
صغیرہ گناہ
کبائر کے بعد ان محرمات کی باری آتی ہے جن کی حرمت قطعی ہوتی ہے۔ انہیں شارع نے لمم محقرات (حقیر سمجھے جانے والے گناہ) کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
یہ ایسے گناہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی شخص محفوظ رہا ہو۔ عموماً کسی نہ کسی دَور میں آدمی ان میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کو کبائر سے الگ کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے گناہ ہوتے ہیں جو پنج وقتہ نمازوں، نماز جمعہ، رمضان کے روزوں اور اس میں قیام الیل سے بخش دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے: ’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک، یہ سارے اعمال اس دوران کے گناہوں کے لیے کفارّہ بنتے ہیں، بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کیا جائے‘‘۔ (مسلم)
اور صحیحین میں ہے ’’تم مجھے یہ بتائو کہ تم میں کسی کے گھر کے سامنے ایک نہر ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ اس میں نہائے، کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل رہ جائے گا؟ یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹاتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
صحیحین ہی میں ایک روایت ہے: ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کیے جائیں گے‘‘۔
اور ’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام الیل کیا اس کے پچھلے گناہ (گناہِ صغیرہ) معاف کیے جائیں گے‘‘۔(متفق علیہ)
بلکہ قرآن نے تو یہ بھی بیان کیا ہے کہ آدمی صرف اتنا کرے کہ کبائر سے بچے تو صغائر کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف کر دے گا۔ فرمایا: ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘۔ (النساء: ۳۱)
رہا کبائر کا معاملہ تو انہیں توبۃ النصوح کے سوا کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی۔
صغائر کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان ان میں عام طور پر مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب اپنے بندوں میں سے محسنین اور اچھے لوگوں کا ذکر کیا تو ان کی صرف یہ صفت بیان کی کہ وہ کبائر اور فواحش سے اجتناب کرتے ہیں۔ سورہ شوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو کچھ اللہ کے ہاں ہے، وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کرجاتے ہیں‘‘۔ (الشوریٰ: ۳۶۔۳۷)
سورۂ نجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’زمین اور آسمان کی ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اوران لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا، جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں، اِلّا یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائیں۔ بلاشبہ تیرے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے‘‘۔ (النجم: ۳۱۔۳۳)
یہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہوں نے احسان کیا او رجن کے لیے حسنیٰ ہے۔ یعنی وہ کبائر اور فواحش سے اجتناب کرتے ہیں، سوائے لمم کے۔ سلف کی ایک بڑی جماعت سے لمم کی تعریف میں روایت کیا گیا ہے کہ یہ کسی وقت گناہ کی طرف مائل ہونا اور دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنا ہے، خواہ وہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت ابوصالح فرماتے ہیں: مجھ سے اللہ تعالیٰ کے قول اللمم کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے کہا کہ یہ وہ گناہ ہیں کہ آدمی ایک بار کرے اور دوبارہ ان کے پاس نہ جائے۔ پھر میں نے حضرت ابن عباسؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: لَقَدْ أَعَانَکَ عَلَیْہَا مَلَکٌ کَرِیْمٌ۔ (ایک معزز فرشتے نے اس میں تیری مدد کی ہے۔)
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ لمم ان گناہوں کو کہتے ہیں جو کبائر کے علاوہ ہوں۔ حضرت ابن عباسؓ سے بھی زیادہ صحیح روایت یہی ہے۔ جیسا کہ ان سے صحیح بخاری میں مروی ہے: میں نے لمم کے اس سے زیادہ قریب کوئی چیز نہیں دیکھی جو حضرت ابوہریرہؓ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کے لیے ہر چیز میں زنا کا اپنا حصہ رکھا ہے، جسے وہ ضرور پائے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا، زبان کا زنا بولنا ہے۔ نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور فرج اس کی تصدیق یا تکذیب کرتا ہے‘‘۔ مسلم نے بھی اسے روایت کیا ہے، اس میں الفاظ یہ ہیں: ’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا سننا، زبان کا کلام کرنا، ہاتھ کا پکڑنا اور پائوں کا چلنا ہے۔
امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: صحیح قول جمہور کا ہے اور وہ یہ کہ لمم چھوٹے گناہوں کو کہتے ہیں، جیسے دیکھنا، چُھونا، چومنا وغیرہ۔ یہ جمہور صحابہ اور تابعین وغیرہ کا قول ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ، ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، مسروقؒ اور شعبیؒ کا یہی قول ہے۔ یہ قول حضرت ابوہریرہؓ اور ابن عباسؓ کے اس قول کے خلاف نہیں ہے جو اُن سے دوسری روایت میں منقول ہے، جس کے مطابق لمم یہ ہے کہ گناہِ کبیرہ کی طرف عارضی طور پر متوجہ ہو اور پھر اس کی طرف دوبارہ نہ آئے۔ لمم کا لفظ یا تو دونوں کو متناول ہوگا اور دونوں باتیں درست ہوں گی۔ یا یہ کہ ابوہریرہؓ اور ابن عباسؓ نے اس شخص کے گناہ کو بھی لمم میں شامل کیا ہے جو ایک بار گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس پر اصرار نہیں کرتا، بلکہ زندگی میں ایک بار ہی اس سے صادر ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات کو دیکھا ہے کہ جس شخص نے گناہِ کبیرہ کا بار بار ارتکاب کیا ہوتا ہے، اس کے حق میں وہ بڑا ہو کر عظیم اور سخت ہو جاتا ہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی فقاہت اور ان کی علمی گہرائی کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ایک دو مرتبہ درگزر کر لیتا ہے۔ البتہ خوف اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ کو اپنے لیے عادت بنالے۔ اور اس کا کئی کئی بار ارتکاب کرے۔
یہ بھی ہے کہ شریعت خواہ لمم اور صغیرہ گناہوں پر کتنی ہی چشم پوشی کرے، مگر اسے معمولی سمجھنے، اور اس پر دوام اور اصرار کرنے سے پھر بھی محتاط رہنے کا حکم ہے۔کیونکہ چھوٹی چیز جب ایک اور چھوٹی چیز سے ملتی ہے تو بڑی ہو جاتی ہے۔ اس طرح صغائر انسان کو کبائر کی طرف کھینچتے ہیں اور کبائر اسے کفر کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’بڑا الائو چھوٹی چنگاری سے بنتا ہے‘‘۔
اسی وجہ سے سہل بن سعدؓ نے نبی کریمﷺ سے نقل کیا ہے: ’’چھوٹے سمجھے جانے والے گناہوں سے بچو۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ کسی وادی میں پڑائو ڈالیں، ایک اِدھر سے ایک لکڑی لے آئے اور دوسرا اُدھر سے۔ اس طرح وہ اتنی لکڑیاں جمع کر لیں جس سے وہ اپنے لیے کھانا پکاسکیں۔ چھوٹے گناہوں پر اگر آدمی کو (آخرت میں) پکڑا گیا تو وہ اسے ہلاک کر دیں گے‘‘۔ (احمد۔ طبرانی) اسے ابن مسعودؓ نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’چھوٹے گناہوں سے بچو، یہ جب انسان کے اوپر جمع ہوتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں‘‘۔
رسول اللہﷺ نے اس کے لیے یہ مثال پیش فرمائی ہے کہ کچھ لوگ ایک ویران جگہ میں پڑائو ڈالیں۔ اس قوم کا کام اس طرح انجام پائے کہ ان میں سے ایک آدمی نکلے، وہ ایک لکڑی لے آئے۔ پھر دوسرا نکلے، وہ بھی ایک لکڑی لے آئے، یہاں تک کہ سارے مل کر بڑی تعداد میں لکڑیاں جمع کر لیں اور اس سے ایک بڑی آگ بھڑکالیں۔ پھر اس پر جو چاہیں پکائیں۔
تشبیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی متفرق لکڑیاں جب جمع ہو گئیں تو انہوں نے ایک بھڑکتی ہوئی عظیم آگ کو جنم دیا۔ یہی کام چھوٹے گناہ بھی کرتے ہیں۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک مومن اپنے گناہوں کو ایک پہاڑ کی طرح دیکھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ یہ اس پر گر جائیں گے اور منافق اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے جیسے اس کی ناک پر مکھی آکر بیٹھ گئی ہے۔ وہ اسے اس طرح اور اس طرح کرتا ہے، یعنی ہاتھ ہلا کر اسے اپنے سے دور ہٹا دیتا ہے۔
امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین کی ’’کتاب التوبۃ‘‘ میں ان صغائر کا ذکر کیا ہے جو صغائر کو کبائر میں بدل دیتے ہیں اور کبائر کے حجم میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی گناہ کو معمولی سمجھے اور معصیت کو حقیر جانے۔ حتیٰ کہ بعض سلف نے کہا ہے کہ جس گناہ کے بارے میں معاف نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، وہ ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا کہتا ہے: کاش کہ میرا پچھلا گناہ بھی اس طرح ہوتا جیسا کہ یہ ہے۔ ان امور میں سے ایک اور امر گناہ پر اصرار کرنا اور بے شرمی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میرے تمام امتیوں کو معافی ہوگی، سوائے ان لوگوں کے جو کھلے عام گناہ کرتے ہیں‘‘۔
ابن قیمؒ کہتے ہیں: یہاں ایک ضروری امر ہے جس کو سمجھنا لازمی ہے، یہ کہ کبیرہ کے ساتھ بعض اوقات حیا، خوف اور اس کو بُرا سمجھنے کا احساس مل جاتا ہے تو وہ اسے صغائر میں شامل کر دیتے ہیں۔ اور کبھی صغیرہ گناہ کے ساتھ حیا کی کمی، بے پروائی اور خوف شامل ہو جاتا ہے، تو یہ چیز اسے کبائر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے، بلکہ اسے ان کا بلند ترین مرتبہ دے دیتی ہے۔ (مدارج المسالکین)
اسی طرح کبھی ایک ہی معصیت ہوتی ہے، مگر اس کا ارتکاب کرنے والے شخص یا اس کے حالات کے لحاظ سے اس کے گناہ میں فرق ہوتا ہے۔ چنانچہ غیر شادی شدہ کے زنا اور شادی شدہ کے زنا میں فرق ہوتا ہے، جوان اور بوڑھے کے زنا میں بھی فرق ہوتا ہے، اور اسی طرح پڑوسی کی بیوی یا اس شخص کی بیوی سے زنا کرنا جس کا شوہر جہاد میں شریک ہو، یا محرم عورت کے ساتھ، یا رمضان کے دنوں میں، یا حرم میں، زنا، دوسرے حالات میں زنا سے زیادہ ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ ہر چیز کا اللہ کے ہاں مقررہ حساب ہوتا ہے۔
اس مقام پر علامہ ابن رجبؒ کا بہت خوبصورت بیان ہے۔ اس کے فائدے کی خاطر ہم اسے یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
وہ محرمات جن کی حرمت کتاب و سنت میں قطعی ہو، وہ حرام ہیں جیسے:
’’ان سے کہو کہ آئو میں تمہیں سنائوں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو‘‘ (الانعام: ۱۵۱)… یہاں سے لے کر تیسری آیت کے آخر تک۔
’’ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں، بے شرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی، اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو، جس کے متعلق تمہیں معلوم نہ ہو (کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے)‘‘ (الاعراف: ۳۳)
بعض آیات میں کسی ایک نوع کے ساتھ مخصوص محرمات کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر کھانے پینے کے محرمات کا ذکر ہے۔ ایک مقام یہ ہے: ’’ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، اِلّا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو‘‘۔ (الانعام:۱۴۵)
اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ کہ مردار نہ کھائو، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔ (البقرۃ: ۱۷۳)
ایک اور آیت میں ہے: ’’اور ایسی چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔ (النحل: ۱۱۵)
فرمایا: ’’تم پر حرام کیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے نام کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا ہو، اور وہ جس کو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ (المائدہ:۳)
محرماتِ نکاح کو اللہ تعالیٰ نے سورہ النساء کی آیت ۲۳ میں بیان کیا ہے: ’’تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں… وغیرہ
کمائی کے حوالے سے محرمات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام‘‘۔ (البقرۃ: ۲۷۵)
سنت میں بھی بہت سے محرمات کا ذکر آیا ہے۔ جیسے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام کی ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم، ابودائود)
دوسری جگہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جس چیز کو حرام کرتا ہے اس کی قیمت بھی حرام ہوتی ہے‘‘۔ (ابودائود)
ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘۔ (مسلم، ترمذی، نسائی)۔ نیز فرمایا: ’’تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے حرام ہیں‘‘۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ جس چیز کی حرمت پر کتاب و سنت میں تصریح ہو، وہ حرام ہوتی ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہی اور وعید اور تشدید مل جائیں تو اس سے بھی حرمت کے معنی لیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ: ۹۰۔۹۱)
جب مطلق نفی ہو اور اس کے ساتھ وعید نہ ہو تو اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے حرمت کے معنی لیے جائیں گے یا نہیں۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ان کے نزدیک اس سے حرمت کے معنی لینا درست نہیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کہتے ہیں کہ ہمیں سلام بن ابی مطیع نے بتایا، انہوں نے ابن ابی دخیلہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے کھجور اور کشمش سے ’منع‘ فرمایا ہے، یعنی ان دونوں کو ملا کر کھانے سے۔ میرے پیچھے ایک آدمی بیٹھا تھا، اس نے مجھ سے پوچھا: کیا فرمایا؟ میں نے کہا: فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے کھجور اور کشمش کو ’حرام‘ کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے میری بات سنی اور فرمایا: تم نے جھوٹ بولا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: کیا آپ نے ابھی یہ نہیں فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے؟ اگر یہی بات ہے تب تو وہ حرام ہی ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو؟ سلام کہتے ہیں کہ گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے نہی کا اصل حکم کیا ہے۔
ہم نے اس سے پہلے جلیل القدر علمائے کرام جیسے احمد اور مالک سے نقل کیا ہے کہ وہ اس چیز پر لفظ حرام کا اطلاق کرنے سے اجتناب کرتے تھے جس کی حرمت یقینی نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس میں کسی طرح کا شبہ پایا جاتا تھا یا اس کی تحریم کے بارے میں اختلاف ہوتا تھا۔
امام نخعیؒ فرماتے ہیں کہ وہ بعض ایسی چیزوں کو ناپسند کرتے تھے جنہیں وہ حرام بھی نہیں کہتے تھے۔ ابن عون کہتے ہیں کہ مکحول نے مجھے کہا: اس پھل کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جسے کچھ لوگوں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ اس کو لوٹ لیتے ہیں؟ ہمارے نزدیک تو یہ مکروہ ہے۔ انہوں نے کہا: یہ حرام ہے! میں نے کہا: ہمارے نزدیک تو یہ مکروہ ہی ہے۔ انہوں نے کہا: یہ حرام ہے! ابن عون کہتے ہیں کہ اب ہم اسے مکحول کے قول کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں۔
جعفر بن محمد کہتے ہیں: میں نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ قاسم بن محمد سے پوچھ رہا تھا: کیا موسیقی حرام ہے؟ قاسم اس پر خاموش رہا۔ سوال پھر دہرایا گیا۔ قاسم پھر خاموش رہا۔ سوال تیسری بار دہرایا گیا تو اس نے کہا: حرام وہ ہے جو قرآن میں حرام کیا گیا ہو۔ تم مجھے یہ بتائو کہ اللہ کے سامنے حق بھی لایا جائے اور باطل بھی تو ان میں سے کس میں موسیقی ہوگی؟ سائل نے کہا: باطل میں، قاسم نے کہا: پھر تم اپنے دل سے پوچھو۔
امام احمدؒ کے صاحبزادے عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا، وہ فرما رہے تھے: وہ چیزیں جن سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے ان میں سے بعض حرام ہیں۔ جیسے آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پھوپھی کے ساتھ بھتیجی کو اور خالہ کے ساتھ اس کی بھانجی کو ایک نکاح میں جمع کیا جائے، یہ حرام ہیں‘‘۔ (مسلم، ابودائود، نسائی)
اسی طرح آپﷺ نے درندوں کی جلد سے منع فرمایا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (ابودائود، ترمذی، نسائی)
اس طرح اور بھی کئی اشیا انہوں نے ذکر کیں۔ ان میں وہ اشیا بھی شامل ہیں جن سے منع فرمایا گیا ہے، مگر وہ تادیبی امور میں سے ہیں۔
☼☼☼
Leave a Reply