
بھارت کے سرکردہ مسلم تعلیمی اداروں کے سربراہان اور تعلیمی میدان میں سرگرم شخصیات میں یہ احساس تیزی سے ابھر رہا ہے کہ یکے بعد دیگرے مرکزی حکومتیں ’’مدرسہ جدید کاری‘‘ کے عنوان پر بڑی چالاکی کے ساتھ مسلمانوں کے اصل تعلیمی مسائل اور مطالبات کو نظرانداز کرتی آئی ہیں اور اس کا مداوا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب تعلیم کے متعلق اداروں اور تعلیمی پالیسی سازی کے عمل میں مسلم نمائندوں کو شامل کیا جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نصابی کتب میں زہریلا مواد تیزی سے داخل کرنے کی کوششوں کا تدارک ہو سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے ۹۶ فیصد بچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن انہیں عصری تعلیم کی وہ سہولیات میسر نہیں ہیں جو دیگر اقوام کے بچوں کو حاصل ہیں۔ حکومت مدارس کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نئی حکومت کی مثال سامنے ہے جس نے صدر جمہوریہ ہند کے پارلیمان سے خطاب میں مدارس میں جدیدیت (ماڈرنائزیشن) لانے کے پروگرام کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ یعنی اس سے یہ پیغام دینا تھا کہ مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی وجہ مدرسہ کی تعلیم ہے اور دوئم یہ کہ مسلمان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو جدید تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ اس طرح حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اپنی ان ناانصافیوں پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں جو ملک کے دوسرے بڑے مذہبی فرقہ کے ساتھ آزادی کے بعد سے روا رکھی گئی ہیں۔
یہ بھی ایک بیّن حقیقت ہے کہ مسلمان شعبہ تعلیم کو ترقی دینے کے معاملہ میں کسی بھی دوسری قوم سے پیچھے نہیں ہیں۔ بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں میں انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں بنیادی اور اعلیٰ تعلیم کے بڑے بڑے اور معیاری ادارے قائم کیے ہیں، جس سے نہ صرف مسلم بلکہ برادرانِ وطن بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ ممبئی کے ۱۴۰؍سالہ قدیم ادارے انجمن الاسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر آئی قاضی اس بات کی پرزور وکالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیمی حالت مزید بہتر بنانے کے لیے ان کے اہلِ علم حضرات کو فیصلہ سازی کے عمل میں مناسب نمائندگی ملنی چاہیے۔ خیال رہے انجمن کے تحت سو سے زائد اسکول، کالج اور پولی ٹیکنک ادارے چلتے ہیں۔ پالیسی ساز اداروں میں اقلیتوں کی عدم نمائندگی یا برائے نام نمائندگی سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بطور مثال بارہویں پنج سالہ منصوبہ میں حکومت نے اقلیتی ارتکاز والے اضلاع میں لڑکیوں کے لیے ۱۰۰؍ہاسٹل قائم کرنے کی مد میں ایک بڑی رقم منظور کی، تاہم زمین نہ ملنے کی وجہ سے ایک بھی گرلز ہاسٹل تعمیر نہ ہوسکا۔ قاضی کہتے ہیں کہ اقلیتوں سے متعلق اسکیمیں کاغذوں میں بڑی خوشنما نظر آتی ہیں۔ وہ خود بھی وزارتِ فروغِ انسانی وسائل کی اقلیتی اسکیموں کے نفاذ سے متعلق سب کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ ان کے بقول اگر اقلیتی تنظیموں کو نفاذ کے عمل میں شامل کیا جاتا تو وہ ان اسکیموں کو عملی جامہ پہنانے میں مدد کرتیں۔
اس مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم کے ایس نارائنن نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ادارے تعلیم کے فروغ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، مگر اس پہلو کو میڈیا اجاگر نہیں کرتا۔ انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ہر حکومت نے اقلیتوں کی تعلیم اور ان کے تعلیمی اداروں کو مدد دینے کا وعدہ کیا لیکن اس پر شاید ہی عمل ہوا۔ ان کے بقول اقلیتی فرقوں میں یہ احساس تیزی سے ابھر رہا ہے کہ انہیں بھی فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنایا جائے، نیز شعبہ تعلیم کے متعلق سرکاری اداروں میں ان کی بات سنی جائے۔
حکومتوں کی طرف سے صرف مدرسوں کی طرف توجہ دینے پر بھی وہ شاکی ہیں جبکہ عصری تعلیم تک رسائی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ اس بارے میں اقلیتوں کے زیرِانتظام اداروں کی انجمن کے چیئرمین تاج محمد خان نے کہا کہ حکومتوں کی ساری توجہ مدارس کی جدید کاری کی طرف ہے اور اس کے نام پر کسی مدرسہ کو کمپیوٹر سیٹ یا عصری مضامین کے ایک دو استاد فراہم کر کے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔
اس مرتبہ ’’مدرسہ جدید کاری‘‘ اسکیم کا خوب شہرہ کیا گیا کہ بی جے پی کے زیر قیادت نئی مرکزی حکومت نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۱۰۰ کروڑ روپے فراہم کیے۔ جبکہ اس کی پیشرو یو پی اے حکومت نے اس مد میں ۱۵۰؍کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ آج تک اس مد کے پورے پیسے کبھی استعمال نہیں ہوئے۔
