
کشمیر کی صورتِ حال صاف بتارہی ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد پر قائم دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو جُوتے کی نوک پر رکھنے کے حوالے سے مودی، نیتن یاہو، شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک صف میں، بلکہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
اہلِ کشمیر کو آزادی یا حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے حوالے سے نریندر مودی کا حالیہ اقدام تاریخی اعتبار سے کس طرح کا ہے، اِس کا درست اندازہ لگانے کے لیے ہمیں ۱۹۵۲ء میں تب کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے الفاظ پر غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا ’’کشمیر بھارت کی جاگیر ہے نہ پاکستان کی۔ یہ تو کشمیریوں کا ہے۔ جب جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق کیا گیا تھا تب ہم نے کشمیری قیادت اور عوام دونوں پر واضح کردیا تھا کہ ہم حرفِ آخر کے طور پر وہی بات مانیں گے جو استصواب رائے میں کہی گئی ہوگی۔ اگر کشمیری ہم سے کہیں گے کہ کشمیر سے نکل جاؤ تو ہم اُن کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں سے نکلنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ہم نے معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچایا ہے اور یہ عہد بھی کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے حوالے سے عالمی برادری کے فیصلے کا مکمل احترام کیا جائے گا۔ ایک عظیم ملک ہونے کے ناطے ہم اس معاملے میں وعدہ خلافی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘‘۔
بھارت میں برطانوی راج ختم کرانے کی تحریک میں پنڈت جواہر لعل نہرو پیش پیش رہے۔ جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ولیم ڈیلرمپل کے الفاظ میں بات بیان کی جائے تو معاملہ یہ ہے کہ نریندر مودی ملک کو جدید خطوط پر ایک حقیقی روادار، جمہوری قومی ریاست کی شکل دینے کا خواب دیکھنے والے اپنے قائدین کی امنگوں اور آرزوؤں سے بہت دور لے گئے ہیں۔
آگ سے کِھلواڑ
نریندر مودی نے جو کچھ کیا اُس کے عواقب کا اُنہیں بھی خوب اندازہ تھا۔ اُنہوں نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے دراصل سے آگ سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا تھا۔ میڈیا کے بھارتی اداروں نے رائے عامہ کے جن جائزوں کا اہتمام کیا ہے اُن میں دو تہائی سے زائد کشمیریوں نے آزادی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
مودی نے اندازہ لگایا تھا کہ انتہا پسند ہندوؤں کے حملوں کا سامنا کرنے والے بھارتی مسلمان جموں و کشمیر کے حوالے سے اُن کے اقدام کو مسترد کردیں گے۔ مودی نے جموں و کشمیر میں دس ہزار اضافی فوجی تعینات کیے، سیاسی قائدین کو پابندِ سلاسل کیا، سیاحوں اور زائرین کو وادی سے نکل جانے کا حکم دیا، تعلیمی ادارے بند کیے اور فون سروس اور انٹرنیٹ دونوں پر پابندی عائد کردی۔
مودی کے اقدام کی ٹائمنگ بھی ایسی ہے کہ نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کے فوری بعد کیا گیا ہے۔ یہ پیشکش بھارت نے یکسر مسترد کردی تھی۔
بھارت کو امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی ایک آنکھ نہیں بھائے ہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اور اقتدار ممکنہ طور پر طالبان کے ہاتھ میں آجائے گا۔ ایسا ہوا تو افغانستان میں پاکستان کی پوزیشن ایک بار پھر مستحکم ہوجائے گی اور بھارت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، جو وہاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔
ہندو قوم پرستی
پنڈت جواہر لعل نہرو نے عظمت کا تصور بھارتی قوم پرستی سے وابستہ کیا تھا۔ نریندر مودی نے عظمت کو نئے سیاق و سباق میں پیش کرنے کے لیے اِسے ہندو قوم پرستی سے نتھی کردیا ہے۔ اُن کے پیش روؤں نے کشمیر کے حوالے سے جو قانونی، سیاسی اور اخلاقی کمٹ منٹس کی تھیں اُنہیں لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔
مودی کا شمار اُن سیاسی قائدین میں ہوتا ہے، جو اپنے ملک کی سرحدوں کو تاریخی سیاق و سباق میں بیان کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی تہذیب کی نمائندگی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں، آبادی یا زبان کے بجائے وسیع تر تاریخی تناظر میں کی جائے۔ یہ تہذیبی موقف دوسروں کے حقوق کو صریحاً مسترد کرتا ہے۔ اس معاملے میں مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو میں کوئی فرق نہیں گوکہ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی افواج نے قبضہ کیا تھا اُنہیں اسرائیل میں نیتن یاہو کے پیش روؤں نے شامل کیا تھا۔
شہہ، ٹرمپ اور شی جن پنگ سے ملی
بھارت کے وزیر اعظم کو شہہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملی ہے، جنہوں نے اردن سے جیتے ہوئے مشرقی بیت المقدس اور شام سے جیتی ہوئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا باضابطہ حصہ بنانے کے عمل کی توثیق کی اور یوں غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کو بھی قانونی طور پر درست تسلیم کرلیا۔
چین کے صوبے سنکیانگ میں ترک نسل کے مسلمانوں پر غیر معمولی مظالم ڈھائے گئے ہیں اور اُنہیں بہت سے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے مگر اسلامی دنیا بالکل خاموش ہے۔ یوں حالیہ مناقشوں سے نمٹنے کے معاملے میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ثابت کردیا ہے کہ وہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ قومی ریاست کے اُس تصور کو بھی بالائے طاق رکھیں گے، جو ۱۶۴۸ء کے ویسٹ فیلیا معاہدے میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ تمام رہنما قومی، اقلیتی، نسلی، مذہبی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔
نیا عالمی نظام
یہ تمام قائدین اِس وقت تھوڑا بہت فخر اِس بات پر محسوس کرسکتے ہیں کہ اِنہوں نے کسی بھی سطح پر جوابدہی سے بہت بلند ہوکر نئے عالمی نظام کے ڈھانچے پر تھوڑا بہت گوشت مڈھ دیا ہے۔ نریندر مودی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے اُنہوں نے ایک پرانا انتخابی وعدہ پورا کیا ہے۔
توسیع پسندی کشمیر میں ہو، سنکیانگ میں یا پھر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں … اِن سے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد بنیاد پر تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے، عوام میں بہت بڑے پیمانے پر اضطراب جنم لیتا ہے، جس سے بہت کچھ ہوسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسی توسیع پسندی سے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے درمیان جوہری جنگ کے خطرے کا گراف بہت بلند ہو جاتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Modi seizes Kashmir”.(“The Globalist”. August 15, 2019)
Leave a Reply