’’جدید ترک جمہوریہ‘‘ ایک نئی بحث

خلافتِ عثمانیہ کے باقاعدہ خاتمے کو اب ۹۰ برس ہو چکے ہیں، اکتوبر کی ۲۹ تاریخ کو ہر سال اس ’’عظیم الشان‘‘ کارنامے کو یاد کیا جاتا ہے اور ’’جدید ترکی‘‘ کے معماروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس سفر کے سنگ ہائے میل کو بھی اس غرض سے لوگوں کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ ’’جدید‘‘ ترکی کے معماروں نے جو آئیڈیل ان کے سامنے رکھا تھا وہ ذہنوں سے کہیں اوجھل نہ ہو جائے۔ اس موقع پر اس ’جدید ترک جمہوریہ‘ کو لاحق خطرات سے بھی آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ اس دوران ترکی بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ ۱۹۲۳ء میں اس کے لیے جو ماڈل تیار کیا گیا تھا، اس سلسلے میں سوالات بھی اٹھے۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی اس کی افادیت کے بارے میں ازسرنو سوچنے کا رجحان پیدا ہوا۔ کچھ سیاسی قوتیں بھی وہاں ایسی ابھریں جنہوں نے اس سوچ کو پروان چڑھایا، اس کو عام اذہان میں راسخ کرنے کی کوششیں بھی کیں، لیکن ۱۹۲۳ء میں قائم کردہ ’روایت‘ کے تحفظ کو نمایاں اہمیت حاصل رہی۔ اس روایت کی پاسبان وہاں کی مسلح افواج کو سونپی گئی تھی، اس لیے کہ اُسے اِسی مقصد سے برپا کیا گیا تھا۔ تاہم ترک عوام کے ذہنوں سے اس کا شاندار ماضی کچھ اس طرح پیوست رہا کہ اس کو بھلانا آسان نہیں تھا۔ اس لیے جب جب اس کو آواز دی گئی، وہاں ایک نئی موج اٹھی۔ ترک سماج میں تموج سا آیا۔ یہ وہاں موجود رہی۔ بہت کچھ بدلا، تاہم یہ احساس کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آلودہ تھا، شفاف نہیں تھا، مگر اس کی موجودگی ہی اس امید کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی کہ اس کو ایک توانا احساس بنایا جاسکتا ہے، اس کی آلودگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔

ایک بار پھر وہاں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ۱۹۲۳ء میں قائم کیا گیا نظام موجودہ حالات اور ضرورتوں کا ساتھ دے رہا ہے، اس سے مطابقت رکھتا ہے یا اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ترکی کو اسی راستے پر گامزن رہنا چاہیے جو ’جدید ترک جمہوریہ‘ کے معماروں نے اسے دکھایا تھا، یا رُک کر یہ غور کرنا چاہیے کہ اس پر چلنے سے بحیثیت قوم، ترکوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی کے حالات نے جو انداز اختیار کر لیا ہے، اس نے جہاں کچھ لوگوں کو پرامید بنا دیا ہے، وہیں بعض حلقوں میں تشویش کی لہر بھی دوڑا دی ہے۔ کیونکہ وہ حلقے ترکی کو وہاں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں اسے ۱۹۲۳ء میں نصب کیا گیا تھا۔ اس جگہ سے اس کا ہٹنا ان کے لیے باعثِ رنج ہے۔ اس وقت ترکی میں موجودہ دستور کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی ہے، اس نے بہتوں کو پریشان کر دیا ہے۔ پریشانی کا سبب یہ ہے کہ یہ بحث عوامی سطح پر نہیں شروع ہوئی ہے، نہ چند مخصوص حلقوں میں اس پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے، بلکہ ترک قانون ساز ادارے نے اس سلسلے میں صلاح و مشورے کا عمل شروع کیا ہے۔ جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ایک نئے دستور کی تشکیل پر منتج ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ترکی میں جو دستور نافذ ہے، وہ ۱۹۸۰ء میں ایک فوجی بغاوت کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔ ترک پارلیمان کی اس پہل کا عوامی حلقوں کی طرف سے خیرمقدم ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کو تحسین بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں عوامی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے جو بعض حلقوں کے لیے ایک تشویشناک امر ہے جو ایک خطرہ کی صورت بھی لے سکتا ہے۔ بعض حلقے تو دوٹوک الفاظ میں اسے ترکی کے موجودہ سیاسی نظام کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

(بشکریہ: ’’سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۴ جون ۲۰۱۳ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*