دوست یا دشمن؟
اخوان المسلمون اسلامی دنیا کی سب سے بڑی، سب سے پرانی اور سب سے طاقتور تنظیم ہے۔ یہ جتنی بڑی اور طاقتور ہے اتنی ہی متنازع بھی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے انقلابی عناصر اور مغرب کے روایتی حلقے اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ امریکی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون دشمن کے اسلحہ خانے کا ایک مؤثر ہتھیار اور غیر معمولی شدت پسند تنظیم ہے۔ القاعدہ کے ایمن الظواہری یہ کہتے ہوئے اخوان پر تنقید کرتے ہیں کہ اس نے نوجوانوں کو جہاد کے لیے قطار بند کرنے کے بجائے ووٹروں کی قطار میں کھڑا کردیا ہے۔ جہادی عناصر کو اس کا بات کا شکوہ ہے کہ اخوان نے عالمگیر سطح پر جہاد کو ترک کرکے جمہوریت اور انتخابات کو اپنالیا ہے۔
امریکا کو اسلامی دنیا میں اعتدال پسند عناصر کی تلاش ہے۔ اگر جہادی عناصر بھی اخوان کو اعتدال پسند ہونے پر مسترد کر رہے ہیں تو اس کے اعتدال پسند ہونے پر کس کو شبہ ہونا چاہیے؟ مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اخوان امریکی خارجہ پالیسی پر غیر معمولی انداز سے تنقید کرتی ہے۔ اسرائیل کی طرف امریکی جھکاؤ بھی اخوان کے نزدیک خاصا قابل اعتراض ہے۔ اور پھر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جمہوریت اخوان کی وابستگی پر اب تک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔
ایک سال کے دوران ہم نے مصر، تیونس، فرانس، اردن، اسپین، شام اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اخوان رہنماؤں سے ملاقات کی ہے اور ان سے مختلف امور پر گرما گرم بحث ہوئی ہے جن میں اسرائیل امریکا تعلقات، جمہوریت اور جہاد، اسرائیل اور عراق اور معاشرے کی تشکیل نو نمایاں ہیں۔ اخوان اب مختلف قومیتوں کے گروپوں کا مجموعہ ہے اور بیشتر معاملات میں خیالات کا فرق نمایاں ہے۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے تمام گروپ اب عالمگیر جہاد کو ترک کرکے جمہوریت کو اپنانے کی بات کرتے ہیں۔ اخوان کی صفوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ چند عشروں کے دوران سیاست کی عملی حقیقت نے اخوان کو اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔
امریکی منصوبہ سازوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اخوان اور دیگر اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کو اپنے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ منصوبہ سازوں کو اخوان سے جڑے ہوئے ہر قومیتی گروپ کو اس کے مخصوص حالات کے تناظر میں پرکھنا چاہیے تاکہ مل کر کام کرنے کی راہ ہموار ہو۔
بڑے بھائی
اخوان المسلمون نے مصر میں ۱۹۲۸ء میں اپنے قیام سے اب تک استعمار کے خلاف جدوجہد میں اپنی بقاء تلاش کی ہے۔ اسلامی دنیا میں اخوان سے قبل بھی کئی اصلاحی تحاریک چلی تھیں تاہم اس نے اسلامی آدرشوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ جدید طور طریقوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اخوان نے تربیت پر خاص زور دیا یعنی پہلے فرد کو تبدیل کیا جائے، پھر خاندان کو اور اس کے بعد پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ اخوان کی ابتدا زیریں متوسط طبقے سے ہوئی تھی تاہم بہت جلد اس نے اشرافیہ میں بھی جگہ بنائی۔ مقتدر حلقوں میں بھی اس کے ہمدردوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اس دور میں مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں کی معروف تحاریک کی طرح اخوان نے بھی نوجوانوں کا مسلح ونگ تیار کیا۔
