یہ امر صدیوں سے مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کا عروج و زوال، انحطاط و ارتقاء اور نشیب و فراز اس کی تعلیمی و تہذیبی بلندی اور پستی میں مضمر ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جن قوموں کے علم و ادب کا ستارہ جب تک اوجِ ثریا پر رہا، ان کی اقبال مندی کے ڈنکے بجتے رہے اور جب ان کے اندر تعلیمی شعور مفقود ہو گیا تو وہی قومیں ذلیل ہو کر محکوم ہو گئیں۔
آج کل مدارس اسلامیہ میں علوم عصریہ اور سائنسی علوم کو داخل نصاب کرنے کی آواز ملک کے مختلف حلقوں اور دانشوروں کی طرف سے اُٹھ رہی ہے، اہل مدارس بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، جو خوش آئند اور ان کی علم و ادب کے تئیں بیداری کی غماز ہے۔
بیداروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراں
اک شمع لیے تم بھی یہاں جاگتے رہنا
سائنس اور ٹیکنالوجی اور کتاب و سنت میں کوئی ٹکرائو نہیں ہے۔ اگر بعض امور میں ناموافقت ہے تو یہ ہماری سائنسی تحقیق کی کم مائیگی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ عہد صحابہؓ اور ان کے بعد کی نسلوں نے بھی وقت اور حالات کے تحت علوم قرآن و احادیث کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ کی دولت سے بھی اپنے دامن تہی کو بھرنے کی سعئی بلیغ کی ہے۔ صحابۂ کرامؓ کو جب اسلام کی نشرو اشاعت میں ضرورت پڑی تو انہوں نے فارسی اور عمرانی زبانیں سیکھنے میں بھی کوئی قیل و قال نہ کیا انگریزی کو دین کی نشرو اشاعت اور تبلیغ و ارشاد کا ذریعہ بنا کر سیکھنا کارِ ثواب نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ اسلام کی تبلیغ و تشہیر کے لیے انگریزی کی غیر معمولی اہمیت ہو گئی ہے؟ اگر انگریزی اور دیگر زبانوں کو ہم اچھوت سمجھ کر بھاگتے رہے تو غیر مسلموں اور غیر اردو داں طبقوں میں اشاعت و تبلیغ دین کے وقت ہم اپنے مافی الضمیر کو کیسے ادا کر سکیں گے؟۔
آج کے اس ترقی پذیر دور میں کسی بھی علم کا حاصل کرنا بُرا نہیں ہے، ہاں اس کا بے محل استعمال بُرا ہے۔ انگریزی تعلیم بُری نہیں بلکہ انگریزی تہذیب بُری ہے۔ وہ پہلو جو اسلام، ایمان اور اخلاق کے لیے ضرر رساں اور سمِ قاتل ہے اس سے پہلو تہی نہ کرنا شرعاً اور معاشرتاً دونوں ہی حیثیت سے بُرا ہے، جس سلسلے میں باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔
اگر بچوں کو ابتداً قرآن، دینیات، فقہ و عقائد کی مضبوط انداز میں تعلیم دے دی جائے پھر اسکول و کالج یا کسی بھی عصری علوم کی درسگاہوں میں انہیں داخل کیا جائے تو عیسائی مشنری یا اسلام مخالف باطل طاقتیں ان طلبۂ عزیز کے قلوب و اذہان پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گی کیونکہ اسلام کی حقانیت، قرآن پاک کی صداقت اور عقائد کی صلابت ان کے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں کچھ اس طرح رچ بس جائیں گی کہ وہ فحش و گمراہ کن لٹریچر اور دین و فکر کو خراب کرنے والی باطل قوتوں کے لیے واٹر پروف اور سد سکندری کا کام دیں گی۔ مگر وائے افسوس کے آج اسلام بیزاری اور ہوا و ہوس کے امنڈتے ہوئے سیلاب میں طلبہ اور ان کے سرپرستان کچھ اس طرح ناعاقبت اندیشی کے ساتھ بہے جا رہے ہیں کہ اولاً کتاب و سنت اور عقائد اسلام کی تعلیم دلا کر، اس کے بعد عصری درسگاہوں میں دخل کرنا اپنی کور مغزی کی وجہ سے تضیغِ اوقات تصور کرتے ہیں، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
خست اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
آیئے میں آپ کو تاریخ کے آئینے میں مختلف زبانوں اور علوم سے اپنے اکابر و اسلام کے ذوق و شوق کی ایک جھلک دکھاتا ہوں کہ مسلمانوں نے زبان دانی کے معاملے میں کبھی بھی تعصب کو راہ نہیں دی بلکہ ملکی و غیر ملکی، دوست ودشمن سبھی کی زبانوں کو علم برائے علم سیکھا ہی نہیں بلکہ اس میں دسترس، مہارت اور اعلیٰ درجے کا درک و کمال بھی حاصل کیا۔
چنانچہ ہندی علماء میں ایک کا نام تاریخ میں آتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی خاص علمی زبان سنسکرت میں بھی کافی درک حاصل کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بیرون ہند سے بھی علمائے کرام ہندوستان آکر سنسکرت اور دیگر مروجہ زبانوں کا علم حاصل کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی نزہتہ الخواطر میں تحریر کرتے ہیں:
’’فاضل شیخ علی حیدری ان علماء میں سے ہیں جو باہر سے ہندوستان میں آئے، وہ گجرات آئے اور کھمبائت میں قیام کیا، ہندو پنڈتوں کے گروہ سے انہوں نے اہلِ ہند کے علوم سیکھے، ان کی زبان سیکھی اور مدت تک انہی میں رہے، پھر وہ پنڈت جو ان کا استاذ تھا اس پر اسلام پیش کیا، خدا نے پنڈت پر احسان کیا اور وہ مسلمان ہو گیا اس کی وجہ سے گجرات میں لوگ بکثرت اسلام میں داخل ہوئے‘‘۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر شیخ علی حیدری سنسکرت زبان کو ہندوئوں کی مذہب زبان سمجھ کر رد کر دیتے اور پنڈتوں کے قریب ہو کر تبادلۂ خیال کر کے اسلام کی حقانیت کو ثابت نہ کرتے تو پنڈت اور اس کے علاوہ بہت سارے دیگر گجراتی حضرات کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دولت ایمان و اسلام سے بہرہ ور ہو کر سعادت مندی سے ہمکنار ہو سکتے یا نہیں؟ مانا کہ مشیت ایزدی یہی تھی مگر سبب تو خدا نے شیخ علی حیدری کی تبلیغ ہی کو بنایا۔
علی حیدری ہی نہیں بلکہ ان جیسی اور بھی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے سنسکرت و دیگر علوم عصریہ حاصل کر کے ان میں مہارت تامہ حاصل کی ہے۔ جیسے مولانا شیخ عنایت اللہ بلگرامی عربی، فارسی و بھاکا، موسیقی، ہندی اور سنسکرت اور سنسکرت کے بھی شاندار اور باکمال عالم تھے، سنسکرت اور علوم عصریہ کو ماضی قریب و بعید میں بھی علم برائے علم حاصل کرنے کا لوگوں میں بڑا جوش و خروش رہا ہے اور حال میں تو یہ جذبۂ تحصیل علومِ عصریہ روز بروز ارتقائی منازل طے کرتا جا رہا ہے، جس کا ثمرہ ہے کہ ماضی میں بھی ملک کے مختلف گوشوں میں چترویدی علمائے کرام پیداد ہوئے اور انہوں نے غیر مسلموں تک اسلام پہنچانے کا خوشگوار فریضہ انجام دیا ہے اور آج تو اس کی طرف رجحانات اختصاص کی صورت میں بہت عام ہو گئے ہیں۔ ماضی قریب کی ان مثالوں کے علاوہ ماضی بعید میں تو بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
امام رازی مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ نامور طبیب بھی تھے، محمد بن شہاب زہری فقیہ زمان کے ساتھ ساتھ جغرافیہ داں بھی تھے، ابن مراکشی عالم دین کے ساتھ ساتھ علم ہیئت، ریاضی، نجوم اور طب کے بھی ماہر تھے، امام التفتا زانی مفسر قرآن کے ساتھ ساتھ مابعد الطبیعیات کے معروف عالم تھے، جابر بن حیان عالم دین کے ساتھ ساتھ کیمیا کے بھی ماہر تھے، الخوارزمی کی کتاب مفتاح العلوم نہ صرف علم دین سے متعلق ہے بلکہ ریاضی، کیمیا، علم ہیئت وغیرہ علوم کو حاوی ہے۔ یہ تو بطور مشتے نمونہ از خراورے میں نے چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔
آج، جب کہ آئے دن اسلام مخالف طاقتوں کی طرف سے کبھی رشدی ملعون اور تسلیمہ نسرین وغیرہ کی صورت میں اسلام، پرسنل لاء، مدارس اور مساجد وغیرہ پر حملے کیے جا رہے ہیں، ایسے نازک وقت میں ایسے افراد اور رجال کار کا تیار کرنا نہایت ضروری ہے جو ان کی زبان میں ان کے اعتراضات کا دندان شکن جواب دے سکیں اور ان کے ناپاک عزائم سے قوم کو بروقت باخبر کر سکیں اور آنے والے مسائل سے نمٹنے اور ان کی کاٹ کرنے کے لیے پہلے ہی ہر طرح سے تیار رہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ہر جگہ حکماء و فلاسفہ کا دور دورہ تھا۔ اسلام پر مختلف زاویوں سے اعتراضات کیے جاتے، سادہ لوح مسلمانوں کو مذہب سے برگشتہ و بیزار کرنے کی سعیٔ نامسعود کی جاتی تو اس وقت ہمارے اسلاف نے قرآن و احادیث کے ساتھ ساتھ منطق و فلسفہ اور حکمت کو بڑے ہی ذوق و شوق سے وقت کی ضرورت سمجھ کر داخل نصاب کیا اور خود بڑھ کر طلبہ کو پڑھایا اور پھر اس کے بعد حکماء و فلاسفہ کو (مسکت) جواب دے کر مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل ہونے سے بچایا۔
میں اپنے جدید صالح و قدیم نافع کے حسین امتزاج والے مؤقف کی تائید میں سابق گورنر بہادر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے کلیدی خطے کا اقتباس پیش کر رہا ہوں جو انہوں نے علماء و فضلاء کو خطاب کرتے ہوئے شری کرشن میموریل ہال پٹنہ میں پیش کیا تھا:
’’دنیا اور دنیا کی کوئی شے بذاتِ خود بُری نہیں ہے، اس کا استعمال اور استعمال کرنے والا بُرا ہوتا ہے، دین اور سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی ٹکرائو نہیں ہے۔ کوئی تضاد نہیں ہے دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا انسان کی بقاء اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ دین اور دنیا کے ٹکرائو کا تصور یا تو پسماندہ ذہنوں کی پیداوار ہے جو تن آسانی کے خواہشمند ہوتے ہیں یا پھر ترقی یافتہ ملکوں کا ایک حیلہ بن گیا ہے جس کے ذریعے وہ ہمیں خوف و ہراس میں مبتلا کر کے مفلسی اور جہالت کے تاریک گوشوں میں بند دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے مبادا ہم آگے نہ نکل جائیں۔
میں گورنر موصوف کے اس خیال سے اتفاق کرتا ہوں اور مسلمانوں کو اسے عملی زندگی میں ڈھالنے کی ترغیب بھی دیتا ہوں، کیوں کہ نبی رحمتﷺ کے قول پاک سے بھی اس کی تائید ہو رہی ہے، الحکمۃ ضالۃ المومن الخ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر بزرگوں کے خطوط کو اسوۂ حسنہ بنا کر اپنی علمی و ادبی زندگی کا رُخ متعین کیا جائے اور محنت و لگن اور شوق و ذوق کا ثبوت دے کر اپنے مدارس اور اپنے طلبۂ عزیز کے روشن مستقبل کے لیے ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ میدانِ عمل میں آئیں تو ایک بار پھر ہر جہت میں علم جدید و قدیم کے حسین امتزاج کے ساتھ علم و ادب، تہذیب و تمدن اور قابل تقلید کلچر و ثقافت کا بازار گرم ہو کر اسلاف کی یاد تازہ کرسکتا ہے‘‘۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
(اقبالؔ)
(بحوالہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ دہلی۔ دسمبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply