اتحادی ہے اور اس خطے کی واحدجمہوریت ہے۔اور میں امید کرتی ہوں کہ امریکا کی انتظامیہ امریکی جامعات میں چلنے والی اسرائیل مخالف تحریک کے خلاف اقدامات کرے گی۔
س: ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے پچھلے دنوں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اوباما اور نیتن یاہو کے درمیان تناؤ ایک بڑے امدادی بل کی منظوری میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
ج : میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ وہ اس معاملے کو جلد ہی حل کرلیں گے۔
س : کیا آپ کو اس بات کی کبھی فکر ہوئی کہ اسرائیل امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے؟
ج : امریکا کی حمایت بہت اہم ہے۔ مگر میں اس حوالے سے کبھی پریشان نہیں ہوئی کہ ہم امریکا کے سہارے کے بغیر کیسے آگے بڑھیں گے۔کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ اگر کبھی ایسا ہوا تو ہم اس سہارے کے بغیر بھی آگے بڑھنے میں کامیاب ہوں گے۔ مگر مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ اور میں امید کرتی ہوں کہ ایسا کبھی ہو بھی نہ ۔
(ترجمہ : عبدالرحمن کامران)
“Ministering Justice”(“Foreign Affairs”. July/August 2016)
Very useful content and a source of enlightenment for readers interested in world affairs.