۱۹۴۸ء میں، کہ جب مصر میں سیاسی اور معاشرتی سطح پر شدید بے چینی پائی جاتی تھی، اخوان پر وزیر اعظم کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کرکے کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا۔ اس کے بانی حسن البناء نے دہشت گردی میںملوث ہونے کی واضح تردید کی تاہم اس کے باوجود انہیں قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد ان کے جانشین کے تعین کا جھگڑا شروع ہوا۔ اندرونی لڑائی سے بچنے اور کسی ایک دھڑے کی بالا دستی ٹالنے کے لیے اخوان نے اپنے حلقے سے باہر کی شخصیت حسن الہضیبی کو رہنما منتخب کیا۔ اسی دور میں شاہ فاروق کے خلاف بغاوت ہوئی۔ فری آفیسرز موومنٹ نے جمال عبدالناصر اور انور سادات کی قیادت میں کامیابی حاصل کی۔ شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس بغاوت میں اخوان سے بھی مدد لی گئی۔ فوج میں نچلی سطح پر اسلامی آدرشوں کے حوالے سے اخوان کے قبول کیے جانے کی بھرپور گنجائش تھی۔ جمال عبدالناصر نے اقتدار پانے کے لیے اخوان کا سہارا لیا اور اسلامی تعلیمات پر عمل کا یقین بھی دلایا تاہم بعد میں انہوں نے سب کچھ فراموش کردیا۔ اخوان کے ایک رکن نے سخت مایوسی اور اشتعال کے عالم میں ایک جلسے کے دوران جمال عبدالناصر پر پستول خالی کردیا تاہم وہ محفوظ رہے اور اس اقدام کے نتیجے میں اخوان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ اخوان کے کارکنوں سے جیلیں بھردی گئیں۔
جیلوں میں اخوان کے کارکنوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ اس دور کی عرب دنیا میں بھی کئی ممالک میں حکومت کے مخالفین کو گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کا رواج عام تھا۔ عراق اور شام اس کی واضح مثال تھے۔ اخوان میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ برطانوی سامراج کے خلاف جن لوگوں کے ساتھ مل کر لڑے تھے ان کے آدرش کیا تھے؟ اخوان کے علمی قائد سید قطب شہید نے اس سوال پر غور کرنے کے بعد فیصلہ سنایا کہ جن لوگوں کے ساتھ مل کر استعمار کے خلاف جنگ لڑی گئی تھی وہ اسلامی حکومت کے قیام کے وعدے سے مکرگئے ہیں اس لیے ان کے خلاف جہاد فرض ہے۔ اب اخوان کے پاس اقتدار پرستوں کے خلاف جہاد کے سوا چارہ نہ رہا۔ یہ تکفیر کا معاملہ تھا جس پر اخوان میں بھی اختلافات پیدا ہوئے۔ حسن الہضیبی نے سید قطب شہید سے اختلاف کیا اور کہا کہ تکفیر کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حسن الہضیبی کا اعتدال پسند رویہ، جو اخوان کے بانی حسن البناء کے نظریات سے ہم آہنگ تھا، اعتدال پسندی کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوا۔ اخوان میں جو لوگ تکفیر پر زور دیتے تھے وہ ناراض ہوئے اور الگ ہوتے چلے گئے۔ جمال عبدالناصر نے ۱۹۶۶ء میں سید قطب شہید کو پھانسی دے دی۔ وہ جہاد کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے۔ مصر کے الجماع الاسلامیہ کے ایک بانی رکن کا کہنا ہے کہ سید قطب شہید نے اسلامی دنیا میں جہادیوں کو غیرمعمولی حد تک متاثر کیا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اب اخوان کے ارکان نے سید قطب شہید کے نظریات کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخوان نے اعتدال پسندی کو اپنایا ہے اور اب اس پر یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ کی جو جدوجہد کر رہی ہے اس میں جمہوریت اس کے لیے خاصی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اسلامی قائدین کے ذریعے تشکیل پائے گا اور قائدین کا تعین انتخابات کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔
اخوان المسلمون نے اسلامی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے جمہوریت کو بہتر طریق کے طور پر اپنایا ہے اور اس سلسلے میں سیکولر، قوم پرست اور لبرل عناصر کے ساتھ بھی اتحاد سے گریز نہیں کیا۔ اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہونے والوں کی اکثریت نے اخوان سے انقلابیوں کو باہر نکالنے کا اہتمام کیا۔ اب اخوان کے انقلابی عناصر اس کے دائرے سے نکل کر گروپ بنا بیٹھے ہیں اور دنیا بھر میں حکومتوں کو گرانے کے درپے ہیں۔ یہ لوگ اخوان کی جانب سے جمہوریت کو اپنانے کے عمل کو بھی اسلام کی توہین سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔ (جاری ہے!)
رابرٹ لائکن نکسن سینٹر میں امیگریشن اینڈ نیشنل سیکورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر اور ’’یورپز اینگری مسلمز‘‘ کے مصنف ہیں۔ اسٹیون بروک نکسن سینٹر میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
(بشکریہ: ’’فارن افیئرز‘‘۔ مارچ، اپریل ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply