
دینِ اسلام کی بنیادیں بہت مستحکم ہیں اوراس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لے رکھا ہے‘ ایسے میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی قوت خواہ وہ عالمی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیادوں کو نقصان پہنچا سکے یا اس کے اصولوں کو بدل سکے۔ ویٹیکن کے استقف اعظم بینڈکٹ نے ۱۲ ستمبر ۲۰۰۶ء کو جرمنی کی بافاریا ریاست کی ریجنیسبرگ یونیورسٹی میں کھڑے ہوکر اسلام‘ مسلمانوں اور خاص کر نبیٔ رحمتؐ پر الزامات عائد کیے۔ پوپ کی پوری تقریر ایمان اور عقل سے متعلق پر تھی جس میں عیسائیت کو معقولیت کا مذہب بتایا گیا‘ جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ تبلیغ سے پھیلا اور اسلام کو تلوار اور تشدد کا مذہب بتایا جو تشدد سے ہی پھیل سکتا ہے
پوپ کے اندر اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنی اس فاش علمی غلطی کو تسلیم کرلیتے۔ بلکہ انہوں نے پوری ہوشیاری کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے سارے مسلمانوں کی علمی سطح کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ وہ پوپ کی بات نہیں سمجھ سکے اور ان کی عبارت کا انہوں نے غلط مفہوم سمجھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ بیان صریح جہالت پر مبنی تھا یا شرمناک غلط بیانی پر اور دونوں ہی صورتیں تشویشناک ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ بہت سارے علماء اسلام نے پوپ کے بیان کا ٹھوس دلائل سے جواب دیاجن میں سرفہرست علامہ یوسف قرضادی اور ڈاکٹر محمد عمارہ وغیرہ شامل ہیں۔ زیرنظر سطور میں خود پوپ ہی کی ایک ہم وطن جرمن خاتون کی طرف سے پوپ کے بیان پر کیا گیا ردعمل پیش ہے جو خود بافاریا یعنی اسی ریاست کی رہنے والی ہیں‘ جہاں پوپ نے یہ غیر اخلاقی جسارت کی تھی۔ ڈاکٹر زیگریڈ ہونکہ (Zenggered Honkah) ایک فولادی عزم کی حامل خاتون ہیں جو اہل کلیسا بلکہ مغرب کے سواداعظم کے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے تعلق سے تصورات کا طاقتور دلائل سے سامنا کرتی ہیں اور موضوع پر دو کتابیں تصنیف کرچکی ہیں۔
۱۔ ’’عرب کا سورج مغرب پر طلوع ہوا‘‘ (Arab sun shines over the west)۔ یہ ایک بہت بڑ ی انسائیکلوپیڈیا ہے جو بتاتی ہے کہ اسلام سے مغرب کو کیا تہذیبی ورثہ ملا جس نے یورپ کو ایک طویل غفلت سے باہر نکالا۔ اس کتاب کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور لاکھوں نسخے شائع ہوچکے ہیں۔
۲۔ ’’اللہ ایسا نہیں ہے‘‘ (God is not like that)۔ یہ کتاب ۹۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ طاقتور ترین کتاب ہے جو ان بہت سے شکوک و شبہات کا جواب دیتی ہے جو مغرب ہمیشہ اسلام عرب اور مسلمانوں کے خلاف اٹھاتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر ہونکہ نے پہلے تویہ دکھایا ہے کہ مغرب کے ذہن میں مسلمانوں کے تعلق سے کس قدر تاریک تصویر ہے۔ پھر غیرمعمولی قوت کے حامل تاریخی دلائل پیش کیے ہیں جو اس تصور کی تردید کرتے ہیں اور پھر یہ بتایا ہے کہ علم اور اہل علم کے ساتھ اہل کلیسا کا کیا سخت گیر رویہ تھا جبکہ اسلامی تہذیب نے علم کی کیسی قدردانی کی تھی۔ اس کتاب کے کچھ اہم اقتباسات یہاں پیش خدمت ہیں۔ فرانسیسی مفکر رومن رولینڈ کے حوالے سے وہ لکھتی ہیں: مغرب نے جتنا غلط عربوں کو سمجھا ہے کسی اور قوم کو نہیں سمجھا۔ اس تصویر کو مسخ کرنے میں ماضی کے خیالات کااہم کردارہے حالانکہ ہم دوسری قوموں کے ساتھ رواداری اور سادگی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جن کے خود ساختہ مذاہب ہیں اور ان کا ہمارے مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
(۲) وہ مزید کہتی ہیں: مغرب کی ضد ہے کہ عربوں کی حقیقت کو بے بنیاد فیصلوں اور اجتماعی تہمتوں کے قبرستان میں دفن کردیا جائے۔
(۳) یورپ کے سواداعظم کے دماغ میں عربوں کے لیے احمقانہ اور ظالمانہ احساسِ تحقیربیٹھا ہوا ہے جو محض جہالت اور زیادتی کی بنیاد پر انہیں یہ باور کراتا ہے کہ عرب غیر مہذب چرواہے ہیں اور جنگجو اسلام اس وقت کی تلاش میں ہے جب وہ حملہ آور ہوسکے۔
(۴) کوشش یہ ہے کہ عہد وسطی سے جو بگڑی ہوئی مسخ شدہ تصویر وراثت میں منتقل ہوتی آئی ہے وہ ایک پسندیدہ کیفیت بن جائے جس کے گھٹن آمیز بھوت کے چنگل میں مغرب کا باشندہ گھٹتا رہے۔
(۵) عرب اور مسلمانوں کے سلسلے میں زیادتی کرنے سے عہد حاضر کی بعض وہ مغربی شخصیات بھی نہیں بچ سکیں جو علم و دانائی کے لیے مشہور ہیں۔ وہ عربی دماغ کو مکمل طور سے بانجھ مانتے ہیں‘ محض مقلد جن کے اندر تخلیق و ایجاد کا کوئی ملکہ نہیں ہے۔ تہذیبوں کے ساتھ جن کا رویہ معاندانہ اور تباہ کن رہا ہے۔ یا طوطے اور ڈاکیے جیسا۔
(۶) یہ بات کہ اسلام تلوار سے پھیلا ایک مغالطہ ہے یہ اسلام کی خلاف سب سے ظالمانہ تصور ہے جو پہلے سے ذہنوں میں راسخ ہے اور مسیحی مغرب ابھی تک ان خود ساختہ فرضی کہانیوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہے جو دادیاں سنایا کرتی تھیں۔
(۷) یہ مقولہ کہ اسلام آگ اور تلوار سے پھیلا مروجہ افکار کا حصہ بن گیا ہے حالانکہ یہ جھوٹ ہے جس کی بنیاد نہ صحیح تاریخ ہے اور نہ ہی موجودہ حقائق۔
(۸) افتراء پر درازی کی انتہا یہ ہے کہ جرمنی کی ایک نصابی کتاب کے ذریعہ چھوٹے بچوں کے ذہن میں ایک مزعومہ خطرے (عرب) کا تصور یہ دیا گیا ہے کہ وحشی لشکر یورپ پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے‘ ان کے چہرے سیاہ ہیں ہاتھوں میں بے نیام تلواریں ہیں اپنے خچروں سے ہر زندہ چیز کو وہ روندتے چلے آرہے ہیں۔
(۹) ایک یورپی شخص اسلام کے زیرسایہ عورت کے بارے میں محض یہ تصور رکھتا ہے کہ وہ تین سخت گیر سوکنوں کے ساتھ حرم کی سلاخوں کے پیچھے ایک گھٹن بھرے ماحول میں رہتی ہے۔ اس کا صرف ایک مشغلہ ہے کہ وہ اپنی سوکنوں سے حسد کرے اور دن بھر فضول بکواس کرتی رہے۔ اس کا مقصد حیات صرف مرد کی خواہشات اس کی مرضی کے مطابق پوری کرنا ہے۔ وہ بے روح جاندار ہے۔ ہر حق سے محروم۔ اپنے باپ کے گھر اس دن کا انتظار کرتی ہے جب کوئی سامان کی طرح اسے خرید کر لے جائے۔
(۱۰) مغرب کے پاس دو چیزیں ہیں شرمناک جہالت اور اس سے زیادہ شرمناک احساس برتری‘ یورپ کی اکثریت جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ مانتی ہے صرف اسی بنا پر بلندی سے عربوں کی طرف دیکھتی ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں اسلام‘ عرب اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ہونکہ غیر معمولی علمی قوت کے ساتھ اس موضوع پر خالص معروضی بحث کرتی ہیں حالانکہ وہ غیر مسلم ہیں مگر مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے لوگ کسی حد تک کمیاب ہیں جو اس مسخ شدہ تصویر کے بارے میں اتنی علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ اتنا طاقتور جواب دے سکیں جو مغرب کے دماغوں پر مسلط ہے۔ یہ صرف چند اقتباسات ہیں جو پوری کتاب کے مطالعہ سے بے نیاز نہیں کرتے بلکہ اس حقیقی علمی تصنیف کے مطالعہ کی خواہش میں اضافہ کرتے ہیں۔
(۱) کتاب کے اختتام پر وہ اسلام کے بارے میں پوری قوت کے ساتھ کہتی ہیں: بلاشبہ اسلام روئے زمین پر رواداری اور انصاف کے پہلو سے سب سے عظیم مذہب ہے۔ یہ بات ہم بغیرکسی جانبداری کے کہہ رہے ہیں ہم ظالمانہ تصورات اور فیصلوں کو اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ اسے سیاہی آلود کریں۔ جب ہم اس کے سلسلے کے مجرمانہ مغالطُوں کو اور اس کے بارے میں مکمل جہالت کو اس سے ہٹا کر دیکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے تھا کہ اس دوست کو ہم خوش آمدید کہتے مگر اس ضمانت کے ساتھ کہ وہ ویسا ہی رہے جیسا کہ حقیقت ہے۔
(۲) اسلام میں انسان گناہ کا پیدائشی وارث نہیں ہے جیسا کہ انجیل کو اصرار ہے کہ وہ اللہ کی مغفرت کو صرف اور صرف عیسیٰ مسیح کے ذریعہ ہی پاسکتا ہے۔ بلکہ اسلام صاف کہتا ہے کہ اللہ نے آدم کی توبہ قبول کرکے انہیں معاف کردیا‘ انسان اللہ کی زمین پر اس کا خلیفہ ہے او رصرف ایک معبود کی عبادت کرسکتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں: مسلم انسان آزاد باشعو ر اور اپنے قول و عمل کاذمہ دار ہوتا ہے۔حقیقت میں وہ اپنی تقدیر کا خالق ہوتا ہے۔
(۳) جرمن مسلم اسکالر احمد شمیدہ کی تعریف کرتے ہوئے اسلام کے تصور جہاد کے بارے میں وہ لکھتی ہیں: جہاد ہر وہ کوشش ہے ہر وہ اجتہاد ہے اور ہر وہ تدبیر ہے جس سے ہم اسلام کو اپنے آپ میں مستحکم کردیتے ہیں تاکہ دنیا کی اس زندگی میں اس روزانہ کی کشمکش میں ثابت قدم رہ سکیں جو شرپسند طاقتوں کے خلاف ہمارے اندر بھی جاری ہے اور ہمارے آس پاس عالمی پیمانے پر بھی جاری ہے… جہاد ساری دشمن طاقتوں کو روکنے کے لیے اسلامی امت کی دائمی بیداری اور تیاری ہے۔
(۴) مغرب کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہ اسلام تلوار سے پھیلا۔ وہ کہتی ہیں: یہ جھوٹ ہے جس کی شہادت نہ صحیح تاریخ سے ملتی ہے اور نہ حقیقی صورتحال سے۔ قرآن تو کہتا ہے (لااکراہ فی الدین) دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اور عملاً بھی اسلامی سلطنت میں پہلے بھی اور آج بھی عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مذہب پر قائم ہیں۔ کسی نے ان کو ان کی مذہبی رسوم سے نہیں روکا۔ اور نہ اسلام نے کسی کو اس سے روکنے کی اجازت دی۔ وہ زور دے کر کہتی ہیں : دوسرے مذاہب کے لوگ بشمول یہودی اور عیسائی خود آگے بڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے اور فاتح قوم کی تہذیب کو اختیار کیا۔ وہ اس تہذیب پر خود عربوں سے زیادہ فریفتہ ہوگئے۔ انہوں نے عربی نام‘ عربی لباس‘ عربی رسم و رواج خود آگے بڑھ کر اختیار کیے۔ مختصر یہ کہ عرب تہذیب کا جادو عربوں کی شرافت‘ رواداری‘ کشادہ ظرفی وہ قوتِ کشش رکھتی تھیں جس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔
(۵) وہ قرطبہ کے پادری القارو کے اس شکوے کو بھی پیش کرتی ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا : میرے مذہب کے بہت سے ماننے والے عربوں کے قصے پڑھتے ہیں‘ مسلمانوں کی کتابیں سیکھتے ہیں اور ان کی تردید کے لیے نہیں بلکہ عربی میں مہارت اور اس کے ذریعہ صحیح تعبیر اور ذوق سلیم حاصل کرنے کے لیے۔ ہمیں آج وہ عیسائی کہاں مل رہا ہے جو انجیل کی تفسیریں پڑھے؟ بلکہ وہ بھی کہاں ہیں جو چاروں انجیل ہی پڑھیں۔ افسوس آج وہ سارے عیسائی نوجوان جو صلاحیتوں میں اپنے ساتھیوں سے آگے ہیں صرف عربوں کی زبان جانتے ہیں۔ وہ عربی کتابوں کے حصول کے لیے اور ذاتی لائبریریاں بنانے کے لیے بڑی بڑی رقمیں خرچ کردیتے ہیں او رکھلے عام یہ اعلان کرتے ہیں کہ عربی ادب لائق تعظیم ہے… آہ کیا مصیبت آپڑی ہے کہ عیسائی خود اپنی مادری زبان بھولے جارہے ہیں۔ آج ہزار میں ایک بھی ایک ایسا نہیں جو صحیح لاطینی میں ایک آسان سا خط لکھ دے۔ اس کے برعکس ہم ان کو شمار نہیں کرسکتے جو عربی زبان پر عبور رکھتے ہیں بلکہ بعض تو عربی میں شعر بھی کہتے ہیں اور اس فن میں خود عربوں سے آگے نکل گئے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر ہونکہ پوچھتی ہیں: کیا بے نیام تلوار کے لیے یہ ممکن ہے کہ کسی کو مجبور کرے اور زبردستی مسلمانوں اور عربوں کی زبان ان کے ادب اور ان کی تہذیب کا اس قدر گرویدہ بنادے۔ یا یہ اس عظیم مذہب کے اصل جوہر کا کمال ہے؟
(۶) ڈاکٹر ہونکہ ایک دوسری شہادت فرانسیسی شہسوار وولچر چارٹی کی پیش کرتی ہیں: بہت کم عرصہ میں عربوں کے طرز زندگی نے صلیبیوں کو اپنا دلدادہ بنادیا۔ ہم اہل مغرب یہاں آکر مشرقی ہوگئے۔وہ کہتے ہیں: کیا اس کے بعد ہم اداس کن مغرب کی طرف لوٹیں گے؟ جبکہ اللہ نے ہم پر انعام کیا اور ہمیں مغرب کے بدلے مشرق میں رہنے کا موقع دیا۔ اس طرح اسلام نے حملہ آوروں کو اپنا پیرو اور حامی بنادیا۔
(۷) ڈاکٹر ہونکہ ایک اور شہادت لاہوتی فلسفہ کے جرمن عالم اولیوروس کی پیش کرتی ہیں۔ وہ صلیبیوں پر سلطان صلاح الدین کی فتح کے بعد ان کی اسلامی رواداری سے متاثر ہوکر کہتے ہیں: زمانہ قدیم سے انسان نے ایسی رحمدلی اور سخاوت کو نہیں سنا تھا اور وہ بھی سخت دشمن کے قیدیوں کے ساتھ… کون ایک لمحہ کے لیے بھی اس رحمت و سخاوت کے منجانب اللہ ہونے میں شبہ کرسکتا ہے… وہ مرد جن کے باپ بیٹے بیٹیاں بھائی بہن سب ہم نے قتل کر دیے اور جن کے ساتھ ہم نے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا۔ آج جب ہم ان کے قیدی ہوگئے اور بھوک کے مارے موت ہمارے سروں پر منڈلانے لگی تو یہ خود فاقہ کرکے ہمیں کھلارہے ہیں ان کے بس میں جتنا ممکن ہے ہمارے ساتھ بھلائی کررہے ہیں۔ جب کہ ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں نہ ہمارے پاس قوت ہے اور نہ اقتدار۔
(۸) ڈاکٹر ہونکہ اسپین کے تاریخی واقعات کی روشنی میں اسلام کے سلسلے میں جبر و تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہیں:کلیسا کے ناقابل فہم اور نیند اڑادینے کی چیز یہ تھی کہ مفتوح ممالک کے عوام جوق در جوق اسلام میں صرف او ر صرف اپنے فیصلے سے داخل ہورہے ہیں اس میں نہ پہلے تبلیغی کوششوں کا دخل تھا اور نہ کسی جبر کا کردار تھا۔ اور نہ آج ان میں سے کچھ ہے۔ یقیناعربی رواداری اور عربی طرز زندگی نے اسپین کے عیسائیوں کو محسور کردیا تھا۔ عرب نسلیں جن امتیازی اوصاف کی حامل تھیں اور اسلام کی طرف سے جس رواداری کی تاکیدکی گئی تھی وہی دراصل اسپین کے عیسائیوں کے اسلام میں داخل ہونے کا محرک تھی۔ نہ کہ یہ کھلا ہوا بہتان کہ اسلام آگ اور تلوار سے پھیلا۔
(۹) دلیل معکوس: عرب اسپین‘ کے عنوان سے وہ اسلامی تہذیب کی عظمت رفتہ کا تذکرہ یوں کرتی ہیں: بلاشبہ مغرب کی اپنی تاریخ وہ معکوس دلیلیں رکھتی ہے جو اسلام پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کی صفائی کے لیے کافی ہیں۔ ان فریب خوردہ بیانات کی تردید کے لیے ایک بے نظیر مثال کافی ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک سیاہ تمغہ کا روشن رخ ہے جو بشریت کے سامنے عرصہ دراز پورے آٹھ سو سال تک جگمگاتا رہا ہماری مراد اسپین ہے… اسپین غربت تباہی اور استبداد کا مرکز تھا وہی اسپین اسلامی حکومت کے آجانے کے بعد ایک دوسرا اسپین بن گیا‘ خوشحالی اور راحت سب باشندوں پر سایہ فگن ہوئی‘ تہذیب و تمدن کی بہار آئی اور علم وفن کے ہر میدان میں ارتقاء ہوا یوروپ میں ترقی اور رہنمائی میں وہ سب سے آگے نکل گیا… اسپین کی عرب یونیورسٹیوں میں علم و فن اور ادب و فکر کے متلاشی ہر طرف سے کھینچ کھینچ کر چلے آئے… یہاں تک کہ اسپین اپنی ہریالی‘ علوم و فنون‘ باغات و مکتبات اور تجارت و معیشت کے لحاظ سے بے نظیر جنت خیال کیا جانے لگا۔
(۱۰) ڈاکٹر ہونکہ پر زور طور پر کہتی ہیں: کیتھولک یورپ کسی بھی دوسرے دین کی جو منظر عام پر آنا چاہتا سرکوبی کردیتا تھا۔ کیونکہ ان کا تصور یہ تھا کہ انسان کا نجات دہندہ صرف یہی مذہب ہے۔ کلیسا نے یہودیوں پر بہت ظلم ڈھائے اور انہیں مسیح کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں ہر طرح سے زک پہنچائی۔
لیکن جب اسلام اسپین اوریورپ میں آیا تو ا س نے کسی مذہب کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی اور آٹھ صدی تک سب کے ساتھ اس کا رواداری کا معاملہ رہا۔
کتاب کے تیسرے حصہ میں عیسائی کرتوتوں اور اسلامی کارناموں کے درمیان فیصلہ کن موازنہ کرتے ہوئے انصاف پسند اسکالر نے باریک بینی کے ساتھ عیسائیت کی سیاہ اور اسلام کی روشن تاریخ کے درمیان جرأت مندانہ اور غیر جانبدارانہ معروضی موازنہ بھی پیش کیا ہے۔یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا اور جن کے سامنے آجانے کے بعد اسلام کی تمام مذاہب پر برتری اور عظمت کے سامنے سر اعتراف خم کردینا پڑتا ہے۔ ان جرأتمندانہ موازنوں میں سے بعض کا ذکر یہاں درج ذیل ہے:
عیسائی کرتوت:
(۱) انجیلوں کا اصرار ہے کہ انسان اصلی غلطی کا وارث ہے اور اس کی نجات صرف یسوع مسیح کے ذریعہ ممکن ہے۔
(۲) اناجیل سینٹ پال اور پادری تھامس اور مارٹن لوتھر کے نزدیک غلطی کا اصل سبب عورت ہے کہ اس نے آدم کو گمراہ کیااور ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ لہٰذا بشریت کے لیے بدبختی کا منبع وہی ہے۔ عورت کو شوہر کی اطاعت بطور سزا کرنی ہے۔
(۳) پوپ اور بن دوم نے کلیر موت فرانس میں ۲۷۔۱۱۔۱۰۹۵ء کو یورپ کے سارے غریبوں اور مالداروں کو کافروں (عالم اسلام) کے خلاف جنگ میں جھونک دیا جسے اس نے جہاد مقدس کا نام دیا۔ ایک انتہائی شرانگیز اور بے بنیاد پروپیگنڈہ یہ کیا گیا کہ ان لوگوں نے مسیح کی قبر کی بے حرمتی کی ہے۔ فوجیوں کو جوش دلایا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور وہ اس کافرستادہ ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ ہر غیر عیسائی کو قتل کردیا جائے۔ مسلمانوں کے بارے میں کہا کہ وہ خدا کے دشمن ہیں‘ شیطان کے بندے ہیں جاہل اور وحشی ہیں۔ ان کو ہدایت کی کہ حملہ سے پہلے ایک ماہ روزہ رکھیں۔ وہ شام آئے جہاں ہزاروں مردوں‘ عورتوںاو ر بچوں کو بے رحمی سے ذبح کر ڈالا۔ہر چیز تباہ کردی جہاں تک ہوسکا لوٹ مار کی یہاں تک کہ یوروپی مورخ میخائل مڈسیرر سے عیسائی پادری کی جانب سے پوپ او ریورپ کے سربراہوں کے نام خط منقول ہے جس میں وہ لکھتا ہے: نیک لوگ بدکاروں کا انجام دیکھ کر نہال ہوجاتے ہیں اور اپنے پائوں ان کے خون سے دھوتے ہیں۔
(۴) برطانوی بادشاہ رچرڈ شیر دل نے اپنے منصب کی قسم کھائی تھی کہ تین ہزار عرب قیدی مامون ہیں۔ مگر عہد شکنی کرکے ان سب کو ذبح کر ڈالا تھا۔
(۵) پوپ اور بن دوم اپنے پادریوں کے ساتھ صلیبی فوجیوں کے جذبات بھڑکاتے تھے اور کہتے تھے: ہمارے لیے یہ کیسی شرم اور عار کی بات ہوگی کہ اگر یہ کافر جو ہر طرح کی تحقیر اور ذلت کے سزاوار ہیں اور انسانی عزت سے محروم ہیں اور انہوں نے خود کو شیطان کا بندہ بنالیا ہے۔ اگر یہ اللہ کی پسندید ہ امت پر غالب آگئے۔
(۶) کون نہیں جانتا کلیسا نے کتنی عورتوں کو جادو کا الزام لگاکر جلا ڈالا کون نہیں جانتا کتنے اہل علم نے انجیل کے تضاد کی طرف توجہ دلائی تو انہیں قتل کردیا گیا یا اور جلادیا گیا۔ بے نظیر سائنس داں راجر بیکن کو ۱۵ سال جیل میں رکھا گیا یہاں تک کہ وہ ۱۲۹۴ء میں اپنی دریافت کی پاداش میں مرگیا۔ یہی حشر جرمن سائنس دا ں فیلیپ کے ساتھ ۱۶۰۰ء میں کیا گیا۔ اس پر مقدمہ چلا کر روما کے کھلے میدان میں کلیسا کے محکمہ تفتیش نے جلا دیا۔ کیونکہ اس نے کلیسا کی تعلیمات پر تنقید کی تھی اور عقل و تجربہ کے استعمال کی دعوت دی تھی۔ یہی بہت سارے دوسرے دانشوروں اور سائنس دانوں کے ساتھ بھی ہوا اور اس سب کے پیچھے دلیل یہ تھی کہ اناجیل میں سارے حقائق موجودہیں اس لیے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
(۷) عرب دماغوں کی ایجادات پر قبضہ اور ان کا سرقہ‘ کے عنوان کے تحت وہ لکھتی ہیں: مغرب نے عرب کی سائنسی دریافتوں کو چرانے اور انہیں اپنی جانب منسوب کرلینے میں کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ جیسے سمت نما جابر بن حیان نے ایجاد کیا اور وہ غلط طور سے اٹلی کے کلافیمو جویا کی طرف منسوب کردیا گیا۔ بارود کی ایجاد عربوں کی اور اسے خوب استعمال بھی کیا مگر لوگوں نے فرانسیسی پادری برٹوہولڈ کو چنا کہ وہ کلیسا میں ایک مراقبہ سے نکل کر یہ کہے کہ اس نے اپنی خانقاہ میں بارود ایجاد کیا ہے۔ عرب مسلمان طبیب ابو القاسم زہراوی نے ۱۰۱۳ء میں نزیف دم روکنے کا آپریشن دریافت کیا اور انہوں نے اس کا سہرا اسپین کے میخائل سروت ۱۵۵۳ء اور انگلستان کے ولیم ہاروے ۱۶۱۶ء کے سر باندھ دیا۔
اسلامی کارنامے:
(۱) انسان دوسرے کی غلطی سے بری ہے اللہ نے آدم کی توبہ قبول کرلی تھی‘ اور وہ آزاد ہے اپنی زندگی کی تشکیل پر قادر ہے۔
(۲) قرآن میں عورت مرد کی طرح ہے‘ وہ کبھی غلطی کا اصل سبب نہیں رہی‘ بلکہ قرآنی نص یہ بتاتی ہے کہ غلطی آدم سے ہوئی تھی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی‘ عورت کا اپنے شوہر کی اطاعت کرنا اس کی عزت افزائی کا ایک حصہ ہے۔
(۳) مسلمان جب صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں فتحیاب ہوئے تو انہوں نے ان جنگجوئوں کے ساتھ انتہائی درجہ کا عدل واحسان اور بھلائی کا رویہ اپنایا‘ اپنے پاس موجو د کم کھانے میں ان کو خود پر ترجیح دی‘ قیدیوں کے لیے کھانے کے ساتھ تیس ہزار سے زیادہ روٹیاں بنو اکر بھیجی جاتی تھیں‘ ان کو امان دی تھی۔ اس سلسلے میں ان کے سامنے حضرت عمرؓ بن خطاب کا کردار تھا جنہوں نے بازنطینی بادشاہ مقوقس کو اسکندریہ میں امان کا عہد دیا تھا۔ یہ وہ عہد تھا کہ اس کی عظمت ودانائی اوررواداری کے سامنے اس کے بعد اورپہلے کے سارے ہی عہد و پیمان ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس میں تحریر تھا:’’یہ عہد تمام عیسائی رعایا پر ان کے پادریوں اور راہبوں پر لاگو ہوگا وہ جہاں بھی رہیں ان کی جانوں کو ان کے معبدوں کو ان کی زیارت گاہوں کو امان دے گا اورانہیں ان مقامات کی زیارت کا حق بھی دے گا‘‘۔
(۴) جب صلیبی افواج نے بازنطینیہ میں خود اپنے عیسائی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلنی شروع کی تو نیکٹس اکومینٹس نے چیخ کر کہا: مسلمان جنگجو بہت رحمدل اور پاکباز ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں جو اپنے کاندھے پر صلیب لگائے ہوئے ہیں۔
(۵) قرآن و سنت کی تعلیمات ذمیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہارون رشید نے فاتح ہوکر بھی جرمن قیصر کارل کو یہ عہد نامہ بھیجا تھاکہ القیامہ گرجا گھر کی سرپرستی کا شرف اس کے پاس ہی رہے گا اور مقدس مقامات کی ساری کنجیاں وہاں کے بڑے پادری کے حوالے کردی گئیں۔ جس سے ایک رواداری کی فضاء قائم ہوئی۔
(۶) ڈاکٹر ہونکہ عربوں کی علم نوازی کے بارے میں لکھتی ہیں: نہ رومی نہ بازنطینی اور نہ ہی عیسائی فرقے یونانی تہذیب کے ورثہ کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ بلکہ اس کا کچھ حصہ تو علم دشمنی میں کچھ زیادہ جذباتی عیسائیوں کے ہاتھوں برباد ہوگیا اور کچھ تغافل کی نذر ہوگیا۔ وہ تو سب نابودہوجاتا مگر یہ عرب تھے جنہوں نے اسے تلاش کیا اور تباہ حال کھنڈرات کی تہوں سے اسے باہر نکالا۔ عربوں نے گذشتہ تمدن پر جوہری نوعیت کے اضافے کیے۔ جیسے تجرباتی طریقہ جو باریک اور بے تکان طویل مشاہد ے پر قائم ہے عالم عرب تجرباتی علم طبیعیات کا بانی ہے اس میں اس کے مقابل کوئی دعوے دار نہیں ہے۔
(۷) بلاشبہ عربوں کے علمی کارنامے یورپ پہنچے۔ خواہ وہ کیمیا کے ہوں‘ ریاضیات کے ہوں‘ فلکیات کے ہوں یا ان کی فنی ایجادات ہوں۔ اس وقت یورپ پر کلیسا کا قبضہ تھا اور وہ اپنی گرفت سخت کیے ہوئے تھا تاکہ وہ پسماندگی کے دلدل میں دھنستا ہی جائے مگر عرب تہذیب و تمدن ارض یورپ پر باران رحمت بن کر آیا اور اسے صدہا سال تک زندگی دی اور سیراب کیا اور علم و تحقیق کے میدان میں اسے مہمیز دیا۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: یکم جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply