
۲۵ سالہ لیلا اہلالوم ایک جدید یورپی ترقی پسند خاتون کی نمایاں تصویر ہے۔ وہ منیجر کی حیثیت سے ایک عالی شان ہوٹل میں ملازمت کرتی ہے، عموماً اختتامِ ہفتہ پر کلب جاتی اور بہت ساری دوشیزائوں کی طرح کسی مناسب جوڑے کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ وہ جس ڈیزائن کے کپڑے پہنتی ہے یا جس قسم کا Sunglass استعمال کرتی ہے، اس سے آپ کو یہ اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ وہ شمالی افریقہ کے ایک اسلامی ملک کی ایک مسلم خاتون ہے۔ لیکن لیلا جس قدر اصلی مغربی تہذیب کی حقیقی نمائندہ ہے، اسی قدر وہ جدید مراکش کی بھی آئینہ دار ہے۔ لیلیٰ جو ثقافتی دارالحکومت Marrakech کی رہنے والی ہے، کا کہنا ہے کہ ’’یقینا ہم اپنی ثقافت سے محبت کرتے ہیں لیکن اب ہمارا طرزِ زندگی ایک یورپی طرزِ زندگی ہے‘‘۔ کیسی تبدیلی ہے۔ ۵۰ سال کا عرصہ گزر گیا جب مراکش نے فرانس سے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ پھر بھی مراکش کبھی بھی زیادہ مغربی نہیں رہا ہے۔ تبدیلی کو زرق برق نائٹ کلبوں میں اور سیاحت کے مقامات پر دیکھا جاسکتا ہے جو مراکش کے اُن ساحلی علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں جو بحیرۂ روم اور بحیرۂ اوقیانوس سے متصل ہیں۔ لیکن تبدیلی کا مزید قوت سے اظہار یورپ کی سیاسی، عدالتی اور مالی اصلاحات کو بڑے پیمانے پر اختیار کرنے کی شکل میں ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں مراکش کے ریکارڈ کو سطح پر، خواہ یہ مہاجرت سے متعلق ہوں یا پریس کی آزادی کے یا عورتوں کے حقوق سے متعلق ہوں، ازسرِ نو تشکیل دے رہی ہیں۔ مراکش میں ورلڈ بینک کے ملکی ڈائریکٹر Theodore Ahlers کا کہنا ہے کہ ’’بغیر کسی شک کے یہ ملک اس وقت سب سے زیادہ آزاد ہے جتنا کہ کبھی تاریخ میں رہا ہے۔ یہ مکمل طور سے باقی دنیا سے ملحق ہو رہا ہے‘‘۔ مراکش کی یہ قلبِ ماہیت اس خواب کی مرہونِ منت ہے جو وہ ایک دن یورپی یونین میں شامل ہونے کے حوالے سے دیکھ رہا ہے۔ سابق شاہ حسن دوم نے اس بات کو ۲۰ سال پہلے واضح کر دیا تھا، اگرچہ اُس زمانے میں یہ خواب بہت زیادہ مضحکہ خیز معلوم ہوتے تھے، اس مضحکہ خیزی کا تعلق اس حقیقت سے کم ہے کہ یہ ملک افریقہ میں واقع ہے، یورپ میں نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس کے حقوقِ انسانی کے ریکارڈ اور یہاں جمہوریت کے فقدان سے ہے۔ آج برسلز میں باضابطہ درخواست یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق مراکش کی موجود نہیں ہے لیکن وزیراعظم Driss Jettou ’’نیوزویک‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہم یورپ کی جنوبی پسلی بننا چاہتے ہیں‘‘۔ یورپی یونین کی جانب سے یورپی یونین کمشنر برائے خارجہ تعلقات Benita Ferrero-Waldner کا کہنا ہے کہ ’’مراکش کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے ہی سے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہم اسے مزید اہم حیثیت دینے پر غور کر رہے ہیں‘‘۔ یورپی طرز کے کھلے پن کی علامات مراکش میں ہر جگہ نمایاں ہیں۔ موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ جمہوری حکومت ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ سال کے انتخابات ملک کو پہلی بار ایک عوام کا منتخب وزیراعظم دے سکیں گے جبکہ اس سے پہلے حکومتی رہنما کا تقرر شاہ کی جانب سے ہوا کرتا تھا۔ حقوقِ انسانی کے حوالے سے مراکش کے بدترین ریکارڈ میں اب بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ ٹارچر اور من مانی گرفتاری میں ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔ سیاسی قیدیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر Joe Strok کا کہنا ہے کہ ’’ہم مراکش میں ملی جلی صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ ایک بہت ہی پسندیدہ تبصرہ ہے‘‘۔ اس سال کے اوائل میں شاہ محمد ششم اپنے عدالتی اور مصالحتی کمیشن پر توصیف حاصل کرنے کے بعد اس ٹارچر اور ظلم کی مذمت کی ہے جو اُن کے والد کے ۴۴ سالہ دور میں عام طور سے رائج تھا۔jettou کا کہنا ہے کہ ’’اب ہم پھر کبھی بھی اس کو نہ دہرانے کا عہد کراتے ہیں۔‘‘اگرچہ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ کمیشن نے ناموں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ عرب دنیا میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ اس وقت سب سے آگے ہے۔ شریعت پر مبنی عائلی قانون میں حالیہ اصلاحات عورتوں کو شادی کے دائرے میں مساوی درجہ دیتے ہیں اور عدالت سے طلاق طلب کرنے کا حق دیتے ہیں اور بچوں کو اپنی شہریت منتقل کرنے کا حق بھی دیتے ہیں۔ پریس کے پاس عدیم النظیر آزادی ہے۔ میگزین اب شاہی خاندان کی مالی معاملات کی بھی رپورٹ شائع کرتے ہیں جو پہلے کبھی شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان فلمی میلوں کو بھی ٹی وی اسکرین پر آزادی کے ساتھ دکھایا جاسکتا ہے جو بین الاقوامی سطح پر قابلِ قدر سمجھے جاتے ہیں مگر متنازعہ مواد سے خالی نہیں ہوتے ہیں۔ اس تیز رفتار تبدیلی کی حقیقت کی عملی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ ایک بہت ہی نامور مراکشی مصنف اور سیاسی حریف عبدالمامون دیوری یورپ میں ۳۵ سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد گذشتہ ماہ وطن لوٹ آئے ہیں۔ دیوری کی وطن واپسی اس بات کی علامت ہے کہ مراکش کے یورپ کے ساتھ بحیثیتِ مجموعی تعلقات پھر سے استوار ہو رہے ہیں۔ ان دونوں کے مابین تعلقات کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوئی جب ہزاروں سال پہلے شمالی افریقہ کے موری (Moorish) حکمراں یکساں طور پر مراکش اور اسپین کو کنٹرول کرتے تھے۔
مراکش اور یورپ کے مابین صرف ۱۴ کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ مراکش سے قریب ترین یورپی علاقہ آبنائے جبرالٹر سے متصل علاقہ ہے لیکن یہ فاصلہ بعد میں مذہبی محاذ آرائی میں تبدیل ہو گیاجو کلیسا و اسلام کے مابین تصادم کا مظہر تھی۔ یہ کشیدگی بیسویں صدی کے نصف تک مائل بہ عروج رہی جبکہ فرانس اور اسپین مراکش کو نو آباد یاتے ہوئے اس کے قدرتی منرل وسائل کا استحصال کر رہے تھے (واضح رہے کہ مراکش میں دنیا کا سب سے بڑا فاسفیٹ کا ذخیرہ موجود ہے)۔ جب ۱۹۵۶ء میں مراکش کو آزادی ملی تو شاہ حسن دوم نے یہ زحمت کی کہ یورپ سے ملک کا علیحدہ تشخص قائم ہو۔ اس کا ۴۳ سالہ بیٹا محمد ششم جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کبھی یورپی کمیشن کا نظربند تھا، نے اس سلسلہ کو دوبارہ شروع کیا۔ جب اس نے ۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالا تو اس کے بعد ۲۰۰۲ء میں عوام کی منتخب حکومت برسرِ اقتدار آئی اور پھر مراکش اور یورپ بتدریج ایک دوسرے سے نزدیک آتے چلے گئے۔ امسال تو ان دونوں کے تعلقات میں غیرمعمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ یورپ کا مراکش کے ساتھ Open-skies معاہدہ ہواجو یورپ نے اپنی سرحدوں سے باہر پہلی بار کسی سے کیا ہے۔ اس کا نفاذ اسی سال موسمِ گرما سے ہوا۔ یورپ اور مراکش نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اپنے آزاد تجارتی معاہدہ کو باہم فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں صرف وہی اشیا نہیں شامل ہوں گی جس کی تجارت ابھی جاری ہے بلکہ یہ ۲۰۱۰ء تک اس منصوبے میں تمام زراعتی اشیا اور سروسز کو بھی شامل کریں گے یعنی اس ملک سے یورپ اسی طرح معاملہ کرے گا جس طرح یورپی ممالک آپس میں باہم معاملات طے کرتے ہیں۔ گذشتہ سال ۷ء۱ بلین یورو کے ساتھ مراکش میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری دوگنی ہو گئی ہے (پراپرٹی میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے)۔ سرمایہ کا بیشتر حصہ یورپ سے آیا ہے۔ گذشتہ سال دونوں کے مابین تجارت کے حجم میں ۳۵ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ میں مراکش کی برآمدات جو آٹو موبائل پارٹس، الیکٹریکل کیبلز اور سوفٹ ویئر پر مشتمل ہیں، ۶ بلین یورو کے برابر ہوئی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مراکش بہت سارے پہلوئوں سے یورپ کے لیے ایک ناخوشگوار ہمسایہ ہے۔ حقوقِ انسانی کے حوالے سے اس کی تمام پیش رفت کے باوجود ملک کی خفیہ پولیس اپنی قوت کا استعمال خود اپنی مرضی سے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہے، خاص طور سے دہشت گردوں سے نمٹتے ہوئے۔ گذشتہ ماہ ۵۶ مشتبہ افراد جن کا تعلق القاعدہ کی ہم فکر تنظیم ’’مراکشی اسلامی جنگو گروپ‘‘ سے ہے، کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ملک اسلامی انتہا پسندی کا اب گڑھ ہے۔ اس نیٹ ورک نے اسے اہم دہشت گردوں کو پیدا کیا جن کا ۲۰۰۳ء میں میڈرڈ کے ٹرین بم دھماکے میں ہاتھ تھا جس میں کہ ۹۲ افراد ہلاک ہوئے تھے اور پھر انہی لوگوں نے ایک سال سے کم کے عرصے میں کاسا بلانکا میں بھی بم دھماکے کیے جن میں ۴۵ افراد ہلاک ہوئے۔
مراکشی اخبار “L`Economiste” کے ایک تازہ سروے کے مطابق ۱۶ تا ۲۹ سال کے مراکشیوں کا ۴۴ فیصد حصہ القاعدہ کو دہشت گرد تنظیم خیال نہیں کرتا ہے۔ دوسرا پیچیدہ مسئلہ غیرقانونی مہاجرت کا ہے۔ مراکش نے اب اپنی اس بدنامی کے دھبے کو دھونا شروع کر دیا ہے کہ وہ افریقہ سے یورپ میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کا دروازہ ہے۔ اس لیے کہ اس کی سرحدی پولیس ہسپانوی حکام کے ساتھ گہرے طریقے سے مربوط ہو کر کام کر رہی ہے اور یورپ پیسے خرچ کر رہا ہے لیکن یہ مسئلہ اتنا وبائی رہا ہے کہ مثلاً ڈچ ابھی تک ناقابلِ قبول مہاجروں کو مراکشی کہہ کر پکارتے ہیں حالانکہ وہ مراکشی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق مراکشی آبادی کا ۸ فیصد حصہ بیرونِ ملک رہتا ہے اور وہ بھی غیرقانونی طریقے سے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مراکشیوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے جن کی اوسط آمدنی ۱۶۷۷ ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ اس کا امکان بہت دور ہے، خاص طور سے اُن لوگوں کی نظر میں جو لوگ ابھی تک یہ خیال رکھتے ہیں کہ مراکش ایک غریب ترقی پذیر ملک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام اب ہونا شروع ہو گیا ہے۔ تعداد پر ذرا غور کیجیے۔ اسکول میں داخلہ لینے والے مراکشی بچے کی تعداد ۱۹۹۰ میں نصف سے زائد ہوا کرتی تھی، گذشتہ سال ایسے بچوں کی تعداد بڑھ کر ۹۳ فیصد ہو گئی ہے۔ اسی مدت میں بالغ افراد میں شرحِ خواندگی جو ۵۵ فیصد تھی، بڑھ کر ۴/۳ ہو گئی ہے۔ مراکش اس وقت عرب دنیا میں وہ واحد ملک ہے جو اپنی تجارتی اصلاحات اتنی تیزی سے کر رہا ہے جس کی بنا پر ایک تجارت دوست ملک کہلانے کا حق دار ہے۔ امسال اس کی اقتصادی شرحِ نمو تقریباً ۷ فیصد ہو گی جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں ۴ فیصد زیادہ ہے۔ افراطِ زر ایک فیصد سے تھوڑا زیادہ ہے۔ بے روزگاری میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور اب یہ ۱۱% ہے جبکہ یہ شرح بشمول دیہی آبادی ۵۰% سے زیادہ تھی۔ جس طرح سے امریکا اور برطانیہ کی کمپنیوں نے Outsourcing میں سہولت کے لیے اپنے معاون دفاتر بھارت اور چین میں کھول رکھے ہیں جہاں کہ انگریزی دوسری اہم زبان ہے، اسی طرح فرانس اور بلجیم نے اپنے بہت سارے کال سینٹرز، بینک کے دفاتر مراکش میں کھول رکھے ہیں جہاں زیادہ تر شہری فرینچ بولتے ہیں۔ حکومت اس طرح کے اقدامات کو اپنی اقتصادی ترقی کا اہم ذریعہ خیال کرتی ہے، اس لیے کہ اس پیش رفت سے مراکش کی ناقابلِ اعتبار زراعت کا بوجھ تجارت اور صنعت میں ترقی کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح حکام نے اپنے سالانہ بجٹ کا ۳۴% کمپیوٹر ٹیکنیشنز، انجینئرز، بزنس ایڈمنسٹریٹرز اور کال سینٹر آپریٹرز کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص کیا ہے۔ اس کا مقصد نجی تجارت میں یورپ کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے۔ حکومت ۵۰ لاکھ غریب مراکشی عوام کو ۲۰۱۰ء تک حفظانِ صحت اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے ایک ارب ڈالر کی رقم فراہم کر رہی ہے۔ ایک برطانوی تارکِ وطن Peter Dyer جو Marrakech کے قدیم ضلع Kasbah میں ۱۲ برس سے رہ رہا ہے، کا کہنا ہے کہ بعض حالتوں میں اتنی نمایاں تبدیلی آئی ہے کہ سابقہ حالت دوبارہ دیکھنے میں نہیں آتی ’’جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو اس ملک کی (برَبرَ) لڑکیاں بندھوا مزدور کی طرح گھروں میں قید ہوتی تھیں لیکن اب یہ صورت حال بالکل ختم ہو چکی ہے‘‘۔ سیاحت فروغ پارہی ہے۔ مراکش کی پُررونق ساحلوں کو ازسرِنو اسپین، فرانس اور یونان کے بحرروم سے متصل ساحلوں کے طرز پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ امسال ۶۰ لاکھ یورپیوں نے Visit کیا ہے جبکہ پانچ سال پہلے یورپی سیاحوں کی یہ تعداد ۲۵ لاکھ تھی۔ اندازہ ہے کہ ۲۰۱۰ء تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس لیے Costa del Sol کے ساتھ تعمیر کا پروگرام اولین ترجیح ہے۔ آئندہ ۴ برسوں میں پیشِ نظر ترقیاتی کام جن میں دس ہزار گھروں کی تعمیر اور چھ لاکھ افراد کے لیے روزگار کی فراہمی شامل ہیں، کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا پروگرام ہے۔ ساحل سے متصل چھ نئے تفریحی قصبے جنہیں Plan Azur کا نام دیا گیا ہے، زیرِ تعمیر ہیں اور جہاں پُرتعیش ہوٹل اور گولف کورسز بھی تعمیر کیے جارہے ہیں۔ Saidia Resort جو مراکش کے شمال میں بحیرۂ روم سے متصل ساحل پر ہے، وہ اسپین سے Murcia Beaches سے جنوب میں صرف ۷۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ زرق برق Resort ۸۸۰ سیٹوں والی تفریحی کشتی اور ۳ گولف کورسز پر مشتمل ہو گا۔ ساتھ ہی یہاں ۱۷۰ فائیو اسٹار بیچ کلب اور متعدد ریسٹورانٹ، کلب، سنیما اور عالی شان دُکانیں ہوں گی۔ اس Resort میں تین بیڈروم پر مشتمل ویلا کی قیمت ایک لاکھ ۸۵ ہزار اسٹرلنگ پائونڈ ہے۔ یہ ۵/۱ ہے، اُس ویلا کی قیمت کے جو Marcia’s La Manga Resort میں دستیاب ہے۔ Sadia کا ایک پراپرٹی ڈیلر Richard Dear کا کہنا ہے کہ یہ چالیس سال پہلے کے اسپین کی مانند ہے۔ یورپی تعطیل گزارنے کے لیے پرتگال کے مقابلے میں اب مراکش میں زیادہ گھر خریدتے ہیں۔ ہر کوئی اس آنے والے ہجوم کو خوش آمدید نہیں کہتا۔ رعایتی ایئر لائنز مثلاً یورپ کے Ryan Air اور Jety محض ۶۰؍اسٹرلنگ پائونڈ کے عوض پرواز فراہم کرتے ہیں۔ حال ہی میں اُدھر Eurostar-Like ٹرین کے منصوبے پر غور ہو رہا ہے جو جنوبی اسپین کو آبنائے حبرالٹر میں ایک سرنگ کے ذریعہ Tangier سے جوڑ دے گا۔ لیکن ناقدین کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ مراکش شمالی افریقہ کے ڈیزنی لینڈ کی طرح ایک تفریح گاہ ہو جائے گا اور اس کا اپنا کلچر Marbella طرز کے نخلستان اور بلند آہنگ برطانوی بیچلر پارٹیوں میں گم ہو جائے گا۔ Dyer جو Kasbah شہر میں ایک گیسٹ ہائوس کا مالک ہے، کا کہنا ہے کہ ’’میں پریشان ہوں کہ Marrakech پیکیج گروپوں کے سیلاب میں ڈوب جائے گا‘‘۔ اب بھی مراکش کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اُن کی نوعیت داخلی ہے۔ ورلڈ بینک کے Ahler کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج روزگار کا ہے۔ اگرچہ بے روزگاری میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم شہری علاقوں کے رہنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح اب بھی بہت اونچی ہے۔ ۳۵ فیصد یونیورسٹی گریجویٹ بے کار ہیں جس کی وجہ سے وہ بیرونِ ملک روزگار تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ Ahler کی فہرست میں غربت اور سماجی پسماندگی دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ آبادی کا ۱۵ فیصد یعنی ۴۵ لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے رہتے ہیں۔ Ahler کا کہنا ہے کہ ان دو مسائل سے کامیابی کے ساتھ نمٹنا مراکش میں معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کا واحد طریقہ ہے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ غیرقانونی ترکِ وطن پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اسلامی انتہا پسندی کی جاذبیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ تمام مسائل حل ہو جائیں تو کیا یورپ فی الواقع مراکش کو اپنے کلب میں شامل کر لے گا؟ بیشتر ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ امکان سے زیادہ خواب ہے۔ ایک مراکشی سفارت کار جس نے اپنے منصب کی وجہ سے اپنے نام کو پوشیدہ رکھنے کی تاکید کی ہے، کا کہنا ہے کہ ’’بعض لوگ اسے محض ایک خام خیالی تصور کرتے ہیں‘‘۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال ہو گا کہ رومانیہ اور بلغاریہ کو دس سال پہلے کلب میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی اور گذشتہ ہفتے انہیں شمولیت ملی۔ ترکی کو شامل کرنے کے حوالے سے یورپی یونین کا سرکاری موقف ظاہر کرتا ہے کہ مراکش کی اسلامی شناخت اس کی شمولت میں حائل نہیں ہو گی۔ وزیراعظم Jettou مستقبل سے متعلق بہت پُرجوش ہیں، جب مراکش یورپی یونین کا بالفعل رُکن ہو گا، خواہ اسے باضابطہ رکنیت حاصل ہو یا نہ ہو۔ وہ قیاس کرتے ہیں کہ ’’دس برس میں ہم یورپی یونین کے خاندان میں مکمل طور پر شریک ہوں گے۔ جب Romano Prodi (یورپی کمیشن کے سابق صدر اور اٹلی کے موجودہ وزیراعظم) یورپی یونین کی ہمسائیگی سے متعلق اپنی پالیسی کا ۲۰۰۱ء میں اعلان کیا تو ان کا مقصد تھا کہ ہم سب کو یورپی یونین کے فوائد سے مستفید ہونا چاہیے، اداروں کے بغیر ہی‘‘۔ آزاد تجارت کے معاہدوں کا بھلا ہو جو اس وقت برسلز اور رباط میں زیرِ بحث رہے ہیں کہ اس کے طفیل مراکش جلد ہی اس سمت میں ایک بڑا اقدام بڑھائے گا۔ یورپی یونین کمشنر Ferrero-Waldner کے مطابق یورپی یونین کا ارادہ مراکش کو بتدریج اہم سیاسی مباحث پر اپنے دائرے میں شامل کرنا ہے جو ترکِ وطن، سماجی مسائل، امورِ خارجہ اور دہشت گردی پر مشتمل ہوں گے۔ یہ ’’گہرا تعلق‘‘ جیسا کہ یورپی سفارت کار محسوس کرتے ہیں، ایک طرح کا علاقائی ماڈل ثابت ہو گا جس کی پیروی کرتے ہوئے شمالی افریقی اور عرب ممالک یورپی یونین سے تعاون کے ذریعہ بہت کچھ حاصل کرنے کی امید کر سکتے ہیں، وہ بہت سارے ممالک جنہوں نے ۱۹۹۵ء میں بارسلونا میں Euro-Med شراکت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے مثلاً الجزائر، اردن اور شام نے مطلوبہ لبرلرائزیشن کی رفتار دھیمی کر دی ہے اور نئی یورپی ’’ہمسائیگی‘‘ سے باہر کھڑے ہیں۔ برسلز میں Euro-Mediterranean کمیشن کے ایک رکن Erwan Lannon کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یورپ کا ان ممالک سے اقتصادی و معاشرتی اصلاحات کی توقع انہیں اپنی ممکنہ رکنیت کی یقین دہانی کے بغیر کرنا ہے۔ مراکش کی پھلتی پھولتی معیشت اور بہتر معیارِ زندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رکنیت کے ٹائٹل کے بغیر ہی یورپ کے ساتھ رابطہ واضح فوائد سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ امید ہے کہ یہ دو طرفہ عمل ہو گا۔ یورپی فیشن میں مراکش کے اثرات پہلے ہی سے نمایاں ہیں مثلاً ’’وہاں ڈھیلا ڈھالا لباس (Kaftan) اور قبائلی طرز کے ملبوسات کا رائج ہونا۔
پراپرٹی ڈیلر وفا اسنیبلا کا کہنا ہے کہ ’’یورپی ہمارے کلچر سے خاصے متاثر ہیں۔ ان کے گھر ہم سے زیادہ مراکشی ہیں‘‘۔ مراکش کے نئے زرق برق Ibiza-Style Superelub Pacha میں جہاں لیلیٰ اہلالوم اپنی دوستوں کے ساتھ رقص کو جاتی ہے، ہونے والی تقریب کا نظارہ سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔ اتنے سارے تعمیراتی مقامات اور گولف کورسز اور سیاحوں سے بھرے کلبس اسی صحرا سے ابھرے ہیں۔ داخلہ فیس فی آدمی بیس ڈالر ہیں۔ واضح رہے کہ کلب کا دروازہ سبھوں کے لیے نہیں کھلا ہوا ہے بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مراکشیوں اور یورپیوں کے لیے ہے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ ۹؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply