
کالم نگاری میں خیالات کی جگالی سختی سے ممنوع ہے لہٰذا میں کسی نئی بات سے کالم کا آغاز کروں گا اور وہ یہ ہے کہ عراق کی جنگ ایک سنگین غلطی تھی۔ میں یہ بات عرصے سے جانتا ہوں مگر میں نے پہلے کبھی یہ بات نہیں کی تھی اور اس وقت بھی یہ بات کرکے مجھے زیادہ خوشی نہیں ہورہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جنگ مخالف عوام کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ اب اس میں کافی تاخیر ہوچکی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ میں اب بھی ان کے مکتبہ فکر میں شامل نہیں ہورہا ہوں۔
ہمارے ہاں جاری بحث میں دو ہی مکاتب فکر ہیں۔ جنگ مخالف اور جنگ کے حامی۔ لیکن ایسا کہنا حماقت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے جنگ کی حمایت کی تھی ان میں سے چند ایک ہی حقیقی طور پر جنگ کے حامی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ جنگ کے مخالف بھی حقیقی طور پر امن پسند نہیں ہیں۔ اگر ڈارفر میں نسل کشی اور صومالیہ میں قحط روکنے کا معاملہ ہو یا صدر کلنٹن نے جو کبھی ہیٹی میں کیا تو یہ لوگ فوجی مداخلت کی حمایت کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں فی نفسہ جنگ کے مخالف نہیں ہوتے بلکہ ایسی جنگوں کے مخالف ہوتے ہیں جو امریکی مفادات کو آگے بڑھاتی ہیں(یا مبینہ طور پر صدر بش یا اسرائیل یا اکسن موبل کے مفادات کو) ۔
میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ایک بات جو یہ تسلیم کرنے میں کراوٹ بنتی ہے کہ عراق جنگ ایک حماقت تھی۔ وہ جنگ مخالف لوگوں کے موقف سے میری بیزاری اور ناپسندیدگی تھی لیکن یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ سچائی سچائی ہوتی ہے اور تما م بدیہی شواہد کے مطابق عراق کی جنگ ایک حماقت تھی۔ جو بات ہم اب سمجھتے ہیں اگر اس وقت بھی سمجھ جاتے تو ۲۰۰۳ء میں ہم کبھی عراق جنگ میں نہ کودتے میرا یہ بھی خیال ہے کہ (مع ڈیمو کریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن، جان کیری، جے راک فیلر اور جان مرتا) کانگریس میں۲۰۰۳ء میں جو صورت پیش کی گئی تھی اس کے مطابق اس نے جنگ کی بجاحمایت کی تھی۔ اب ان ڈیمو کریٹس کا دعویٰ کہ جنگ کے حوالے سے ان کے ساتھ غلط بیانی کی گئی تھی کھسیانی بلی کھمبانوچے والی بات ہوگی۔
تباہی پھیلانے والے ہتھیار ڈھونڈنے میں ناکامی ایک الگ معاملہ ہے اور یہ دراصل عالمی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے اگر نائن الیون کے بعد صدام حسین کی گیڈر بھبکیوں کے خلاف یہ ایک درست اور بجا اقدام تھا۔ امریکا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی جنگ کے بعد عراق کی تعمیر نو کے بارے میں غلط اندازے لگانا ہوگی۔
امریکا کو یہ امید ہی نہیں تھی کہ عراق میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ اس کے لیے اس نے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی تھی اور نہ ہی اسے یہ اندازہ تھا کہ آزادی اور وقار کے لیے اتنی بھاری مالی اور جانی قربانی دینا ہوگی۔ حالیہ بحث کے بعد مجھ سے اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ میں کہوں کہ ہمیں عراق سے فوری انخلاء کرلینا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ اگر عراق پر حملہ غلطی تھا تو ہمیں وہاں سے نکل آنا چاہیے مگر یہ استدلال اتنا متاثر کن نہیں ہے۔
ہم بعض مناسب وجوہ کی بناء پر عراق میں ملوث ہوئے تھے۔ ان وجوہ کا مقصد خواہ کچھ بھی ہو مگر ہمارا فیصلہ غلط تھا بلکہ ہم ابھی تک وہاں موجود ہیں۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی محاذ نہیں ہے وہ صدر بش سے بھی زیادہ بری صورتحال کا شکار لگتے ہیں۔ بلاشبہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی محاذ ہے۔ اگر ہم فوری طور پر عراق کے محاذ سے انخلاء کرتے ہیں تو جہاد پورے عراق میں پھیل جائے گا اور پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس طرح امریکا کمزور ہوجائے گا۔
صدر بش کے ناقدین کا موقف ہے کہ عراق میں جمہوریت کا فروغ دراصل بعد کا معاملہ ہے مگر اس کی بدولت جنگ نے ایک تلخ روپ دھار لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ استدلال جائز نہیں ہے لیکن اگر یہ درست بھی ہو تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہماری آزادی خطرے سے دوچار ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوگا کہ عراق اور مسلم دنیا کے وسط میں آزاد خیال معاشرے کافروغ ہمارے حق میں نہیں جائے گا۔
روایتی الفاظ میں اگر میں یہ نہیں کہتا کہ فوراً عراق سے نکل جائو تو مجھ سے یہ امید کرلی جاتی ہے کہ میں کہوں کہ عراق میں ڈٹے رہو لیکن ایک تیسرا متبادل بھی ہے اور وہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔ میں نے اپنے ایک پرانے کالم میں لکھا تھا کہ ہمیں عراقی عوام سے ووٹ کے ذریعے پوچھنا چاہیئے کہ کیا امریکی افواج عراق میں مقیم رہیں۔ ووٹ ڈالنے والے ہمیں کہتے ہیں کہ چلے جائو لیکن ووٹ نہ ڈالنے والے عراقی عوام بھی ایک طرح سے احتجاج کریں گے۔
شاید احتساب کی بدولت انسانی ذہن بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اور شاید امریکی افواج کی موجودگی کی حمایت میں اضافہ ہوجائے۔ اگر عراق امریکی افواج کے قیام کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو ہم ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو فتح اور کامیابی کے لیے درکار ہے۔ اگر وہ انخلاء کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو اس طرح بھی ہماری اقدار کی تصدیق ہوگی اور ہم باعزت طریقے سے وہاں سے نکل سکتے ہیں۔ اجتماعی سوچ کے اظہار کے لیے جمہوریت ایک جائز راستے ہے۔
بدامنی اور افراتفری میں چھوڑ کر بھاگنے سے بہتر ہے کہ ا پنا کام مناسب انداز میں ختم کیا جائے۔ اگر انجام کارکو ہم اسے بخوبی انداز میں نمٹانے میں کامیاب ہوگئے تو اس جنگ کو ایک غلطی کے طور پر یاد نہیں رکھا جائے گا۔
(بشکریہ :’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘)
Leave a Reply