تاج محمد خان نے جو میسور (کرناٹک) میں رفاہ المسلمین ٹرسٹ کے تحت متعدد تعلیمی ادارے چلاتے ہیں (جن میں پانچ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں) نے کہا کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو وسائل کے علاوہ سرکاری سطح پر بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ’’آئین کی دفعات ۲۹ اور ۳۰ کے تحت اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے، لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس راہ میں متعدد رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کرتی ہیں‘‘۔ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلا مسئلہ این او سی کا ہے۔ تمام چیزیں ضابطہ کے مطابق ہونے کے باوجود ریاستی حکومتیں ان کے جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں یا اس سے صاف انکار کر دیتی ہیں۔ گرانٹ اور اسٹاف سے متعلق بھی مسائل ہیں۔ کرناٹک میں ۲۵ طلبہ پر ایک استاد کا ضابطہ ہے، لیکن اس کا اطلاق اقلیتی اداروں میں نہیں ہورہا ہے، جہاں ۷۰ طلبہ پر ایک استاد ہے۔ اپنے اسکول کی مثال پیش کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے ایک اسکول کے پانچ اساتذہ ۲۰۰۹ء میں سبکدوش ہوئے ہیں، لیکن ان کی جگہ ابھی تک بھری نہیں جاسکی ہے، کیونکہ ریاستی حکومت کفایت شعاری کے نام پر ان کی منظوری دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’حکومت صرف عربی مدرسوں کی طرف کیوں توجہ دیتی ہے، اس کے پیچھے کیا مقصد ہے، جہاں صرف چارفیصد بچے ہی تعلیم کے لیے جاتے ہیں۔ مجھے اس کا جواب آج تک نہیں ملا‘‘۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ آج ہر مدرسے میں عصری مضامین اور کمپیوٹر کی تعلیم کا انتظام ہے۔ ان کی تائید کرتے ہوئے تامل ناڈو کی تحسین بی بی ویمن کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سمیہ نے شکوہ کیا کہ ’’مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کو مدرسہ اور اردو تک محدود کر دیا گیا ہے اور ان کے اصل مسائل کو نظرانداز کیا جارہا ہے‘‘۔ اس صورتحال سے معروف نغمہ نگار جاوید اختر بھی نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیتی امور کی وزیر ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ کو مدرسوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ انہیں عطیات کی شکل میں معقول مالی وسائل دستیاب ہیں۔ مدارس اپنے وسائل پیدا کرنے کے خود مکلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی وزیر مسلم علاقوں میں پرائمری اسکول کھولنے کی طرف توجہ دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
ایک اہم مسئلہ الحاق کا ہے۔ مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں کو اس سلسلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں حیدرآباد کی مسلم ایجوکیشنل، سوشل اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (میسکو) کے بانی ڈاکٹر فخرالدین محمد کہتے ہیں کہ سی بی ایس ای کے طرز پر ایک نیا بورڈ قائم کیا جائے تاکہ اقلیتوں کے زیر انتظام ہائر سیکنڈری اسکولوں کو الحاق کے سلسلے میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ اپنا تعلیمی معیار بھی برقرار رکھ سکیں۔ انہوں نے اس پہلو پر بھی توجہ دلائی کہ مسلم تعلیمی اداروں کو تعلیمی میدان میں رونما ہونے والی تیزرفتار تبدیلیوں کا سامنا کرنے میں وسائل کی کمی کے نتیجے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ مزید براں یہ کہ مسلم بچوں میں ترکِ تعلیم کی شرح کے سلسلے میں کوئی جامع سروے نہیں ہوا ہے، نہ ہی اس بارے میں پختہ معلومات ہیں کہ کتنے مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے مواقع حاصل ہیں، کتنے پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کتنوں کو ملازمت ملی ہے؟
ایک بڑا مسئلہ زمینوں کے حصول کا ہے، شہری علاقوں میں زمین حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ حکومت تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے رعایتی دام پر زمینیں فراہم کرتی ہے، لیکن اس معاملہ میں بھی مسلم اداروں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ مراد آباد کے مے فیئر کالج کے بانی ایم اے منصور نے کہا کہ سنسکرتی ودیالیہ اور دہلی پبلک اسکول کو رعایتی دام پر زمینیں فراہم کی جاتی ہیں، لیکن اقلیتی اداروں کو تمام ضوابط پورا کرنے کے باوجود یہ سہولت نہیں ملتی۔ دہلی کا قومی اردو ہائر سیکنڈری اسکول اس کی ایک واضح مثال ہے۔ یہ ایمرجنسی کے زمانے میں حکومتی عتاب کا شکار بنا تھا، جب اس کی پختہ عمارت کو پرانی دہلی کو کشادہ کرنے کے نام پر حکام نے منہدم کر دیا تھا، مگر آج تک اسے مناسب متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی۔ یہ اسکول ایک طویل عرصہ سے عیدگاہ کے احاطہ میں تعمیر کیے گئے پتھروں سے بنے عارضی کمروں میں چل رہا ہے۔
کیرالا کے ضلع ملاپورم میں واقع معدن اکیڈمی کے سربراہ ابراہیم خلیل بخاری نے کہا کہ ملک کے شمال اور مشرقی علاقوں کے پسماندہ حصوں میں تعلیمی ادارے اور سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ معدن اکیڈمی کے تحت ۲۵ تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ آسام میں رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل کے قائم کردہ اجمل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نمائندہ نورالشکر نے کہا کہ ریاست میں مسلمانوں کی تیس فیصد سے زائد آبادی ہے لیکن ان میں شرح خواندگی ہندوستان کے دیگر حصوں کے مسلمانوں کی شرح خواندگی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لیے عصری اور اعلی تعلیم تک رسائی دراصل مسلمانوں کا اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسلم لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے ہاسٹل تعمیر کیے جائیں۔ ہمسایہ ریاست تریپورہ کی مثال پیش کی کہ وہاں وقف بورڈ کی مدد سے لڑکیوں کے لیے ہر ضلع میں ہاسٹل تعمیر کیے گئے ہیں۔ خیال رہے اجمل فاؤنڈیشن کے تحت ریاست میں ۱۸ کالج اور کئی اسکول چل رہے ہیں۔
فروغِ تعلیم نسواں بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کی کمیٹی برائے گرلز ایجوکیشن اور آل انڈیا کنفیڈریشن فار ویمنس امپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن کی سربراہ ڈاکٹر شبستان غفار نے کہا کہ ان کی کمیٹی نے سابقہ حکومت کو لڑکیوں کی تعلیم میں حائل مشکلات دور کرنے کی جہت میں ۳۰ تجاویز پیش کی تھیں۔ لیکن ان پر ابھی تک ٹھیک طرح سے عمل نہیں ہوا۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیئرمین جسٹس (ر) محمد سہیل اعجاز صدیقی نے یہ شکوہ کیا کہ ان کے کمیشن نے اپنی تاسیس سے لے کر اب تک دس ہزار سے زائد اقلیتی اداروں کو اقلیتی درجہ عطا کیا ہے۔ مگر مسلمان اس سے اب تک خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اقلیتی درجہ حاصل کرنے والے ۹۰ فیصد ادارے عیسائی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں نجی شعبے کا عمل دخل تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ درجنوں کی تعداد میں غیر سرکاری جامعات اور کالج قائم ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم تک ایک عام آدمی کی رسائی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ تعلیم ایک بڑا کاروبار بن گئی ہے، ان حالات کا مقابلہ حکومت اس صورت میں کرسکتی ہے کہ وہ ایسے اداروں کی مدد کرے جو کمزور اور اقلیتی طبقات کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے شعبے سے اپنا ہاتھ کھینچتی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھو ڑا جارہا ہے۔
ان سب نامساعد حالات کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے میگھالیہ جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی قائم کی ہے۔ پونا میں بی اے انعام دار کی کاوشوں کی بدولت اعظم کیمپس کسی یونیورسٹی سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالا، تمل ناڈو، آسام، راجستھان اور مہاراشٹر میں مسلمانوں کے قائم کردہ میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر اعلیٰ فنی علوم کے کالج ملک کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں الامین گروپ، شاداں ایجوکیشنل گروپ، دارالسلام ایجوکیشنل ٹرسٹ، انجمن خیر الاسلام ٹرسٹ، مولانا آزاد ایجوکیشن ٹرسٹ، اجمل فائونڈیشن، مسلم ایجوکیشنل سوشل اینڈ کلچرل آرگنائزیشن، جے ڈی ٹی اسلام گروپ آف انسٹی ٹیوشنز، رفاہ المسلمین ایجوکیشنل ٹرسٹ اور مارواڑ مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں، جو اعلیٰ اور فنی تعلیم کے کئی کئی ادارے چلا رہے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے سیکڑوں کی تعداد میں انگریزی میڈیم کے پبلک اسکول قائم کیے ہیں۔ مگر ان اداروں کی سرکاری سطح پر جو پذیرائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ خیال رہے، حال ہی میں دارالحکومت نئی دہلی میں منعقدہ ڈیجیٹل ورلڈ ایجوکیشن کی چوتھی دو روزہ کانفرنس میں بھی اقلیتوں کی تعلیم: مواقع اور مشکلات کے موضوع پر کھل کر بحث ہوئی تھی جس کا اہتمام ایک غیر مسلم تنظیم نے کیا تھا۔ مگراس میں مسلمانوں کی عصری تعلیم پر خصوصی اجلاس رکھا گیا تھا۔ کانفرنس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مدارس کے بجائے مسلمانوں کو عصری تعلیم کے حصول میں حائل مشکلات دور کرنے اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں اکثریتی تعلیمی اداروں کی طرح سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ دے اور مدارس کو ان کے حال پر چھوڑ دے، جس میں بمشکل دو یا تین فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۰؍ستمبر ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply